قرآنی آیات کی روشنی میں
مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين، وعلى آله وأصحابه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، وبعد!
بعث بعد الموت حق ہے، اگر کوئی بعث بعدالموت کا انکار کرے، یا اس کے امکان ووقوع میں شک کرےتو وہ قرآن کریم کا منکر اور دائرۂ اسلام سے خارج ہے، کیوں کہ بعث بعد الموت ضروریات دین سے ہےاور ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کفر ہے، قرآن کریم نے جا بجا بعث بعد الموت کا ذکر کیا ہے، بعث بعد الموت کے سلسلے میں کفار ومشرکین کی جانب سے پیش کیے جانےوالے شکوک وشبہات کا ازالہ کیا ہےاور بے شمار دلائل کی روشنی میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ بعث بعد الموت حتمی اور یقینی ہے؛ لہٰذا بعث بعد الموت پر ایمان لانا لازم اور ضروری ہے۔
ہم اس مختصر سے مقالے میں بعث بعد الموت کا مفہوم واضح کریں گے، علماے کرام کے ارشادات اور کتب عقائد کی تصریحات کی روشنی میں بعث بعد الموت کی حقیقت بیان کریں گےاور اس عقیدے کے اثبات وتفہیم کے لیے قرآن کریم کے بیان کردہ دلائل وواقعات کا خلاصہ پیش کریں گے، واللہ المستعان۔
بعث بعد الموت-مفہوم اور عقیدہ:
بعث کا معنی ہے: اٹھانا،بیدار کرنا اور زندہ کرنااور بعد الموت کا معنی ہے: مرجانے کے بعد، اب بعث بعد الموت کا معنی ہوا: مرجانے کے بعد جزا وسزا کے لیے دوبارہ مردوں کو زندہ کرنا، اسی کو مختصر میں بعث بھی کہتے ہیں، بعث کے سلسلے میں درج ذیل امور قابل توجہ ہیں۔
1 – بعث بعد الموت کا لغوی معنی ہے: مرجانے کے بعد مردوں کو زندہ کرنا، کسی بھی وقت مردوں کو زندہ کیے جانے کے لیے بعث بعد الموت کا اطلاق ہوسکتا ہےاور اس میں لغوی اعتبار سے کوئی قباحت یا اشکال بھی نہیں، لیکن قرآن وحدیث میں جس بعث کا بکثرت ذکر آیا ہےاور جو بعث ضروریات دین سے ہے وہ روز قیامت ہونے والا بعث ہے؛ لہٰذا اگر کوئی مطلق بعث کو مانےاور روز قیامت پیش آنے والے مخصوص بعث کا انکار کرے تو وہ بھی ضروریات دین کا منکر اور کافر ہے، ارشاد باری ہے:
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَؕ۰۰۱۵ ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ۰۰۱۶ [سورۂ مومنون:15، 16 ]
یعنی پھر اس کے بعد ضرورتم مرجاؤگے،پھر تمھیں قیامت کے دن اٹھایا جاۓگا۔
یہ اور اس جیسی دوسری آیات میں روز آخرت کی صراحت کردی گئی ہے؛ لہٰذا مطلق بعث پر ایمان کافی نہیں، بلکہ روز آخرت کے بعث پر ایمان لانا ضروری ہے۔
2 – بعث جسم اور روح دونوں کا ہوگا ، ایسا نہیں کہ جسم بلا روح یا روح بلا جسم کا بعث ہوگا، کیوں کہ بعث کے باب میں وارد آیات سے یہی ظاہر ہے کہ قیامت کے دن سارے بندے اپنے جسم وروح کے ساتھ حاضر ہوں گےاور جسم وروح دونوں جزا وسزا کےسارے مراحل سے گزریں گے، ارشاد باری ہے:
كَمَا بَدَاَكُمْ تَعُوْدُوْنَ۰۰۲۹۔[ سورۂ اعراف : 29]
جس طرح اس نے پہلے بنایا اسی طرح قیامت کے دن زندہ کرے گا۔
یعنی بندے جس طرح دنیا میں جسم وروح کے ساتھ رہا کرتے تھے بالکل اسی طرح قیامت کے دن بھی جسم وروح دونوں کے ساتھ حاضر ہوں گے۔
3 – بعث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کے تمام اجزاے اصلیہ کو جمع فرماۓ گا، پھر انھی اجزاے اصلیہ قدیمہ میں روح کو لوٹادے گا، اس طرح قیامت کے دن اسی جسم وروح کا بعث ہوگا جس جسم وروح کے ساتھ دنیا میں زندگی گزری، ایسا نہیں کہ بعث کے لیے نیا جسم تیار کیا جاۓ گا یا نئی روح حاضر کی جاۓگی، کیوں کہ بعث کا مقصدحساب وکتاب اورثواب وعقاب ہے، اس کا حق دار وہی جسم ہوسکتا ہے جس نےدنیا میں کوئی نیکی یا بدی کی ہوگی، اللہ جل وعلا کا ارشاد ہے:
كَمَا بَدَاْنَاۤ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهٗ١ؕ وَعْدًا عَلَيْنَا١ؕ اِنَّا كُنَّا فٰعِلِيْنَ۰۰۱۰۴ ۔ [سورۂ انبیا :104]
یعنی جس طرح ہم نے انھیں دنیا میں پہلی دفعہ پیدا کیا اسی طرح آخرت میں پیدا کریں گے، یہ وعدہ ہم پر لازم ہے، ہم اسے ضرور پورا کریں گے۔
اس کا واضح مطلب یہی ہوا کہ بروز حشر سابقہ دنیاوی جسم کا اعادہ ہوگا ، نیا جسم نہیں بنایا جاۓگا۔
4– بعث صرف انسانوں کا نہیں ہوگا، بلکہ تمام ملائکہ،جنات و شیاطین،حیوانات وبہائم اور سارےچرند وپرند کا ہوگا، فرشتوں کے بعث کا مختلف مقامات پر ذکر ہے، سورۂ فجر میں ہے:
وَ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا۰۰۲۲۔ [سورۂ فجر:22]
یعنی قیامت کے دن تمھارا رب تجلی فرماۓگا اور فرشتے صف بستہ حاضر ہوں گے۔
سورۂ جن میں جنات کے بعث کا ذکر ہے، فرمایا:
وَ اَمَّا الْقٰسِطُوْنَ فَكَانُوْا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا۰۰۱۵۔ [سورۂ جن :15]
یعنی ظالم جن جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
ظاہر سی بات ہے کہ جہنم میں داخلہ بعث کے بعد ہی ہوگا۔
سورۂ تکویر میں جنگلی جانوروں کے بعث کا ذکر ہے، فرمایا:
وَ اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ۰۰۵۔ [سورۂ تکویر: 5]
اورجب وحشی جانور جمع کیے جائیں گے۔
اس آیت کے تحت تفسیر قرطبی میں ہے:
وعن ابن عباس أيضا قال: يحشر كل شيء حتى الذباب. قال ابن عباس: تحشر الوحوش غدا أي تجمع حتى يقتص لبعضها من بعض، فيقتص للجماء من القرناء، ثم يقال لها كوني ترابا فتموت.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرمایا کہ ہر شی کا بعث ہوگا، حتی کہ مکھی کا بھی ہوگا، مزید فرمایا کہ قیامت کے دن تمام وحشی جانور جمع ہوں گےاور ایک دوسرے سے بدلہ بھی لیا جاۓ گا، سینگ والے جانور سے بے سینگ والے جانورکے لیے بدلہ لیا جاۓ گا، پھر ان جانوروں کو حکم ہوگا مٹی ہوجاؤ تو وہ سب کے سب خاک ہوکر فنا ہوجائیں گے۔
5 - بعث فروعی احکام سے نہیں بلکہ اصولی عقائد سے ہے، آسمانی مذاہب کے فروعی احکام میں اختلاف کی گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن اصولی عقائد میں نہیں ہوسکتی،اسی لیےتمام آسمانی مذاہب کے عقائد یکساں ہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب میں عقیدۂ بعث مشترک رہا اور انبیاے سابقین نے اپنی امتوں کو دیگر ضروریات دین کے ساتھ ساتھ بعث بعد الموت پر بھی ایمان لانے کی دعوت دی ،قرآن کریم نے حضرات انبیاے کرام کے واقعات اوران کی داعیانہ خدمات کے باب میں اس بات کا بھی ذکر فرمایا ہے کہ انھوں نے اپنی امت کو عقیدۂ بعث سے آگاہ کیا اور روز آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دی۔
انبیاے سابقین اورعقیدۂ بعث:
حضرت آدم علیہ السلام ابو البشر ہیں،اللہ عزوجل آپ کےجنت سے زمین پر تشریف لانےکا ذکر کرتے ہوۓفرماتا ہے:
قَالَ اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۰۰۲۴ قَالَ فِيْهَا تَحْيَوْنَ وَ فِيْهَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْهَا تُخْرَجُوْنَ۰۰۲۵۔ [سورہ ٔ اعراف:24-25]
یعنی اللہ نے فرمایا: تم زمین پر اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہوگے، تمھیں ایک مقررہ وقت تک کے لیے زمین میں رہنا اور فائدہ اٹھانا ہے، مزید فرمایا: تم اسی زمین میں زندہ رہوگے، اسی میں مروگےاور دوبارہ اسی زمین سے اٹھاۓجاؤگے۔
ان آیات مبارکہ کے مطابق اللہ جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر آنے سے پہلے ہی عقیدۂ بعث سے آگاہ فرمادیا، تاکہ آپ خود بھی اسی عقیدے پر قائم رہیں اور اپنی اولاد کو بھی عقیدۂ بعث سے آگاہ کرتے رہیں۔
کفار کی جانب مبعوث کیے جانے والے سب سے پہلےپیغمبر حضرت نوح علیہ السلام ہیں، آپ نے اپنی امت کو عقیدۂ بعث سے آگاہ کیا اورفرمایا:
وَ اللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًاۙ۰۰۱۷ ثُمَّ يُعِيْدُكُمْ فِيْهَا وَ يُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًا۰۰۱۸۔ [سورۂ نوح: 18]
اللہ نے تمھیں زمین سے سبزے کی طرح اگایا، پھر تمھیں زمین میں لوٹاۓگااور دوبارہ نکالے گا۔ یعنی بروز قیامت تمھیں دوبارہ زندہ کرےگا اور تم سے محاسبہ فرماۓگا۔
نبی کریمﷺ کے بعد سب سے افضل ترین پیغمبر حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام ہیں، آپ نے بعث بعد الموت کا ذکر کیااور فرمایا:
وَ الَّذِيْ يُمِيْتُنِيْ ثُمَّ يُحْيِيْنِۙ۰۰۸۱ وَ الَّذِيْۤ اَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْٓـَٔتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِ۰۰۸۲ ۔[سورۂ شعرا: 81-82]
یعنی میرا رب وہی ہے جو مجھے موت دے گااور مجھے دوبارہ زندہ کرے گااور میرا رب وہی ہےجس سےمجھےیہ امید ہے کہ وہ بروز قیامت مجھے بخش دے گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی ذریت کو بے آب وگیاہ وادی یعنی مکہ میں تنہا چھوڑنے کے بعد بہت سی دعائیں کیں، جن میں سب سے آخری دعا یہ تھی:
رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَ لِوَالِدَيَّ وَ لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ۰۰۴۱۔[سورۂ ابراہیم: 41]
یعنی اے اللہ! بروز قیامت مجھے، میرے والدین کو اور سارے مسلمانوں کو بخش دے۔
جن آیات میں قیامت کا ذکر ہے ان میں تبعاً بعث کا بھی ذکر ہے، کیوں کہ بعث کے بغیر قیامت متصور نہیں ہوسکتا، اس کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اولو العزم رسلانِ عظام میں سے ہیں، آپ نے بھی اپنی امت کو حقیقت بعث سے آگاہ فرمایا، اللہ رب العزت نے دنیا ہی میں آپ کی قوم کے سامنے بعث بعد الموت کا ایک ایسا واضح نمونہ پیش فرمادیا جس کے بعد کسی کے لیے بعث میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی، واقعہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک دفعہ قتل کا واقعہ پیش آیا، قاتل کا سراغ نہ مل سکا، قوم کی درخواست پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی، وحی آئی کہ ایک گاۓ ذبح کرواور اس کے کسی حصے سے مقتول کو مارو، وہ زندہ ہوکر قاتل کا پتا بتادے گا، چناں چہ حکم کی تعمیل ہوئی،گاۓ ذبح کی گئی، اس کے ایک عضو سے مقتول کے کسی حصے کو مارا گیا، مقتول نے زندہ ہوکر قاتل کا نام بتادیااور ساری صورت حال سامنے آگئی۔
اس واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح آج تمھارے رب نے ایک مردے کو زندہ کیا بالکل اسی طرح قیامت کے دن سارے مردوں کو زندہ فرماۓگا۔ قرآن کریم میں اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح بیان کی گئی ہے:
وَ اِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِيْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَۚ۰۰۷۲ فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا١ؕ كَذٰلِكَ يُحْيِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى ١ۙ وَ يُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ۰۰۷۳۔ [سورۂ بقرہ :73]
یعنی یاد کرو تم نے ایک شخص کو قتل کیا، پھر قتل کا الزام ایک دوسرے کے سر ڈالنے لگے، جسے تم چھپاتے ہو اللہ اسےظاہر فرمادے گا۔ تو ہم نے کہاکہ گاۓ کے ایک جز سے مقتول کو مارو، وہ مقتول زندہ ہوکر قاتل کا پتا بتادے گا، اللہ اسی طرح قیامت کے دن مردوں کو زندہ فرماۓگا، اللہ تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھواور ایمان لے آؤ۔
حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اللہ کی نشانی ہیں، قرآن کریم نے آپ کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ جیسےعظیم القاب سے یاد کیا ہے، آپ نے بھی بعث بعد الموت کا ذکر فرمایا، ولادت کےبعد آپ کی مادر مہربان حضرت مریم رضی اللہ عنہا آپ کو گودمیں لیے حاضر ہوئیں، مہر مادر میں رہتے ہوۓ آپ نےلوگوں سے خطاب کیااور اپنے سب سے پہلےخطاب میں فرمایا:
قَالَ اِنِّيْ عَبْدُ اللّٰهِ١ؕ۫ اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِيْ نَبِيًّاۙ۰۰۳۰ وَّ جَعَلَنِيْ مُبٰرَكًا اَيْنَ مَا كُنْتُ١۪ وَ اَوْصٰنِيْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا٢۪ۖ۰۰۳۱ وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِيْ١ٞ وَ لَمْ يَجْعَلْنِيْ جَبَّارًا شَقِيًّا۰۰۳۲ وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا۰۰۳۳ [سورۂ بقرہ : 30-33]
یعنی آپ نے فرمایا: میں اللہ کا بندہ ہوں، اللہ نے مجھے کتاب عطا فرمائی، اور مجھے نبی بنایااور جہاں بھی رہوں مجھے بابرکت بنایااور تا دم اخیرنماز قائم کرنے اور زکات ادا کرنے کا حکم دیا، مجھے اپنی ماں کا خدمت گزار بنایا، مجھے سخت خو اور نا فرمان نہیں بنایااور میری ولادت، وفات اور بعث کے دن اللہ کی جانب سے مجھ پر سلامتی ہو۔(جاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org