21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May 2024 Download:Click Here Views: 32937 Downloads: 929

(10)-محرم کے بغیر خواتین کا سفر حج

جون 2024 کا عنوان—سیرتِ امام حسین  رضی اللہ عنہ

*جولائی 2024 کا عنوان—حضرت مجدد الف ثانی کے معمولت اور تعلیمات

کیا عورت محرم کے بغیر سفر اور حج کر سکتی ہے؟

 از:مفتی عبدا لقیوم ہزاروی

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر تنہا طے کرے۔“(طبرانی، المعجم الاوسط، 6 : 267، رقم : 6376)

پرانے وقتوں میں سفر بہت کٹھن اور پُر خطر ہوتے تھے، زیادہ تر سفر پیدل یا گھوڑوں اور اونٹوں پر کیا جاتا تھا، ایک شہر سے دوسرے شہر جانے میں کئی کئی ہفتے صرف ہو جاتے تھے۔ اِس لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کو تنہا تین دن سے زیادہ کا سفر کرنے سے منع فرما دیا تاکہ اُس کی عفت و عصمت کی حفاظت ہو، بلکہ ایک روایت میں تو ’دو دن‘ کے الفاظ بھی ہیں۔ اِنہی سفری تکالیف اور خطرات کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کو تنہا حج کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’مسلمان عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند یا کسی محرم کے بغیر حج کرے۔‘‘(ابن خزيمة، الصحيح، 4 :134، رقم : 2522/طبرانی، المعجم الکبير، 8 :261، رقم : 8016)

اِنہی اَحادیث اور اَحکامِ شریعت کی روشنی میں وضع کیے گئے، سعودی عرب کے مروّجہ قوانین کے مطابق کسی عورت کو مَحرم کے بغیر حج یا عمرہ کا ویزا ہی جاری نہیں کیا جاتا۔ لہٰذا موجودہ دور میں عورت کا مَحرم کے بغیر حج یا عمرہ کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

البتہ ہمیں اُس عِلّت اور پس منظر کا بھی جائزہ لینا چاہیے جس کی بنا پر عورت کو مَحرم کے بغیر تین دن سے زیادہ مسافت کا سفر اور حج کرنے سے منع فرمایا گیا۔ در حقیقت منع کا یہ حکم اِس لیے دیا گیا تھا کہ قدیم زمانے میں سفر بہت کٹھن اور پُرخطرات ہوتے تھے۔ سفر پیدل یا جانوروں پر کیا جاتا تھا اور کئی کئی ہفتے اور مہینے سفر میں صرف ہوتے تھے۔ نیز دورانِ سفر چوروں، ڈاکووں اور لٹیروں کا بھی بہت زیادہ خطرہ ہوتا تھا۔ اندریں حالات عورت کی عصمت و حفاظت اور سفری تکالیف و خطرات کے پیشِ نظر اسے اکیلے سفر کرنے سے منع فرما دیا گیا۔محرم درحقیقت حفاظت کے لیے ہوتے تھے۔ آج ذرائعِ مواصلات بہت ترقی کرگئے ہیں۔ بے شمار سفری سہولیات و آسانیاں میسر آ چکی ہیں۔ دورانِ سفر سکیورٹی وغیرہ کے مسائل بھی نہیں رہے اور حج کی ادائیگی کا باقاعدہ نظام ترقی پا چکا ہے۔ حکومتی سطح پر گروپ تشکیل دیے جاتے ہیں جو مَحرم کی طرح ہی خواتین کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور خواتین کو اُس طرح کے مسائل و خطرات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو پرانے وقتوں میں درپیش ہوتے تھے۔ گویا ریاست کی طرف سے ملنے والی سکیورٹی اور سیفٹی مَحرم بن گئے ہیں، کیوں کہ حکمِ مَحرم کی حکمت یہی تھی۔ لہٰذا اِن سفری سہولیات کے ساتھ جب عورت عورتوں کے گروپ میں یا ایک ایسے گروپ میں جہاں مرد و خواتیں اکٹھے ہوں لیکن فیملیز ہوں اور خواتین کی کثرت ہو تو یہ اِجتماعیت مَحرم کا کردار ادا کرتی ہے۔ انِ حالات میں عورت کے لیے مَحرم کے بغیر سفر کرنا ناجائز نہیں رہتا۔ چاہے وہ (تین دن سے زیادہ مسافت کا) عام سفر ہو یا سفرِ حج اور عمرہ۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔***

 

آج کے زمانے میں خواتین کا سفر حج -شرعی و عقلی نقطۂ نظر سے

از:مولانا محمد ناصر حسین مصباحی

 

پہلے خواتین کو محرَم کے ساتھ ہی حج یا عمرہ پر جانے کی اجازت دی جاتی تھی اور  پورے حج کے دوران انھیں ساتھ رہنا ہوتا تھا مگر سنہ 2022ء سے سعودی عرب نے اعلان کیا کہ اب دنیا بھر کی خواتین حج یا عمرہ کے لیے محرم یا شوہر کے بغیر بھی سعودی کا سفر کر سکتی ہیں۔ سعودی عرب کا یہ اقدام جہاں عربوں کی برسوں سے چلی آرہی تہذیب و روایت کے خلاف ہے وہیں شرعی حکم کے بھی منافی ہے۔ سعودی عرب مغرب کی تقلید میں اتنا آگے جا چکا ہے کہ اب اسے اپنی دینی شبیہ کی بھی کوئی پروا نہیں رہی۔

ہندوستان میں سنہ  2018 میں حکومت ہند کی حج کمیٹی نے ’’محرم کے بغیر خواتین كے سفر حج کا زمرہ‘‘ بنایا اور   پینتالیس (45) سال یا اس سے زیادہ عمر کی خواتین کو بغیر محرم کے حج کے لیے درخواست دینے کی اجازت دے دی جس میں اہل خواتین کے لیے چار (4) کے گروپوں میں زمرہ’’محرم كے بغیر سفر‘‘ کے تحت حج کرنے کا انتظام کیا اور  سنہ 2023 میں حکومت کے کہنے پر چار خواتین کی گروپ بندی کی ذمہ داری بھی ختم کر دی  اور اب انفرادی  اہل خواتین کو بھی محرم كے بغیر سفر حج کے لیے درخواست دینے کی اجازت دے دی گئی۔  چوں کہ حج کمیٹی آف انڈیا کے ذریعے بنائی گئی یہ نئی حج پالیسی خواتین کے تحفظ اور انتظامی امور کے موافق نہ ہونے کے ساتھ ساتھ صریح حکم شرعی کے بھی برخلاف ہے اس لیے پورے ملک میں اس کی مذمت کی گئی اور کی جا رہی ہے۔

شرعی نقطۂ نظر :  حدیث شریف میں ہے:  ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو عورت اللہ عزوجل اور قيامت کے دن پر ايمان رکھتی ہے اس کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے باپ، بھائی، شوہر، بيٹے يا کسی محرم کے بغيرتین دن يا اس سے زيادہ کا سفر کرے۔ (صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المرأۃ مع المحرم إلی الحج وغیرہ، رقم الحدیث:۹۳۳۱)

ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حلال نہیں اس عورت کو کہ ایمان رکھتی ہو اللہ اور قیامت پر کہ ایک منزل کا بھی سفرکرے مگر محرم کے ساتھ جوا س کی حفاظت کرے۔ ( صحیح بخاری  باب فی کم یقصر الصلوٰۃ وسمہ النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم یوماً ولیلۃ 1/147-48 ۔صحیح مسلم        باب سفر المرأۃ مع محرم الی حج وغیرہ               1/433-34۔  سنن ابوداؤد    کتاب المناسک باب المرأۃ تحج بغیر محرم            1/241)

’’محرم‘‘  عورت کا وہ رشتہ دار ہے جس سے نکاح کرنا نسب یا رضاعت یا سسرالی رشتے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے حرام ہے۔

ان احادیث میں صراحت ہے کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہیں  کرسکتی، ان میں  کسی سفر کی تخصیص نہیں  ہے؛ مگر چوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں  عورتیں  شاذ و نادر ہی تجارت ، دعوت، یا جہاد کا سفر کرتی تھیں ، ان کے زیادہ تر سفر ، حج و عمرہ کے لیے ہی ہوتے تھے اس لیے یہ نہیں ہو سکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس جانب توجہ نہ فرمائی ہو اور ہدایت نہ دی ہو ،   لہٰذا ان احادیث میں  حج کا سفر بھی شامل ہے ۔ صحابۂ کرام  نے بھی ان احادیث سے یہی سمجھا کہ حج کا سفر بھی اس ممانعت میں  داخل ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک صحابی نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں  جہاد کے لیے تیار ہوں  اور میری بیوی حج کو جارہی ہے؟  تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تم بھی بیوی کے ساتھ حج کو جاؤ اور جہاد کا ارادہ ابھی ترک کر دو۔  (دیکھیے: صحیح بخاری، کتاب جزاء الصید، باب حج النساء، حدیث نمبر:1862،اور صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سفر المرأۃ مع المحرم إلی الحج وغیرہ، حدیث نمبر:1341)

اس مسئلے میں بعض صریح حدیث بھی ہیں جن میں زوج یا محرم کے بغیر عورت کو براہ راست حج کرنے سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا:

عن ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ أنہ قال... قال النبي ﷺ: لا تحجن امرأۃ إلا ومعہا ذومحرم.

ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہرگز کوئی عورت محرم کے بغیر حج نہ کرے۔

 (سنن دار قطنی، کتاب الحج، حدیث نمبر:2440)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں  اکثر خواتین قابل اطمینان تھیں ؛بلکہ سب کہا جائے تو بھی غلط نہیں  ہوگا اور مردبھی سب متقی و پرہیزگار تھے کیوں کہ وہ صحابۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو بغیر محرم یا بغیر زوج کے سفر کی اجازت نہیں دی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عورت دوسری قابلِ اطمینان خواتین یا متقی اور پرہیزگار مردوں کے ساتھ بھی سفر نہیں  کرسکتی۔  نیز عمر کی زیادتی اور خواتین کا تعدد بھی کافی نہیں  بلکہ محرم کا ہونا ہی ضروری ہے۔

مذکورہ احادیث کے پیش نظر فقہاے حنفیہ نے فرمایا کہ  عورت کو بغیر محرم کے تین دن یا زیادہ کی راہ جانا، ناجائز ہے بلکہ ایک دن کی راہ جانا بھی۔ نابالغ بچہ یا مَعتُوہ کے ساتھ بھی سفر نہیں کرسکتی، ہمراہی میں بالغ محرم یا شوہر کا ہونا ضروری ہے۔ (فتاوی عالمگیری وغیرہ) عورت کو بغیر محرم یا بغیر شوہر کے حج کے لیے جانا حرام ہے اگر حج کرے گی تو ہوجائے گا مگر ہر قدم پرگناہ لکھا جائے گا۔  

(فتاوی رضویہ، جلد چہارم، ص 691)

محرم کے ليے ضروری ہے کہ سخت فاسق بے باک و غیر مامون نہ ہو۔  لہذا  اگر عورت مکہ معظمہ سے تاحدِ سفر دور ہو اس پر بغیر محرم حج فرض نہ ہوگا،یہی مذہب احناف ہے۔

 (بہار شریعت حصہ 4 ، نماز مسافر کابیان، صفحہ 101)

مسلک حنفی: حنفی مسلک میں عورت خواہ جوان ہو یا بوڑھی اس کے لیے حج پر جانے کے لیے محرم کا ساتھ ہونا شرط ہے ، اگر کوئی بوڑھی عورت اپنے پڑوسی یا کسی اور غیر محرم کے ساتھ حج کو جانا چاہتی ہے تو نہیں جاسکتی ہے ۔اگر آخر عمر تک محرم نہ ملے تو وصیت کرجائے کہ میری طرف سے حج بدل کرادیا جائے ۔رد المحتار میں ہے: یجب الإیصاء إن منع المرض أو خوف الطریق أو لم یوجد زوج ولا محرم۔ (شامی:2/200)اگر یہ شبہہ ہو کہ وصیت نافذ نہ کی گئی تو حج میرے ذمے باقی رہ جائے گا تو اس شبہے کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہو بھی جائے تو وہ گناہ گار نہیں ہوگی، کیوں کہ اس نے اپنے ذمے کے واجب (وصیت کرنے) کو ادا کردیا۔

مسلک شافعی: امام نووی شافعی فرماتے ہیں: امام شافعی اور ان کے اصحاب کا قول یہ ہے کہ جب تک عورت اپنی عزت کے بارے میں مطمئن اور بے خوف نہ ہو اس وقت تک اس پر حج فرض نہیں ہے۔ اور یہ اطمینان خواہ شوہر سے حاصل ہو خواہ نسبی محرم سے خواہ سسرالی محرم سے خواہ چند مستند عورتوں سے۔ ان تین (زوج ، محرم، یا چند مستند عورتوں کی رفاقت) میں سے کوئی بھی میسر نہ ہو تو صحیح مذہب یہ ہے کہ عورت پر حج فرض نہیں ہوگا، خواہ صرف ایک عورت کی رفاقت میسر ہو یا نہ ہو ۔ (شرح مہذب ج 7، ص: 86، دارالفکر بیروت)

علامہ نووی علیہ الرحمہ نے فرمایا ہے کہ نفلی حج، زیارت، تجارت یا کسی اور مقصد کے لیے آیا عورت کسی ایک مستند اور معتمد عورت یا متعدد معتمد عورتوں کے ساتھ سفر کر سکتی ہے یا نہیں؟ اس میں سب سے معتمد قول یہ ہے کہ یہ سفر جائز نہیں ہے اور تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ یہی حکم صحیح ہے۔  کتاب الام میں بھی یہی مذکور ہے ، اس سفر کے حرام ہونے کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں بغیر زوج یا محرم کے سفر سے ممانعت آئی ہے۔(فتح العزیز شرح الوجیز مع شرح المہذب ج 7، ص 23 و 24 دار الفکر بیروت)

مسلک حنبلی: علامہ ابن قدامہ حنبلی اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس عورت کا کوئی محرم نہیں ہے اس پر حج واجب نہیں ہے۔ امام احمد نے اس کی تصریح کی ہے ۔ ابو داود کہتے ہیں میں نے امام احمد سے کہا ایک عورت امیر ہے اور اس کا کوئی محرم نہیں ہے اس پر حج فرض ہے؟ کہا نہیں۔ (المغنی ج 3، ص 97، دار الفکر بیروت) 

اگر چہ شافعیہ اور مالکیہ نے کچھ حدود و قیود اور شرطوں کے ساتھ گنجائش دی ہے کہ قابل اطمینان خواتین گروپ کے ساتھ فرض حج کا سفر کر سکتی ہے مگر عوام کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ جب جس کا قول چاہے اختیار کر لے۔ نیز ان ائمہ نے جو حدود و قیود اور شرائط رکھی ہیں عورتیں اولاً ان سے واقف نہیں ہوتیں اور اگر واقف بھی ہو جائیں تو ان کا کوئی لحاظ نہیں کرتیں  اور ہر حال میں چلی جاتی ہیں جس کی وجہ سے خود ان ائمہ کے نزدیک بھی ان کا محرم کے بغیر سفر جائز نہیں ہوتا۔

رہا عورت کا تنہا انفرادی طور سے سفر حج    کرنا تو یہ کسی بھی مسلک میں جائز نہیں۔ آج کل ہوائی سفر کی سہولت کی وجہ سے ایسی صورت حال پیش آتی ہے کہ مثلاً ایک شخص اپنی ماں کو بمبئی ہوائی جہاز پر چڑھائے اور جدہ میں ان خاتون کا دوسرا بیٹا استقبال کو موجود رہے۔ اس طرح ہوائی جہاز پر صرف چند گھنٹے ایسے گزرتے ہیں جن میں کوئی محرم ساتھ نہیں ہوتا ۔ آیا یہ صورت جائز ہوگی؟اس سلسلہ میں اصولی طور پر یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ فقہا کے نزدیک سفر شرعی کے لیے تین دنوں کی مدت مطلوب نہیں ہے بلکہ اتنی مسافت مطلوب ہے جس کو انسان پیاده رفتار میں تین دنوں میں طے کر سکے۔ اس طرح ظاہر ہے کہ ہوائی جہاز کا یہ سفر گو کہ چند گھنٹوں کا ہے مگر وہ بھی سفر شرعی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس مختصر وقت میں بھی نمازوں میں قصر کرنے کا حکم ہے اور رمضان المبارک میں روزہ افطار کرنے کی رخصت ہوتی ہے۔

شر عی اور فقہی نقطۂ نظر سے ہٹ کر عقلی و عملی طورپر بھی سفرِ حج میں خواتین کے ساتھ شوہر یامحرم کاہونا نہایت ضروری ہے۔

عقلی نقطۂ نظر :   ایئر پورٹ اور جہاز میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں جن میں آوارہ ، شریر اور بد معاش بھی ہوتے ہیں، آج کے شر و فساد  اور برائی کے زمانے میں شیطان انسانوں  کو ورغلاتا ہے ان کے دل میں  وسوسے ڈالتاہے، انھیں  گناہ پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے، خواتین کی طرف نظریں  اٹھانے کی دعوت دیتاہے ، بدنگاہی تو عام ہو چکی ہے، ایئرپورٹ یا جہاز میں بھی بعض بد بخت رش کا فائدہ اٹھاکر خواتین سے بد تمیزی اور چھیڑ خوانی کر سکتے ہیں اور اپنے بے ہودہ جملوں کا نشانہ بنا سکتے ہیں، بلکہ  آوارہ نوجوانوں یہ  جرأت بھی کر بیٹھتے ہیں کہ جب وہ عورت کو اکیلی دیکھتے  ہیں جس کے ساتھ محرم مرد نہیں ہوتا تو وہ اسے تنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس زمانے میں بےحیائی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ عورتوں کا پورا گروپ ہوتے ہوئے بھی شریر ، آوارہ اور بدمعاش لوگ شرارت سے نہیں چوکتے۔ ، ایسے حالات میں جب شریعت اس کو حاضر ہونے کا حکم نہیں دیتی ہے  بلکہ روکتی ہے تو بلا وجہ یہ خطرہ مول کر گنہ گار ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ حج کا اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرناہے اور جب شریعت میں ایک بات سے منع کردیا گیا ہوتو اس کے ارتکاب کی وجہ سے بجائے ثواب کے گناہ ہی ہوگا۔  ہندوستان میں رہنے والے اکثر مسلمان حنفی مسلک کے پیروکار ہیں اور ان کے نزدیک بغیر محرم کے عورت اگر جائے تو حج تو اس کا ہوجائے گا؛ مگراس سفر کا گناہ سر پر رہے گا۔

عورت پر بغیر شوہر یا بغیر محرم کے سفر حج کو لازم کرنا اس کی عزت و عفت کو غیر محفوظ چھوڑنا  اور اسے مشقت میں ڈالنا ہے، جو بہت خطرناک ہے۔ یہ ایسا ہی جیسے مساوات اور آزادی کے نام پر یہ کہا جائے کہ اب ہمارے ملک کے وزیر اعظم بغیر سیکوریٹی اور محافظ دستہ کے کہیں بھی جانا چاہیں  تو جائیں ، ظاہر ہے یہ وزیر اعظم کے ایک حق کو ان سے چھیننا ہے، اسی طرح سفر میں  محرم کی شرط کو ہٹانا عورت کو اس کے ایک حفاظتی حق سے محروم کرنا ہے۔ ، لہٰذا اسلام میں خواتین کے لیے یہ حکم کہ وہ بغیر محرم کے سفر نہ کرے ،عورت کے ساتھ شفقت، اس کے لیے سہولت و راحت اور اس کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔

عملی نقطۂ نظر: سفر حج میں  قدم قدم پر ایسے مراحل سامنے آتے ہیں ، جن میں  عورت کو محرم مرد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے جس کے بغیر ان کی تمام ضرورتیں  تنہا عورتوں  سے پوری نہیں  ہوسکتیں کیوں  کہ عام طور پر عورت فطری اعتبار سے کمزور اور نازک واقع ہوئی ہے۔  حج کے سفر کے دوران، حج کی ادائیگی کے دوران، وہاں  کی آب وہوا کی تبدیلی کی وجہ سے درپیش  بیماریوں  اور دیگر پریشانیوں  میں  عورت بڑے سہارے اور مدد کی محتاج ہوتی ہے ۔  مقام کی اجنبیت ، قدم قدم پر لوگوں کا ہجوم ، زبان سے ناواقفیت وغیرہ اسباب کی بنا پر مختلف مسائل اور دشوایاں درپیش ہوتی ہیں، بعض اوقات بہت سی قانونی کارروائیوں سے بھی گزرناپڑتاہے، ان مواقع پر محر م رشتے داریاشوہر کی سخت ضرورت پڑتی ہے۔   بعض اوقات سفر کے دوران گاڑی وغیر ہ میں  بیماری میں  اتارنے چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ کام محرم یا شوہر کے علاوہ دوسرا کوئی نہیں کرسکتا۔

اس لیے شریعت کا یہ حکم کہ کوئی عورت بغیر محرم کے سفر حج یا دوسرا سفر نہ کرے بڑی حکمت و دانائی پر مشتمل ہے، اس میں ان کی ضرورت، سہولت ، راحت اور تمام تر حفاظت کا بھرپور لحاظ کیا گیا ہے۔  اس لیے دینی دنیوی دونوں اعتبار سے بھلائی اسی میں ہے کہ  عورتیں اسلامی احکام کے مطابق سفر حج کریں ۔ حقیقت یہ ہے کہ عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے مردوں کے مقابلے میں فطری طور پر کمزور اور نازک بنایا ہے چاہے وہ ترقی اور آزادی نسواں کے نام پر گھروں سے نکلنے کے پروگرام بناتی رہیں اگر وہ اسلامی حدود و قیود کو اپنی زندگی کی زینت نہیں بنا ئیں گی تو وہ غیر محفوظ ہوتی چلی جائیں گی۔***

 

چراغ خانہ

دور جدید کے مسائل نسواں

تسنیم فرزانہ ، بنگلور

 

دورِ قدیم سے دنیا کے ہر خطے میں عورت مظلوم رہی ہے اکثر مذاہب نے عورتوں کے متعلق پست خيالات کا اظہار کیا ہے جس کی بنا پر عورت کو بوجھ سمجھا گیا تھا ۔ دور جديد میں نشاۃ ثانیہ کے بعد جب زندگی کے ہر شعبے میں انقلاب آيا تو عورت کی آزادی اور مساوات کا تصور ابھرا۔

بیسویں صدی کے اوائل میں جب صنعتی ترقی کا ظہور ہوا اور اس کا پھیلاؤ بڑھا تو الگ الگ تہذیبوں کے ملاپ سے مختلف نظریات وجود میں آنے لگے تب اہل یورپ کوعورت کی ازلی مظلومیت کی انتہائی حدوں پر موجودگی کا گہرائی سے احساس ہو تو انھوں نے اس کا مداوا کرنے کے لیے  آزادئ نسواں کے حق میں دلائل فراہم کیے ۔

اس کے نتیجے میں آزادئ نسواں کی بہت سی تحریکیں پروان چڑھیں۔ 28 فروری 1909 کا سوشلسٹ پارٹی آف امریکہ نے پہلا یومِ خواتین منایا۔1910 کو کوپن ہیگن. میں سوشلسٹ میٹنگ نے ایک عالمی یومِ خواتین کی بنیاد ڈالی جس میں انھوں نے خواتین کے حقوق اور ووٹ ڈالنے کی مانگ کی اس فیصلے کا خیر مقدم، تقریباً 17 ممالک کی 100 خواتین نے بھرپور تائید کے ساتھ کیا ۔جس کے نتیجے میں فن لینڈ میں 3 خواتین ممبر پارلیمنٹ بنیں۔اسی طرح کی بہت ساری تحریکات وقتاً فوقتاً ابھرتی رہیں جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو ”عالمی یومِ خواتین“ منانے کا اعلان کیا اور اس دن کو عالمی سطح پر مساوات مرد و زن اور امن و سلامتی کے حصول میں ایک سنگ میل قرار دیا۔ان تحریکات سے جو نظریات حاصل ہوئے اور جن پر نئے مغربی معاشرے کی بنا رکھی گئی اور دور حاضر میں بھی اس پر عمل آوری ہو رہی ہے وہ یہ ہیں۔

عورتوں اور مردوں کی مساوات

عورتوں کا معاشی استقلال

دونوں صنفوں کا آزادانہ اختلاط

عورت کو ان چیزوں کی وجہ سے سماجی زندگی میں تھوڑا بہت فائدہ ہوا لیکن ہم ذرا ٹھہر کر غور کرتے ہیں تو ہمیں چند باتیں اظہر من الشمس نظر آتی ہیں۔

مساوات کے معنی یہ سمجھ لیے  گئے کہ عورت اور مرد نہ صرف اخلاقی مرتبہ اور انسانی حقوق میں مساوی ہیں،بلکہ تمدنی زندگی میں بھی عورت وہی کام کرے جو مرد کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کے لیے بھی ہوں۔مساوات حاصل کرنے کی جدوجہد نے عورت کو اس کے فطری مسائل سے غافل کر دیا ہے۔ اب وہ انتخابات کی جدوجہد، دفتروں و کارخانوں کی ملازمت تجارتی و صنعتی پیشوں میں مردوں کے ساتھ مقابلہ کرنے، کھیلوں، سوسائٹی اور کلب کے پروگراموں میں اسٹیج، رقص و سرور کی محفلوں کی مصروفیات میں اس طرح الجھ گئی کہ اس کو ازدواجی زندگی کی ذمہ داریاں، بچوں کی تربیت، خاندان کی خدمت، گھر کی تنظیم کا کچھ ہوش نہیں رہا۔

معاشی استقلال نے عورت کو مرد سے بے نیاز کر دیا قدیم اصول تھا کہ مرد کمائے اور عورت گھر کا انتظام سنبھالے، اب وہ بدل گیا دونوں کمائیں اور گھر کا نظم بازار کے حوالے کر دیا جائے۔ جو عورت اپنی روٹی آپ کماتی ہو، اپنی ضروریات کی خود کفیل ہو، اپنی زندگی میں دوسرے کی حفاظت واعانت کی محتاج نہ ہو، وہ کیوں کسی کی پابند رہے گی؟

اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ خواتین تجرد پسند بن گئیں ۔جن کی زندگیاں آزاد شہوت رانی میں بسر ہونے لگیں ۔مناکحت کے رشتے میں بھی پائیداری نہیں رہی زوجین ایک دوسرے سے بالکل بے نیاز ہوگئے، خواتین آپسی تعلقات میں کسی مراعاتِ باہمی اور مدارات compromise کے لیے  تیار نہیں ہیں۔نتیجتاً اس کا اتمام طلاق یا تفریق پر ہوتا ہے۔

مانعِ حمل، قتلِ اولاد، شرحِ پیدائش کی کمی اور ناجائز اولاد کی بڑھتی ہوئی تعداد اسی معاشی استقلال کی رہینِ منت ہے۔ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ اختلاط نے عورتوں میں حسن کی نمائش، عریانی اور فواحش کو غیر معمولی ترقی کی طرف گامزن کردیا۔ صنفی میلان جو پہلے ہی فطری طور پر موجود رہتا ہے اس آزادانہ میل جول سے اور بڑھ گیا۔مردوں کے لیے  مقناطیس، اور جاذب نظر بننے کی خواہش نے عورت کواتنا آگے بڑھا دیا کہ شوخ و سنگ لباسوں نئے نئے فیشن، میک اپ کی نت نئی اشیاء سے اس کی تسکین نہیں ہوئی تو کپڑے بھی چھوٹے کردئے اور اس کو آرٹ کا نام دے دیا گیا اور یہ چیزیں گھن بن کر نوجوان نسل کی ذہنی و جسمانی قوتوں کو کھا رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں انسان کو وہ امن و سکون اور سکون میسر نہیں ہے جو تعمیری و تخلیقی کاموں کے لیے  درکار ہے۔ یہی نہیں ایسے ہیجانات کے درمیان خصوصاً نوجوان نسل کو وہ ٹھنڈی و پر سکون فضا میسر ہی کہاں ہے جو ان کی ذہنی و اخلاقی قوتوں کی نشوو نما کے لیے ضروری ہے۔بدکاری، بے حیائی اور امراض خبیثہ کی بڑھوتری میں بھی اسی آزادانہ اختلاط کا بڑا دخل ہے۔

آزادئ نسواں کا نعرہ لگا کر اور مردوں کے مقابلے میں آگے جانے کی سوچ لے کر عورت نے خود کو ایک دوراہے پر کھڑا کر لیا ہے۔اس نے اپنے ہمہ جہت کردار سے غفلت برتنی شروع کر دی ہے۔ ماں بہن بیٹی کی حیثیت سے اس کے رول میں کوتاہی نظر آتی ہے گھر اور خاندانی نظام بکھر رہا ہے۔ آزادی کے نام پر الوہی تعلیمات سے دوری اور خدا بیزار تہذیب پروان چڑھ رہی ہےاور آزادانہ زندگی کو ترجیح دی جا رہی ہے۔

یومِ خواتین کے موقع پر دنیا بھر میں women Empowerment  کے نام پر مختلف نظریات پیش کیے  جاتے ہیں جو افراط و تفریط کا شکار ہوتے ہیں۔اس موقع پر اسلام کے تصور امپاورمنٹ اور سماجی فعالیت کے نقطہ نظر کو درست انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہب نے عورت کو اس کے حقیقی نسوانی رول کے لیے  قوت بخشی ہے اور اس کے لیے  وہ مواقع، قوتیں اور سہولیات عطاء کی ہیں جواس رول کی ادائیگی کے لیے  ضروری ہے ۔اس کوان ذمہ داریوں سے محفوظ رکھا ہے جو اس کے لیے  دوہرے بوجھ کا باعث اور اس کی نسوانی ذمہ داری سے ٹکراتی ہو۔دین میں تصوّرِبیداری مغرب کے تصوّر بیداری سے مختلف بھی ہے اور مکمل بھی ہے۔اسلام عورت سے اس کی نسوانیت نہیں چھینتا ہے جب کہ مغرب اس میں فعالیت اور قوت تو پیدا کرتا ہے لیکن اس کی نسوانیت چھین کر اس کا نقصان ہی نہیں کرتا ہے بلکہ بچوں کی تربیت، خاندان کی ذمہ داری جیسے رول سے آزاد کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کسی صحت مند سماج کی تعمیر کے لیے نقصان دہ ہے۔لہٰذا اس بات کا خصوصی خیال رکھا جائے کہ آزادی اور فعالیت کے نام پر ہر نئی چیز قابل قبول نہ ہو بلکہ صحیح تصور پیش کیا جائے۔عام نسوانی تحریکات کے مقابلے میں ہمیں کچھ خاص باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔

یومِ خواتین کے موقع پر عام نسوانی تحریکات مردوں اور عورتوں کے درمیان کشمکش کی بات کرتی ہیں اور تمام قوت مردوں کی مخالفت میں صرف کرتی ہیں۔ یہ مناسب رویہ نہیں ہے بلکہ اس موقع پر مردوں کو ذلیل کرنے کے بجائے عورت کی عظمت کو بحال کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔

کچھ اہم کام جو کیے جانے چاہئیں:

اس موقع سے خواتین میں جو فعالیت پیدا ہوگی اس کے ذریعے کچھ اہم محاذ پر فوری و طویل مدتی کام کیے جانے چاہیے۔ جیسے
ملک کی خواتین کی صورتحال کا صحیح تجزیہ کرنا اور اس کو حل کرنے کے لیے  تدابیر پر مناسب لائحہ عمل پیش کرنا اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے  جدوجہد کرنا۔

  • طالبات ان مسائل پر تحقیقی کام کریں اور ملکی سطح پر بحثیں ہوں۔
  • قانونی اور انتظامی سطح پر بھی مسائل کے حل کے لیے  کوششیں ہوں۔
  • خواتین اور ان کے مسائل سے متعلق عوامی سطح پر بیداری کا کام کیا جائے۔
  • کسی بھی مسئلہ کو صرف ایک فرقہ کا مسئلہ نہ جان کر پوری انسانیت کی بھلائی کا کام جانا جائے۔
  • اسلام نے عورت کو جو مقام عطاء کیا ہے اور زندگی گزارنے کا جو درست طریقہ بتایا ہے اس سے تمام انسانوں کو واقف کرایا جائے۔

عام نسوانی تحریکات کے مقابلے میں ہمیں کچھ خاص باتوں کا خیال رکھنا چاہئے:

یومِ خواتین کے موقع پر عام نسوانی تحریکات مردوں اور عورتوں کے درمیان کشمکش کی بات کرتی ہیں اور تمام قوت مردوں کی مخالفت میں صرف کرتی ہیں۔ یہ مناسب رویہ نہیں ہے بلکہ اس موقع پر مردوں کو ذلیل کرنے کے بجائے عورت کی عظمت کو بحال کرنے کی کوشش ہونی چاہیے

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved