مفتی محمد اعظم مصباحی مبارک پوری
نام و نسب:حضرتِ سیدہ فاطِمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا شہنشاہِ کونین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زِیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں ،آپ کا نام ’’فاطمہ‘‘ ، لقب ’’زہراء‘‘ اوربتول ہے اور۔کنیت ام ابیہا ،ام الحسنین ہے۔
وجہ تسمیہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: اِنَّمَا سُمِّیَتْ فَاطِمَۃُ لِاَنَّ اللہَ فَطَمَھَا وَمُحِبِّیْھَا عَنِ النَّارِ
ترجمہ: اس (یعنی میری بیٹی) کا نام فاطمہ اس لیے رکھا گیا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اِس کو اور اس کے محبین کو دوزخ سے آزاد کیا ہے۔
آپ کا سلسلۂ نسب کچھ اس طرح ہے:
والد کی طرف سے سلسلۂ نسب یہ ہے: سیدہ فاطمہ بنت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ، بن عبد المطلب، بن ہاشم۔
والدہ کی طرف سے نسب نامہ یہ ہے: سیدہ فاطمہ بنت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی۔
بچپن کے حالات: سیدہ فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالی عنہا نے کاشانہ نبوت میں آنکھ کھولی اور مربی کائنات حضور نبی کریم صلیٰ اللہ تعالی علیہ وسلم کے دامن کرم سے تربیت پائی والدہ ماجدہ سیّدہ خدیجہ کبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اپنی لاڈلے بیٹی کی پروش اور تربیت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی لیکن حضرت خدیجہ زیادہ دنوں تک آپ کے ساتھ بقید حیات نہ رہیں کم سنی ہی حضرت خاتون جنت کے سر سے والدہ ماجدہ کا سایہ اٹھ گیا آپ کا بچپن بڑی مشقتوں میں گزرا ،وہ تمام اذیتیں جو کفار مکہ نے رسول کریم علیہ السلام کو پہنچائیں سیدہ کائنات کو بھی ان کا سامنا کرنا پڑا تین سال تک شعب ابی طالب میں قید و بند کی صعوبتیں نبی کریم صلیٰ اللہ تعالی علیہ وسلم اور خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ برداشت کیں سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تکلیف دیکھ بے چین ہو جایا کرتی تھیں ایک مرتبہ اپنے والد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آنکھیں اشکبار ہو گئیں سرکار نے اپنی بیٹی سے اس کی وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ میں کیوں نہ اشک بہاؤں؟ کفار قریش کا ایک گروہ حجر اسود کے پاس لات و عزیٰ اور منات کی اس بات پر قسم کھا رہا ہے کہ آپ کو دیکھ لیا تو وہ آپ کو شہید کردیں گے آپ نے ارشاد فرمایا کہ بیٹی میرے پاس وضو کا برتن لاؤ پھر آپ نے وضو کیا اور مسجد کی طرف تشریف لائے کفار نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ یہ رہے وہ ،پھر سب کی نظریں جھکی رہ گئیں سرکار دوعالم نے ایک مٹھی کنکری ہاتھ میں اٹھائی اور ان کے چہروں پر مار کر فرمایا شاہت الوجوہ یعنی ان کے چہرے بگڑ جائیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس آدمی کو بھی وہ کنکری لگی بدر کے دن کفر کی حالت میں جہنم رسید ہوا۔
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز ادا کر رہے تھے، وہاں خاندانِ قریش کے کچھ افراد بھی موجود تھے۔ان سے ابو جہل نے کہا کہ کون ہے جو فلاں قبیلے کے ذبح کیے ہوئے اونٹ کا گوبر، خون اور بچہ دانی لائے اور اسے محمد (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم)کے کندھوں پر ڈال دے۔ پھر ایک بد بخت وہ ساری چیزیں لا کر حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے کندھے مبارک پر ڈال ، دیں اس وجہ سے سرکار دیر تک سجدے میں ٹھہرے رہے ۔یہ منظر دیکھ کر کفار ٹھٹھا کر رہے تھے کسی نے یہ خبر سیدہ فاطمہ تک پہنچائی تو آپ تشریف لائیں اور کفار کو برا بھلا کہہ کر سرکار کے جسم اطہر سے غلاظت دور فرمائی۔ پھر سرکارنے نماز سے فراغت کے بعد تین مرتبہ ان کے خلاف یہ دعا کی:
