21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May 2024 Download:Click Here Views: 32877 Downloads: 929

(3)-آپ کے مسائل

از: مفتی محمد نظام الدین رضوی

انسانی خون کی خرید و فروخت جائز یا ناجائز؟

سوال : کیا انسانی خون کی خرید و فروخت جائز ہے ؟ یعنی انسان کو اپنا خون بیچنا اور دوسرے انسان کا اس خون کو خرید نا حرام ہے یا حلال ؟

 جواب: انسانی خون تو بہت ہی اہم اور قیمتی چیز ہے ، جس پر انسانی حیات قائم ہے۔ اس کی ناقدری اور خرید و فروخت حرام ہے۔ یہاں تک کہ انسان کے دوسرے اجزا جو خون سے کم اہم ہیں ان کی ناقدری اور خرید و فروخت بھی حرام ہے۔ انسان کے سارے اجزا اعظم و مکرم اور قابل تعظیم ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي اٰدم (الاسراء17، آیت:70)         یعنی ہم نے ابن آدم کو معظم و مکرم بنایا۔

 انسان کا ایک ایک عضو قابلِ تکریم ہے یہاں تک کہ فقہا فرماتے ہیں کہ اگر عورت اپنا دودھ نکال کر دوسرے بچے کے لیے بیچے ، خواہ وہ باندی ہی کیوں نہ ہو تو یہ بھی  ناجائز ہے۔ اسی طرح کوئی عورت کسی عورت سے بال خرید کر اپنے بالوں میں لگائے تو یہ بھی حرام ہے، پہلے کی عورتیں ایسا کرتی تھیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس میں انسان کے بال اور اس کے دودھ کی توہین ہے۔

اسی طرح انسان کے خون کو بیچا نہیں جاسکتا، اس کا بیچنا اور خریدنانا جائز و گناہ ہے۔ لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا یا کسی اور وجہ سے اس کا خون اتنا کم ہو گیاکہ اس کی جان بغیر انسانی خون چڑھائے بچائی نہیں جاسکتی تو انسان کی جان بچانے کے لیے کسی انسان کا خون دینا اور دوسرے انسان کے بدن میں چڑھانا بھی جائز ہے۔ وجہ ظاہر ہے کہ جان بچانا فرض ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کسی کی جان جارہی ہو اور سامنے جان بچانے کے لیے شراب یامردار ہے اور یہ جانتا ہے کہ شراب کے دو گھونٹ پی لے گا، یا مردار سے دو چار بوٹی کھائے گا تو جان بچ جائے گی تو بقدرِ ضرورت شراب سے پی لینا اور مردار سے کھا لینا حلال ہے، یہاں تک کہ خنزیر کا گوشت ہو تو بھی کھا لینا حلال ہے تاکہ اس کی جان بچ جائے، یہ قرآن پاک سے ثابت ہے۔

اسی طرح انسان کی جان بچانے کے لیے انسان کا خون دینا جائز ہے اور اس کا خون لینا بھی جا ئز ہے مگر بیچنا  ناجائز ہے ۔ ہاں اگر کسی آدمی کو انسانی خون پیسہ دیے بغیر نہ ملے تو اس صورت میں مجبوری ہے کہ اپنی جان بچانے کے لیے خریدے مگر خون بیچنے والے کے لیے  اب بھی جائز نہیں۔ انسانی ہمدردی کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی کی جان جارہی ہو تو آپ اس کو خون دے دیں اور اس کی جان بچائیں ، بیچیں نہیں ۔ اگر بیچیں گے تو جس کو جان بچانی ہے اس کو تو دام دے کر خرید نا جائز ہوگا، لیکن بیچنا بہر حال ناجائز اور گناہ ہوگا۔

خون کے مختلف گروپ ہوتے  ہیں ، پھر کوئی خون چڑھانے کے قابل ہوتا ہے اور کوئی اس کے قابل نہیں ہوتا اور وقت ضرورت کسی مریض کو اس کے گروپ کا صالح خون فوراًملنا مشکل ہوتا ہے اس لیے بڑے اسپتالوں میں مختلف گروپ کے صالح خون جمع کر کے محفوظ رکھتے ہیں وہ خون کے حاصل کرنے پھر محفوظ رکھنے میں وقت اور دوائیں، وغیرہ استعمال کرتے ہیں وہ ان کا مناسب معاوضہ لے سکتے ہیں کہ اس کے بغیر ہر وقت صالح خون کی فراہمی مشکل ہے ،اور اپنے کام کا معاوضہ لینا جائز ہے ۔ مگر ایسا نہ ہو کہ انسانی خون کی تجارت و کاروبار شروع کر دیں کہ تجارت مال کی ہوتی ہے اور خون مال نہیں۔ واللہ تعالی اعلم

 

خون دینے اور لینے کا حکم

سوال : کسی کو خون دینا جائز ہے یا نہیں ؟ اور کیا اس میں مسلمان ہونے کی قید ہے؟

جواب: ایسی کوئی قید نہیں ہے ، جان بچانے کے لیے بلا عوض خون دینا اور حاجت مند کو خون لینا دونوں جائز ہے۔ اس میں مسلم اور غیر مسلم کی کوئی تخصیص نہیں کہ جان جانے کے لیے خون دینا لینا باب علاج سے ہے اور علاج سب کا جائز ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم

زوجین کا ایک دوسرے کو خون دینا کیسا ہے؟

سوال : کیا شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو خون دے سکتے ہیں ؟ اور کیا بلڈبینک سے خون لیا جا سکتا ہے ؟

جواب: ہاں دے سکتے ہیں شوہر کے بدن میں بیوی کا خون اور بیوی کے بدن میں شوہر کا خون چڑھانا جائز ہے اس کی وجہ سے دونوں کے درمیان کوئی حرمت نہیں پیدا ہوگی ، دونوں ایک دوسرے کے لیے حلال رہیں گے۔ بلڈ بینک سے خون لیا جا سکتا ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔

ماڈلنگ کا شرعی حکم

سوال : کیا حکم ہے شریعت کا اس بارے میں کہ جو لوگ فیشن شوز میں ماڈلنگ کرتے ہیں ، کپڑے وغیرہ یا دیگر کمپنیوں کے لیے ماڈلنگ کرنے کے لیے پر موڈ کرتے ہیں ، اس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شریک ہوتے ہیں ان کا اس طرح شریک ہونا یعنی ماڈل بننا اور لوگوں کو اپنی چال ڈھال اور لباس سے راغب کرنا کیسا ہے ؟

جواب: لڑکیوں کا ماڈل بننا اور بنانا اور ان کو ذریعہ بنا کر سامان بیچنا اور اس کو فروغ دینا تو سراسر حرام و گناہ ہے۔ رہ گیا لڑکوں کو اس کام کے لیے استعمال کرنا تو اگر اس میں کوئی ایسا طریقہ اختیار نہیں کیا جاتا جو شریعت کے خلاف ہو ، بس ان کو مخصوص قسم کا لباس پہنا کر ان کے ذریعہ اشتہار کرایا جاتا ہے تاکہ لوگ اس طرف راغب ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چا ہیے۔ اور اگر انھیں ایسا کوئی لباس پہنایا جاتا ہے جو شریعتِ طاہرہ کے خلاف ہو جیسے ہاف پینٹ، چڈی و غیرہ تو اس کی نمائش لڑکوں کے ذریعہ بھی حرام ہے۔

یالڑ کے اور لڑکی کے اختلاط کے ساتھ نمائش کرائی جاتی ہے، یا لڑکے کو ایسا لباس پہنا کر اس سے کوئی مخصوص حرکت کرائی جاتی ہے جس سے لڑکیاں اس کی طرف راغب ہوں، کوئی لڑکی اس کی طرف مائل ہوتی ہے ، یا اس طرح کی کوئی بھی نمائش واشتہار ہو تو وہ نا جائز و گناه ہے۔ واللہ تعالی اعلم

سوال : کسی کو بزنس کرنے کے لیے آٹو ر کشہ لینا ہو تو کیا وہ لون لے سکتا؟

جواب: ہر چیز کا ایک ہی حکم ہے، چاہے رکشہ ہو یا ٹیکسی، حکم یہ ہے کہ کوئی بھی شخص سال میں بینک کو جو انٹرسٹ دیتا ہے اگر اس سے کئی گنازیادہ اس کے ذریعے کما لیتا ہے تو اس کےلیے حکومت کے منظور شدہ بینکوں سے لون لینا جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ ناجائز تو اس وقت ہو گا جب الگ سے اس کو فاضل رقم انٹریسٹ کے نام پر دینی ہو اور اس کے مقابل یہ فائدہ مند نہ ہو۔ لیکن اگر اس کے مقابل اتناہی یا اس سے زیادہ فائدہ ہو تو جائزو درست ہے۔ واللہ تعالی اعلم

سوال : کبھی کبھی دوستوں میں تفریح کے طور پر لین دین کا معاملہ آجاتا ہے میں نے دیکھا ہے کہ دو چار دوست آپس میں تفریح کرتے ہیں اسی درمیان کسی نے مذاق کے طور پر کہا تو یہ پانچ سور وپے ، یا پچاس روپے مجھے دیدے اور وہ دے بھی دیتا ہے۔ مگر یہ مذاق میں ہوتا ہے بعد میں دینے والا وصول کر لیتا ہے اور لینے والا چوں کہ یہ جانتا ہے کہ یہ اسی کا روپیہ ہے اس لیے اس کو دے دیتا ہے ۔ ایسا کرنا کیسا ہے ؟

جواب: تفریح میں دینایا مذاق میں ہبہ کرنا حقیقت میں ہبہ ہے، اگر کسی نے دوسرے کو مذاق یا تفریح میں کچھ ہبہ کر دیا اور دوسرے نے اس پر قبضہ کر لیا تو وہ اب اس کا مالک ہو گیا اب اگر اس سے لیں گے تو یہ لینا جائز نہ ہو گا اگر چہ اس نے لاعلمی کی وجہ سے دے دیا۔ اور آپ نے لے لیا ،اللہ تعالیٰ تو جانتا ہے اور اس کے فرشتے تو جانتے ہیں۔ دونوں کا یہ عمل فرشتوں کے رجسٹر میں لکھ دیا جاتا ہے ، جب قیامت کے دن اپنا اپنا نامہ اعمال پڑھیں گے تو اس میں لکھا ہو گا کہ یہ تمھاری ملک ہے اس لیے وہ اس کا مطالبہ کرے گا اور اس وقت آپ کے پاس پیسہ نہیں ہو گا تو آپ کی نیکیاں اس کو دے دی جائیں گی، اور اگر آپ کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو اس کا گناہ آپ کے سر لاد دیا جائے گا، یہ کتنی سخت اور دل دہلا دینے والی بات ہے کہ قیامت کے دن جب نیکیوں کی زیادہ ضرورت ہوگی وہ دوسروں کو دے دی جائیں گی ، یا پھر دوسرے کے گناہ اپنے سر ڈال دیے جائیں گے ، اللہ کی پناہ ۔اس لیے ہر گز ہر گز دوسرے کامال نہیں دبانا چاہیے، اور اگر آپ کسی کو دینا چاہتے ہیں تو حقیقت میں دیں ، اچھی نیت سے دیں، اور اگر نہیں دینا چاہتے ہیں تو تفریح اور مذاق میں بھی ہر گز نہ دیں اور اگر تفریح یا ہنسی مذاق میں کسی  کودے چکے ہوں تو خدارا ہرگز ہرگز اس کو واپس نہ لیں اور واپس لے چکے ہوں تو معاف کرالیں۔ واللہ تعالی اعلم

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved