محمد ولی اللہ قادری
مذہبی اسکالر اور تقریباً دو درجن کتابوں کے مصنف اور محقق مفتی ڈاکٹر ارشاد احمد رضوی مصباحی ساحل سہسرامی کے ناگہانی انتقال کی خبر سن کر دل بہت مغموم ہو گیا کیوں کہ ان کا انتقال مذہبی اور تحقیقاتی دنیا کا عظیم خسارہ ہے ، مرحوم نے جہاں ایک بلند پایا فقیہ کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی وہیں عربی ادب میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں اس لیے ساحل سہسرامی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ۔ ان کی شخصیت اس لیے ممتاز تھی کہ اکابر علما، مشائخ اور محققین نے ان کی صلاحیت کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ ان سے علمی اور تحقیقی کام بھی لیا جن میں پروفیسر مختار الدین احمد آرزو اور پروفیسر سید محمد امین میاں برکاتی کی شخصیت شامل ہے ۔ ساحل سہسرامی کی علمی خدمات سے استفادہ تو دور طالب علمی سے کرتا رہا ہے یاد آتا ہے کہ بریلی شریف میں دوران طالب علمی ان کی مرتبہ کتاب” فتاویٰ ملک العلما“ کا بالاستیعاب مطالعہ کیا وقفہ وقفہ سے ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین پڑھتا رہا مرکزی ادارہ شرعیہ بہار، پٹنہ پہنچا تو وہیں ان سے پہلی ملاقات ہوئی ۔ ملاقات کی روداد بھی دل چسپ ہے ، ہمارے ساتھی مولانا مطلوب رضا علیمی مرحوم نے بتایا کہ آج مفتی ساحل سہسرامی کی تشریف آوری ہونے والی ہے ، میرے ذہن میں ان کا حلیہ یہ تھا لحیم ہوں گے اور جبہ قبہ میں ہوں گے لیکن دیکھا کہ ایک شخص عام لباس میں ادارہ شرعیہ آیا مجھے لگا کہ کسی مدرسے کا کوئی محصل ہے کہ ادارہ شرعیہ میں پورے بہار جھارکھنڈ کے مدارس کے ذمے ذمے داران تصدیق نامہ کے لیے آتے ہیں - تھوڑی دیر میں مفتی مطلوب رضا علیمی مرحوم نے آ کر بتایا کہ یہی حضرت مفتی ارشاد احمد ساحل سہسرامی مصباحی ہیں ۔ یہ بھی عجیب اتفاق کہ مرحوم سے آخری ملاقات ادارہ شرعیہ پٹنہ میں گزشتہ سال ہوئی ۔حضرت فقہہ ملت پیر طریقت استاد محترم مفتی محمد حسن رضا نوری مد ظلہ صدر مفتی مرکزی ادارہ شرعیہ پٹنہ سے محو گفتگو تھے اسی دوران خاکسار حاضر ہوا ۔ حضرت فقیہ ملت نے ناچیز کی سرگرمیوں سے ان کو مطلع فرمایا تو حضرت ہماری طرف متوجہ ہوئے اور خوب دعاؤں سے نوازا - چھپرا کے حالات دریافت کیے اور مولانا ابو الفرید مصباحی سے تعلقات پر روشنی ڈالی ہے ۔ یاد آتا ہے دوران گفتگو حضرت ساحل سہسرامی مرحوم نے تربیت افتا کے علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سب سے زیادہ مفید اور مجرب وظیفہ قرآن کی تلاوت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ قرآن کے آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جائے اور تسلسل کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کی جائے ۔ مفتی ساحل سہسرامی کی متعدد کتابیں اور مضامین کا مطالعہ کیا ان میں ان کی مرتبہ فتاویٰ ملک العلماء مجھے بہت پسند آیا اور اس سے بھرپور استفادہ کیا ، اس کتاب کے مطالعے سے قبل ناچیز خلیفہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی، ملک العلما مولانا محمد ظفر الدین قادری بہاری کو محدث ہی جانتا تھا لیکن فتاویٰ ملک العلما کے مطالعے سے یہ فائدہ ہوا کہ ملک العلما کو عظیم فقیہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا -افسوس صد افسوس١٧محرم الحرام ١٤٤٦ ھ مطابق ٢٤ جولائی ٢٠٢٤ ء بروز بدھ فجر کی نماز ادا کرنے اور قرآن کی تلاوت کے بعد موبائل آن کیا تو علم کا پہاڑ مفتی ارشاد احمد ساحل سہسرامی مصباحی کی شدید علالت کی خبر ملی پھر تھوڑی دیر کے بعد انتقال کی خبر انا للہ وانا الیہ راجعون - مفتی آل مصطفیٰ مصباحی نور اللہ مرقدہ کے وصال کے وقت راقم الحروف کی جو کیفیت ہوئی تھی وہی کیفیت پیدا ہو گئی - اسی وقت فون کر ان کے ہمدم رفیق مولانا ابو الفرید مصباحی جلال پور چھپرا کو فون کیا تو انھیں بھی حیرت ہوئی دھیرے دھیرے نا قابلِ انکار خبریں موصول ہونے لگیں ۔
جنازے کی نماز اسی دن بعد نماز عصر علامہ ملک الظفر سہسرامی مد ظلہ کی امامت میں ادا کی گئی اور سہسرام میں ہی مدفون ہوئے مولانا ابو الفرید مصباحی کی سربراہی میں چھپرا سے آٹھ افراد پر مشتمل وفد جنازہ میں شریک ہوا ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حضرت ساحل سہسرامی کی خدمات جلیلہ کو قبول فرما کر ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم
شریک غم محمد ولی اللہ قادری
٢٣ محرم الحرام ١٤٤٦ ھ مطابق ٣٠ جولائی ٢٠٢٤ ء
مفتی ڈاکٹرارشاد احمد ساحل سہسرامی مصباحی کا انتقال پُر ملال
مولانا محمد آصف جمال جمالی
موت بر حق ہے اور وعدۂ الٰہی ” کل نفس ذائقۃ الموت“ اٹل ہے ۔ ہر انسان کو یہاں سے رختِ سفر باندھنا ہے اور موت کی آغوش میں ابدی نیند سونا ہے ۔ جماعتِ اہلِ سنت کے مایۂ ناز عالمِ دین ٬ با صلاحیت مفتی اور مختلف دینی و علمی موضوعات پر تقریباً پچاس کتب و رسائل تصنیف کرنے والے شاہین صفت مصنف آج 24 / جولائی 2024 ء بروز چہار شنبہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے اور اپنے اہلِ خانہ کے علاوہ ہزاروں عوام و خواص کو سوگوار کر کے عازمِ سوئے جناں ہوئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ آپ کی رحلت نہایت رنج و غم کا باعث اور ہم فرزندانِ اشرفیہ کے لیے کرب و الم کا سبب ہے ٬ لیکن مشیتِ ایزدی کے سامنے انسان مجبور ہے ۔ ان للہ ما أخذ و لہ ما أعطیٰ و عندہ لکل اجل مسمیٰ . ایسی نادرِ روزگار شخصیات بہت کم پیدا ہوتی ہیں جن کے دینی و علمی کارناموں سے دنیا مستفیض ہوتی ہے۔ آپ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے قابلِ فخر فرزند تھے ۔ فراغت کے بعد آپ نے اپنے مادرِ علمی میں تدریس و افتا کی خدمت انجام دی ۔ آپ کے ایک ہزار فتاوے پر شارحِ بخاری حضرت مفتی محمد شریف الحق امجدی عليه الرحمة کی تصدیقات موجود ہیں ۔ آپ نے اپنی حیاتِ مستعار کا ایک ایک لمحہ دعوت و تبلیغ ٬ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں گزارنا ۔ آپ کی تحریریں خالص علمی اور تحقیقی نوعیت کی حامل ہیں ۔ پوری زندگی نہایت خاموشی کے ساتھ تصنیف و تالیف کے کاموں میں لگے رہے اور خود کو قرطاس و قلم سے جوڑے رکھا ۔ آپ ایک با کمال عالم و فاضل اور مدرس و مفتی کے ساتھ عظیم المرتبت محقق و ناقد اور ادیب و شاعر بھی تھے ۔ غرض کہ آپ بہت ساری خوبیوں اور خصوصیتوں کے مالک تھے ۔ سربراہِ اہلِ سنت حضرت مولانا ڈاکٹر سید امین میاں برکاتی مارہروی دام ظلہ العالی کے بڑے قریبی اور منظورِ نظر تھے ۔ ساداتِ مارہرہ کے زیرِ سایہ رہ کر آپ نے بڑے بڑے علمی و تحقیقی کام انجام دیے ۔ ابھی آپ کو اور بھی بہت سارے علمی و تحقیقی پروجیکٹ پر کام کرنا تھا ٬ لیکن موت نے سارے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ۔ علمی خوبیوں کے علاوہ آپ کے اندر بہت ساری خوبیاں بھی تھیں ۔ آپ متقی ٬ پرہیزگار اور عالمِ ربانی تھے ۔ حسنِ اخلاق کے پیکر ٬ سنجیدہ مزاج ٬ کم گو اور صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے ۔ بڑوں کے ادب شناس اور اپنے تلامذہ اور شاگردوں پر نہایت شفیق و مہربان تھے ۔ آپ نے متعدد سال تک جامعہ اشرفیہ مبارک پور جیسی عظیم اور مرکزی درس گاہ میں درس و تدریس کی خدمت انجام دی اور سیکڑوں کی تعداد میں شاگرد پیدا کیے ۔ اللہ رب العزت آپ کی دینی و علمی اور قلمی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے ۔ آپ کے صغائر و کبائر کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام مرحمت فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین !
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org