21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia August 2024 Download:Click Here Views: 25225 Downloads: 789

(13)-سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تحفظ ماحولیات

 

*ستمبر 2024 کا عنوان—حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ

*اکتوبر 2024 کا عنوان— ہندوستان میں مدارس کا مستقبل

تحفظِ ماحولیات کا نبوی فلسفہ

مہتاب پیامی

انسان اس دنیا  کا باشندہ ہے اور اس ناتے وہ ماحول کے ساتھ مسلسل تعامل کر رہا ہے، جس کے نتیجے میں ماحولیاتی تبدیلیاں اور خرابیاں عالمِ وجود میں آرہی ہیں  اور اب تو حال یہ ہے کہ  ان تبدیلیوں اور خرابیوں پر کنٹرول انسان کی بساط سے باہر ہے اس سلسلے میں جدید ٹیکنالوجی بھی اس کی کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسیاں، بڑے بڑے ادارے، تنظیمیں اور ماہرین  ماحولیات ،ماحول کو بچانے کے لیے حتی المقدور زیادہ سے زیادہ کوششیں کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ماحول دن بہ دن انحطاط پذیر  ہے۔ پوری دنیا گلوبل وارمنگ اور اوزون کی کمی کے خطرے کی زد میں ہے۔

گلوبل وارمنگ اور اوزون کی کمی کا سبب:

سائنس دانوں نے اس بات کی تعیین کی ہے  کہ انسانی سرگرمیاں ماحول میں گرین ہاؤس گیسوں کی ضرورت سے زیادہ مقدار خارج کر رہی ہیں، ان کی یہ سرگرمیاں گلوبل وارمنگ میں اضافہ کا سبب بن رہی ہیں۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ جیسی گرین ہاؤس گیسیں فضا میں جمع ہو کر  ٹریپ ہیٹ ہوتی ہیں جو آہستہ آہستہ خارجی فضا کی طرف بڑھتی ہیں اور اسے نقصان پہنچانے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی گرین ہاؤس گیسوں کے اضافے  کا بہت اہم ذریعہ ہے، کیوں کہ جس حساب سے  درختوں کی تعداد کم ہوتی ہے اسے حساب سے  کاربن ڈائی آکسائیڈ کو آکسیجن میں تبدیل کرنے کا عمل بھی کم ہوتا ہے۔ حیاتیاتی ایندھن کا استعمال بھی اضافی گرین ہاؤس گیسوں کا ذریعہ ہے۔

ماحول میں جب گرین ہاؤس گیسوں کا توازن بڑھتا ہے تو زمین پر گرمی کا اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے  ناقابلِ یقین موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں،  مثلاً حد سے زیادہ گرمی، سردیوں کے موسم کا مختصر ہوتا دورانیہ ،خشک سالی، اور کہیں کہیں بے موسم حد سے زیادہ بارش وغیرہ   اور یہ تمام موسمی عوامل مختلف قسم کی جنگلی حیاتیات کی معدومی کا سبب بنتے ہیں۔

موجودہ اعدادوشمار کے مطابق 1970 سے اب تک 30 فیصد سے زیادہ قدرتی انواع تباہ ہو چکی ہیں۔ قدرتی وسائل کی کھپت اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج دونوں پچھلے 40 سالوں میں دوگنا ہو چکے ہیں اور بڑھتی ہوئی شرح سے بڑھتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر ممالک کو اگلے چند سالوں میں اپنے 10 فیصد سے زیادہ جنگلات کے ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ زہریلے کیمیکل جو زیادہ تر صنعتی شعبوں سے خارج ہوتے ہیں ، ماحول میں بڑے پیمانے پر پھیلتے ہیں اور تقریباً 10 فیصد بیماریاں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ سیلاب، زلزلہ، سونامی اور طوفان جیسی قدرتی آفات  کا حالیہ برسوں میں زبردست اثر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ دنیا کے بیشتر خطوں کو زلزلے یا دیگر آفات کا سامنا زیادہ کرنا پڑ رہا ہے۔  ایڈز، سارس اور  برڈ فلو جیسی وبائی بیماریاں انسانوں پر حاوی نظر آتی ہیں ۔ ہسپتالوں، طبی اداروں اور میڈیکل کالجوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود صحت عامہ  کا گراف مسلسل پستی کی طرف محوِ سفر ہے۔ اس قسم کی تباہ کن وبائی بیماریوں سے ہونے والی اموات خوف ناک صورت حال میں بڑھتی جارہی ہیں۔

فضا میں انسانی ساختہ کیمیکلز کا جمع ہونا اوزون کی کمی کا سبب بنتا ہے۔ اوزون کو نقصان پہنچانے والا اہم ترین کیمیکل CFCs (کلوروفلورو کاربن) ہے جو ریفریجریٹر ، ایروسول سپرے پروپیلنٹ میں استعمال ہوتے ہیں۔ CFCs ذخیرہ کرنے میں آسان، کیمیائی طور پر مستحکم اور غیر آتش گیر ہے اس لیے وہ فضا میں تیرتا رہتا ہے۔ یہ تقریباً 8 سال تک مسلسل اوپر کی طرف اٹھتا رہتا ہے، حتیٰ کہ ایک وقت وہ آتا ہے جب یہ اوزون کی پرت تک پہنچ جاتا ہے  اور اوزون سے تعامل کر کے اس کے ایٹم کو توڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے اوزون کی پرت میں سوراخ نمودار ہوتا ہے۔ جہاں جہاں اوزون پرت میں سوراخ ہوتا ہے وہاں سے سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں زمین تک بے روک ٹوک پہنچنے لگتی ہیں اور موسمی خرابیوں اور ماحولیاتی بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔ سی ایف سی میں ایک فلورین ایٹم، ایک کاربن اور تین کلورین ایٹم ہوتے ہیں۔ جب الٹرا وائلٹ تابکاری اور سی ایف سی کیمیائی طور پر کام کرتے ہیں تو کلورین  کا ایٹم آزاد ہوتا ہے اور یہ اوزون کے ایک لاکھ مالیکیولز کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر ماحول سرد ہوتا ہے  تو اس کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ سائنسدانوں کو پتا چلا کہ پچھلے کچھ سالوں میں اسٹریٹاسفیئر  کا ماحول بہت سرد رہا ہے۔ جدید ہوائی جہازوں  کی نقل و حمل اور سپرسونک ہوائی جہاز بھی فضا میں کچھ زہریلے کیمیکل خارج کرتے ہیں ان سے بھی اوزون کے حفاظتی غلاف کو نقصان پہنچتا ہے۔ایک اور انسان ساختہ کیمیکل، جو اوزون کی کمی کا سبب بنتا ہے، میتھائل برومائیڈ ہے۔ یہ 1932 سے مختلف کیڑے مار ادویات میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اسے CFCs کے مقابلے اوزون کی تہہ کے لیے 50 گنا زیادہ تباہ کن سمجھا جاتا ہے۔

انسانی سرگرمیاں :

قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

 خشکی اور سمندر میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے فساد پھیل گیا۔(سورہ روم، آیت:۴۱)

یہاں قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں  کو متنبہ کرتا ہے کہ اگر وہ زمین پر حد سے تجاوز کرتے ہیں اور زمین اور پانی کے استعمال میں اسراف سے کام لیتے ہیں تو اس کا مجموعی نتیجہ انتہائی خطرناک برآمد ہوتا ہے۔امام رازی اس قرآنی آیت کے مفہوم  کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:

”وبا ئی بیماریاں، خشک سالی، سیلاب وغیرہ سے مراد قرآن کریم کے لفظ ”فساد“ کے استعمال سے ہے یعنی خشکی اور سمندر میں فساد پھیل گیا ہے۔“ (تفسیر الکبریٰ)

لہٰذا بڑھتی ہوئی قدرتی آفات کو انسانوں کے ذریعہ قدرتی وسائل کے غلط استعمال کا نتیجہ ہی سمجھنا چاہیے۔

اللہ رب العزت کی تخلیق کامل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وہ جس نے ایک دوسرے کے اوپرسات آسمان بنائے (اے بندے!)تو رحمٰن کے بنانے میں کوئی فرق نہیں دیکھے گا پس تو نگاہ اٹھا کر دیکھ، کیاتجھے کوئی رخنہ نظر آتا ہے؟  (سورہ ملک، آیت:۳)

بلا شبہ سچ ہے، لفظ آسمان کی حقیقت کچھ بھی ہو مگر عصری تناظر میں ہم غور کرتے ہیں توجدید سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ زمین کی بالائی فضا میں کئی تہیں ایسی ہیں  جوزمین کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں ، بے شک ان  میں نہ کوئی سوراخ تھا اور نہ کہیں کوئی رخنہ، لیکن انسانی سرگرمیوں  نے اوزون نامی ایک پرت کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے ہیں۔ واضح طور پر یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ فطرت میں یہ جو بھی تبدیلی آئی ہے وہ خود  بخود نہیں آئی بلکہ انسانی اعمال و افعال کا نتیجہ ہے۔

تحفظِ ماحولیات کانبوی فلسفہ:

اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ہر چیز کو ایک خاص  تناسب میں  پیدا فرمایاہے۔ اللہ  تعالیٰ کی  کسی بھی مخلوق میں کوئی عیب نہیں نکالا جا  سکتا۔ چھوٹے جرثوموں سے لے کر بڑے جانداروں تک تمام مخلوقات اور مالیکیولز کے چھوٹے ذرات سے لے کر بڑی کہکشاؤں تک تمام چیزیں کمیت  اور قابلیت دونوں لحاظ سے درست پیمائش میں ہیں۔ پوری کائنات انسانی تصرف اور تسخیر کے لیے ہے، قرآن مجید میں جا بجا اس کا اعلان کیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ قرآن ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ یہ  تصرف و تسخیر فطری اصولوں کے غلط استعمال یا خلاف ورزی  کر کے جائز نہیں ہے ۔ ماحول کے بارے میں یہ اسلامی بنیادی تصور اس قرآنی آیت سے ظاہر ہوتا ہے:

”کیا تم نے نہ دیکھا کہ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں وہ سب اور پرندے (اپنے) پَر پھیلائے ہوئے اللہ کی تسبیح کرتے ہیں سب کواپنی نماز اور اپنی تسبیح معلوم ہے اور اللہ ان کے کاموں کوخوب جاننے والا ہے۔ “(سورہ نور آیت:۴۱)

ایک اور مقام پر ارشادِ خدا وندی  ہے:

اور زمین میں چلنے والا کوئی جاندار نہیں ہے اور نہ ہی اپنے پروں کے ساتھ اڑنے والا کوئی پرندہ ہے مگر وہ تمہاری جیسی امتیں ہیں۔ ہم نے اس کتاب میں کسی شے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پھر یہ اپنے رب کی طرف ہی اٹھائے جائیں گے۔  (سورۃ الانعام آیت:۳۸)

 یہ قرآنی آیات بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کسی ایسی چیز کو ضائع نہیں کیا جو معنوی وجود کے لیے ضروری ہو۔ ماحول میں جتنے بھی جاندار ہیں، وہ بھی انسانوں کی طرح کمیونٹیز ہیں جنھیں  اس زمین پر زندگی گزارنے  کا بھر پور حق حاصل ہے۔

ماحولیات کے حوالے سے نبوی تعلیم یہ ہے کہ زمین میں موجود تمام جاندار اور غیر جاندار چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے خصوصی تناسب کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اس تناسب سے چھیڑ چھاڑ کریں یااس میں کسی بھی طرح کی خرابی کا باعث بنیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اسلام انسانوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنے نفع  کے لیے قدرتی ذرائع  کا استعمال  کریں لیکن ایک حد کے اندر رہتے ہوئے۔

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ  ارشاد  فرماتا ہے:

وہ جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے لیے اس میں راستے آسان کردئیے اور آسمان سے پانی نازل فرمایا تو ہم نے اس سے مختلف قسم کی نباتات کے جوڑے نکالے ۔ (سورۃ طٰہٰ: آیت:۵۳)

اس آیت کے مطابق ماحول بشمول اس کے تمام جاندار اور بے جان مخلوقات کے، خدا نے صرف انسانوں کے فائدے کے لیے تخلیق کیے ۔

فرمایا گیا کہ  ”زمین انسان کے لیے مسخر ہے“ لیکن اس کا غلط استعمال نہیں  ہونا چاہیے۔ یہ ماحولیات کے حوالے سے نبوی تعلیمات کا تیسرا تصور ہے۔ یہ تصور بنیادی طور پر ماحولیاتی تحفظ یا ماحولیاتی مسائل کا حل تشکیل دیتا ہے۔

حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں:

’’زمین کو میرے لیے مسجد اور طہارت کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔‘‘ (بخاری: 331)

زمین اور پانی جو خدا کی طرف سے انسانوں کے نفع  کے لیے تناسب  کے ساتھ پیدا کیے گئے  ان کی ناقدری انسان کے لیے تباہ کن ہو سکتی ہے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ زمین نہ صرف خود پاک ہے بلکہ پاک کرنے والی بھی ہے۔ اور آپ ﷺ  نے صفائی ستھرائی اور طہارت کا جو فلسفہ بیان فرمایا وہ ہر دور کے انسانوں کے لیے لائقِ تقلید اور قابلِ عمل ہے۔

ماحولیاتی صفائی:

گلوبل وارمنگ کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ماحول کو کچرے کا ڈمپنگ اسٹیشن سمجھا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں ہر طرف آلودگی بڑھ رہی ہے۔ قصبوں، عمارتوں، کارخانوں اور گھروں سے نکلنے والے زہریلے یا غیر زہریلے خطرناک فضلے سے زمین، پانی اور ہوا آلودہ ہو چکے ہیں۔آج کے دور میں  زمین، ہوا، دریا اور سمندر فضلہ کی ڈمپنگ کے لیے بہترین مقام سمجھے جاتے ہیں۔یہ سوچ ماحولیات تباہ کاری میں بھر پور کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارا ماحول کچھ ہی قسم کے فضلہ  جات کو مخصوص مقدار میں جذب کرنے کے قابل ہے، اگر اسے سے زیادہ  فضلے ہم زمین اور سمندر یا دریاؤں کے حوالے کرتے ہیں تو اس سے ماحولیاتی آلودگی میں تیزی آنے کا امکان  بڑح جاتا ہے ۔ جیسے جیسے فضلہ بڑھتا ہے، اسی طرح ماحولیاتی انحطاط بھی تیز رفتاری سے ہوتاہے۔ نبی اکرم ﷺ نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے ایک احتیاطی تدبیر پیش کی  اور  وہ  ہے فطرت کی مکمل صفائی ہے۔

اللہ  تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے:

”بے شک اللہ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے اور ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اپنے آپ کو پاک اورصاف رکھتے ہیں۔‘‘ (سورۃ بقرہ:۲۲۲)

 اسلام  میں تزکیہ نفس  کو بھی کافی اہمیت دی گئی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’تزکیہ اسلامی عقیدہ کا نصف حصہ ہے۔‘‘ (مسلم )

رسول اللہ ﷺ نے عمومی طور پر تزکیہ کا ذکر کیا ہے جس میں جسم کی اندرونی اور بیرونی حصوں کے ساتھ ساتھ ماحول کی تطہیر بھی شامل ہے۔ ہر قسم کا تزکیہ سچے مومنوں کی ذمہ داری ہے۔ اس حدیث کے مطابق کسی شخص کا اسلامی عقیدہ (ایمان) اس کے جسم اور اردگرد کی صفائی کے بغیر کامل نہیں سمجھا جا سکتا۔جس طرح  وضو یا غسل کے ذریعہ انسانی جسم کو پاک کرنے سے اسے بہت سے انفیکشنز سے بچنے میں مدد ملتی ہے جو وائرس یا بیکٹیریا کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی سے بچنے اور اس کی صفائی میں معاونت سے پورا معاشرہ اور سماج مختلف قسم کی بیماریوں  سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

ماحولیات کا ذمہ دار کون ؟

ماحولیات کی ذمہ داری کس کی ہے؟ کیا صرف خدا وند قدوس  اس کا ذمہ دار ہے؟ یا  خود ماحول اپنا ذمہ دار ہے؟ یا تمام قدرتی وسائل کے استعمال کا حق رکھنے والے ذمہ دار ہیں؟ اسلامی تصور کے مطابق جو لوگ زندگی گزار رہے ہیں اور فطرت کو استعمال کر رہے ہیں  یقینی طور پر وہ ماحولیات کے ذمہ دار ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم میں سے ہر ایک ولی ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘ ۔(مسلم)

ولی کون ہے؟ صرف وہی نہیں جو کسی ایک گھر، محلہ، قصبہ، شہر یا ملک کا سربراہ ہو ۔ بلکہ ہر شخص ولی   ، ہر شخص کے ذمے کسی نہ کسی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اور صرف افرادی ذمہ داری نہیں بلکہ سماجی، سیاسی، معاشرتی، اقتصادی اور ماحولیاتی ہر قسم کی ذمہ داری ہوتی ہے۔اس اعتبار سے دیکھیں تو ماحولیات کا ذمہ دار ہر شخص ہے۔اگر ہر شخص اپنے ماحول کی ذمہ داری سے آگاہ ہو جائے  تو وہ فطرت میں موجود وسائل کو بگاڑ یا خراب نہیں کر سکتا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صاف صاف فرماتے کہ جنگل میں رہنے والے درندوں کی رہائش گاہوں پر قبضہ  نہ کرو، جس طرح اس زمین پر تمھیں رہنے کا حق ہے اسی طرح جنگلی جانوروں کو بھی گزر بسر کرنے کا بھر پور حق حاصل ہے۔

قدرتی وسائل کا کثیر استعمال:

گلوبل وارمنگ اور دیگر تمام ماحولیاتی مسائل کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ انسان قدرتی وسائل سےکثیر فوائد حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں واضح طور پر یہ فرما دیا  ہے کہ زمین اور  اس کے وسائل انسانوں کے فائدے کے لیے ہیں لیکن ان کا بے جا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ زمین ہمیں خوراک فراہم کرتی ہے، کانیں اور تیل کے کنویں ہمیں ایندھن اور خام مال مہیا کرتے ہیں، جنگلات ہمیں لکڑی فراہم کرتے ہیں، اور سمندر ہمیں مچھلیاں دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پیداواری عمل کے لیے خام مال نکالنے اور انسانوں کے استعمال کے لیے فصلیں، سبزیاں اور پھل کاشت کرنے کا حق  انسانوں کو دیا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے انسانوں  کو ان وسائل کے اسراف سے روکا ہے۔ یہ اسلامی قاعدہ ماحولیاتی مسائل کے لیے ایک حفاظتی اقدام کے طور پر بھی تشکیل پاتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور وہی ہے جس نے ایسے باغات پیدا کیے ہیں جن کی کھجوریں اور کھجوریں اور مختلف شکل و ذائقہ کی فصلیں اور زیتون اور انار، ایک جیسے اور مختلف (ذائقہ میں)۔ جب وہ پک جائیں تو ان کا پھل کھاؤ، لیکن اس کی کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو اور اسراف نہ کرو۔ بے شک وہ المسرفون (اسراف کرنے والوں) کو پسند نہیں کرتا۔ (الانعام:۱۴۱)

اسی معنی میں ایک اور آیت میں فرماتا ہے:

اور کھاؤ پیو لیکن اسراف نہ کرو، یقیناً اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔(الاعراف:۳۱)

یہ قرآنی آیات واضح طور پر انسانوں کو متعدد پھلوں، فصلوں اور دیگر قدرتی وسائل کو استعمال کرنے کی ترغیب دیتی ہیں اور ان کو ضائع کرنے سے منع کرتی ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسراف کو ناپسند کرتا ہے۔مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کو تین چیزوں کو ناپسند فرماتا ہے: 1- فضول  گوئی (خواہ اپنے بارے میں خواہ دوسروں کے بارے میں۔ 2- اسراف سے مال کو ضائع کرنا، 3- کثرت سے سوال کرنا۔ (مسلم: 591)

پانی کا تحفظ:

پانی خدا کی طرف سے ایک عظیم الشان تحفہ ہے اور زمین پر بقاے زندگی کا اہم ذریعہ ہے۔ اس اہم عنصر کا تحفظ اس کی مختلف شکلوں میں زندگی کے تحفظ اور وجود کے لیے بہت ضروری ہے۔

قرآن کریم  میں ارشاد الٰہی ہے:’’اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا‘‘۔(الانبیاء:۳۱)

پینے کا پانی کہاں سے اور کس نے اتارا، قرآن مجید میں پروردگارِ عالم فرماتا ہے:

” تو بھلا بتاؤ تو وہ پانی جو پیتے ہو۔ کیا تم نے اسے بادل سے اتارا یا ہم ہیں اُتارنے والے ۔ ہم چاہیں تو اُسے کھاری کردیں پھر کیوں نہیں شکر کرتے ۔“ (الواقعۃ:۶۸- ۷۰)

اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے انسانوں کو پانی کی قدر یاد دلا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کے استعمال کو تمام مخلوقات کا مشترکہ حق قرار دیا ہے۔ لہٰذا تمام جاندار اور غیر جاندار اسے اجارہ داری، ضیاع، اسراف اور بربادی کے بغیر استعمال کرنے اور بانٹنے کے حق دار ہیں۔

پیغمبر اسلام ﷺ صحرائی ماحول میں رہتے تھے جہاں پانی  کی قلت تھی ۔ اگرچہ دنیا کا دو تہائی حصہ پانی سے بھرا ہوا ہے، اس کے باوجود دنیا بھر کے کئی خطے، ممالک اور کمیونٹیز پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ دریاؤں میں پانی کی سطح مسلسل نیچی ہوتی جا رہی ہے  جس کے نتیجے میں قریبی کنوؤں میں پانی کی سطح بھی کم ہو رہی ہے اور لوگوں کو اپنی زندگی اور کثیر القومی مقاصد دونوں کے لیے پانی حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت سے زیادہ پانی پینے سے بھی  سختی سے منع فرمایا ہے۔ وضو میں اعضا کو تین بار سے زیادہ دھونے میں کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔ یہاں تک فرمایا ہے کہ  اگر کوئی پانی کے کسی بڑے حوض یا بہتے چشمے سے یا دریا کے پانی سے وضو کر رہا ہے تو جسم کے کسی خاص حصے کو تین بار سے زیادہ دھونے کے لیے پانی نہیں لینا چاہیے۔ پیغمبر اکرم  نے واضح الفاظ میں  اسے اسراف بتایا ہے ۔

کوئی بھی انسانی سرگرمی جو پانی کی ساختی اور حیاتیاتی صورت کو متاثر کرتی ہے، خواہ اسے پیشاب یا کسی اور گندے مادے سے آلودہ کرنا ہو، تحفظ ماحول کے نبوی قانون کے خلاف ہے۔ ماحولیاتی مسائل کی بنیادی وجہ فطرت کو آلودہ کرنے میں  انسانوں  کا غیر ذمہ دارانہ  رویہ ہے ۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرنے اور وضو  اور غسل کرنے کے لیے بھی پانی کے بے جا استعمال سے روکنے میں جو حکمت کارفرما ہے وہ یقیناً بقاے زندگی کے اس اہم عنصر کی حفاظت  کے لیے ہے۔

جانوروں کی حفاظت:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ماننا تھا کہ جانور ماحول کا ناگزیر حصہ ہیں  انسانوں پر ان کے بھی کچھ حقوق ہیں، وہ سفر اور میدانِ جنگ میں انسانوں کے بہترین ساتھی ہیں ۔ اسلام میں خوراک کے علاوہ جانوروں کو مارنے کی اجازت نہیں ہے لیکن بعض صورتوں میں صرف کچھ جانوروں کو مارا جاسکتا ہے جب کہ وہ انسانی جان کو خطرے میں ڈالیں۔اسلام شکار کی اجازت بھی دیتا ہے لیکن یہ بوقتِ  ضرورت ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بھی جانور کے غیر ضروری شکار سے منع فرماتے تھے  ۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک  سفر میں تھے ،ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے الگ ہو گئے، اس وقت ہم نے ایک پرندے کے دو چوزوں کو پکڑ لیا۔یہ دیکھ کر وہ پرندہ اپنے پروں کو پھیلانی اور شور مچانے لگا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہ دیکھا تو فرمایا: جس نے بھی اس کے چوزے لیے ہیں اسے واپس کر دیں۔ (بخاری و مسلم)

یقیناً ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم  رحمۃ للعالمین ہیں اور کسی بھی دوسرے ماہر ماحولیات سے زیادہ مختلف جان داروں  اور ان کے بچوں کے درمیان تعلق کے جذبات کو  سب سے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کرنے والے ہیں ۔

ہشام بن زید کہتے ہیں کہ میں اور انس ،حکم بن ایوب کے پاس گئے۔ انس نے کچھ لڑکوں کو بندھی مرغی پر نشانہ بازی کرتے دیکھا تو فرمایا  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بندھے  ہوئے جانوروں کو ایذا دینے اور انھیں مارنے سے منع فرمایا ہے۔ (بخاری)

ایک اور حدیث حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور یحییٰ کے بیٹوں  میں سے ایک ،مرغی کو باندھنے کے بعد اسے نشانہ بنا رہا تھا۔ ابن عمر  رضی اللہ عنہما اس کے پاس گئے اور اسے کھول دیا۔ پھر یحییٰ بن سعید سے فرمایا کہ اپنے لڑکوں کو پرندوں کو مارنے کے لیے باندھنے سے روکو، جیسا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی  جاندار کو باندھنے کے بعد مارنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔ (بخاری)

 اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جانداروں کو مارنے سے  مطلقاً منع فرمایا ہے، ان جانداروں میں چینٹی اور شہد کی مکھی کا بھی ذکر ہے۔

پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ کسی بھی جانور  کے ساتھ حسنِ سلوک پر اللہ تعالیٰ اس کا بہترین اجر عطا فرماتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی ایک راستے پر جا رہا تھا، اسے پیاس لگی پھر وہ ایک کنویں کے پاس آیا، وہ  اس میں اترا اور پھر  پانی پی کر باہر نکلا۔ اسی دوران اس نے ایک کتے کو دیکھا جو شدید پیاس کی وجہ سے ہانپ رہا تھا اور مٹی چاٹ رہا تھا۔ اس آدمی نے سوچا  کہ یہ کتا بھی پیاس کی اسی حالت میں مبتلا ہے جس میں میں تھا۔ چنانچہ وہ (دوبارہ) کنویں میں اترا اور اپنا جوتا پانی سےبھرا اور اس کتے کو پلایا۔ اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس قدر مقبول ہوا کہ  اللہ تعالیٰ نے اسے بخش دیا۔

لوگوں نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! کیا جانوروں کے ساتھ حسنِ سلوک میں ہمارے  لیے کوئی ثواب ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ثواب ہے۔ (بخاری)

یہ حدیث ہمیں  سبق دیتی ہیں کہ ہم جانوروں کی ضروریات، ان کے جذبات و احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں اور جہاں تک ہو سکے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا طریقہ اختیار کریں۔جانورو ہمارے ماحول اور معاشرے کا حصہ ہیں، اگر ان کو روے زمین سے ختم کر دیا جائے تو  یقیناً انسانی زندگی بھی خطرے میں پڑ جائے گی ، انسانی زندگی کی بقا  اور تحفظ کے لیے جانوروں اور جان داروں کا باقی رہنا ضروری ہے۔

شہد کی مکھی نہ مارنے میں حکمت:

 جیسا کہ ما قبل میں ہم نے تحریر کیا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد کی مکھیوں کے مارنے سے منع فرمایا ہے ، اس میں کیا حکمت کارفرما ہے، آئیے دیکھتے ہیں:

سائنسی تحقیق کے مطابق کرۂ ارض پر شہد کی مکھیاں دس کروڑ سال سے موجود ہیں۔ اس طویل مدت کے دوران شہد کی مکھیوں کی جسمانی ساخت میں کوئی قابل ذکر تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اپنی تخلیق کے بعد ہی سے شہد کی مکھیاں عالمی ماحولیاتی نظام کا بے حد اہم جزو بن گئی ہیں جن کے بغیر اس کی بقا ممکن نہیں۔

آخر شہد کی مکھیاں کیوں اتنی اہمیت کی حامل ہیں؟ اسکی وجہ بہ طور زیرگی کنندہ ان کا کردار ہے۔ شہد کی مکھیاں پُھولوں کا رس چُوس کر شہد بناتی ہیں۔ اس مقصد کے لیے یہ اپنے چھتے سے کئی میل دور تک کا سفر کرتی ہیں اور راہ میں آنے والے پھولوں کا رس چُوستی رہتی ہیں۔ شہد کی مکھی جب ایک پُھول پر بیٹھتی ہے تو اس کے زیرہ دان سے زردانے یا زرگل مکھی کی روئیں دار ٹانگوں پر چپک جاتے ہیں۔ جب مکھی دوسرے پُھول پر جاکر بیٹھتی ہے تو یہ زردانے اس کی ٹانگوں سے علیٰحدہ ہوکر اس پُھول کے اسٹگما پرمنتقل ہوجاتے ہیں، یوں زیرگی کا عمل واقع ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پھل بنتے ہیں۔ ایک تخمینے کے مطابق 70 فی صد خوردنی فصلوں میں زیرگی کا عمل شہد کی مکھیوں کے ذریعے ہوتا ہے۔

تشویش ناک بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی آبادی کم ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ فصلوں پرچھڑکے جانے والے حشرات اور نباتات کش زہر ہیں۔ فصلوں کو خود رَو پودوں اور حشرات سے بچانے کے لے یہ کیمیکلز شہد کی مکھیوں کے لے زہرہلاہل ثابت ہورہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ان مفید ترین حشرات کی آبادی تیزی سے محدود ہوتی جارہی ہے۔ اگر خدانخواستہ سطح ارض سے شہد کی مکھیوں کا وجود ختم ہوجاتا ہے تو پھر عالمی غذائی زنجیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا اور انسان کی بقا خطرے میں پڑجائے گی۔

یقیناً سرورِ کائنات صلی علیہ وسلم کو فطرت اور ماحول کی باریکیوں کا بخوبی علم اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ،شہد کی مکھیوں کو مارنے سے منع کرنا، بظاہر یہ ایک معمولی سے بات نظر آتی ہے لیکن اس کی تہ میں کس قدر ماحولیاتی تحفظ کی فکر کارفرما ہے یہ جدید سائنس  نے آج کے دور میں واضح کر دیا ہے۔

شجر کاری:

پیڑ پودے  ہمارے ماحول کا ایک لازمی حصہ ہیں۔ گلوبل وارمنگ اور دیگر ماحولیاتی مسائل کی ایک وجہ یہ ہے کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں جنگلات کا صفایا ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں گزشتہ 50 سالوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے جذب میں 30 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ پیڑ پودے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں اور فوٹو سنتھیسس  کے دوران آکسیجن چھوڑ دیتے ہیں ایک پودا اپنی زندگی کے دوران تقریباً ایک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ بہت سے انفیکشن اور تباہ کن بیماریاں بھی پہلے سے کہیں زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہیں کیونکہ زہریلی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی ایک بڑی مقدار فضا میں جذب ہونے سے رہ جاتی ہے۔ یہ انسانی جسم کی قوت مدافعت کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہے۔

جو لوگ ماحولیات کے تحفظ میں سرگرداں ہیں وہ واقعی ”شجر کاری“پیغمبرانہ تعلیم کی عظمت  و اہمیت سے روگردانی نہیں کر سکتے۔ ایک حدیث شریف میں اللہ کے رسول ﷺ نے شجر کاری کو بہترین صدقہ قرار دیا  اور صاف صاف فرمایا کہ اس درخت سے چرند پرند جو کچھ کھاتے اور نفع حاصل کرتے ہیں  وہ درخت لگانے والے کے لیے صدقہ کے درجہ میں شمار ہوتا ہے۔

اس حدیث پاک نہ صرف درخت لگانے کی اہمیت  بیان فرمائی گئی ہے بلکہ پودوں، پرندوں، انسانوں اور دیگر جانوروں کے درمیان ساختی اور حیاتیاتی تعلق کی بھی وضاحت کی گئی  ہے۔ پیغمبر اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حالتِ جنگ میں بھی درختوں کو کاٹنے اور  فصلوں کو روندنے اور تباہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔سنن ابی داؤد کی ایک حدیث کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص پر لعنت فرمائی ہے جو بلا جواز کسی درخت کو کاٹے۔ ایک اور حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ’’جو شخص (بغیر کسی جواز کے) درخت کاٹتا ہے، اللہ تعالیٰ  اسے جہنم میں ڈال دے گا‘‘۔

جو لوگ جو محض چند تقریبات اور تہواروں کے لیے درخت کاٹتے ہیں، وہ ممالک جو مسابقتی ترقی کی خاطر جنگلات کو تباہ کرتے ہیں اور وہ ادارے اور صنعتیں جو اپنے وقتی مقاصد کی تکمیل کے لیے پودوں کا صفایا کرتے ہیں، انھیں ماحولیاتی تحفظ کی نبوی تعلیمات پر غور کرنا چاہیے۔ انہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ جو کچھ بھی صنعت کاری کی خاطر کر رہے ہیں وہ آخر کار ان کی اپنی ترقی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گا۔

اپنی تباہی  کے ذمہ دار نہ بنو:

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں ۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایسے کسی بھی کام سے منع فرمایا جو اس کی اپنی تباہی کا باعث بنے۔ محققین بیان کرتے  ہیں کہ تمباکو استعمال کرنےوالے تقریباً 80 فیصد لوگوں کو کینسر یا کچھ اور بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ پھربعض  علماے کرام  نے فتویٰ دیا کہ اسلام میں تمباکو کا استعمال اس آیت کے تحت حرام ہے۔ ماحول کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اس آیت کے پس منظر میں دیکھیں تو صاف نظر آئے گا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو منع فرما رہا ہے کہ وہ ماحولیاتی عوامل کی تباہ کاری میں حصہ دار نہ بنیں ، جنگلات، ہوا، پانی زمین ، آسمان کو آلودگی میں کسی بھی طرح کا بھی رول ادا نہ کریں کیوں کہ یہ سب انسان کے ساتھ ساتھ ماحولیات کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں۔ (البقرہ:۱۹۵)

تعلیمات نبوی اور ماحولیاتی اخلاقیات:

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم ماحولیاتی تحفظ کے علمبردار ہیں۔پانی کا تحفظ،ماحولیات اور ماحولیاتی آگاہی جیسے بہت سے مضامین بہت سی قرآنی آیات اور احادیث مبارکہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ معلوم ہوا  کہ قدرتی وسائل اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے استعمال کے لیے پیدا فرمائے ہیں اور انسانوں  کو ان قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب کے ساتھ ساتھ ان کے غلط استعمال  سے منع بھی فرمایا ہے۔ ماحولیاتی مسائل کی ایک وجہ فطرت کے قلیل وسائل کا بے جا استعمال ہے، صنعت کاری نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ تمام ماحولیاتی مسائل کا حل نبوی تعلیمات کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ جو بھی شخص یا ادارہ زمین اور اس کی تہوں سے خام مال حاصل کرتا ہے، جو کاشت کارسبزیوں اور پھلوں کی کاشت کرتا ہے ، جو شخص بھی  پانی کا استعمال کرتا ہے، ہوا میں سانس لیتا ہے، اپنی بھوک مٹاتا ہے ، ان تمام لوگوں کو ماحولیاتی اخلاقیات سے آگاہ ہونا چاہیے کہ اس کا غلط استعمال نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کا زیادہ استحصال کیا جائے۔ ہمارے محدود قدرتی وسائل کی حفاظت کا یہی واحد طریقہ ہے۔

سب سے اہم  بات یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماحول کی ذمہ داری انسانوں کو سونپی ہے اور صاف فرمایا ہے کہ اس سے اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ہم کو کسی دوسرے مذہب یا سائنسی کتابوں میں یہ نظریہ  نہیں ملتا۔اگر انسان اپنے گرد و نواح میں موجود تمام جاندار اور غیر جاندار مخلوقات کی ذمہ داری کے بارے میں  غور و فکر کرتا معدوم ہو چکی انواع معدوم نہیں ہوتیں  اور پورا ماحول خود ہی صاف ستھرا اور استعمال کے لیے موزوں ہو جاتا۔

پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وسلم  نے پانی، ہوا اور زمین کو آلودہ نہ کرنے کی تعلیم دی ،یہ بھی سکھایا کہ جانوروں سے کیسے سلوک کیا جائے ،  زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کی تلقین بھی کی ۔ یہ تمام باتیں رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ ماحولیاتی اخلاق کریمانہ کی عکاس ہیں اور واضح کرتی ہیں  آپ نے اس زمانے میں  ایک عظیم ماہر ماحولیات اور ماحولیاتی تحفظ کے علمبردار  کا کردار ادا کیا جس زمانے میں سائنسی اختراعات اور آج کی جدید فکر کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں تھا۔  لہٰذا، جو لوگ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کوشاں اور فکر مند ہیں انھیں چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کو مدنظر رکھیں، اور ہر جگہ اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں۔

 وہ پوری ماحولیاتی ہم آہنگی اور حیاتیاتی تعلقات جس کی پیغمبر محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان اور اس کی فطرت کے درمیان وکالت کی تھی آج تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ چونکہ پوری دنیا کئی قسم کی قدرتی آفات کے شدید خطرات سے دوچار ہے اور یہ بنیادی طور پر آلودگی،  جانوروں کی تباہی اور جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے ہیں۔ ابھی  وقت ہے کہ پوری عالمی برادری اس پر سنجیدگی سے غور کرے  اور تحفظِ ماحولیات کے نبوی فلسفے پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے۔ 

ایک بڑا خطرہ ہے ماحولیاتی آلودگی

ڈاکٹر محمد سبطین رضا مرتضوی

 

صفائی ستھرائی انسان کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے، جس طرح انسانی زندگی کے تحفظ میں غذائی ضروریات ناگزیر ہیں، اسی طرح ماحولیات کے تحفظ میں صفائی ستھرائی ناگزیر ہے۔ ایک اچھی اور صحت مند زندگی کے لیے صفائی ستھرائی لازمی ہے، لیکن یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ صفائی کے تعلق سے لوگ غیر محتاط اور غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ فالتو چیزیں، کوڑا کرکٹ محلے کی گلیوں اور سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں،آج صورت حال یہ ہے کہ پانی کے آلودہ کرنے کا کوئی موقع ہم ضائع نہیں کرنا چاہتے ،درخت جو کاربن ڈائی اکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں ان کا بے دریغ کٹاؤ ہورہا ہے ۔ موجودہ صورت حال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت انسانی جان کی بقا کو جن چیزوں سے خطرہ لاحق ہے ان میں سے ایک بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی ہے ۔ماحولیاتی کثافت میں دن بہ دن اضافہ کے سبب کائنات کا ماحولیاتی توازن بگڑ تا جا رہا ہے اور فضائی آلودگی بڑھتی جا رہی ہے ۔ زمین کے درجۂ حرارت میں اضافہ ہوجا جارہا ہے ، جس سے پہاڑوں میں تبدیلیاں آرہی ہیں ، گلیشیر پگھل  رہے ہیں اور زمین کی منجمد سطحیں متاثر ہورہی ہے ۔ پلاسٹک اور دیگر قسم کی جدید مصنوعات کے استعمال اور ان کے کچرے نے گلوبل وارمنگ کی تشویش ناک صورت حال پیدا کردی ہے ، جہاں ایک طرف فیکٹریوں اور رہائشی اپارٹمنٹس کے سبب جنگلات میں کمی آرہی ہے ، وہیں دوسری طرف ڈیزل ، پٹرول ، بجلی اور ایٹمی توانائی کے بے جا استعمال سے کاربن ڈائی اکسائیڈ ، نائٹروجن اور آکسیجن کا توازن بگر کر رہ گیا ہے ۔ اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں ، اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ صاف ستھری جگہوں پر بھی کوڑا کرکٹ پھینکنا اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں ۔ اکثر سفر کے دوران یہ منظر دیکھنے کو ملتا ہے کہ بس کی کھڑکی سے ایک سر نمودار ہوتا ہے اور پان اور گٹکے کی پچکاری مارتے ہوئے گزر جاتا ہے، پیک مارنے والا ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتا کہ اس کی اس حرکت سے کسی راہ گیر کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی تیز رفتار کار کے شیشے سے ایک ہاتھ باہر نکلا اور بیکار چیزیں سڑک پر ڈالتے ہوئے گزر گیا، اسی طرح کسی گزرتے ہوئے آٹو سے کیلے کے چھلکے یا کچھ اور سر راہ برآمد ہوتے بھی دیکھا گیا ہے، کبھی ٹریفک سگنل پر ٹھہرے کسی شخص کو کھنکار کر تھوکتے ہوئے بھی ہم نے دیکھا ہے،کیا آپ نے نہیں دیکھا؟، اگر نہیں دیکھا تو آج سے اپنی مشاہداتی نظر تیز کریں اور نوٹ کریں کہ صفائی ستھرائی کے معاملے میں ہمارا رویہ کیسا ہے۔۔۔

واضح ہو کہ اسلام نے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کی تعلیم دی ہے تاکہ انسان ذہنی، فکری اور جسمانی لحاظ سے محفوظ اور پرسکون زندگی گزار سکے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ہمہ قسم کی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کا احاطہ کرتی ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات اور آپ کی جامع آفاقی تعلیمات انسانی عروج کا وسیلہ اور ارتقاء کا اولین زینہ ثابت ہوئیں، عالم انسانیت میں آپ کی ذات یکتا ہے جس نے از اول تا آخر سب سے عظیم اور اور جامع انقلاب برپا کیا، آپ کی تعلیمات ہمہ جہت اور متنوع ہیں، جن کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ پوری انسانی زندگی کے جملہ گوشوں کا احاطہ کرتی ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے ماحولیاتی تحفظ کے مختلف پہلوؤں کا بالاستیعاب احاطہ کیا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات نے ایک مومن پر ماحول کی حفاظت کے لیے زندگی کے اہم گوشوں میں متعدد فرائض عائد کردئے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ماحول کو پاک رکھنے اور فضا کو آلودگی سے محفوظ کرنے کی تعلیم و تلقین دی جب دنیا ماحولیاتی آلودگی کے نام سے بھی واقف نہ تھی، نہ تو گاڑیوں کا وجود تھا، نہ کارخانے وجود میں آئے تھے اور نہ ہی ذخیرۂ آب زہر اگل رہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر ایسی بات سے منع فرمایا جو ماحول کو گندہ اور آلودہ کرتی ہے اور انسانی سماج کے لیے روحانی یا جسمانی لحاظ سے مضرت رساں ہیں۔ تحفظ ماحولیات کے تعلق سے چند احادیث مبارکہ ذیل میں پیش خدمت ہے ۔ ملاحظہ کیجیےاور اس پر عمل کرنے کی کوشش کیجیے۔

بازار یا راہ گزر پہ گندگی پھیلانے کی ممانعت:

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لعنت کے تین کاموں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں ، عام راستے میں اور سائے میں پاخانہ ، پیشاب کرنے سے ۔ [ابوداؤد، رقم الحدیث :۲۶]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لعنت کے دو کاموں سے بچو، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! لعنت کے وہ دو کام کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہ ہیں کہ آدمی لوگوں کے راستے یا ان کے سائے کی جگہ میں پاخانہ کرے ۔ [ابو داؤد، رقم الحدیث:۲۵]

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے میں پاخانہ پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۳۳۰]

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیچ راستے میں قضائے حاجت سے بچو اس لیے کہ یہ لعنت کے اسباب میں سے ہے۔ [ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۳۲۹]

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :لعنت والے تین مقامات سے بچو ، کسی نے کہا اے اللہ کے رسول وہ لعنت والے تین مقامات کیا ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :جس سائے کو استعمال کیا جاتا ہو، اس میںیا راستے میں یا پانی کے گھاٹ میں پیشاب کرنا ۔[مسند احمد ، رقم الحدیث :۲۷۶۷]

راستوں کو صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:ایمان کی ستر یا ساٹھ شاخیں ہیں اور سب سے ادنیٰ شاخ راستے میں سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کردینا ہے۔ [مسلم،رقم الحدیث:۱۵۳]

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ابن آدم کا راستے تکلیف دہ چیز ہٹا دینا صدقہ ہے۔ [ابوداؤد، رقم الحدیث:۵۲۴۳]

 حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: انسان کے جسم میں تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور انسان کو چاہیے کہ ہر جوڑ کی طرف سے کچھ نہ کچھ صدقہ دے، لوگوں نے عرض کیا:اے اللہ کے نبی! اتنی طاقت کس کو ہے؟ آپ نے فرمایا: مسجد میں تھوک اور رینٹ کو چھپا دینا اور موذی چیز کو راستے سے ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ [ابوداؤد رقم الحدیث: ۵۲۴۲]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص راستے پر چل رہا تھا کہ اس نے وہاں کانٹے دار ڈالی دیکھی، اس نے اسے اٹھا لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ عمل قبول کیا اور اس کی مغفرت کر دی۔[بخاری، رقم الحدیث: ۲۴۷۲]

حضرت سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھ کو کوئی بات ایسی بتلائیے جس سے فائدہ اٹھاؤں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کی راہ سے کوڑا ہٹا دو۔[مسلم، رقم الحدیث: ۶۶۷۳]

پانی کو نجاست سے بچانے کا حکم : 

حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھمے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سےمنع فرمایا۔ [مسلم ، رقم الحدیث: ۶۵۵]

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی تم میں سے تھمے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے اور یہ بھی نہ کرے کہ پیشاب کر کے پھر اس میں غسل کرے۔ [مسلم ، رقم الحدیث: ۶۵۶]

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے۔ [ابن ماجہ، رقم الحدیث: ۳۴۴]

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جاری پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [المعجم الاوسط، رقم الحدیث: ۱۷۴۹]

  جس طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پانی کو نجاست وغیرہ سے بچانے کا حکم فرمایا ہےاسی طرح پانی کو ضائع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے ، حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: وضو کے لیے ایک شیطان ہے، اسے ولہان کہا جاتا ہے، تم اس کے وسوسوں کے سبب پانی زیادہ خرچ کرنے سے بچو۔ [ترمذی ، رقم الحدیث: ۵۷]

زمینی اور فضائی آلودگی کا تدارک :

زمینی اور فضائی آلودگی سے نجات پانے کا ایک ذریعہ شجر کاری بھی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خاتمے اور آکسیجن کی افزودگی کا بہترین ذریعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ مختار دوعالم صلی اللہ علیہ و سلم نے شجر کاری کی خاص ترغیب دی، اور درخت لگانے پر اجر ملنے کا مژدہ بھی سنایا، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے ۔ [بخاری، رقم الحدیث: ۲۳۲۰]

سیدنا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :جو مسلمان درخت لگائے پھر اس میں سے کوئی کھائے تو لگانے والے کو صدقہ کا ثواب ملے گا، اور جو چوری کیا جائے گا اس میں بھی صدقے کا ثواب ملے گا، اور جو درندے کھا جائیں اس میں بھی صدقے کا ثواب ملے گا، اور جو پرندے کھا جائیں اس میں بھی صدقہ کا ثواب ملے گا ،غرض یہ کہ جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہو جائے گا ۔[ مسلم ، رقم الحدیث: ۳۹۶۸]

حضرت قاسم مولی بنی یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس سے ایک شخص گزرا ،اس وقت وہ دمشق میں پودا لگارہے تھے،اس شخص نے ابو درداء رضی اللہ عنہ سے کہا:کیا آپ بھی یہ دنیاوی کام کررہے ہیں، حالانکہ آپ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی ہیں۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے ملامت کرنے میں جلدی نہ کر، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس پودا لگانے والے کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے۔ [مسند احمد ، رقم الحدیث: ۲۸۲۷۰]

جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے شجر کاری اور زراعت کی تلقین دی ،وہیںاس بات کو بھی ناپسند فرمایا کہ درخت بے ضرورت کاٹے جائیں ۔ عرب میں زیادہ تر ببول اور بیری ہی کے درخت ہوا کرتے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیری کے درخت کےبارے میں فرمایا کہ جو شخص بلا ضرورت بیری کا درخت کاٹے گا اللہ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا۔ [ابوداؤد، رقم الحدیث: ۵۲۳۹]

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں اپنے گرد و پیش کو صاف ستھرا رکھنا چاہیے، اپنے آس پاس زیادہ سے زیادہ پودہ لگانے چاہیے تاکہ اس روئے زمین کے فطری وسائل کو برباد ہونے سے بچایا جا سکے کیوں کہ ماحولیات کا تحفظ اسلام کا اہم ترین پہلو ہے ۔ مذکورہ سیرت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی درخشندہ تعلیمات کو بروئے کار لا کر قدرتی وسائل کے استعمال میں اعتدال، زمین میں توازن اور ماحولیات کو تحفظ عطا کیا جاسکتا ہے اور وسائل فطرت سے مالا مال دنیا کو گلوبل وارمنگ سے بچایا جاسکتا ہے ۔

 لہٰذا بحیثیت امتی ہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات و ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے زمین اور اس کی فضا کو آلودگی سے بچائیں ، اور ہر اس عمل سے اجتناب کریں جس سے زمین کے حسن اور ماحولیات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔پاکیزگی اور صفائی کے اعتبار سے اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دہا ۔

 آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے :’’الطہور شطر الایمان‘‘پاکیزگی نصف ایمان ہے ۔ [مسلم ، رقم الحدیث: ۵۳۴] ا

اس لیے ہمیں ہر قسم کی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کے تدارک کے لیے سیرت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ اس آلودہ ماحول سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے گھر، دفتر، دوکان اور ارد گرد کو صاف رکھ کر نقصان دہ آب و ہوا سے آزاد رہیں ۔ بڑے پیمانے پر شجر کاری کی جائے ، درخت قدرت کی خوبصورت نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، آکسیجن خارج کرتا ہے اور فضا میں موجود آلودگی کو جذب کرلیتا ہے ، مٹی اور صاف ہوا بھی پیدا کرتا ہے ، اس لیے ضروری ہے کہ لوگوں کو درخت لگانے کے فوائد سے آگاہ کیا جائے ، بے جا درختوں کو کاٹنے سے منع کیا جائے تاکہ ہم اس آلودوہ ماحول کو کم کرسکیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت و تعلیمات پر کامل طریقے سے چلنے کی ہدایت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ و سلم

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved