21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Sept 2024 Download:Click Here Views: 9575 Downloads: 770

(1)-وقف ترمیمی بل 2024 ایک جائزہ

 

مبارک حسین مصباحی

 

اسلام ایک مقدس جامع اور ہمہ گیر مذہب ہے ۔ اس میں دنیا اور اہل دنیا کے لیے تمام قوانیں موجود ہیں۔ وقف عربی لفظ ہے ، عالمی مذاہب پر نگاہ رکھنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ دنیا کو وقف کا تصور اسلام نے عطا فرمایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

”لَنْ  تَنَالُوا  الْبِرَّ  حَتّٰى  تُنْفِقُوْا  مِمَّا  تُحِبُّوْنَ ۰۰“(آل عمران، آیت:92)

تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہِ خدا میں اپنی پیاری چیز نہ خرچ کرو۔

قرآن عظیم میں اس موضوع پر اللہ تعالیٰ کے کثیر ارشادات موجود ہیں۔ کثیر احادیث نبویہ سے بھی اوقاف کے حقائق و واقعات سامنے  آتےہیں۔

حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو اس کے مرنے کے بعد اس کی جن نیکیوں کا ثواب ملتاہے ان میں وہ” علم “ہے جو اس نے دوسروں کو سکھایا اور اس کو پھیلایا یا نیک اولاد ہے یا قرآن کا کسی کو وارث بنایا ، یا مسجد تعمیر کی یا مسافر خانہ بنایا یا نہر بنادی ،یا وہ صدقہ جس کواس نے اپنی زندگی اور صحت کے زمانہ میں نکالا ان چیزوں کا ثواب اس کو مرنے کے بعد بھی ملتاہے۔(سنن ابن ماجہ، 242)

حضرت سعد بن عبادہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے ان کی طرف سے کون سا صدقہ کرنا زیادہ بہتر ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی صدقہ کرو! انہوں نے اپنی والدہ کی طرف سے کنواں کھدوایا اور اسے وقف کردیا۔(سنن ابی داؤد)

آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ میں بیر رومہ کا پانی میٹھا تھالیکن بغیر قیمت کے کوئی اس سے پانی نہیں پی سکتاتھا،حضرت عثمان  غنی رضی اللہ عنہ نے بیر رومہ کا کنواں خرید کر وقف کردیا۔(سنن ترمذی)

صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے درمیان جائداد کا وقف کرناایک عام بات تھی، ہر کوئی اپنی استطاعت کے بقدر جائداد یا دیگر چیزوں کو وقف کرتاتھا اس لیے اوقاف کے ذریعہ مسلم سماج سے غربت کا خاتمہ ہوسکتاہے، کمزور لوگوں کی دائمی طورپر مدد ہوسکتی ہے،اور وقف کرنے والے کو ہمیشہ ہمیش کے لیے ثواب ملتارہتاہے۔

اسلام میں وقف کے صحیح ہونے کا طریقہ کیا یہ ہے کہ وقف کے لیے مخصوص الفاظ ہیں جن سے وقف صحیح ہوتا ہے، مثلاً میری یہ جائداد صدقۂ موقوفہ ہے کہ ہمیشہ مساکین پر اس کی آمدنی صرف ہوتی رہے، یا اللہ تعالیٰ کے لیے میں نے اسے وقف کیا۔ مسجد یا مدرسہ یا فلاں نیک کام پر میں نے وقف کیا یا فقرا پر وقف کیا۔ اس چیز کو میں نے اللہ (عز و جل) کی راہ کے لیے کر دیا۔مزید اس کے تفصیلی مسائل ہیں جنھیں فقہی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔

ہندوستان میں صدیوں تک مسلمانوں نے حکمرانی کی، ان ہی حکمرانوں کے دور میں اوقاف کا سلسلہ بھی جاری ہوا۔  واضح رہے کہ ہندوستان ایک وسیع ملک تھا افغانستان، سری لنکا، پاکستان اور بنگلہ دیش وغیرہ  بھی ہندوستان کے حصے تھے، افغانستان اور سری لنکا وغیرہ پہلے الگ ہو چکے تھے،پھر  ایسٹ انڈ یا کمپنی کے نام سے انگریز بطور تاجر آئے اور مختلف ذرائع سے یکے بعد دیگرے وہ ہندوستان کے حکمران ہو گئے انھوں ، نے ہندوستانی سیاست پر قبضہ مسلمانوں  اور دیگر حکمرانوں سے جنگ جیت کر کیا تھا ۔وہ دور بھی عجیب و غریب تھا، عام طور پر مسلم حکمراں علاقوں پر بٹ گئے تھے اور ان میں عیش کوشی، عیاشی او ر بزدلی در آئی تھی، مگر  ان میں بعض نیک اور صالح بھی تھے ۔ انگریزوں کو سب سے بڑا خطرہ مسلمانوں سے تھا۔انھوں  نے تعلیمی، سیاسی اور اقتصادی اعتبار  سے مسلمانوں کو کمزور کرنے کی مسلسل کاوشیں کیں۔ اوقاف بھی مسلمانوں کا بہت بڑا سرمایہ تھا، انھوں نے اوقاف میں خرد برد شروع کی اور وقف کی جائداوں کا بے دریغ غلط استعمال ہوا، بہت سی جائداوں کو انگریزوں نے اپنے قبضہ میں لے لیا پھر جب مسلمانوں نے احتجاج کیا تو آئندہ کے لیے وقف ایکٹ 1923ء بنایا گیا پھر ملک کی آزادی کے بعد1954ء میں وقف ایکٹ بنایا گیااور مختلف مواقع پر اس میں ترمیم کی گئی ، اس قانون کا مقصد وقف جائداد کو تحفظ فراہم کرنا اور اس کے غلط استعمال کو روکناتھا لیکن افسوس کہ ان تمام تر قانون کے بعد بھی وقف کاتحفظ نہیں ہوسکاپھر 1984ء میں نیا وقف قانون آیا،لیکن اس میں بھی مسلمانوں کے مطالبات کو نظر انداز کیا گیاپھر 1995ء میں اور دوبارہ 2010ء اور 2013ء میں وقف میں ترمیم کی گئی آخری وقف ایکٹ میں کسی حد تک مسلمانوں کے مطالبات کو سنا گیاتھااور کچھ امید تھی کہ اگر اس قانون پر صحیح طور پر عمل ہوتاتو اوقاف کا بہتر استعمال ہوسکتاتھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔بلکہ اب ۲۰۲۴ء میں وقف کے تعلق سے ترمیمی بل پاس کرانے کی جد وجہدہو رہی ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہندوستانی اوقاف کوئی معمولی نہیں ہیں۔اس وقت ہندوستان میں سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ٩ لاکھ ایکڑ سے زائد زمینیں اوقاف کی ہیں ، ہندوستان میں فوج اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ زمینیں اوقاف کے پاس ہیں۔موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ہر رخ سے کمزور کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ یو پی میں دینی مدارس بند کرنے کا حکم نافذ کر دیا گیا ہے، اب یہ قضیہ سپریم کورٹ میں زیر بحث ہے، اس نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر سوال  توکھڑا کر دیا ہے مگر حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے ۔ حکومت نہیں چاہتی کہ مدارس باقی رہیں ، مقدمے کی سماعت طے شدہ تاریخ سے آگے بڑھا دی گئی ہے، امید ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ مدارس کے حق میں ہوگا۔ اب وقف ایکٹ میں ترمیم کی کوشش کی جا رہی ہے ، یہاں بھی امید قوی ہے کہ موجودہ وقف ایکٹ میں کوئی ترمیم نہیں ہوگی۔ غیروں کے لیے درد ناک سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے رفاہی امور کے لیے اتنی زیادہ زمینیں اور عمارتیں کیوں ہیں؟ در اصل جن لوگوں کو مسلمانوں کا وجود ایک آنکھ نہیں بھاتا ان کو مسلمانوں کے اوقاف سے بھی تکلیف ہے او روہ کسی بھی قیمت ان جائداوں پر ناجائز قبضہ چاہتے ہیں ۔

اس نئے بل میں تقریبا چالیس ترامیم کی گئی ہیں ،ہمیشہ کی طرح حکومت نے مسلمانوں کو یہ فریب دیا ہے کہ اس نئے بل میں مسلمانوں کے لیے فائدہ ہی فائدہ ہے ،اس بل سے خواتین،بچوں اور کمزور مسلمانوں کو فائدہ ہوگا لیکن اس بل کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ وقف مسلمانوں کا مذہبی عمل ہے اور اس کے احکامات فقہ کی کتابوں میں درج ہیں اس کے خلاف کرنا درست نہیں ہے لیکن حکومت نے اس ترمیمی بل کا خاکہ بناتے وقت کسی مسلم تنظیم سے رابطہ کیا یا نہ کسی خانقاہ اور معروف ادارہ سے حد تو یہ ہے کہ علماے کرام سے مشورہ بھی نہیں لیا گیا۔۔