اللهم عليك بقریش۔ اے اللہ تو قریش کی گرفت فرما۔ اس بعد آپ نے کچھ مخصوص کافروں مثلا ابو جہل ، عتبہ ، شیبه، امیہ بن خلف کے خلاف دعا فرمائی ۔
راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ بخدا میں نے بدر کے موقع پر ان تمام کفار کو خاک و خون میں تڑپتا دیکھا جن کے خلاف رسول گرامی وقار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔
حضرت ابو سفیان کا حضرت فاطمہ سے حسن سلوک :
رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے عداوت کی بنیاد پر پر کفار دیگر مسلمانوں اور خاندان نبوت کے افراد کے ساتھ دشمنی رکھتے تھے اورانھیں بھی تکلیفیں پہنچایا کرتے تھے ۔حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بھی کفار کی سختیوں اور بہت سے نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔چناں چہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دن ابو جہل نے سیدہ فاطمہ کے مقدس چہرے پر تھپڑ مارنے کی جسارت کی۔ آپ اس کی شکایت لے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں گئیں ۔حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہ ماجرا ابو سفیان سے بتاؤ پھر سیدہ کائنات ابو سفیان کے پاس تشریف لے گئیں اور انھیں سارا واقعہ سنایا حضرت ابو سفیان آپ کو ابوجہل گے پاس لے گئے اور آپ سے کہا کہ آپ بھی ایسے ہی ابو جہل کو تھپڑ رسید کیجیے جس طرح اس نے آپ کو مارا ہے تو سیدہ نے ابو جہل کو زوردار تھپڑ رسید کیا اور واپس جا کر سارا قصہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں نے بیان کردیا یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر رب العالمین کی بارگاہ میں عرض کیا:اللهم لا تنسها لأبي سفيان . اے اللہ ابو سفیان کو محروم نہ کرنا۔دعاے رسول کی برکت سے حضرت ابو سفیان فتح مکہ کے موقع سے مشرف بہ اسلام ہوئے راویِ حدیث فرماتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ ابو سفیان کا مسلمان ہونا نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی برکت سے ہے ۔
ہجرت مدینہ:جب کفار مکہ کی سختیوں اور ظلم وستم میں اضافہ ہوتا گیا تو سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نےمسلمانوں کو ہجرت کا حکم دے دیاکچھ عرصہ بعد رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم صدیق اکبر کے ہمراہ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت ابو ایوب انصاری کے گھر اقامت گزیں ہوئے۔ آپ نے بعض صحابہ کرام کو مکہ روانہ کیا تاکہ یہ حضرات مکہ شریف سے کچھ ضرورت کے سامان اور سرکار کے اہل بیت کو مدینہ منورہ لائیں۔
سرکار کا حکم سن کر صحابہ کرام مکہ گئے،آپ کے اہل میں سے حضرت سودہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ کو ساتھ لیا جب وہ حضرات اونٹ پر سوار ہوئے تو دشمن اسلام حویرث بن نقید نے نیزے سے ڈرایا تو اس صدمے سے سرکار کی شہزادیاں زمین پر تشریف لا ئیں پھر مدینہ طیبہ کی طرف کو چ کیا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد حضرت فاطمہ اور دیگر افراد اہل بیت حضرت حارثہ بن نعمان کے مہمان ہوئے۔
حضرت فاطمہ زہرا کا نکاح :آپ کی عمر شریف پندرہ برس کی ہوئی تو نبی کریم صلیٰ اللہ تعالی علیہ وسلم کی خدمت میں اشراف قریش سے حضرت فاطمہ کے لیے کئی رشتے آئے انھیں میں سیدنا ابوبکر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اور بعد میں حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے لیے خواستگاری کی تو دونوں کو حضورصلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے اس سلسلے میں وحیِ الٰہی کا انتظار ہے۔ ایک دن حضرت ابوبکر صدیق ،حضرت عمر فاروق اور حضرت سعد بن معاذ نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سلسلے میں حضرت علی سے بات کی جائے اگر وہ تنگ دستی کی وجہ سے انکار کریں تو پھر ان کی مدد کی جائے اس مشورے کے بعد یہ تینوں بزرگ حضرت علی کی تلاش میں مسجد نبوی کی طرف نکلے وہاں حضرت علی سے ملاقات نہ ہوئی پھر ایک انصاری صحابی کے باغ میں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت علی اس باغ میں اونٹ کے ذریعے پانی نکال رہے ہیں حضرت علی نے ان حضرات سے خیریت پوچھی تو حضرت صدیق اکبر نے فرمایاکہ اے علی معززین قریش نے سرکار کی بارگاہ میں حضرت فاطمہ کا رشتہ بھیجا ہے لیکن سرکار نے کسی کو منظور نہ کیا آپ اس سلسلے میں سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں بات کریں ۔
یہ سن کر حضرت علی کی آنکھ بھیگ گئیں اور اس کے بعد فرمایا کہ چھ عرصہ بعد حضرت علی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے اسی خواہش کا اظہار کیا تو حضور نے مرحبا کہتے ہوئے یہ رشتہ منظور فرمایا۔ ام المومنین سیدہ امِ سلمہ فرماتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور کا چہرۂ انور خوشی سے کھل اٹھا ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ میرے پاس مہر کے لیے کچھ نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ بتاؤ تمہارے پاس کیا کیا سامان ہیں؟عرض کیا ایک زرہ اور ایک گھوڑا، آپ نے زرہ بیچنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ گھوڑا تمہارے جہاد میں کام آنے والی چیز ہے اسے اپنے پاس رکھو۔ زرہ حضرت عثمان غنی نے چار سو اسی درم میں خرید لی اور قیمت ادا کرنے کے بعد وہ زرہ بھی انھیں واپس کر دی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوری رقم لا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی۔ آپ نے اس رقم سے ایک مٹھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اس لیے دیا کہ وہ فاطمہ کے لیے خوشبو کا انتظام کریں۔ اور باقی رقم حضرت ام سلمہ کو دےکر فرمایا کہ اس سے فاطمہ کے لیے جہیز یعنی خانہ داری کے سامان تیار کر دو ۔ شہزادیِ رسول فاطمہ زہرا کو جو سامان دیے گئے۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
ایک پلنگ۔ کتان کے دو گدے۔ دو دھاری دار چادریں ۔ ایک تکیہ، چاندی کے دو بازو بند ۔ پانی بھر نے کی ایک مشک، مٹی کے دو گھڑے۔ ان کے علاوہ اور کچھ دوسری چیزیں بھی شامل تھیں۔ آپ نے مہاجرین و انصار کے شرفا اور رؤسا کو جمع کر کے خطبہ پڑھا اور حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی کے ساتھ کر دیا۔ مہر چاندی کے چار سو درم مقرر ہوئے ۔ جو حساباً ڈیڑھ سو تولہ ہوتے ہیں۔ نکاح سے پہلے رسول کریم ﷺ نے خود حضرت فاطمہ سے اجازت لی ۔ یعنی پو چھا تھا کہ تمہارا نکاح علی سے کر دیں؟ تو وہ خاموش رہیں۔ ان کی یہی خاموشی اجازت ہوگئی ۔ جیسا کہ حکم ہے کہ ولی اقرب کے اجازت لینے کے وقت کنواری لڑکی کا سکوت ، اجازت ہے۔آپ نے بعد نکاح چھوہاروں کا ایک طبق منگوایا اور حکم دیاکہ لوٹ لو۔
حصن حصین میں ہے کہ نکاح کے بعد بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آپ نے رخصت کر دیا۔ آپ ان کے گھر تشریف لے گئے۔ پہلے حضرت فاطمہ سے پانی منگوایا۔ وہ ایک قاب میں پانی بھر لائیں۔ آپ نے اس پانی میں کلی ڈالی، پھر حضرت فاطمہ سے کہا کہ آگے آؤ۔ وہ آگے آئیں۔ آپ نے ان کے سر اور سینے پر پانی چھڑکا۔ پھر کہا کہ پیٹھ پھیرو ۔ انھوں نے پیٹھ پھیری۔ آپ نے پانی ان کی پیٹھ پر چھڑ کا۔ اور یہ دعا فرمائی:”اے اللہ میں فاطمہ اور اس کی اولاد کو شیطان مردودسے تیری پناہ میں دیتا ہوں۔“
آپ نے پھر پانی طلب کیا حضرت علی کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ اب مجھے حکم ہے۔ میں قاب میں پانی لایا۔ آپ نے پانی میں کلی ڈالی، پہلے سر اور سینے پر پھر دونوں شانوں کے درمیان چھڑ کا۔ اس وقت بھی آپ نے وہی دعافرمائی جو حضرت فاطمہ کے لیے کی تھی۔ نکاح کی وقت آپ نے دونوں کے لیے برکت و سعادت کی دعا فرمائی اور ان سے بکثرت نیک اور صالح اولا د ہونے کی دعا فرمائی ۔ دعا کے الفاظ یہ ہیں:
”اللہ تعالیٰ تم دونوں کو بحسن و خوبی اکٹھا رکھے۔ تمہارا نصیبہ دو بالا کرے ۔ تم پر برکت نازل کرے۔ اور تم سے بہت ساری طیب اور پاکیزہ اولاد پیدا کرے۔“
اولاد : آپ کے 3 بیٹے حسن ، حسین ، محسن اور 3 بیٹیاں زینب ، رقیہ اور ام کلثوم تھیں ، ان میں حضرت محسن اور رقیہ کا بچپن میں انتقال ہو گیا تھا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حضرت فاطمہ سے محبت :
نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی لختِ جگر سے بہت محبت و شفقت کا معاملہ فرماتے اور ان کو اپنی نشست پر بٹھاتے۔ نیز آپ سفر سے واپسی پر سب سے پہلے بی بی فاطمہ کے ہاں تشریف لاتے۔ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری بیٹی فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو چیز اسے بُری لگے وہ مجھے بُری لگتی ہے اور جو چیز اسے ایذا دے وہ مجھے ایذا دیتی ہے۔
امہات المؤمنین سے محبّت : ازواجِ مطہرات سے سیدہ فاطمہ کا تعلق نہایت محبت بھرا تھا ، ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے سوال کیا : حضور کو کون زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : فاطمہ ، پوچھا مَردوں میں؟ فرمایا : ان کے شوہر۔ مفتی احمد یارخان رحمۃُ اللہِ علیہ یہاں فرماتے ہیں : یہ ہے حضرتِ عائشہ صِدیقہ کی حق گوئی کہ آپ نے یہ نہ فرمایا کہ حضور کو سب سے زیادہ پیاری میں تھی اور میرے بعد میرے والد بلکہ جو آپ کے علم میں حق تھا وہ صاف صاف کہہ دیا اگر یہ ہی سوال حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ہوتا تو آپ فرماتیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پیاری جنابِ عائشہ رضی اللہ عنہا تھیں پھر ان کے والد۔ معلوم ہوا کہ ان کے دل بالکل پاک و صاف تھے۔ افسوس ان لوگوں پر ہے جواِن حضرات کو ایک دوسرے کا دُشمن کہتے ہیں۔
وصالِ پُر ملال : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بار حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا خدمتِ رسول میں حاضر ہوئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کان میں کچھ باتیں کیں، سن کر وہ خوب روئیں۔ پھر دوبارہ آپ نے کان میں کچھ باتیں کہیں، اب حضرت فاطمہ ہنسنے لگیں۔ میں نے بی بی فاطمہ سے سرگوشیوں کا حال دریافت کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش نہ کروں گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے بی بی فاطمہ سے پھر پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ اب بتانے میں کوئی حرج نہیں ۔ انھوں نے کہا کہ پہلی سرگوشی میں آپ نے یہ کہا تھا کہ جبرئیل ہر سال رمضان میں ایک بار قرآن مجید کا دور کیا کرتے تھے۔ لیکن امسال دو بار دور کیا۔ اس سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے۔ تو اے بیٹی فاطمہ خدا سے ڈرتی رہنا اور صبر کا دامن تھامے رہنا۔ تمہارا بزرگ باپ تم سے پہلے جا رہا ہے۔ اس پر میں رونے لگی۔ پھر آپ نے میرے کان میں یہ بات کہی کہ اہل بیت میں تم سب سے پہلے مجھ سے ملو گی۔ یعنی تمہاری وفات میری وفات کے بعد سارے اہل بیت سے پہلے ہوگی ۔ یہ سن کر میں بہت خوش ہوئی اور ہنسنے لگی۔
آپ آقاے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد حضور کی یاد اور فراق میں بے چین رہتیں ، آخر کار حضور کی وفات کے 6 ماہ بعد 3 رمضان المبارک کو آپ اس جہاں سے رخصت ہو گئیں۔ صحیح قول کے مطابق اسلام کے پہلے خلیفہ ، امیرالمؤمنین حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ آپ کا مزارِ پُر انواربقیع شریف میں ہے۔(مستدرک للحاکم، مشکات، مرآۃ المناجیح، تواریخ حبیب الٰہ وغیرہ
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org