مبارک حسین مصباحی
آپ کو یہ جان کر انتہائی غم ہوگا کہ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کی سپریم کورٹ نے 24 جولائی 2024ء میں قادیانیت کی تبلیغ واشاعت کی قانونی اجازت کا انتہائی بدترین اور قابل مذمت فیصلہ سنا یاہے ، اس مجرمانہ فیصلے پر عالم اسلام میں تھو تھو ہو رہی ہے ۔ مبارک ثانی قادیانی مقدمہ میں سپریم کورٹ کے چیف قاضی فائز عیسیٰ نے قادیانیت نوازی کی انتہا کردی ۔ قادیانیوں کو اپنے حلقوں ، اپنی قیام گاہوں اور اپنے نجی اداروں میں قادیانیت کی تبلیغ واشاعت کی اجازت دے دی ۔ مبارک ثانی قادیانی کی حمایت کا فیصلہ قرآن عظیم اور احادیث نبویہ کے سراسر خلاف ہے اور یہ بھونڈا فیصلہ آئین پاکستان کے بھی خلاف ہے۔
اس وقت پاکستان میں خصوصی طور پر اور عالم اسلام میں عمومی طور پر تحفظ ختم نبوت گولڈن جوبلی منایا جا رہا ہے، 7 ستمبر 1974ء کو پاکستانی پارلیمنٹ میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ، 2024ء میں اس کے پچاس برس مکمل ہورہے ہیں، اس تاریخی فیصلے کی گولڈن جبلی پر ہر طرف جشن منایا جا رہا ہے۔
در اصل انیسویں صدی کے آخر میں قادیان ضلع گورداسپور پنجاب انڈیا کی زمین پر کذاب مرزاغلام احمد قادیانی پیدا ہوا ، وہ اپنی سرشت اور جسمانی طور پر کثیر بیماریوں کابدبودار معجون مرکب تھا ۔ وہ خبیث ایک ایک شب میں سو سو بار پیشاب کرتا ، خونی پیچش اور بد ہضمی کا شکار رہتا،لکھنے بولنے کی کچھ شُدھ بُدھ تھی مگر ہمیشہ متضاد بیانات جاری کرتا، نیم حکیم خطرۂ جاں اور نیم ملا خطرۂ ایمان کا صحیح مصداق تھا۔ کبھی لکھتا اور بولتا کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا اور پھر اپنے نبی ہونے کا مدعی ہوا ، اس نے اپنی ناپاک زندگی میں متعدد قسم کے باطل دعوے کیے، اس نے خا تم النبیین کے معنی ومفہوم کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق کی اور اپنے امتی نبی، ظلی نبی ، بُروزی نبی، مثیل مسیح، مسیح موعود اور رسول ہونے کے باطل دعوے کیے ۔
عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک اسلام و سنیت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم آخری نبی ہیں،ان کے بعد تا قیامت کسی بھی نوعیت کا نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول ۔ وحی کا سلسلہ اب ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا ہے ۔
آقاے کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں مدعیانِ نبوت پیدا ہو گئے تھے۔ مسیلمہ کذاب نے اسی زمانہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بہت سے لوگوں کے دماغ میں یہ سودا سما گیا، اسود عنسی، طلیحہ بن خویلد کئی مدعیانِ نبوت پیدا ہو گئے۔ بعض عورتیں بھی اس خبط میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ قبیلہ تمیم کی ایک عورت سجاح بنت خویلد بھی نبوت کی دعوے دار بن گئی تھی اور مسیلمہ کذاب سے شادی کر لی تھی۔ امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان جھوٹے نبیوں کے استیصال کی طرف توجہ فرمائی۔ مسیلمہ کی مہم حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی، عکرمہ رضی اللہ عنہ ان کی مدد پر مامور ہوئے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ طلیحہ بن خویلد کی طرف بڑھے، طلیحہ کے متبعین کو قتل و گرفتار گیا گیا، تیس قیدیوں کو مدینہ منورہ روانہ کیا گیا۔ طلیحہ شام بھاگ گیا، پھر تجدید اسلام کر کے مسلمان ہو گیا۔ دوسری روایت ہے کہ جنگ کی نوبت نہیں آئی، طلیحہ کے پیروکاروں میں زیاداہ تر قبیلہ طے تھا، اس کے سردار عدی بن حاتم نے اسے دوبارہ مسلمان بنا لیا۔ باقی دوسرے متبعین کو خالد بن ولید نے شکست دے کر قتل و گرفتار کیا۔
حضرت شرجیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ اور عکرمہ رضی اللہ عنہ مسیلمہ کذاب کے مقابلے میں تھے، عکرمہ نے شرجیل سے پہلے پہنچ کر مسیلمہ کے پیرو بنی حنیفہ پر حملہ کر دیا، لیکن انھیں شکست ہوئی، ان کی شکست کی خبر سن کر خلیفۂ راشد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو جو طلیحہ کی مہم سے فارغ ہو چکے تھے، شرجیل رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے بھیجا۔ مسیلمہ کے متبعین چالیس ہزار کی تعداد میں جمع تھے۔ حضرت خالد بن ولید نے ایک خوں ریز جنگ کے بعد بنی حنیفہ کو نہایت فاش شکست دی۔ مسیلمہ وحشی بن حرب کے ہاتھوں قتل ہوا، اس کی بیوی سجاع جو خود مدعیۂ نبوت تھی، شوہر کے قتل ہونے کے بعد بھاگ گئی۔ اس جنگ میں بہت سے حفاظ قرآن صحابہ شہید ہوئے۔ تیسرے مدعی نبوت اسود عنسی کی جماعت میں خود اختلاف پیدا ہو گیا اور وہ اپنے ایک ساتھگی قیس بن مکشوح کے ہاتھوں نشہ کی حالت میں مارا گیا۔ اس کے بعد بھی بہت سے مدعیانِ نبوت پیدا ہوئے اور یکے بعد دیگرے سب کو جہنم رسید کیا گیا۔
اس باطل کذاب مرزا غلام احمد قادیانی کے رد میں علماے اہل سنت نے جو کتابیں لکھی ہیں انھیں یکجا کیا گیا تو ان کتابوں کی پاکستان میں 16 جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور ردوا بطال کا سلسلہ اس کے بعد بھی مسلسل جاری ہے ۔
تقسیمِ وطن سے قبل یہ قادیانی فتنہ ہندوستان میں تھا ،انگریز سامراج ان کی بھر پور مدد کر رہا تھا ،آج بھی برطانیہ، اسرائیل اور امریکہ و غیرہ ان کی مدد کر رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ آج اسرائیل اپنے مددگار امریکہ کے حکم پر فلسطین اور اسی کے علاقے غزہ کی زمین پر جس بے دردی سے مسلمانوں کی قتل و غارت گری کر رہا ہے اس نے دنیا کے انصاف پسندانسانوں کو خون کے آنسو رلانے پر مجبور کر دیا ہے ، اس میں ہزاروں بچے ، عورتیں اور نہتے مسلمان بھوک اور پیاس کی شدت سے تڑپ رہے ہیں، اسرائیل کی ظالم فوج ان سے محفوظ مقامات خالی کرا رہی ہے، بے شمار مسلمانوں کو انتہائی کس مپرسی کے عالم میں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے ۔ ان کے پاس نہ علاج کے لیےدوائیں ہیں اور نہ معالج ، نہ ایمبولنس ہیں اور نہ حسب ضرورت ہاسپیٹل ،سب کو ان ظالموں نے بم برساکر تباہ وبرباد کر دیا ہے۔ اس وقت دنیا کے نقشے پر 57 ممالک مسلم ہیں مگر بس ہیں؟؟؟ ان ملکوں کے عوام تو کسی قدر احتجاج کر رہے ہیں مگر ان نہتے مسلمانوں کے احتجاج کا حاصل کیا ہے؟ ان معاملات کو ہم سے زیادہ آپ جانتے ہیں غیر مسلم ممالک میں بھی لاکھوں افراد اس خونخوار جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں،مغربی دنیا کے بہت سے کالجز اور یونیورسٹیوں میں بھی احتجاج ہو رہے ہیں۔ مگر مسئلہ صرف عوام کا نہیں، چند مسلم ممالک تھوڑی بہت عملی حمایت کر رہے ہیں۔ اکثر مسلم حکمرانوں نے اپنے دل و دماغ گروی رکھ دیےہیں ۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل، بر طانیہ اور امریکہ وغیرہ میں قادیا ہوں کو بھر پور حمایت حاصل ہے۔ انھیں جس جگہ جتنی زمین اور جتنے وسائل کی ضرورت ہے ان کے لیے موجود ہے، اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان قادیانیوں کی سرپرستی کون کر رہا ہے۔ اگر یہ واقعی سچے مسلمان ہیں تو مسلم دشمن طاقتیں ان کی حمایت اور اعانت کیوں کر رہی ہیں ؟ ؟ ؟
جی گفتگو کا رخ دوسری جانب چلا گیا ، تقسیمِ وطن کے بعد پاکستان میں انھوں نے شر انگیزی شروع کی، بڑی چابک دستی کے ساتھ یہ قادیانی سیاست کے اہم عہدوں پر براجمان ہوئے۔ علماے اہلِ سنت مسلسل ان کے رد و ابطال میں سرگرداں تھے مگر حکومت پر امریکہ اور مغربی ممالک کا دباؤ تھا ۔
1953 ء میں تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوئی اس دوران سیکڑوں علما اور قائدین گرفتار ہوئے اور دس ہزار کے قریب مسلمانوں نے اپنی دینی حمیت اور تحفظ ختم نبوت کے نام پر جام شہادت نوش کیا ۔ 7 ستمبر 1974 ء پاکستانی پارلیمانی تاریخ کا دن یادگار ہو گیا جب قائد اہل سنت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی پارلیمنٹ میں چند روز تک مسلسل سوالات کرتے رہے اور مرزا طاہر قادیانی جواب دینے کی ناکام کوشش کر رہے تھے مگر مبلغ اسلام حضرت شاد احمد نورانی کے سوالات اتنے مشکل تھے کہ ظالم قادیانی جواب دینے سے قاصر رہا اور باضابطہ حکومتی سطح پر قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔
اب 2024 ء میں اس کی گولڈن جوبلی جوش و خروش سے منائی جارہی ہے تو پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے قادیانیوں کو اپنے باطل نظریات کی نشر واشاعت کی چھوٹ دے دی ہے۔ یہ فیصلہ انتہائی تشویش ناک ہے ، عالم اسلام میں اس فیصلے کی زبر دست مذمت ہو رہی ہے ۔ سچ اور حق یہی ہے کہ ہمارے نبی ختم الرسل ہیں اور خانم النبیین کا سرنامۂ امتیاز لے کر سیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آغوش میں جلوہ گر ہوئے ، ان کے بعد تا قیامت نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول ۔ نبوت کا دعوا کرنے والے سیکڑوں کذابوں کو اہل حق نے جہنم رسید کر دیا ،اب کسی جھوٹے نبی کو کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ یہ مسئلۂ حق قرآن عظیم کی سو سے زائد آیات اور سیکڑوں احادیث سے ثابت ہے ، صحابۂ کرام، تابعین عظام اولیاے کاملین اور علماے ربانیین کا اجماعی فیصلہ ہے اب جو بھی دعوائے نبوت کرے گا اس باطل مدعیِ نبوت کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ وہ چاہے کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہو یا اور کوئی بدباطن ناہنجار ۔ اللہ تعالیٰ عالم اسلام کو ان جھوٹے نبیوں کی شر انگیزیوں سے محفوظ رکھے ۔
اب ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہونے پر چند دلائل نقل کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مَّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِییْنَ وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیءٍ عَلِیْمًا (سورۃ احزاب، آیت:40)
ترجمہ: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالی کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ کے بعد اب کوئی نبی اور رسول پیدا نہیں ہوسکتامندرجہ آیت کریمہ میں بھی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم الا نبیاء ہونے کا صریح اور واضح اعلان ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں مگر وہ اﷲ کے رسول ہیں اور نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں۔
یہ بات یاد رکھیں جہاں رب العالمین نے ارشاد فرمایا کہ وہ کسی مرد کے باپ نہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اولاد نرینہ پیدا ہی نہیں ہوئی۔ بلکہ آیت میں ’’رجل‘‘ یعنی مرد کی نفی ہے ۔ لڑکیوں کی تعداد پر اتفاق ہے کہ چار تھیں۔ تمام صاحبزادیاں بلوغت، ازدواج، اسلام اور ہجرت سے شرف یاب ہوئیں۔ ہاں دو فرزندوں کی پیدائش پر تمام رواۃ کا اتفاق ہے جوکہ حضرت قاسم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ ہیں ،مگر یہ دونوں فرزند ارجمند عہدِ طفولیت ی میں وصال فرما گئے۔ اور ”رجل“ کا اطلاق جوان پر ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے رجال کے باپ ہونے کی نفی فرمائی ہے۔
اہل سنت و جماعت کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت سے پہلے دنیا میں تشریف لائیں گے۔ مگر ان کی آمد نبی کی حیثیت سے نہیں بلکہ وہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متبع کی حیثیت سے نازل ہوں گے ، دیگر مسلمانوں کی طرح وہ بھی ان کے قبلہ خانۂ کعبہ کی جانب رُخ کرکے نماز ادا فرمائیں گے۔ ان کی آمد سے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کا دور تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد سے کافی عرصہ پہلے گزرچکا اب ان کی آمد بطور نبی نہیں بلکہ ایک مقتدی اور متبع کی ہوگی۔
احادیث مقدسہ کی روشنی میں رحمت دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کی بے شمار روایات ہیں۔
وعن العرباض بن ساریۃ عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم انہ قال إنی عند اﷲ مکتوب خاتم النبیین وان آدم لمنجدل فی طینتہ (رواہ فی شرح السنۃ)
ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کر رہے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اسی وقت سے خاتم النبیین لکھا گیا ہوں جس وقت حضرت آدم علیہ السلام اپنی گندھی ہوئی مٹی میں تھے۔
امام الا نبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ حضرت آدمؑ کا قالب بھی بن کر تیار نہ ہوا تھا نہ اس میں روح پڑی تھی کہ میرا نام اس دنیا میں خاتم النبیین کی حیثیت سے رب العالمین نے لکھ دیا تھا:
وعن سعد ابن وقاص قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم لعلی انت منی بمنزلۃ ھارون من موسیٰ الا انہ لانبی بعدی (رواہ بخاری ومسلم)
ترجمہ: حضرت سعد بن ابی وقاص روایت کر رہے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی سے فرمایا تم میرے لیے ایسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے، فرق یہ ہے کہ میرے بعد بحیثیت نبی آنے والا نہیں۔
یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے درمیان آپس کی قرابت داری مرتبہ او رتعاون جو رہا یہ سارے اوصاف حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اور حضرت مولا علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کے درمیان موجود تھے، لیکن ان دونوں کے مابین جو فرق تھا وہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے واضح فرمایا: حضرت ہارون علیہ السلام نبی تھے اور میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ۔
وعن جابر ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال انا قائد المرسلین ولا فخر وانا خاتم النبیین ولا فخر وانا اول شافع ومشفع ولا فخر (رواہ الدارمی)
ترجمہ: حضرت جابر روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: (قیامت کے روز) میں تمام انبیاء اور رسولوں کا قائد ہوں گا۔ اور میں یہ بات فخریہ طور پر نہیں کہتا۔ میں سلسلہ انبیاء کو ختم کرنے والا ہوں (میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں) اور میں یہ بات فخر سے نہیں کہتا۔ (قیامت کے روز) سفارش کرنے والا پہلا شخص میں ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول ہوگی اور میں یہ بات فخر کے طور پر نہیں کہتا۔
عہد رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے لے کر آج تک کا متفقہ اور اجماعی فیصلہ ہے، ہمارے نبی مصطفیٰ جانِ رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد تا قیامت کسی بھی نوعیت کا نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ رسول، اللہ تعالیٰ عالمِ اسلام کو اسی نقطۂ نظر پر قائم کر رکھے۔آمین بجاہ خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org