اس ترمیم میں ایک بڑی تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ اب نئے وقف کونسل میں چاہے مرکزی وقف بورڈ ہو یا صوبائی وقف بورڈ اس کے ارکان میں غیر مسلم بھی شامل ہوں گے بلکہ وقف بورڈکا چیف ایگزیکیٹیو غیر مسلم بن سکتاہے ،اسی طرح وقف کا سی ای او غیرمسلم بن سکتاہے سوال یہ ہے کہ جب گرودوارہ کمیٹی میں کوئی مسلمان نہیں ہوتاہے اور ہندوؤں کی جو مندر وغیرہ کی کمیٹی ہوتی ہے اس میں کوئی مسلمان ممبر نہیں ہوتاہے یوپی کیرالہ ، کرناٹک ،تمل ناڈو میں ایسے قوانین ہیں کہ ہندو مذہبی املاک کے معاملات میں ہندو ہی اس کا ممبر ہوگا تو پھر وقف بورڈ میں کوئی ہندو کیوں کر ممبر ہوگااور ممبر ہی اس کے مرکزی عہدوں پر ہندو کیوں کر فائز ہو سکتا ہے، کیا یہ مسلمانوں کی املاک کو غیر مسلموں کو دینے جیسا نہیں ہے، جب قانون کے اعتبار سے غیر مسلم وقف نہیں کرسکتاہے تو وقف کا ممبر کیوں کر ہوسکتاہے ؟یہ شق خود حکومت کے منشا پر سوال کھڑے کرتاہے کہ اس کے ذریعہ وقف کی حیثیت کو تبدیل کرنااور اس کا غلط استعمال کرناہے۔جب اس کے مرکزی کمیٹی میں غیر مسلم ہوں گے تو نیچے بہت سے عہدوں پر بھی یقینا بہت سے غیر مسلم ہوں گے یہ ترمیم مسلم اوقاف کے ساتھ ایک خاموش کتر بیونت کا راستہ ہموار کرنا ہے۔

ایک ترمیم یہ کی گئی ہے کہ اوقاف کی جائداوں کو کس طرح استعمال کیا جائے گا اس کا حکومت تعیین کرے گی ،ظاہر ہے کہ یہ قانون وقف کے اصول کے خلاف ہے ، فقہی کتابوں میں وقف کا ایک باب ہوتاہے جس میں وقف کے احکام کو بیان کیا جاتا ہے،مسجد کے وقف کے احکام الگ ہیں ، مدارس کے وقف کے احکام الگ ہیں ،دیگر اوقاف کے احکام الگ ہیں، وہاں صراحت کے ساتھ لکھا ہوا  ہےکہ واقف کی شرط شریعت کی نص کے درجہ میں ہے یعنی اگر واقف نے وقف کرتے وقت اس وقف کا مصرف طے کردیا ہے تو جس طرح شریعت کی صراحت پر عمل کرنا ضروری ہے اسی طرح واقف کی شرط پر عمل کرنا ضروری ہوگا حتی کہ اگر واقف نے مدرسہ کے نام پروقف کیا ہے تو اس کو مسجد میں استعمال کرنا یا قبرستان کے نام پر وقف کیا ہے اس کو مدرسہ میں استعمال کرنا شرعی طورپر درست نہیں ہے جب کہ اس قانون سے حکومت وقف کو جہاں چاہے گی استعمال کرسکتی ہے اس کا دو بڑا نقصان ہوگا ایک تو یہ کہ وقف کی جائدادیں مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل جائیں گی اور دوسرا بڑا نقصان یہ ہوگا کہ آئندہ کے لیے مسلمان وقف کرنے سے رک جائیں گے اور بہت بڑے خیر اور ثواب سے محروم ہوجائیں گے ۔

نئے قانون میں یہ بھی ہے کہ جو شخص اسلام پر پانچ سال سے زندگی گزار رہاہے وہی وقف کرسکتاہے جس کے اسلام میں داخل ہوئے ابھی پانچ سال نہیں ہوئے ہیں اس کا وقف قابل قبول نہیں ہوگا ظاہر ہے کہ یہ بھی اسلامی شریعت کے اصول وقف کے خلاف ہے اسلام میں تو غیر مسلم کا بھی وقف کرنا درست ہے جب کہ یہاں پر مسلمان ہونے کے بعد بھی اس کا وقف درست نہیں ہے یہ ایک مسلمان کو ایک عبادت کی ادائیگی سے روکنے کے مترادف ہے اور مسلمان کو کسی عبادت کے انجام دہی سے روکنا خود دستور ہند سے دئے گئے بنیادی حقوق کے خلاف ہے ۔دستور کی دفعہ ٢٥ میں ہے کہ ہر شخص کو آزادی سے مذہب قبول کرنے اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی اجازت ہے اسی طرح دفعہ ٢٦ میں ہے کہ ہر شخص کو اپنے مذہبی اور خیراتی اغراض کے ادارہ قائم کرنے اور از خود اس کا انتظام چلانے کا اختیار ہے۔

اس نئی ترمیمی بل میں ایک شق یہ بھی ہے کہ جو اوقاف کی جا ئدادیں باضابطہ طورپر واقف کی طرف سے رجسٹرڈ نہیں ہیں بلکہ اسے صرف وقف کے طورپر استعمال کیا جاتاہے اسے وقف تسلیم نہیں کیا جائے گاوقف کے درست ہونے کے لیے رجسٹرڈ ہونا لازم ہوگا یہ قانون بھی اسلام کے اصول وقف کے خلاف ہے اس لیے کہ حضرات فقہاء نے زبانی طورپر وقف کو درست قرار دیاہے ۔اس قانون کی بنیاد پر بہت سی جائدادیں وقف ہونے سے نکل جائیں گی اور حکومت ان جائدادوں پر اپنا تسلط حاصل کرلے گی ، اس لیے کہ ہندوستان میں اوقاف کی تاریخ بہت پرانی ہے ، اور بہت سی مساجد ہیں جو چار سو یا پانچ سو سال پرانی ہیں ظاہر ہے کہ ان کا کوئی ریکارڈ تلاش کرنا ممکن نہیں ہے اس کے وقف ہونے کا یہی ثبوت ہے کہ اس کو اتنے سالوں سے بطوروقف کے استعمال کیا جارہاہے قانون کی یہ شق بھی سیدھے طورپر مسلمانوں کے اوقاف کو ہڑپنے اور ان کو اپنی اوقاف سے بے دخل کرنے جیسا ہے اس طرح بہت سی مساجد اور مدارس بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل سکتے ہیں ۔

بل میں یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی پوری جائداد کو وقف کرے تو اس کا ایک تہائی ہی وقف مانا جائے گا یہ مسئلہ بھی شرعی طورپر درست نہیں ہے ۔نئے قانون کی ایک شق یہ ہے کہ اختلاف نزاع کی صورت میں وقف کے ہونے نہ ہونے کا اختیار ضلع مجسٹریٹ کو ہوگا ابھی اس سلسلے میں وقف ٹربیونل ہے جس میں یہ فیصلہ ہوتاہے جس کو صوبائی چیف جسٹس مقرر کرتاہے لیکن اگر تمام تر اختیارات ضلع انتظامیہ کو دے دیا گیاکلکٹر جس زمین کے بارے میں یہ لکھ دے کہ یہ سرکاری زمین ہے تو وہ سرکاری زمین مان لی جائے گی اس طرح جہاں جہاں مسجد و مندر کا مقدمہ چل رہاہے وہاں آسانی سے صرف کلکٹر سے لکھوا کر زمین کو حاصل کیا جاسکتاہے ۔

 اس وقت ملک میں35وقف بورڈ کام کرتے ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ آمدنی کرناٹک وقف بورڈکی ہے ۔ ،سب سے برا حال مہاراشٹر وقف بورڈ کا ہے ا ور سب سے زیادہ ناجائزقبضہ جات مہاراشٹرمیں ہی ہوئے ہیں۔سیاسی لیڈروں اوروقف کے ذمہ دران کی مہربانی سے۔موجودہ ملک کے اوقاف کے جائیداد کی قیمت جونکالی گئی ہے1.2لاکھ یعنی 12000بلین۔اگر اس رقم کا 10%حصہ یعنی 12000کروڑ بھی مسلمانوں کے تعلیمی،سماجی،مسائل پرخرچ کیا جائے تو بغیر سرکاری خزانے کو ہاتھ لگائے ان کی ترقی ہوسکتی ہے۔

ہم پورے ملک میں ہونے والے اوقاف کی جائیدادوں پرقبضہ کی بات فی الحال نہیں کرتے بس چند ریاستو ں کاذکرکرتے ہوئے اپنی بات کوآگے بڑھاتے ہیں۔اترپردیش میں وقف بورڈکی 3000 زمینوں پرناجائزقبضہ جات ہیں جن کی موجودہ قیمت کروڑوں کھربوں میں ہے۔ صرف ملک کی راجدھانی دہلی کی ہم بات کرتے ہیں تویہ حیرت انگیزانکشاف سامنے آتا ہے کہ دہلی میں وقف جائیداد کی تعداد1977ہے جس میں600 پر سرکاری اداروں اور زمین مافیا ، 138زمینوں پر ڈی ڈی اے  اورمرکزی محکمہ تعمیرات نے 108قیمتی زمینوں پر عمارتیں تعمیر کررکھی ہیں۔ یہ فہرست کافی طویل ہے۔

ان حالات میں درد ناک سوال یہ ہے کہ حکومت کے بلڈوزر اب کہاں سو رہے ہیں، کیا ان حقائق سے حکومتوں کے شعبے آشنا نہیں ہیں ، یہی ناجائز قبضے اگر مسلمانوں یا دیگر پسماندہ حضرات نے کیے ہوتے تو کب کا ان کو بے گھر کر دیا گیا ہوتا۔ اس سلسلے میں ہم زیادہ عرض کرنے سے بر وقت پرہیز کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے تعلیمی، اقتصادی اور سیاسی احوال کی حفاظت فرمائے۔ آمین۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved