1 June, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May 2024 Download:Click Here Views: 56565 Downloads: 1167

(8)-سیدہ زینب بنت نبی رحمت ﷺ

مفتی محمد اعظم ، مبارک پور

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنت رسول کریم ﷺ بعثت نبوی سے دس سال پہلے مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں ۔ یعنی ۳۰؍میلا د نبوی میں آپ کی ولادت ہوئی ۔

سلسلۂ نسب: سیدہ زینب رضی اللہ عنہا بنت محمد رسول اللہ بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم ۔

والدہ کی جانب سے سلسلۂ نسب:

سیدہ زینب ﷝ بنت خدیجہ الکبری بنت خویلد بن اسد بن عبدالعزی بن قصی ۔

نکاح: حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادی بعثت نبوی سے پہلے ہی کم سنی میں ہو گئی تھی ۔دس سال کی عمر میں ان کے خالہ زاد بھائی ابو العاص رضی اللہ عنہ ( لقيط ) بن ربیع سے ہوئی ۔

حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے خالہ زاد بھائی تھے ۔ وہ ام المؤمنین سیدہ خدیجتہ الکبری رضی اللہ عنہا کی حقیقی بہن ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔

حضرت خدیجہ ﷝ اپنے بھانجے ابو العاص کو بیٹے کی طرح عزیز رکھتی تھیں ۔ سب سے پہلے سیدہ زینب ﷝ کا رشتہ ابو العاص نے طلب کیا۔ انھوں نے اپنی خالہ سے اس خواہش کا اظہار کیا۔ انھوں نے یہ بات نبی مکرم ﷺ کو بتائی اور ابو العاص نے خود آ کر بھی حضور سید عالم ﷺ سے گزارش کی۔ آپ نے   فرمایا کہ یہ بہترین رشتہ اور جوڑا ہے لیکن میری بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کی مرضی بھی معلوم ہونی چاہیے۔ چنانچہ سیدہ زینب ﷝ کی مرضی کے مطابق حضرت ابو العاص کو رسول اللہ ﷺ کی دامادی کا شرف حاصل ہو گیا۔

قبول اسلام: جب سید عالم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اور اسلام کی دعوت دی تو سیدہ زینب ﷝ فوراً مسلمان ہو گئیں۔ اس وقت ان کے شوہر ابو العاص تجارت کی غرض سے مکے سے باہر گئے ہوئے تھے۔

انھوں نے دوران سفر ہی رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے بارے میں خبریں سن لیں تھی۔ مکہ آ کر تصدیق ہو گئی ۔ سیدہ زینب ﷝ نے کہا کہ میں نے بھی اسلام قبول کر لیا ہے تو وہ شش و پنج میں پڑ گئے ۔ انھوں نے کہا، اے زینب !کیا تم نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر میں آپ ﷺ پر ایمان نہ لایا تو پھر کیا ہوگا۔ سید زینب ﷝ نے جواب دیا، میں اپنے صادق اور امین باپ کو کیسے جھٹلا سکتی ہوں؟ خدا کی قسم وہ سچے ہیں اور پھر میری ماں اور بہنیں اور علی رضی اللہ عنہ بن ابو طالب اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اور تمہاری قوم میں عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان اور تمہارے ماموں زاد بھائی زبیر بن العوام بھی ایمان لے آئے ہیں اور میرا خیال نہیں ہے کہ تم میرے باپ کو جھٹلاؤ گے  اور ان کی نبوت پر ایمان نہیں لاؤ گے۔ ابو العاص نے کہا کہ مجھے تمہارے والد پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور نہ میں ان کو جھٹلاتا ہوں۔ بلکہ مجھے تو اس سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے طریقے پر چلوں۔ لیکن میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ قوم مجھ پر الزام لگائے گی اور کہے گی کہ میں نے بیوی کی خاطر اپنے آباؤ اجداد کے دین کو چھوڑ دیا۔ چنانچہ انھوں نے اس وقت اسلام قبول نہ کیا۔

کفار مکہ نے مسلمان پر مظالم ڈھائے ۔ حضور ﷺ کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم ﷟ ابولہب  کے دو بیٹوں سے بیاہی ہوئی تھیں مگر رخصتی ابھی نہیں ہوئی تھی۔  دونوں بیٹیوں نے باپ کے کہنے پر دونوں صاحبزادیوں کو طلاق دے دی۔ کفار نے ابو العاص کو بھی بہت اکسایا کہ وہ زینب ﷝ کو طلاق دے دیں۔ لیکن انھوں نے صاف انکار کر دیا۔ اور حضرت زینب ﷝ سے ہمیشہ اچھا سلوک کرتے رہے۔

کفار مکہ نے ابو العاص سے کہا : تم رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی کو طلاق دے دو اور قریش سے جولڑ کی تم پسند کرو ہم اس کے ساتھ تمھارا نکاح کر دیں گے۔ لیکن ابو العاص نے صاف انکار کر دیا اور کہا، خدا کی قسم زینب ﷝ کے عوض مجھے کسی بھی عورت کی ضرورت نہیں اور نہ میں زینب ﷝ کو اپنے سے جدا کر سکتا ہوں۔

ابو العاص رضی اللہ عنہ نے اپنا آبائی مذہب ترک نہ کیا۔ آخر حضور اقدس ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے ۔ حضرت زینب ﷝ ان دنوں اپنے سرال میں تھیں ۔ انھوں نے حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ اور سیدہ زینب ﷝ کو ہجرت نہ کرنے دی۔

شعب ابی طالب اور سیدہ زینب: قریش نے مسلمانوں پر ظلم و ستم شروع کر دیئے جس میں بنو ہاشم کا بائیکاٹ بھی شامل تھا۔اس طرح سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو رسول اللہ ﷺ  اپنی والدہ اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ شعب ابی طالب میں آزمائش کے تین سال گزارنے پڑے۔ ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ﷝ شعب ابی طالب کے واقعے کے بعد انتقال فرما گئیں۔

حضرت خدیجہ کا ہار: سیدہ زینب ﷝ کی بہنیں رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ ???? حضور کے حکم سے مدینہ ہجرت کر گئیں۔ اس طرح آپ اپنے شوہر کے گھر میں مکہ میں رہ گئیں ۔

رمضان المبارک ۲ ہجری میں حق و باطل کے درمیان پہلا معرکہ بدر کے مقام پر ہوا جس میں مسلمان فتح مند ہوئے ۔ بہت سے مشرک مسلمانوں کے ہاتھ گرفتار ہوئے۔ ان میں حضرت ابو العاص ﷛ بھی تھے ۔ حضرت ابو العاص﷛ اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ انھوں نے اپنے عزیزوں کی رہائی کے لیے رسول اللہ ﷺ  کی خدمت میں زر فدیہ بھیجا تا کہ اس کے بدلے میں قیدی چھوڑ دیئے جائیں۔

سیدہ زینب نے سرکار کی بارگاہ میں میں حضرت ابو العاص کی رہائی کے لیے ان کے بھائی عمرو بن ربیع کے ہاتھ یمنی عقیق کا ایک ہار بھیجا۔ ان کے خیال میں اس وقت اس سے قیمتی چیز اور کوئی نہیں تھی۔

یہ ہار حضرت زینب ﷝ کو ان کی والدہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری ﷝ نے شادی کے وقت جہیز میں دیا تھا۔

سردار انبیاء ﷺ کی خدمت میں ہار پیش کیا گیا تو آپ کو حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنہا یاد آ گئیں اور آپ آبدیدہ ہو گئے ۔ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر فرمایا:

” اگر مناسب سمجھو تو یہ ہار زینب رضی اللہ عنہا کو واپس بھیج دو۔ یہ اس کی ماں کی نشانی ہے۔ ابو العاص کا فدیہ یہ ہے کہ وہ مکہ جا کر حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو فورا مدینہ بھیج دے۔“

تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ارشاد نبوی کے سامنے سرتسلیم خم کر دیا اور حضرت ابو العاص کو رہا کر دیا گیا۔ اور وہ مکے روانہ ہو گئے ۔

حضرت زینب کی ہجرت مدینہ: حضور علیہ السلام نے حضرت زید بن حارثہ کو ابو العاص رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ وہ بطن یا حج کے مقام پر ٹھہر کر انتظار کریں۔ جب زینب ﷝ مکہ سے وہاں پہنچیں تو انہیں لے کر مدینہ آجائیں۔

حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ نے وعدے کے مطابق سیدہ زینب رضی اللہ عنہ کو اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ہمراہ مکہ سے مدینہ کی جانب روانہ کر دیا تھا کہ وہ حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ مدینہ جاسکیں ۔ اور خود تجارتی سفر کے لیے شام روانہ ہو گئے ۔

مشرکین مکہ کو جب خبر ملی کی رسول اللہ ﷺ کی بیٹی مدینہ جاری ہیں تو انھوں نے کنانہ بن ربیع اور سیدہ زینب ﷝ کا تعاقب کیا اور مقام ذی طویٰ میں انہیں جاگھیرا۔ حضرت زینب ﷝ اونٹ پر سوار تھیں ۔ مشرکین میں سے ہبار بن اسود نے انہیں اپنے نیزے سے زمین پر گرا دیا۔ وہ حاملہ تھیں ، انہیں سخت چوٹ آئی اور حمل ساقط ہو گیا۔

کنانہ بن ربیع نے غصے میں اپنے ترکش سے تیر نکالے اور انہیں کمان پر چڑھا کر مشرکین کو للکار کر کہا: "خبردار! اب تم میں سے کوئی آگے بڑھا تو اسے تیروں سے چھلنی کر دوں گا۔ کفار رُک گئے ۔

ان مشرکین میں ابو سفیان بھی تھے۔ انھوں نے کنانہ سے کہا، بھتیجے! اپنے تیر روک لو میں تم سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں ۔ کنانہ نے کہا، کہو کیا بات ہے؟ ابوسفیان نے ان کے کان میں کہا محمد علیہ السلام کے ہاتھوں ہمیں جس ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے، تم اس سے بخوبی آگاہ ہو۔ اگر تم اس کی بیٹی کو اس طرح کھلم کھلا ہمارے سامنے لے جاؤ گے تو ہماری بڑی سبکی ہو گی ۔ بہتر یہ ہے کہ تم اس وقت زینب کے ہمراہ مکہ واپس لوٹ چلو  اور پھر کسی وقت خفیہ طور پر لے جانا۔

کنانہ نے ابو سفیان کی بات مان لی۔ اور حضرت زینب ﷝  کو لے کر مکہ واپس چلے گئے ۔ چند دن بعد وہ رات کو چپکے سے حضرت زینب ﷝ کو ساتھ لے کر بطن یا حج پہنچے اور انہیں حضرت زید بن حارثہ ( جو ابھی تک وہاں ٹھہرے ہوئے تھے ) کے سپرد کر کے مکہ واپس آگئے ۔ حضرت زید ﷺ نے انہیں مدینہ پہنچا دیا۔

حضور ﷺ نے حضرت زینب کے متعلق فرمایا:  ’’وہ میری سب سے اچھی بیٹی تھی جو میری محبت میں ستائی گئی ۔“

حضرت ابو العاص ﷛ کو اپنی بیوی سیدہ زینب ﷝ سے بے حد محبت تھی۔ کفار کے کہنے پر انہیں طلاق نہیں دی۔ اور حضور ﷺ کے وعدے کے مطابق انہیں مدینہ روانہ کر دیا مگر ان کے جانے کے بعد اداس اور بے چین رہنے لگے ۔ ایک مرتبہ جب وہ شام کی طرف سفر کر کے وقت درد بھرے اشعار پڑھ  رہے تھے۔ جن کا ترجمہ ہے: جب میں ارم کے مقام سے گزرا تو زینب کو یاد کیا اور کہا کہ خدا اس شخص کو شاداب رکھے جو حرم میں مقیم ہے۔ امین کی لڑکی کو خدا جزائے خیر دے اور ہر خاوند اسی بات کی تعریف کرتا ہے جس کو وہ خوب جانتا ہے۔

حضرت ابو العاص کا اسلام: ۶؍ ہجری میں ابو العاص رضی اللہ عنہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام جا رہے تھے کہ مسلمان مجاہدین نے عیص کے مقام پر قریش کے قافلے پر چھاپہ مارا۔ تمام مال و اسباب قبضے میں لے لیا۔ اور مشرکین کو گرفتار کر لیا۔

ابو العاص رضی اللہ عنہ بھاگ کر مدینے چلے گئے اور سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی پناہ لی۔  طلوع صبح سے پہلے مسلمانوں نے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی آواز سنی ۔ ”اے لوگو! میں نے ابو العاص رضی اللہ عنہ کو پناہ دے دی ہے۔“

سیدہ زینب ﷝ کی آواز رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سنی۔ نماز ختم ہوتے ہی حضور علیہ السلام تیزی سے حضرت زینب ﷝ کے ہاں پہنچے  اور صورت حال معلوم کی ۔ سیدہ زینب ﷝ نے روتے ہوئے کہا: "یا رسول اللہ ﷺ! ابو العاص رضی اللہ عنہ اگر قریب ہیں تو چچا کے بیٹے ہیں ۔ اگر دور ہیں تو میرے بچوں کے باپ ہیں۔ اس لیے میں نے انہیں پناہ دے دی ہے ۔“

سیدہ زینب ﷺ کی بات سن کر رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں نے بھی ابو العاص ﷛ کو پناہ دے دی ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قافلے کا مال بھی واپس کر دیا۔ ابو العاص ﷛نے اپنے بچوں کو پیار کیا۔ اور ان کی ماں کو الوداع کہہ کر مکہ روانہ ہو گئے ۔

ابو العاص ﷛ نے مکہ پہنچ کر تمام لوگوں کے واجبات اور حقوق واپس کر دیئے اور کہا ، اب کسی کا مجھ پر کوئی حق تو نہیں؟ سب نے کہا نہیں ہم نے تجھے حق ادا کرنے والا معزز پایا۔ یہ سن کر ابو العاص ﷛ نے بلند آواز میں کلمہ توحید پڑھا: ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔“

محرم ۷؍ ہجری میں حضرت ابو العاص ﷛ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے۔

حضرت زینب کا وصال :میاں بیوی کی یہ رفاقت زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہی ۔ حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کی ہجرت کے ایک سال بعد ۸ ہجری میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے وفات پائی ۔ سیدہ کی ہجرت کے وقت جو سانحہ ہوا تھا اس کی تکلیف مسلسل رہی اور اسی سبب سے آپ نے وفات پائی ۔

حضرت ام ایمن ﷝ ، ام المؤمنین حضرت سودہ ﷝ اور ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ﷝ نے رسول اکرم علیہ السلام کی ہدایات کے مطابق سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی میت کو غسل دیا۔

جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی میت کو غسل دیا جا چکا تو حضور ﷺ کو اطلاع دی گئی۔ آپ ﷺ نے اپنا تہ بند عنایت فرمایا اور ہدایت کی کہ اسے کفن کے اندر پہنا دو۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔

یہ بھی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’اے ام عطیہ ! میری بیٹی کو اچھی طرح کفن میں لپیٹنا۔  اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنانا۔ اور اسے بہترین خوشبوؤں سے معطر کرنا۔‘‘ حضرت زینب ﷝ بنت رسول ﷺ کی نماز جنازہ خود حضور علیہ السلام نے پڑھائی ، خود قبر میں اترے اور انہیں جنت البقیع میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

اولاد: حضرت زینب ﷝ بنت رسول ﷺ نے اپنے پیچھے ایک لڑکا علی رضی اللہ عنہ اور ایک لڑکی امامہ رضی اللہ عنہا چھوڑی۔ ایک روایت کے مطابق فتح مکہ کے وقت علی رضی اللہ عنہ بن ابو العاص ﷛ حضور ﷺ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے۔ ایک اور روایت کے مطابق انھوں نے جنگ یرموک میں شہادت پائی ۔ اور تیسری روایت یہ بھی ہے کہ وہ سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے۔ حضرت ابو العاص ﷛ نے وفات سے پہلے امامہ رضی اللہ عنہا کو حضرت زبیر ﷛ بن العوام کی سر پرستی میں دے دیا۔

(بخاری شریف، اسد الغابہ اور استیعاب وغیرہ سے ماخوذ

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved