21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May 2024 Download:Click Here Views: 32871 Downloads: 929

(7)-غوث الوقت حضرت مولانا محمد کامل نعمانی ولید پوری

انس مسرور انصاری

 

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیااورکُل کائناتِ انسانی کے لیے خداکی طرف سے آخری نبی ورسول کی حیثیت سے تشریف لائے۔آپ کورحمۃ ا للعالمین بناکرمبعوث کیاگیا۔خدانے آپ کے ذریعہ اپنی آخری کتاب قرآن حکیم کونازل فرمایاجو قیامت تک تمام انسانوں کے لیے رشدوہدایت اورنعمت ورحمت کاوسیلہ ہے۔اب کوئی نبی ورسول مبعوث نہ ہوگااورنہ کوئی آسمانی کتاب نازل ہوگی۔

کبیرالاولیاء شیخ المشائخ حضرت بایزیدبسطامی رضی ﷲ عنہ کاقول ہے کہ میں تیس سال تک خداکی تلاش وجستجومیں سرگرداں رہالیکن اس قدرطویل عرصہ کی عبادت وریاضت اورمجاہدہ کے بعد مجھ پرمنکشف ہواکہ خداوندکریم خودمیرامتلاشی ہے ۔

حضرت بایزیدبسطامی کےاس قول کامطلب کیا ہے؟ اس کامطلب یہ ہےکہ خداکوایسےبندوں کی ضرورت ہےجواس مادّی کائنات میں اس کے اسماے پاک کی صفات سےمتصف ہوکران صفات کامظہربن جائیں۔اس مادّی ونمائشی دنیا میں ان صفات کوظہورمیں لائیں۔خدااوربندوں کے درمیان عبد ومعبود کا جورشتہ وتعلق ہے،اسے نمایاں،مستحکم اوربحال کریں۔ خداکے بندوں کو اس کی صفات اورپیغامات سے آشناکریں۔ رشدوہدایت کے ذریعے بندوں کومستقیم راہ کی طرف لائیں۔کیونکہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلّم کی ذاتِ والاصفات پرنبوت ورسالت کاسلسلہ ختم ہے۔اب کوئی نبی ورسول آنے والاہے اورنہ کوئی آسمانی کتاب نازل ہونے والی ہے۔ اب اُمّت کےصالح افراد کونبیﷺ کی نیابت کرنی ہے اورخداکے بھٹکے ہوئے بندوں کی رشدوہدایت اوراعمالِ صالحہ کے ذریعے خدائی صفات کوعملاً ظہور میں لاناہے تاکہ اس کے بندے اس کی طرف رجوع ہوں۔خدارحیم وکریم ہے اورچاہتاہے کہ اس کےبندے بھی رحم وکرم کی صفت سےمتصف ہوں۔وہ عادل ہےاورچاہتاہے کہ اس کے بندے بھی عدل وانصاف کریں۔وہ سخی ہے اورچاہتاہے کہ یہ صفت اس کے بندوں سے بھی ظاہر ہو۔وہ معاف کرنے والا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی معاف کرناسیکھیں۔وہ مددگار ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی ایک دوسرے کی مددکریں۔ وہ بندوں کے عیبوں کی پردہ پوشی فرماتاہے اورچاہتا ہے کہ اس کے بندے بھی ایک دوسرے کی عیب پوشی کریں۔یہ خدائی کام ہے جس کی دعوت خداوندکریم اپنے بندوں کودے رہاہے۔ خداکوایسے بندے مطلوب ہیں جونبیﷺ کی نیابت کاکام کریں اوردینِ فطرت (اسلام) کی تبلیغ اورترویج واشاعت میں مشغول ہوں۔ہرچندکہ یہ مشکل اوردشوار ترین کام ہے لیکن یہ مسلمانوں کے فرائض میں داخل ہے۔یہ ایک طرح کی خیرخواہی ہےاورخیرخواہی اسی وقت ممکن ہے جب انسان کے سامنے آخرت کی ان دیکھی نعمتیں ہوں۔جب وہ اس کامل یقین کے درجہ میں ہوکہ جو کچھ وہ دوسروں کے لیے کرنے والا ہے یا کر رہا ہے وہ رائیگاں اوربربادہونے والی چیز نہیں ہے بلکہ آخرت میں وہ بے حساب گنااضافہ کے ساتھ ملنے والی ہے۔آخرت اوراس کی دائمی زندگی اورانعاماتِ خداوندی پرکامل یقین کی بنیاد پر خیرخواہی ممکن ہے۔

پہلے عرض کیاجاچکاہے کہ اللہ نے اپنے محبوبِ خاص نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلّم کواپنانمائندہ ورسول بناکراپنے بندوں کی رشد وہدایت کےلیےمبعوث  فرمایا۔نبی ورسول کاکام یہ ہوتاہے کہ وہ اللہ کے احکام وفرامین کواس کے بندوں تک بلا کم  وکاست قولاًاور عملاً پہنچادیں۔ چنانچہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی مبارک حیاتِ طیّبہ کامطالعہ بتاتاہے کہ آپ کی مکی ومدنی زندگی کے تمام گوشے روشن اورجہدوعمل سے بھرپورہیں۔پوری زندگی احکامِ خداوندی کاعملی نمونہ ہے۔ﷲ کے برگزیدہ رسول نے اس کے احکام وفرامین کواس کے بندوں تک پہچانے میں طرح طرح کے مصائب ومشکلات کا سامنا کیالیکن اپنے مشن (تحریکِ اسلامی) کو اپنی تمام تر ذمّہ داریوں کے ساتھ آگے بڑھاتے رہے ۔آپ نے مقدس قرآن جیسی بابرکت کتاب عطافرمائی جوکُل اسلامی تعلیمات کامجموعہ اورہمیشہ کے لیے رشدوہدایت کاذریعہ ہے۔ لیکن اسلام کی تکمیل اوراپنے فرائض کی انجام دہی کے بعدبھی آپ نے اپنے مشن کو ختم نہیں کیا بلکہ اپنے رفقاء واصحاب کو تاکید فرمائی کہ وہ نہایت دل جمعی اور حوصلے کے ساتھ مشن کوجاری رکھتے ہوئےﷲ کے کلمہ کوبلند کرتے رہیں۔اس کے پیغام کو عام کرتے رہیں تاکہ بنی نوع انسان کے درمیان امن ومساوات اور اُخوت ومحبت اوریک جہتی قائم رہے اورنفرت وعداوت ،بغض و فساد اور نفاق وشر کی جڑیں مضبوط نہ ہونے پائیں۔ایسانہ ہوکہ انسان کی غفلت سے موقع پاکر ابلیس خداکی زمین کو فتنہ وفساد سے بھردے۔

آج یہی مشن علمائے اسلام اورصوفیائے کرام کا ہے۔ حضورکے نقشِ قدم کی پیروی میں علماء اگرظاہری علوم کے ذریعہ خلق ﷲ کی ہدایت ورہنمائی میں مصروف ہیں تو صوفیاء کاگروہ اپنے باطنی علوم کے وسیلوں سے بنی نوع انسان کی ہدایت ورہنمائی اور خیروفلاح کاکام انجام دے رہاہے۔

ہندوستان میں اسلام کی آمداوراس کی ترقی وتوسیع کاجائزہ لیجئے تویہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ آج برِصغیرمیں مسلمانوں کی جوبھی تعداد اور مذہبی تشخص موجودہے وہ صرف اورصرف مبلغینِ اسلام صوفیا واولیاے کرام کی بے حساب مساعئ جمیلہ کانتیجہ ہے۔

اسلام ہندوستان میں جب صوفیوں اورتاجروں کے جلومیں داخل ہواتویہاں انسانی معاشرہ زبردست تفریق اوراونچ نیچ کاشکار تھااورانسان کے ایک بڑے طبقہ کے ساتھ عزت ووقارکا معاملہ نہیں کیاجارہاتھا۔چاربڑے طبقوں اور ان کے بے شمار ذیلی گروہوں میں منقسم ہندوستانی معاشرہ کسی ایک نقطۂ اتحادپربھی متفق نہ تھا۔ وہ بری طرح انتشارکاشکارتھا۔کمزوروں کاجینامحال تھا۔ایسے ماحول اورحالات میں صوفیوں کے ذریعے اسلام کے امن و مساوات،  اخوت اوربھا ئی چارہ کےپیغام کی وجہ سےلوگ اسلام کی طرف کثرت سے مائل ہوئے۔ صوفیوں نے اسلام کوعملاً پیش کیا،خانقاہیں اورمدارس قائم کیے،لنگر کے کلچرکوعام کیا۔ جہاں ہرکوئی روزانہ دن بھرمیں جب چاہےکھاناکھا سکتاتھا اورضرورت ہوتو گھربھی لے جاسکتاتھا۔ہندوستان کے تمام مذاہب خاص طور سے سکھ مت میں لنگر کا اسلامی کلچر بہت مقبول ہوا۔صوفیوں نے ہمیشہ ہرکسی کے ساتھ انسانیت اورمحبت کامعاملہ کیا۔ اس کلچر کی اپنی ایک مستقل تاریخ ہے۔ خواجہ بہاؤالدین ذکریاملتانی کی خانقاہ میں روزانہ لنگرِ عام ہوتا۔اناج کی فراہمی کے لیے آپ بہت لمبی کھیتی کراتے تھے۔خواجہ نظام الدین اولیاء کی خانقاہ میں بھی  روزانہ لنگرِعام کااہتمام ہوتاتھا۔صوفیوں کی تاریخ میں اس طرح کے لنگرخانوں کی تعدادبہت زیادہ ہے۔ان صوفیوں اورگدڑی پوشوں نے خلق ﷲ کی ایسی خدمت کی جواسلامی تحریک کومطلوب تھی۔کیااپنا اورکیاپرایا،سب کوگلے سے لگایا۔سب کی مدداور دستگیری کی ۔ یہی سبب ہے کہ جب خانقاہیں فعال تھیں تو پوری قوم کوعروج وارتقاءحاصل تھا۔اس قوم کودینی ودنیاوی سعادتیں حاصل تھیں۔افسوس کہ موجودہ خانقاہی نظام اب صرف ایک رسمی کلچربن کے رہ گیاہے۔اس کی فعالیت معدوم ہوچکی ہے۔

صوفی نہ اُٹھا خانقاہ سے اپنی

ملّا نہ اُ ٹھا درس گاہ سے اپنی

معلوم یہ سب کو ہےقومِ مسلم

ہٹ کے چلتی ہے ر ا ہ سے اپنی

اس ملک میں اسلام ان حکمرانوں کے ذریعہ نہیں پھیلا جو آٹھویں صدی عیسوی سے قبل ہی یہاں اپنی حکومت وامارت قائم کرنے کی لگاتارکوششیں کرتے رہے تھے بلکہ سچ یہ ہے کہ ہندوستان میں اسلام کو ان عرب تاجروں اورصوفیوں نے متعارف کرایاجویہاں تجارتی ضرورتوں سے آیاجایاکرتے تھے۔

ڈاکٹرتاراچندکےبقول ۔مسلم تجاراورصوفیاے کرام اپنے قول و عمل کی وجہ سےاخلاق ومحبت کے نقطۂ عروج پرفائز تھے۔ اخوت ومساوات کی گارنٹی دینےوالے اس نظریۂ حیا ت کی طرف لوگ جوق درجوق آئےاور اسلام قبول کیا۔ڈاکٹر کل سریشٹ کے بقول دلوں کی دھڑکن بن جانےوالااسلام صوفیوں نےپیش کیا۔ انھوں نے غصہ وحسدسے نجات دلائی اورمساوات،بھائی چارہ اور انسانیت جیسی خوبیوں کی حوصلہ افزائی کی ۔وہ حق گوئی ،انصاف پروری،انکسار،اخلاق اورخوش مزاجی کامتحرّک پیکر بن کرآئے۔اس عہدکی شاعری اورادب پرصوفیاء کی فکر،تصوف کی تعلیمات اور انسان دوستی کے نصب العین کے اثرات مرتب ہوئے۔بقول ڈاکٹرطیب ابدالی، صوفیوں نے ایک انسان کو دوسرے انسان سے قریب تر کر دیا اوربلاتخصیص مذہب وملت انھوں نےمظلوموں کی مددکی اور کمزوروں کی دست گیری کی۔وہ شاہی درباروں پربھی اثراندازہوئے۔ عدل وانصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے وہ  بادشاہوں ، نوابوں اورراجاؤں پر دباؤ ڈالتے رہے۔

’’اسلامی تہذیب کی ایک ایسی خصوصیت جو دوسری  تہذیبوں سے ممتازہے وہ محبت انسان کی صفت ہے۔ہماری تہذیب نے نوعِ بشرکونفرت وکینہ،تفرقہ اورتعصب سے نجات دلاکر محبت، اخوت، تعاون،فیاضی اورمساوات کاسبق سکھایا۔اس نے مذہبی رواداری کی اسپرٹ پیداکی۔‘‘(بحوالہ۔‘‘اسلامی تہذیب کے چند درخشاں پہلو ’’ڈاکٹر مصطفےٰ سباعی۔ص،490)

خداکی مخلوقات سےمحبت رکھناایک خدائی صفت ہے ۔ قرآن وحدیث میں باربار اس صفت کوظاہرکیاگیاہے۔خدااپنے بندوں سے بے پناہ محبت رکھتاہے کہ انسان اس کی بہترین تخلیق ہے۔اب یہ بندوں کے اختیار میں ہے کہ اس کے مطلوب بندے بنیں اوردارین کی سعادتیں حاصل کریں۔ صوفیوں نے یہی کیا۔وہ اسلام کے مشن میں کمال درجہ کی شمولیت اور توجہ کے ساتھ خلق اللہ کی خدمت اورمحبت کرتے رہے۔اس سے انسانیت نے جوتقویت پائی اوراسے جو فروغ حاصل ہواوہ جگ ظاہرہے۔ہندوستان میں صوفیوں کے چارسلاسل بہت مقبول ومعروف ہوئے۔قادریہ، سہروردیہ، چشتیہ اور نقشبندیہ۔ان کے علاوہ بھی کئی سلسلے ہیں جواپنی علمی وروحانی سرگرمیوں کی وجہ سے یہاں کے باشندوں کی توجہ کامرکزبنے۔بعض صوفیاء چاروں سلسلوں سے وابستہ ہوئے لیکن اپنے طبعی میلان کے سبب کسی ایک سلسلہ میں مشہور ہوئے۔

ہمارے مرشدِ اعلیٰ پرداداپیرغوث الوقت، چراغِ ربّانی حضرت مولانامحمدکامل صاحب نعمانی فاروقی ولیدپوری علیہ الرحمہ و رضوان کوچاروں سلاسل سے اجازت وخلافت حاصل تھی اورآپ چاروں سلسلوں میں بیعت فرماتے تھے۔آپ ظاہری وباطنی علوم کے جامع تھے۔آپ کے ارادت مندوں اورعقیدت مندوں کی تعدادکاشمارنہیں کیاجاسکتا۔آپ کاروضۂ مبارک اورخانقاہِ عالیہ کاملیہ قصبہ ولیدپور(اعظم گڑھ)میں مرجع خلائق ہے جہاں فیوض وبرکات کے سرچشمے ہمہ دم جاری وساری ہیں ۔

کتبِ سیرکے مطابق آپ کاخاندانی تعلق مشہور صحابیِ رسول حضرت سلمان فارسی اورامامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالاعنہم اجمعین سے ہے۔آپ کے آباواجدادملک عراق سے ہندوستان تشریف لائےاور شمال مشرق میں واقع شہربنارس میں مقیم ہوئے۔

وہاں کچھ عرصہ قیام کےبعدبعض وجوہ سے ہجرت کی اور موضع ولیدپور(اعظم گڑھ) میں قیام کیا۔ان بزرگوں کی شرافت، نجابت، وجاہت،دینداری،بندگانِ خداکے ساتھ خیرخواہی وبے نفسی،حسنِ سلوک ومروّت جیسے اوصاف سے متاثرہوکر جونپورکے شرقی بادشاہوں نے گذراوقات کےلیےخاصی بڑی آراضی نذرکی اور عقیدت وسعادت مندی کااظہارکیا۔یہیں 28محرم الحرام 1238ھ میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے بزرگوں کےزیرِسایہ قصبہ ولیدپورہی میں پائی۔

مزید تعلیم کے لیےپندرہ سال کی عمرمیں لکھنؤ تشریف لےگئےاورفرنگی محل کےعلماء خاص طورسے حضرت مولانا عبدالحلیم شاہ فرنگی محلی سے علمِ دین کی تحصیل فرمائی۔گھر واپسی پرعلومِ تصوف اور ذکر واذکارکےساتھ ہی ساتھ منصفی کے امتحان کی تیاری بھی فرماتے رہے۔دین کےظاہری اورتصوف کے باطنی علوم سےشرف یابی کے بعد آپ نےمنصفی کا امتحان بہت نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔منصف کی حثیت سے آپ کی پہلی تقرری شیرازِہند۔۔جونپور،، میں ہوئی۔وہاں کا انگریز کمشنر بہت سخت گیرتھا۔اس کی بیوی سردرد کے مستقل مرض میں مبتلا تھی۔ تمام ڈاکٹر زاوراطباءاس کےعلاج سے عاجزہوگئے۔کمشنر کے ایک ملاقاتی نےحضرت مولاناکامل صاحب کی طرف رہنمائی کی۔آپ کی دعاسےوہ صحت یاب ہوگئی۔ کمشنر نے نذرانے کی پیش کش کی لیکن آپ نے قبول نہ کیا البتہ جونپور کی تین سو سالہ قدیم شاہی اٹالہ مسجدکی از سرِ نو مرمت کےلیےکمشنرسےتحریری حکم نامہ کی فرمائش کی جس کی فوری تعمیل کی گئی۔آپ نے مسجدکی مرمت کا کام شروع کرادیا۔ تعمیرو مرمت کےدوران مسجدکی بلندی سے ایک بہت بڑاپتھرنیچےفرش پرگرا جس سےدب کرایک مزدور۔  کی موت واقع ہوگئی۔آپ کی توجہ اور دعاسےمزدورکونئی زندگی ملی۔

اس واقعہ کی شہرت عام ہوگئی اور کثیر تعداد میں غیرمسلموں نےاسلام قبول کرلیا۔اس طرح کی بے شمار کرامتوں کاصدورآپ سے ہوا جن کی تفصیل حضرت مولاناعبیدالرحمٰن شاہ منظری قبلہ نےاپنی تصنیف۔”چراغِ ربانی“ میں بیان کی ہے۔ جونپورکےبعد مختلف شہروں ضلع بستی، گورکھپور،بلیا وغیرہ میں حضرت مولانا محمد کامل صاحب کی پوسٹنگ عمل میں آتی رہیں۔آپ کاطبعی رجحان تصوف اورذکرواذکار کی طرف تھااس لیےرٹائرمنٹ سے قبل ہی اپنے عہدہ سے مستعفی ہوکرعلائقِ دنیاسےکناراکشی اختیار فرمائی اورگوشہ نشیں ہوگئے۔آپ نے تصوف میں کئی کتابیں تصنیف فرمائیں اور آپ کے تعلق سےکئی اصحابِ علم و قلم نےمتعددکتابیں لکھیں۔آپ کا وصال 6جمادی الآخر1322ھ کوہوا۔ آپ سےبےشمارکرامتوں کا ظہور ہوا۔ آپ کے مریدوں اورعقیدت مندوں کاشمار نھیں کیاجاسکتا۔آپ کےخادم اورخلیفۂ اکبرحضرت صوفی جان محمد صاحب نے اپنے مرشد کی محبت میں کثیر تعداد میں بزبان بھوجپوری نظمیں لکھیں جو۔ ”انوارِ صوفیہ“ اور”نغماتِ صوفیہ“ کے نام سے شائع ہوئیں۔

ہندوستان کی قدیم تاریخ وثقافت،تہذیب وتمدّن،اس ملک میں مسلمانوں کی آمد،ایک متحدہ قومیت کا تصور ، مسلم بادشاہوں کے عروج وزوال، صوفیاء کرام کی آمد،ان کی علمی وعملی سرگرمیوں کے اثرات ،اسلامی تصوف،ہندوبھگتی تحریک،فلسفۂ وحدت الوجود وشہود اورفلسفۂ ویدانت کے موضوع پر سن دوہزاردس (2010)  میں جب میری کتاب‘‘ محبوب العارفین’’منظر عام پرآئی تومدرسوں اور خانقاہوں میں یکساں مقبول ہوئی اورمیرے حوصلوں کو تقویت حاصل ہوئی تواس احساس میں شدت پیداہوئی کہ ہمارے مرشدِ اعلا حضرت ‘‘چراغِ ربانی “کے احوال وکوائف، تصانیف وتالیفات، آپ کی علمی وعملی زندگی اورآپ کے ارشادات وملفوظات ،آپ کے روحانی اثرات وخدمات اب تک پردۂ خفامیں ہیں اورمحض ایک محدودحلقہ ہی ان سے متعارف وفیضیا ب ہے ۔یہ بہت ضروری کام تھاجواب تک نہیں ہوسکاتھا۔ میرے تصنیفی کام مجھے سراُٹھانے کی مہلت نہیں دے رہے تھے۔میں بے چین ہوگیاکہ مذکورہ مطلوبہ کام کیسے ہو۔انھیں ایّام میں ایک دن استاذی پیرِ طریقت حضرت مولانا عبید الرحمن شاہ منظری کی خدمت میں حاضری کی سعادت حاصل ہوئی توآپ نے فرمایا کہ میں اب فارغ ہوں اورتصنیفی کاموں کی طرف رغبت پاتاہوں۔لکھنے کے لیے مجھے کوئی مو ضوع دو۔’’آپ کے ارشادسے میری دلی مراد برآئی۔مطلوبہ کام کے لیے آپ سے بہترکسی اور کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتاتھا۔میں نے ‘‘چراغِ ربّانی’’پرکام کے متعلق عرض کیاتوفوراً تیارہوگئے۔میں نے خیال کیا کہ اس کام کے لیے ہمارے مرشدِ اعلا نے آپ کاانتخاب فرمایا ہے۔یہ ایک بڑی سعات تھی جو مولاناصاحب کوحا صل ہونے والی تھی۔آپ نے اس اہم تحقیقی موضوع پرکام شروع کیاتواس کی مرحلہ واردشواریوں اورمشکلات کا بخوبی اندازہ تھا۔آپ نے حوصلہ،ہمّت لگن اورمسلسل جدوجہدسے کام کی تکمیل فرمائی اورحق یہ ہے کہ آپ نے تحقیق وتدوین کاحق اداکردیا۔‘‘چراغِ ربّانی’’ ایک دستاویزی تصنیف ہے ۔آپ نے اُن خزانوں کو دریافت فرمایاجو ہنوزعام نگاہوں سے مخفی تھے۔ یہ تصنیف میرے دیرینہ خوب کی خوشنما تعبیرہے۔استاذِ مکرّم پیرِ طریقت حضرت مولاناعبیدالرحمن شاہ منظری قبلہ دامت برکاتہم العالیہ ہدیۂ تشکّرا ور دلی مبارکباد کے مستحق ہیں ۔آپ نے وہ کام کیاجوشاید آپ ہی کرسکتے تھے۔میں سمجھتاہوں کہ یہ خانقاہِ کاملیہ کی ایک بڑی خدمت اوردارین کی سعادت ہے۔اللہ پاک آپ کوجزائے خیرعطافرمائے۔آمین۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved