3 December, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May 2024 Download:Click Here Views: 35299 Downloads: 960

(5)-میں ہی خدمتِ دین کر رہا ہوں

شیخ اسید الحق قادری بدایونی کے مضمون سے چند فکر انگیز اقتباسات

بلال احمد نظامی مندسوری

اہل علم کا ایک طبقہ خوش فہمی کی جنت میں بسیرا کرتے ہوئے یہ سوچتا اور سمجھتاہےکہ مَیں ہی اصل میں خدمت دین کررہاہوں باقی سب وقت گزاری کررہےہیں، میرا کام اہم ہےباقی دیگر کےکام غیراہم اور فضول ہے۔یہ طبقہ دیگر خادمینِ دین کی خدمات کو حقیر اور کمتر سمجھتاہےاور ذہنی طورپر ان کےکام کو دینی خدمات کےخانےمیں قبول کرنے کے لیےتیار نہیں ہوتاہے،حالاں کہ  تمام خادمینِ دین کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔

اس تعلق سے حضرت علامہ شیخ اسید الحق قادری کےایک فکر انگیز مضمون کےکچھ حصےنذرقارئین ہیں،ملاحظہ فرمائیں!

 آج جو آدمی جس میدان میں دینی خدمات انجام دے رہا ہے اس کی نظرمیں دین کےلیےکرنےکاصرف وہی کام ہے،اگرکوئی کسی اور ذریعےسےدینی خدمات انجام دےرہاہےتو پہلاشخص اس کے کام  کو ”دینی کام“ ماننےکو تیار نہیں ہے،یا کم از کم یہ کہ اس کےکام کی اہمیت تسلیم کرنےپر آمادہ نہیں ہے،پہلےشخص کااصرار ہےکہ جس کام کو میں دینی کام سمجھ کر انجام دےرہاہوں اب دینی خدمات سےوابستہ تمام افراد وہی کام کریں اور اگر وہ ایسانہیں کرتےبلکہ کسی اور ذریعے سے دینی خدمات انجام دےرہےہیں تو وہ نہ صرف یہ کہ اپناوقت ضائع کررہےہیں بلکہ اس کی نظرمیں وہ دین کےمخلص بھی نہیں ہیں اور اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کررہےہیں،یہ بات میں اس لیےکہہ رہاہوں کہ مجھےذاتی طورپر اس قسم کےحالات کا تجربہ ہےاور ایسی محدود فکر رکھنےوالوں سے براہ راست میرا خود سابقہ پڑچکاہے۔

 ابھی دوتین سال پہلےہماری ایک معروف دعوتی اور اصلاحی تنظیم کےدوتین پرجوش نوجوان میرےپاس آئےاور ایک طویل تمہید کےبعد فرمایا کہ اللہ نےآپ کو علمی صلاحیت اور وسائل ہرچیز سےنوازا ہےلہذا آپ فلاں تنظیم کےطرز پر ایک دعوتی اور اصلاحی جماعت تشکیل دیں تاکہ آپ اپنی ذمہ داری سےعہدہ برآ ہو سکیں، یا پھر ہماری تنظیم کےساتھ مخلصانہ تعاون پیش کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اور وسائل کو دین کی خدمت کےلیےوقف کردیں۔ اس ناصحانہ اور بزرگانہ گفتگو کو میں نےپورےتحمل سےسنااور ان کو جواب دیاکہ میں اپنےناقص علم اور محدود وسائل کےذریعےدین کی جوبھی تھوڑی بہت خدمت کرسکتاہوں اس میں اللہ کےفضل سےکوتاہی نہیں کرتا، میں نےاپنی مصروفیات کا ایک مختصر ساخاکہ پیش کرنےکےبعد کہا کہ  رہی یہ بات کی میں بھی آپ کی تنظیم میں شامل ہوجاؤں توپھرجوکام میں کررہاہوں وہ کون کرےگا؟ اور پھریہ کہ آپ کےساتھ تو پہلےہی سےبعض اہل علم اور مخلص حضرات کام کرہی رہےہیں پھر میرے اس جماعت میں شامل ہونےکی کیاضرورت ہے۔

 ابھی کچھ ماہ پہلے ایک دارالعلوم میں جانےکااتفاق ہوا وہاں ایک صاحب سےملاقات ہوئی جودرس نظامی کےایک منجھے ہوئے مدرس ہیں، انھوں  نےمیری مصروفیات کےبارےمیں سوال کیا تو میں نےچندجملوں میں اپنی قلمی مصروفیات کےبارےمیں ان کو بتایا، میرا جواب سن کر ان کےچہرےپرایک عجیب قسم کی مسکراہٹ مچل گئی، میں فورا ان کی اس حقارت آمیز  مسکراہٹ کاسبب جان گیااور میں نےپہلو بدلےبغیر ان کو بتایاکہ میں مدرسہ قادریہ بدایوں میں باقاعدہ تدریسی خدمات انجام دیتاہوں ...یہ سن کر انھوں  نےفرمایاکہ ہاں یہ ہےبنیادی کام ورنہ اگر صرف ماہناموں میں مضمون ہی لکھتےرہےتو آپ کی سب صلاحیتیں ضائع ہوجائیں گی، میں نےان کےاس تبصرےپر کوئی تبصرہ کرنامناسب نہیں سمجھا۔

  اسی ضمن میں چند مثالیں اور پیش کرنےکےبعد شیخ صاحب لکھتے ہیں: ان تمام مثالوں میں بنیادی نکتہ یہی ہےکہ آدمی خود جو کام کررہاہےاسی کو وہ صحیح معنوں میں  کام  سمجھتاہے، باقی لوگوں کےکام کو یاتو وہ دینی کام ہی نہیں سمجھتا ہے یا پھر اس کام کی اہمیت و ضرورت تسلیم کرنےکوتیار نہیں ہے۔ مجھےیہ بات تسلیم ہےکہ بعض حضرات کبھی کسی غیراہم کام میں اپنی قیمتی صلاحیتیں صرف کردیتےہیں ، جب کہ ان سےاس سےزیادہ اہم کام کی توقع کی جاسکتی ہے، یہ بھی درست ہےکہ بعض لوگ صلاحیت اور وسائل کےباوجود اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتتےہیں، اور یہ بھی درست ہےکہ بعض افراد، ان کی صلاحیتیں، ان کےوسائل، اور حالات کےپیش نظر بعض کاموں کو زیادہ اہم، اہم ، کم اہم اور غیر اہم قرار دیاجاسکتاہے لیکن بیک جنبش قلم کسی کےکام کو ” دینی کام “ کے زمرے سےخارج کردیناکوئی انصاف کی بات نہیں ہے، حالاں کہ  ہم آئےدن اس قسم کی ”نا انصافیوں“ کےمرتکب ہوتےہیں۔ ہمارےاندر کشادہ قلبی ہونا چاہیے،  حالات کا گہرائی سےجائزہ لینےکاشعور ہوناچاہیے، دینی کام کرنے والوں کے درمیان اتحاد عمل نہیں بلکہ اشتراک عمل کی بنیادوں پر ہم آہنگی ہونا چاہیے، تمام افراد اگر ایک ہی کام کےپیچھےپڑجائیں اور باقی سارے کاموں کو غیرضروری اور غیراہم سمجھ کر چھوڑ دیاجائےتو پورا نظام درہم برہم ہوجائےگا، ترجیحی بنیادوں پر کام کی اہمیت کاتعین کیاجائے، جس کام کی جہاں اور جس قدر ضرورت ہو اس کےمطابق کرنا چاہیے اسی میں ہماری کامیابی کا راز پوشیدہ ہے۔ ( تحقیق و تفہیم 269)

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved