21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May 2024 Download:Click Here Views: 32881 Downloads: 929

(9)-بندیل کھنڈ کے ہمنام پنج گنج قادری

پروفیسر  ابو الحسن محمد یاسر رضا  باندوی

بندیل کھنڈ ہمارے ملک ہندوستان کے وسط میں واقع ایک ممتاز قدیمی صوبہ ہے، جو موجودہ حکومتی  صوبہ اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کی عین سرحد پر واقع  ایک سنگلاخ علاقہ ہے[1]۔اسی لیے اس میں موجودہ دونوں صوبوں کے تقریباً تیرہ سے زیادہ ا ضلاع آتے ہیں۔ ۱۸۷۲ ء  کےبندیل کھنڈ یونیورسٹی میں موجود ایک  مستند تحقیقی دستاویز کے مطابق اس کا علاقہ  انیس لاکھ انتالیس ہزار دو سو اکیانوے ایکڑ  ہے[2]، جو کہ تقریباً تین ہزار مربع میل ہوتا ہے۔ اگر قدیم تواریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اس بندیل کھنڈ کی سرحد جبل پور سے لے کر جھانسی کا احاطہ کرتے ہوئے آگرہ تک کو چھو لیتی تھی:جس کا نظام چلانے کے لیے اس وقت چھوٹی چھوٹی ریاستیں اور جاگیریں قائم تھیں؛ جن سے متعلق تقریباً ۱۵۰۹ بڑے محلات کا ذکر ملتا ہے[3]۔ راجا چھتر سال( متوفی ١٧٣٩ ء) کے دور حکومت میں اس صوبہ میں موجودہ  یو پی کے ممتازا ضلاع میں خاص طور پر  كالپی،باندہ، ہمیر پور ، مہوبہ اور جھانسی  وغیرہ کا ذکر ملتا ہے، جب کہ ایم پی کے اضلاع میں،چھتر پور، مہوبہ ، ساگر، جبل پور ، نرسنگھ پور، ہوشنگا باد، بھنڈ اور شیوپوری وغیرہ کا ذکر خاص طور پر منقول ہے۔موجودہ  دور میں   یوپی اور ایم پی  بن جانے کے باوجود  ، اس صوبہ بندیل کھنڈ کا قدرتی تشخص، اسی شان و شوکت کے ساتھ قائم ہے۔  اور قدیم زمانے سے یہاں کے قدیمی شہر بانده  کو جغرافیائی اعتبار   سے بندیل  کھنڈ کا  محور ی مرکز  ہونے کی  وجہ سے،  اِس کے دار الحکومت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جس کی سرحد کاتعین  جمنا، کین اور باگھن ندیوں کے ذریعہ ہوتا ہے۔اور ۱۸۲۰ ء میں جب یہاں کمشنری قائم ہوئی تب بھی شہر باندہ کو ہی دستاویز میں دار الحکومت بنایا گیا تھا ۔تب سے آج تک اسی شہر کو اپنی امتیازی خصوصیات کی بناپر اس صوبہ کا دارالخلافہ مانا جاتا ہے۔محکمہ آثار قدیمہ کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ مقام ان چند نادر و نایاب مقامات میں سے ایک ہے، جہاں  پرانسانی وجود کے ارتقاء یعنی  انسانی ارضیاتی دور کے ابتدائی ثبوت  ملتےہیں۔ اور تاریخ دان حضرات کی تحقیق کے مطابق، یہ  خطہ آریوں  کے سب سے پہلے راجہ  یدو کو وراثت میں ملا تھا ،اس وقت اس کا نام 'چیدی دیش' رکھا گیا تھا۔ ہرش وردھن اور چندیلوں کی  یہاں سیکڑوں سالوں تک حکومت رہی۔ اِن تمام تر  خصوصیات میں سب سے نمایاں خصوصیت اِس کا مرکزی عرض و طول اور اِس کی قدیم سرحد ہے ۔جہاں سے پورے صوبہ تک رسائی بہت آسان ہے۔ آج اس شہرباندہ کےمشرق میں کروی،مغرب  میں مہوبہ اور ہمیرپور،شمال   میں فتح پور جب کہ جنوب  میں ایم پی کا ستنا ضلع، پناضلع وغیرہ  موجود  ہے۔  ساتھ ہی مذہبی رواداری کی بنا پر اس علاقے کوتب سے آج تک ایسا امن و امان حاصل  ہے جس کی مثال نہیں ملتی ۔  اسی امن و امان کے سبب    دور دراز سے صوفیاے عظام  یہاں آ  کر مقیم ہوئے۔  علاوہ ازیں  یہ علاقہ چوں  کہ دشوار گزار راہوں سے گزرتا ہوا  اور تپتے چٹیل   پہاڑوں سے گھرا ہوا  خشک  علاقہ تھا، اسی لیے شمالی ہند کے سیاست دانوں کی سیاست سے بھی  کما حقہ محفوظ   رہا [4] ۔ انہیں وجوہات کے پیش نظر ہمیشہ سے بزرگان دین کو پورے صوبہ میں تبلیغ دین کے لیے یہی جگہ ہموار رہی ہے ۔  اِن مقدس  اکابرین کے بے پناہ احسانات و حسنات سے یہ خطہ خشک سالی سے خوشحالی کی طرف گامزن ہوا۔

تقریباً  چار سو سال  قبل، بغداد شریف  کے اشجار  کی تصاویر، یہاں کین ندی کے کنارے پائے جانے والے پتھروں میں، قدرتی طور پر نمایاں ہوئی ۔ جو  اپنی بغدادی رنگت و روحانی اثر ات کے سبب قادری مشائخ کی انگوٹھیوں کی زینت بن کر، ان عربی النسب قادری مشائخ کے ذریعہ ”العقيق الشجری“ کے  نام سے اہل  عرب میں مشہور ہوئی ۔ بعض پتھروں میں تو راقم نے خود خانقاہ قادریہ بغداد شریف کا قدیم عکس ان پیڑوں کے بیچ میں بنا ہوا  دیکھا ہے۔ یہ پتھر اس علاقے کے علاوہ کہیں اور پایا جاتا  ہو، اس  کے شواہد نہیں ملتے۔    غوث اعظم الشیخ عبد القادر جیلانی کے ظہور سے قبل اس صوبہ میں سلسلہ جنیدیہ کے بھی شواہد ملے ہیں ۔علاوہ ازیں اس صوبہ  کے ایک شہر  چھترپور کے قصبہ ”ملہرا “   میں  آرام فرمانے والے قادری سلسلہ کے ایک ایسے  مشہور بزرگ حضرت سید  نظام الدین  سیاح  ؒکا  ذکر بھی ملا ہے؛ جو ١٧٥٠ ء میں بخارا سے  یہاں تشریف لائے تھے[5] ۔آپ کے  بعد  نائب غوث الاعظم سید منور علی شاہ قادری   (٤٩١ ھ تا١١٩١ ھ) کی[6]،اس شہر میں آمد سے، یہاں سلسلہ قادریہ کی بنیادمزید  مضبوط ہوئی۔  اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری    کی آمد کے بعد سلسلہ چشتیہ کے اولیاے کاملین و صاحبان طریقت کی آمد بھی یہاں کثرت سے  ہوئی ۔حالانکہ اس وقت  سید منور علی شاہ قادری  (٤٩١ ھ تا١١٩١ ھ)  اِس شہرکےقریب موجود الہ آباد کے جنگلوں میں منتقل ہو گئے تھے [7ابتدائی دور میں اس صوبہ میں  ہنود اور آتش پرستوں کا تسلط تھا، تب اسلام کی ترویج و اشاعت میں صوفیا کو بہت سی ظاہری تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔حالانہ یہاں کی زیادہ تر ریاستوں کی حکومتیں بدلتی بھی رہیں جس سے کُچھ آسانیاں بھی ہوئیں  ۔ان تمام ظاہری  وجوہات سے  قطع نظر کریں تو معلوم ہوگا کہ  یہ    ضلع   باندہ جغرافیائی  اعتبار سے خشک  چٹیل پہاڑوں سے گھرا  ہوا  پیچیدہ راہوں والا  تپتا ہوا علاقہ ہے، جو  اپنے محدود وسائل کی بنا پر ابتدا سے ہی  پس ماندہ رہا ہے۔ تاریخی اعتبار سے  بھی یہ علاقہ  دھندلکے میں رہا ہے [8]۔مگر جب  سکندر لودی نے آگرہ کو عارضی طور پر  اپنے دار السلطنت  کے لیے منتخب کیا تب جا کرحکمرانوں کی بندیل  کھنڈ کی طرف توجہ مبذول  ہوئی اور مغلیہ سلطنت کے قیام کے بعد، اس علاقے کے رابطے وسیع ہوئے ۔تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب کے ساتھ ساتھ تصوف و سلوک  کی جانب بھی توجہ  دی جانے لگی ۔ اورمغلیہ دور میں  تمام سلاسل   اربعہ کو  یہاں  فروغ ملا[9]۔  کالنجر کے قلعہ کی فتح کو  یہاں کی  تاریخی ثقافت میں ایک اہم مقام  حاصل ہے۔ اس وقت ابتداءً اسے فتح       کرنا  خیبر جیسا لگ رہا تھا، جس پر شیر شاہ سوری ، قطب الدین ایبک، اور مغل شہنشاہ ہمایوں  جیسے کئی جنگ جوؤں نے،   اپنے اپنے دور میں  زور آزمائی کی اور ناکام ہوئے۔مگر اللہ کے فضل و کرم سے  ١٠١٣ ء   میں اسے  محمود غزنوی کی قیادت میں مسلمانوں نے فتح کر لیا  ۔فتح کے اس باب کے کھل جانے کے بعد یہ قلعہ  شیر شاہ  سوری کے پاس بھی آیا ۔ یہ وہی دور تھا کہ جب خاص  طور پراس  مشہور فاتح شیر شاہ سوری نے حکومتی سطح پر  سلسلہ قادریہ کے خاص وظیفہ یعنی کلمہ طیبہ لکھے ہوئے سکوں کو یہاں پر  فروغ دیا۔  ساتھ ہی شیر شاہ سوری کا   اپنا ایک حکومتی توپ خانہ بھی  باندہ  کےاسی مشہور قلعہ  میں بن  گیا ۔ حالاں کہ  یہیں ایک حادثے میں شیر شاہ  سوری کی اسی کالنجر  کے قلعہ میں موت ہو گئی۔ اس لیے اس  قلع کی تاریخی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ۔اس  قلع کے قرب و جوار  کے مقامات کا تفصیلی ذکر مشہور مورخ و سیاح ابو  الریحان   البیرونی نےپہلے ہی کر دیا تھا جس کی وجہ سے یہاں کی تاریخی اہمیت پہلے سے ہی تھی   [10]۔شیر شاہ  کے  دور حکومت میں اور اس کے  بعد بھی    سلسلہ   قادریہ  کے فروغ کے  اسباب  میں کمی نہیں آئ، بلکہ دوبارہ ہند میں ہمایوں کی قیادت میں مغلیہ سلطنت کے قیام کے بعد، اس علاقے کے روابط مزید وسیع ہوتے چلے گئے ؛جس سے سلسلہ   قادریہ کے شیوخ    کو بہت تسکین حاصل ہوئی۔  اس سے پہلے  یہاں منگول، بندیل اور مراٹھا وغیرہ کی حکومتیں بھی قائم ہوئیں تھیں [11]، جن کے سبب کُچھ اور پریشانیاں در پیش آئیں تھیں۔ الحاصل یہ کہ مسلمان حکمران اِس علاقے میں بہت کم ہوئے اور جو ہوئے بھی وہ ہنود کے ساتھ صلح کل میں حد درجہ تجاوز کرنے والے تھے، اسی وجہ سے یہاں دین اسلام کے فروغ کے لیے ذرائع بہت محدود تھے۔مگر رب کے فضل سے کچھ ہی وقت میں یہ صوبہ بندیل کھنڈ  تصوف کا مرکز بن گیا ۔جس کی گواہ یہاں کی قدیم مساجد ہیں، بالخصوص نوابی جامع مسجد اپنے قیام سے ہی چاروں سلاسل حق کا تبلیغی مسکن رہی ہے ۔ خاص طور پر سلسلہ قادریہ کے اکابرین امت کا خاص آستانہ ہونے کا شرف، اسی نوابی جامع مسجد  کو حاصل ہے۔ جس کے تاریخی شواہد آثار قدیمہ میں بھی ملتے ہیں اور اس کے متعلق چند بوسیدہ خطوط راقم کے پاس بھی محفوظ ہیں [12]۔  مرشد برحق علی شاہ قادری پانی پتی  نے، اپنے جانشین حضرت مخدوم داتا گلزار شاہ  قادری المعروف خواجہ  حسن    کو یہاں بھیجا ۔ بعد میں گلبرگہ شریف  سے سلسلہ قادریہ کے بڑے شیخ  حضرت علاءالحق  قادری نے، حضرت کفایت اللہ شاہ چشتی قادری   کو  اپنا  ”ضیاء الحق“  بنا کر اور جا نشینی  دے دی    اور  باندہ  شہر کی ذمےداری بھی  عطا کی۔   آپ نے بھی شیخ    کی دی ہوئی ذمے داری  کا حق  بخوبی   ادا کیا، جس میں آپ کے مرشد   قاری سید برخوردار علی رضوی صابری چشتی   ہر قدم  پر مشعل راہ رہے۔  قاری صاحب کی سرپرستی میں  آپ  کے ذریعے کرناٹک اور مہاراشٹر تک سلسلہ قادریہ کی روشنی پھیلی۔ آج بھی ہند و پاک میں آپ کے بے شمار مریدین ہیں، بالخصوص مہاراشٹر میں آپ کے وابستگان کی بڑی تعداد ہے۔  آپ نے پہلے  اپنے مخدوم زا دے  حضرت سید قاسم علی شاہ   کو اور بعد میں  سید مسعود   کو   سلسلہ قادریہ  کی ذمےداریاں عطا  کر دیں اور داعئی اجل کو لبیک کہا۔   آپ کی کاوشوں سے ہی، یہ سلاسل اہل سنت کے علامتی نشان کے طور پر، وجود میں آئے۔شیخ  احسان الحق چشتی جیسے اکابرین وقت کا یہاں مسلسل آنا جانا   رہا،  جن کے ذریعہ منشی فیض بخش چشتی جیسے یہاں کے  سیکڑوں  مشائخ  کو   بلندیاں حاصل ہوئیں۔فاتح بندیل کھنڈ سید پیر مبارک علی، اُن کے بعد ان کے حقیقی نائب سید معین الدین سہروردی  نے اس علاقے میں تعلیمات تصوف کو جاری کیا اور  اکابرین کالپی شریف کے ساتھ مل کر، سلسلہ قادریہ کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم تب سب نے دیکھا جب مراٹھا باجی راؤ(١٨٤٠  ء تا ١٦٩٩ ء)کے پسر اور پسر زادے دونوں کے دل اسلام کے لیے نرم ہوئے اور کیوں نہ ہوں ، باجی راؤکی مستانی بیگم  تصوف کی خاصی دیوانی  تھی۔  اسی لیے ان صوفیاے عزام  کی  تبلیغ میں، مستانی  بیگم کے   فرزند ذوالفقار علی نہ صرف  مددگار  ثابت ہوئے بلکہ اپنے لخت جگر  علی بہادر   المعروف نواب باندہ ثانی  کو، ان مشائخ قادریہ بالخصوص اپنے استاد و مرشد حضرت علامہ  سید دائم علی رحمۃ اللہ علیہ کی نگرانی میں،  حافظ قرآن بنا دیا۔  یہ حافظ بچہ جب تخت پر بیٹھا تو اپنے  دور حکومت میں کالپی اور باندہ کی دونوں ریاستوں کی کمان سنبھالی اور ان علاقوں کے اکابرین قادریہ کو   ظاہری اسباب مہیا کروائے ۔ان  اسباب کی موجودگی سے اس    دور میں، سلسلہ قادریہ کے اکابرین کا اقبال مزید  بلند ہوا۔ان تمام اکابرین کی کوششوں سے سلسلہ  چشتیہ کے بزرگانِ دین و داعیان حق کو سلسلہ قادریہ کی اجازت و خلافت عطا کی گئی اور انھوں نے بھی ان قادری اکابرین کو اجازتیں و خلافتیں عطا کیں، جس کی  وجہ سے سب آپس میں شیر و شکر ہو کر دین متین کی اشاعت میں لگ گئے۔ اور تجدید سلسلہ قادریہ نیےاندازمیں عمل میں آ گئی۔ آگرہ سے حضرت ابوالعلی قدس سرہ ،  جالون کے ایرچ سےسیدنا ابراہیم ایرچی   (المتوفی١٥٤٦)،  کالپی سے میرسید محمد کالپوی (١٥٩٧ ء  تا١٦٦١ ء)  وسید احمد کالپوی  جبکہ الہٰ آباد سے  شیخ محمد افضل الہ آبادی اور گوالیر سے سید جمال محمد گوالیری جیسے اجلہ اکابرین  نے؛ اپنے اپنے دور میں قادری تصوف و سلوک کو فروغ دے کر دین متین کو مزید تقویت بخشی۔ علاوہ ازیں  جب سفر حج کے دوران نواسۂ شاہ ولی الله محدث دہلوی اور جانشین شاہ عبد العزیز محدث دہلوی  الشاہ اسحاق دہلوی  [13]  کا اس شہر میں کچھ وقت قیام ہوا تو نواب باندہ کے اصرار  پر، شاہ صاحب کے حکم سے، آپ کے جانشین قاری عبد الرحمٰن محدّث پانی پتی    (ولادت ١٢٢٤ ھ  -وصال ١٣١٥ھ)نے بغرض تبلیغ دین  یہاں بانده میں سولہ سال قیام فرما کر، اِس کو سلسلہ قادریہ کا مسکن بنا دیا۔ ساتھ ہی دیگر سلاسل کو بالعموم اور  سلسلہ مجدّدیہ اسحاقیہ کو بالخصوص فروغ دیا[14]۔

  محدّث پانی پتی کے علاوہ  عبد الحلیم    صاحب  نے بھی یہاں قیام فرمایا اور نواب صاحب کے  مدرسے   کی مسند تدریس کو بھی  زینت بخشی ۔  آ پ کے شہر باندہ میں قیام کے دوران ہی،  فخر المتاخرین  ابوالحسنات محمد عبد الحی فرنگی محلی کی ولادت با سعادت  بتاریخ  ٢٧ذی الحجہ ١٢٦٤ ھ کو ہوئی ۔ایک طویل مدت گزرنے کے بعد نائب غوث سید منور علی شاہ نے، اپنے وصال سے قبل، اپنے عزیز خلیفہ حضور مجاہد ملت مفتی حبیب الرحمٰن عباسی کے ساتھ، یہاں کا دورہ کیا اور وقت کے اکابرین کو سلسلہ کی چند ذمےداریاں عطا کر کے واپس الہ آباد چلے گئے۔ مجاہد ملت مفتی حبیب الرحمن عباسی    اور قاری عبد الرحمٰن محدّث پانی پتی   جیسے قد آور قادری مشائخ کے حکم پر وقت کے  تمام اکابرین نے لبیک کہا۔

 اس زمانے میں قاری عبد الرحمٰن  محدّث پانی پتی کے وصال کے بعد آپ کے خلیفہ خاص سرکار ربانی   سید عبد الرب قادری  کی ذات ہر عام و خاص میں بہت مقبول ہوئی،  کوں کہ  ان کے  آباء کے مریدین بھی  اس علاقے میں کثرت سے تھے۔ ان ظاہری وجوہات کی بناء پر  اس علاقے میں  آپ کے نام پر ہی سلسلہ ربانیہ  کے نام سے، سلسلہ قادریہ کی ذیلی شاخ وجود میں آئ اور آپ کی اولادوں کے ذریعہ یہاں جامعہ ربانیہ  سلسلۂ قادریہ کا مسکن ثانی  بنا اور متعدد اکابرین ومشائخ قادریہ یہاں تشریف لائے۔جن میں حضور مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضا خان بریلوی،حافظ ملت  محدث مبارکپوری، برہان الحق جبل پوری ، مفتی رفاقت حسین رضوی ، تاج الشریعہ علامہ اختر رضاخان ازہری ، محدث کبیر علامہ ضیا المصطفیٰ امجدی ، خواجہ نظام الدین قادری بدایونی ، بلبل ہند مفتی رجب علی نانپاروی، قائد اہل سنت علامہ ارشد القادری ،سید مظفر حسین اشرفی کچھوچھوی، خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی ، شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی،علامہ سید حامد اشرف اشرفی ، بانی دار القلم    مفتی یٰسین اختر مصباحی ، محقق عصر مفتی نظام الدین سابق پرنسپل الجامعہ اشرفیہ، اشرف  الفقہا علامہ مجیب اشرف،علامہ رفیق الحسن چشتی صمدی پھپھوندوی وغیرہم  جیسے متعدد نام  درج ہیں  [15]  ۔

علاوہ ازیں  آپ کے وطن ثانی جبل پور کے دیگر  مشائخ قادریہ میں بالخصوص  مولانا عبد السلام جبل پوری  کے خاندان کے بھی یہاں اچھے خاصے مرید ین تھے، اور ان دونوں جماعتوں کا حلقہ پورے بنڈیل کھنڈ میں پھیلا تھا۔اس لیے ضروری ہوا کہ ان دونوں حلقوں پر مشتمل بڑی جماعت پر کام کیا جائے اور ان کو اودھ اور اڑیسہ میں کار فرما مسلمانوں اور اُن کے تعلیمی، تحریکی ، تدریسی  و تربیتی نظام سے جوڑا جائے؛ جس کے لیے اڑیسہ کے اس مجاہد مفتی حبیب الرحمن نے اپنے نائب کے طور پر قاری عبد الرب مراد آبادی  کو پیش کیا۔ساتھ ہی اس   خطہ کے قریب 'بندکی'  ضلع فتحپور میں پیدا ہونے والے  مولانا عبد السلام فتحپوری   کی بھی اس فکر میں آمد ہو گئی، جنہوں نے سلسلہ قادریہ کو نہ صرف اودھ سے  نیپال  تک بلکہ ہند سے  مدینہ منورہ تک جوڑ کر، دائرے کو مزید وسیع کر دیا ۔

المختصر سرکار ربانی سید عبد الرب محدث باندوی، ناصر الاسلام  سید عبد السلام باندوی اور عید الاسلام عبد السلام جبل پوری کے خاندان سے وابستہ قادری اکابرین، مریدین و متوسلین کا حلقہ ویسے ہی پورے بندیل کھنڈ میں پھیلا تھا، جو تب سے اب تک اسی طرح قائم ہے۔ اور پھر زمانہ قریب میں اس سر زمین میں پیدا ہونے والے قمرِ رضا عبد السلام فتح پوری نے کانپور ، اودھ، نیپال ، روہیل کھند اور عرب ممالک تک اپنی رعنائیان بکھیرکر سلسلہ قادریہ کو مضبوط کیا۔اور آخر میں تحریک خاکساران حق کے ذریعہ سلسلہ قادریہ کی ذیلی شاخوں؛ جیسے رضویہ حامدیہ، معمریہ منوریہ وغیرہم کے فروغ کے لیے؛ نائب مجاہد ملت عبد الرب مرادآبادی کا اس صوبہ کے مرکزی شہر باندہ سے رشتۂ عقد  جڑ جانے کے سبب، پنجتنی نسبت پوری ہو گئی۔یعنی اپنے اپنے دور میں ان پانچ حضرات کی نمایاں شناخت قائم ہوئی اور آج بھی قائم ہے۔ مذکورہ وجوہات و اسباب کے پیش نظر اِس صوبہ میں ان پانچ ہمنام قادری اکابرین کے نام آج بھی ہر خاص و عام کی زبانوں پر ہیں۔ مگر نام ایک جیسے ہونے کی وجہ سے عام حضرات بالخصوص نوجوان تشویش کا شکار ہوئے اور اسی کی وجہ سے ان اسکالر حضرات کے اصرار پر مذکورہ، پنج گنج سلسلہ قادریہ کا مختصر تعارف مع احوال لکھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔

مولانا عبد السلام قادری جبل پوری(المعروف عید الاسلام)

آپ کی ولادت ٦ / جمادی الاول 1283ھ مطابق١٩ / ستمبر ١٨٦٦  ء  میں حیدر آباد میں ہوئی اور تین سال کی عمر میں والد کے ساتھ   نقل مکانی کر کے ایم پی کے شہر جبل پور  تشریف لائے،اور یہاں رہ کر تقریبا ١٤ برس کی عمر میں حافظ قرآن ہو گئے[16] ، ابتدائی تعلیم والد بزرگوار سے حاصل کرنے کے بعد ندوہ لکھنؤ کا رخ کیا اور وہاں کے فتنے کا انکشاف کر کے ندوہ سے اختلاف  کیا اور امام اہل سنت  اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا کے  تحریری  موقف پر دستخت کر کے اسے   مولانا شبلی کے ہاتھ پر رکھ کر  واپس ہوئے اور اپنے والد کے حکم پر بریلی شریف پہنچے [17] ، آپ کے والد ماجد علامہ محمد عبد الکریم صاحب سے امام اہل سنت کے علمی و قلمی روابط پہلے سے  تھے، جس کی وجہ سے والد بزرگوار نے امام اہل سنت  اعلیٰ حضرت  مولانا شاہ احمد رضا خان    کو خط لکھ کر  آپ کو تعلیم و تربیت کے لیےامام اہل سنت    کے  ہی سپرد کر دیا[18]  اور آپ نے بھی خوب دل لگا  امام اہل سنت   کے خلف اکبر مولانا حامد رضا خان صاحب کے ساتھ  تعلیم حاصل کی اور  یہاں رہ کر بے شمار قائدانہ خدمات  سر انجام  دیں۔ اسی وجہ سے آپ کا شمار امام اہل سنت  اعلیٰ حضرت  مولانا شاہ احمد رضا خان  کے عظیم جانشینوں میں ہوتا ہے۔ یہی نہیں آپ کے شہزادے عبدالباقی المعروف برہان الحق  جبل پوری کو بھی امام اہل سنت    سے خلافت و اجازت حاصل ہے۔امام اہل سنت  اعلیٰ حضرت  مولانا شاہ احمد رضا خان   کے وصال کے بعد آپ کی اولادامجاد کو بھی شہزادگان امام اہل سنت  اعلیٰ حضرت  مولانا شاہ احمد رضا خان    سے وہی نسبت تسلسل کے ساتھ  ہے، اور آج بھی اس میں وہ خلوص ہے کہ جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔آپ کے والد بزرگوار کے وصال پر تعزیتی خط ہو یا آپ کی اہلیہ کے وصال پرملال پر لکھا تعزیتی خط ہو یا پھر عام خطوط یہ سب اِن روابط کی ایک کہانی بیان کر کے ہم غلامانِ اہل سنت کو آبدیدہ کرتے ہیں۔کیونکہ اسی شہر جبلور میں ہی میری خالہ کا گھر ہے۔ اسی  لیے خالو اور ان کے بیٹے کے ساتھ عہد طفلی میں کئی بار اس بارگاہ میں حاضری نصیب ہوئی اور ایک بار مذکورہ خطوط کو دیکھنے کا موقع بھی ملا ہے[19] ، آپ  عہد طفلی سے ہی اپنے والد کے ساتھ ہمارے شہر باندہ  آتے تھے۔آپ نے بھی اسی شہر کو سلسلہ قادریہ کی ترویج و اشاعت کا مرکز بنایا۔شہر باندہ  کے محلہ علی گنج  میں آج بھی بہت سے عوام و خواص  آپ کے   پسر زادوں سے ہی مرید ہیں،  آپ کی بیش بہا خدمات کی وجہ سے، امام اہل سنت  اعلیٰ حضرت،     آپ کی ذہنیت و قابلیت کے معترف تھے اور آپ کے  قلب باطنی کو دیکھ کر ان کو  دیار ”سی پی “   کا قطب فرماتے تھے۔یہ محبتیں لفظوں میں بیان نہیں کی جا سکتیں۔مختصر یہ کہ امام اہل سنت  اعلیٰ حضرت  نے، نہ صرف  ٣/ ذی قعدہ ١٣١٣ ھ  کے دن خود  جبل پور آکر آپ کی دستار بندی کی بلکہ مجمع کثیر میں آپ کو عید الاسلام کے لقب سے بھی سرفراز فرمایا۔امام اہل سنت    سے رابطہ اتنامضبوط تھاکہ آپ کو اسی مجمع میں روحانی پسر کہہ کر طویل معانقہ کیا اور بعدہ اپنے ہاتھوں سے عربی میں خلافت و اجازت لکھ کر عطا کی، اور ایسا ہی معامہ آپ کےشہزادے  کےساتھ کیا۔ اسی خلوص کے  ساتھ آپ بھی امام اہل سنت   سے ایسی ہی محبت کرتے  تھے۔مسلک اعلیٰ حضرت   کے فروغ کے لیے آپ نے کئی بار  راقم کے آبائی شہر باندہ کا دورہ بھی کیا ہے ۔ آپ کا وصال 14 جمادی الاول 1371ھ  مطابق فروری ١٥٢٢ ء کو جبل پور میں ہوا ، یہیں آپ کا مزار مبارک ہے[20]۔

شیخ المشائخ سید عبد الرب قادری(المعروف سرکار ربانی )

عہد طفلی میں راقم سرکار ربانی سے ٹھیک سے واقف نہیں تھا مگر علی الصبح  شہر قاضی سید معراج مسعودی صاحب المعروف عقیل میاں کی زبان سے ایک مناجات سنتا تھا:

زندگی کا بھروسا نہیں مومنوں

جتنا ممکن ہو ذکر خدا کیجیے

ساتھ اپنے نہ جائے گا دنیا سے کچھ

اس کی اُلفت سے دل کو جدا کیجیے

اِس دل کش انداز میں اتنا جامع کلام سن کر دل میں تشویش ہوئی اور تلاش کرنے پر یہ کلام فردوس تخیل میں ص- ۵۳ پر پایا، تب معلوم ہوا کہ یہ کلام تو سید محمد مقصود المعروف سید غازی ربانی چھوٹے حضرت کا ہے؛ جن  کے بارے میں مزید جاننے کا تجسس ہوا تو سرکار ربانی تک پہنچا۔یہاں  وہی معلومات نقل  کرنے  کی سعادت حاصل کررہا ہوں ۔آپ کو اہل سلسلہ اعلیٰ حضرت   کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔شیخ المشایخ   اعلیٰ حضرت سید عبد الرب المعروف سرکار ربانی کی ولادت با سعادت ١٢٩٣ ھ مطابق ١٨٧٦ ء  کو ٹیکم گڑھ میں ، اس وقت ہوئی جب آپ کے والد ماجد   قطب عالم الشاہ  جناب امانت علی قادری رحمانی  بسلسلہ سیاحت و تبلیغ شہر باندہ سے قریب  ٹیکم گڑھ میں مقیم تھے[21]  ۔  آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ وزیر النسا ایک عابدہ زاہدہ خاتوں تھیں ۔ آپ حسینی سادات میں سے ہیں اور آپ کا سلسلہ نسب ٣٢ واسطوں سے  سید الشہدا سیدنا امام حسین﷜ کے ذریعہ آقا کریم حضور اکرم صل اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔آپ کے اجداد سب سے پہلے باندہ کے قریب ہسوہ گاؤں (جو ضلع فتحپور  میں آتا ہے) میں  آ کر مقیم ہوئے تھے اور بعد میں ضلع باندہ  کو اپنا مستقل  وطن بنا لیا ۔آپ کی تعلیم و تربیت اپنے والد کے سایۂ عاطفت میں ہوئی، ابتدائی تعلیم کی تکمیل کے بعد  آپ   کے والد بزرگوار نے اعلیٰ تعلیم و روحانی فیض کے لیے   آپ کو  اپنے ہی پیر و مرشد و استادحضرت  علامہ شاہ عبد الرحمن محدث پانی پتی (ولادت ١٢٢٤ ھ و وصال ١٣١٥ ھ)کے سپرد کر دیا[22]،  جن سے آپ کو تمام علوم متداولہ  حاصل ہوئے۔ ساتھ ہی آپ کو  ناگپور میں حضرت بابا تاج الدین ﷬ اور آگرہ میں حضرت ابوالعلی قدس سرہ  کی خدمت میں رہنے کا اور  جام  معرفت و سلوک  نوش کرنے کا  خصوصی شرف بارہا حاصل ہوتا رہا ۔   ان ظاہری  وباطنی علوم کی تکمیل کے بعد  آپ کو  آپکے شیخ نے سلسلہ قادریہ کی خلافت و اجازت عطا  کر کےصوبہ  بندل کھنڈ میں  سلسلہ کی ترویج و اشاعت کی ذمے داری سونپ دی۔ والد ماجد نے تقریباً ٢٠  برس  کی عمر میں  آپ کا عقد مسنون جناب سید وزیر علی صاحب ساکن  محلہ دریاہی جبل پور کی دختر نیک اختر سے  کر دیا،  جو نجیب الطرفین سادات میں سے تھیں ۔ آپ کے عقد کی تاریخ ١٩ جمادی الثانی ١٣١٣  ھ  لکھی ہے ۔ اس کے بعد آپ نے  جبل پور کو اپنا وطن ثانی بنایا اور اس شہر کے علاقے ”چھوٹے  میاں کی تلیا “ میں رہائش پزیر  ہوئے ۔  گھریلو ذمےداریوں  کے  علاوہ والد ماجد کے ساتھ متعدد تبلیغی و تعلیمی دورےبھی  ہونے  لگے[23] ،آپ کو نہ صرف نعتیہ شعر و سخن میں بلکہ   خطابت میں بھی اچھا ملکہ حاصل تھا ۔ جو بھی آپ کا خطاب سنتا تھا بس گرویدہ ہو جاتا۔  والد ماجد کے حکم سے بیعت و ارشاد کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ، تبلیغ کے صفر کی ابتداء میں تو آپ نے بہت مشقتیں برداشت کیں مگر  وقت کے ساتھ ساتھ  آپ کی مقبولیت بڑھتی گئی ۔ اب تبلیغی اسفار کے دوران نہ صرف عوام  کوبلکہ  حیدرآباد اور بھوپال کے نوابوں جیسی خاص شخصیتوں کو بھی آپ کی مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوتا۔لوگ جوق در جوق آپ کے حلقہ میں داخل ہوتے چلے گئے اور آپ کا یہ حلقہ سلسلہ قادریہ کی ذیلی شاخ کے طور پر نہ صرف اس علاقے میں بلکہ کل عالم میں نمایا  ں ہو گیا ۔  آپ اپنے والد سے تمام عملیات ، اوراد و وظائف کی اجازت لے کر انہیں کے نقش قدم پر خدمت خلق میں مشغول ہو گئے  اور والد بزرگوار نے  جب تلقین فرمائی کہ ”  عملیات کی چلہ کشی میں زیادہ انہماک نہ بڑھاؤ ، جتنا تم نے سیکھ لیا ہے وہ عمر بھر کے لیے کافی ہے “ ۔   تواس ارشاد با برکت کو سن کر آپ  نے عملیات کی چلہ کشی سے بے نیاز ہو کر غریبوں مسکینوں کی امداد و  دین متین کی اشاعت  و تبلیغ میں خود کو وقف کر دیا [24]،   کالپی شریف کے شفاء الہند حکیم  ڈاکٹرسید امراؤ علی صاحب  ہاشمی اور ان کا پورا خاندان آپ ہی سے مرید تھا ۔ ایک تو ١٩٤٧ء میں بھائی سے جدائی کا غم  اوردوسرے  ١٩٥٦ء  کے فسادات جس میں آپ کا مکان بھی  جلاتھا ،   ان دونوں سانحوں سے آپ کا دل کافی متاثر ہوا،  جس کی وجہ سے آپ   جبل پور کو خیر آباد کہ کر مع اہل عیال اپنے آبائی وطن باندہ تشریف لے آئے، اور اپنے آبائی    محلہ بنگالی پورہ   میں ہی ایک مکان خرید کر  متوطن ہوئے ۔ پھر دو سال بعد  حسب ضرورت  محلہ علی گنج میں  ایک وسیع و عریض  مکان خرید کر اس میں منتقل ہوئے جو آج آستانہ ربانی کے نام سے مشہور ہے ۔ بتاریخ ١٠ جمادی الثانی ١٣٧٨ ھ مطابق ١٩٥٨ ء کو ٹھیک ڈیڑھ بجے دن میں ،   راقم کے دادا جان کے بھائی   جناب   حافظ الہی بخش صاحب  مرحوم سے  سورہ یٰسین  کی  تلاوت سنتے ہوئے،   اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ۔ آپ نے کل ٨٥ برس کی عمر پائی[25]   ، شہر باندہ کے مرکزی  و قدیم عید گاہ کے احاطے میں آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے ۔ راقم  عہد طفلی میں جب تک  اس شہر میں رہا  تب تک   عید الفطر کے موقع پر یہاں مستقل حاضر ہوتا رہا ۔

سید عبد السلام  قادری باندوی(المعروف ناصر الاسلام) :

آپ کی ولادت باسعادت 1323 ھ مطابق 1905ء میں ہمارے شہر باندہ میں ہوئی۔ راقم کی خوش نصیبی ہےکہ آپ کا وہ کمرہ دیکھ چکا ہے جہاں آپ پیدا ہوئے۔آپ حسینی سادات میں سے ہیں اور اپ کا سلسلہ نسب ٣٢ واسطوں سے  سید الشہدا سیدنا امام حسین کے ذریعہ آقا کریم حضور اکرم صل اللہ الہ وسلم سے مل جاتا ہے [26] ۔ آپ کے والد بزرگوار قطب عالم سید امانت علی شاہ قادری رحمانی ہیں اور آپ کےبرادراکبر سلسلہ قادریہ ربانیہ کے بانی  و شیخ سید عبد الرب محدث باندوی المعروف سرکار ربانی  ہیں، جن سے آپ کو سلسلہ قادریہ ربانیہ کی خلافت و اجازت حاصل  ہے  ۔ اِس علمی اور روحانی گھرانے میں تعلیم و تربیت کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم کے لیے اہل سنت کے مرکزی ادارے جامعہ نعیمیہ مرادآباد کا رخ  کیا۔ اور پھر غیر متوقع ماحول میں راقم السطور کے خاندان کے چند افراد کے ساتھ تقسیم ہند کے وقت اگست 1947ء میں پاکستان کا رخ  کیا۔وہاں پہنچ کر جمیعۃ العلما کے نائب صدر منتخب ہوئے اور مولاناعبدالحامد بدایونی  رحمہ اللہ  کی صدارت میں  وقت کی ضرورت کے مطابق اُمت مسلمہ کے ملی و دینی معاملات میں قیادت کے فرائض انجام دینے لگے۔ساتھ ہی اپنےوالد بزرگوارکے نام سےمنسوب تنظیم امانت الاسلام کی بنیادڈالی اور بہت کام کیا[27]  ۔ آپ اپنی باصلاحیت علمی و روحانی قیادت کی بنا پر ناصر الاسلام کے لقب سے مشہور ہوئے۔معتدد کتب تصنیف فرمائیں، سیکڑوں رسائل و جرائد شائع کیے  اور کئی کتب پر آپ کی تقریظات بھی موجود  ہیں ۔ خاص طور پر علامہ شفیع اوکاڑوی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ کتاب ذکر جمیل پر  لکھے ہوئے آپ کے  تین تاریخی قطعات وقت کے اہل علم میں بہت مقبول ہوئے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد سے کافی عرصہ تک آپ  یہاں کی مرکزی جامع مسجد نیو میمن (بولٹن مارکیٹ) کے پہلے خطیب کی حیثیت سے رہے، اور  اپنے خطاب سے  ہر دلعزیز رہے۔ خاص طور پر مسجد کے سامنے سنیما کی بنیاد رکھے جانے پر، جمعہ کا جو احتجاجی  خطاب  تھا   اس کو اہل علم میں ایک اہم  تاریخی خطاب ہونے کا شرف حاصل ہے [28]۔یہی وجہ ہے کہ علامہ شفیع اوکاڑوی   جو خود ماہر خطابت تھے۔آپکا خطاب نہ صرف پسند فرماتے بلکہ اُسے سننے کا خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔صرف خطابت ہی نہیں  آپ کا قلم بھی  احقاق حق و ابطال باطل کی شمشیر بے نیام  تھا۔

 آپ نے تحریک ختم نبوت میں  علمائے اہل سنت کے ساتھ کلیدی   کردار ادا کیا  ۔ آپ کا  بارہ صفحات پر مشتمل مقالہ احتساب قادیانیت   میں، تحریک ختم نبوت  کی جانب سے   شائع ہونے والا  ایک تاریخی مقالہ ہے، جس کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے قادیانیوں کو نہ صرف کافر قرار دیا بلکہ ان کے باطل عقائد و گمراہ کن نظریات  کی ایسی  بیخ      کنی   کی  کہ  عوام و خواص سب قادیانیت کے خلاف متحد و منظم    ہو   گئے  [29] ،آپ کے خاندان کو تسلسل کےساتھ صدر الافاضل سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ سے خاص نسبت تھی اور صدر الافاضل  بھی آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے ۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved