3 December, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia May 2024 Download:Click Here Views: 35295 Downloads: 960

(1)-محرم کے بغیر خواتین کا حج و عمرہ

مبارک حسین مصباحی

 

ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا١ؕ.[ آل عمران : 97 ]

اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے ۔

اس فرمان الہی میں مرد و زن سب شامل ہیں، یعنی جن حضرات کے پاس اتنا سرمایہ ہو کہ خانہ کعبہ تک جانے اور ارکان حج ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں اور اتنے ایام تک اہل و عیال پر سکون انداز میں گزر بسر کر سکتے ہیں تو ان مردوں اور خواتین پر حج  زندگی میں ایک بار فرض ہے۔ مردو خواتین کے لیے وہ تمام قیود و شرائط لازمی ہیں شریعت مطہرہ نے جنھیں ضروری قرار دیا ہے ۔ مگر خواتین کے لیے حج و عمرہ یا دیگر اسفار کے لیے شوہر یا کسی محرم کا ساتھ جانا ضروری ہے ۔ اگر کسی خاتون نے حج وعمرہ یا کوئی دوسرا سفر بغیر شوہر یا شوہر نہ ہونے کی صورت میں بغیر محرم کے تنہا کیا یا کسی اجنبی مرد یا دیگر خواتین کے ساتھ کیا تو یہ تمام سفر ناجائز ہیں اور اگر حج کیا تو حج مع الکراہت ہوگا اور   ہر قدم پر گناہ لکھا جائے  گا یہ سفرنا جائز و حرام ہے ۔

محسن انسانیت حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

 لَا يَحِلَّ لِإمْرَأةٍ تُومِنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ أنْ تُسَافِرَ مَيْسِرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ إلّا مَعَ ذِیْ رَحْمٍ مَحْرَمٍ يَقُوْمُ عَلَيْهَا. ( صحیح بخاری، باب فی من یقصر الصلواة وسمہ النبی صلى الله تعالى عليہ وسلم يوما وليلۃ، قدیمی کتب خانہ، کراچی)

حلال نہیں اس عورت کو کہ ایمان رکھتی ہے اللہ تعالی اور قیامت پر کہ ایک منزل کا سفر کرے مگر محرم کے ساتھ جو اس کی حفاظت کرے۔

امام احمد رضا محدث بریلوی ایک سوال کے جواب میں رقم فرماتے ہیں:

’’بچہ یا مجنون یا مجو سی يا بے غیرت فاسق نہ ہو اگر محرم ہو تو اس کے ساتھ بھی سفر حرام ہے کہ اس سے حفاظت نہ ہو سکے گی یا نہ حفاظت کا اندیشہ ہوگا۔ حج کا جانا ثو اب کے ليے اور بے محرم جانے میں ثواب کے بدلے ہر قدم پر گناہ لکھا جائے گا۔‘‘

[فتاوی رضویہ مترجم، ج: 10، ص: 704]

واضح رہے کہ خاتون بالغ نوجوان ہو یا ادھیڑ عمر کی بیوہ ہو یا بوڑھی کسی بھی علاقے کی باشندہ ہو  اسے شوہر یا محرم کے بغیر سفر  کرنا جائز نہیں ، سفر حج و زیارت کا ہو یا عمرہ کا یا کسی اور مقام کا شوہر یا محرم کے بغیر سفر کرنا جائز  نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ آج کےعہد میں خواتین کی بے حیائی اور بے پردگی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ بعض خواتین معيشت یا دیگر ضروریات کے لیے اپنے ملک یا دیگر ممالک کا سفر کرنے کو باعث فخر تصور کرتی ہیں۔ اب تو حالات اور زمانے کے تقاضے کافی بدل چکے ہیں،  سوچ فکر اور عملی زاویوں میں بھی بڑی تبدیلی آئی ہے۔ ہمیں یہ تسلیم ہے کہ ہمارے ملک میں پانچ خواتین کا گروپ اور عمر میں  پینتالیس سال کا ہونا  شرط ہے مگر  اب یہ شرائط بھی مفقود ہو چکے ہیں، حکومت تنہا خواتین کو بھی پرمیشن دے رہی ہے۔بقول امام احمد رضا محدث بریلوی:

’’عورت کو بغیر محرم کے حج خواہ کسی اور کام کے واسطے سفر کرنا  نا جائز ہے ... اور محرم فاسق بےکا رہے اس کا ہونا اور نا ہونا  برا بر ہے اور معيت زن متقیہ کی امام اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک کافی نہیں ، اور حج کر لیا تو فرض ساقط حج مع الکراہۃ ادا اور اس فعل ناجائز کی معصیت جدا۔‘‘(فتاوی رضویہ  مترجم، ج:10، ص:701)

اب آپ حضرات ذرا غور کریں سعودی عرب کی وزارت حج و عمرہ نے بغیر محرم کے خواتین کو ویزا دینے کا چند برس سے اعلان کر دیا ہے ۔ ہند اوردیگر ممالک کی حکومتوں نے بھی پرمیشن دینا شروع کر دی ہے ۔  عہدِ حاضر میں اس کی جو قباحتیں سامنے آرہی ہیں وہ سب پر ظاہر ہیں۔

ذرا آپ یوں بھی غور فرمائیں کہ ایک خاتون کو سفر  کے دوران طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بعض مواقع ایسے بھی درپیش ہوتے ہیں جہاں صرف خواتین ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ عورتیں مردوں کے مقابل کم طاقت رکھتی ہیں بعض اوقات مردوں کے سہارے کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔

اب ہم احادیث نبویہ کی روشنی میں یہ واضح کرتے ہیں کہ آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  کو خبر دی گئی کہ میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں اور میری اہلیہ حج کی سعادت حاصل کرنا چاہتی ہیں تو آقا کریم صلی  اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آپ جہاد چھوڑ کے حج کی سعادت حاصل کرو ؛ کیوں کہ شوہر کے ہوتے ہوئے  ایک خاتون کو شوہر کے بغیر جانا درست نہیں ہے ۔

عن ابن عباس قال: قال النبي : لا تسافر المرأة الامع ذي محرم ، فقال رجل : يارسول الله إني أريد أن أخرج في جيش کذاو کذا و امراتي تريد الحج؟ فقال : اخرج معہا .‘‘

ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ عورت بغیر محرم کے سفر نہ کرے، تو ایک شخص نے پوچھا یار سول اللہ ! میں فلاں لشکر کے ساتھ جہاد میں جانا چاہتا ہوں ، جب کہ میری بیوی کا حج کا ارادہ ہے تو آ پ نے فرمایا: آپ اپنی بیوی کے ساتھ حج کو جاؤ ۔ (صحیح بخاری ، کتاب جزاء الصيد ، باب حج النساء ، حدیث نمبر : ۱۸۶۲ ، صحیح مسلم ،  کتاب الحج، باب سفر المرأة مع المحرم إلى الحج وغيره، حدیث نمبر : ۱۳۴۱)

بعض روایتوں میں حدیث اس طرح ہے کہ وہ صحابی کہتے ہیں کہ میں نے جہاد کے لیے نام لکھوا لیا ہے اور بعض روایت میں ہے کہ میں نے جہاد میں جانے کی نذر مانی ہے، نیز بعض میں ہے کہ عورت بغیر محرم کے حج نہ کرے۔

اب آپ ذرا غور کریں کہ بعض خواتین کو اللہ تعالی حج کی استطاعت عطافر ما دیتا ہے وہ صالحہ خاتون چاہتی ہے کہ سفر حج و زیارت کے فریضے کو ادا کرے  ، بلوغ کے بعد خاتون کسی بھی عمر کی ہو  ایسا نہیں ہے کہ اب وہ ضعیفہ یا کمزور ہے بلکہ ہر عمر میں سفر حج و زیارت کے لیے شوہر یا محرم کا ہونا ضروری ہے ۔ بعض حضرات کہتے ہیں کہ خوش دامنوں کو داماد لے جا سکتے ہیں، یہ انتہائی غلط سوچ ہے، داماد بلا شبہہ بیٹے کے درجے میں ہے مگر فرزند نہیں ہے۔ عہد حاضر  کے جو حالات ہیں انھیں ہم سے زیادہ آپ جانتے ہیں ، شریعت مطہرہ نے ہر دور کے تقاضوں کو سامنے رکھا ہے شریعت کا ہر حکم عقل ونقل کی روشنی میں مستحکم ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم لوگوں کی عقلیں احکام کی باریکیوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتی ہیں۔

فقیہ  ا عظم عالم امام احمد رضا محدث بریلوی نے ایک راستہ پیش کیا ہے جسے  ہم انھی کے الفاظ میں پیش کرتے ہیں:

پس جب ہندہ پر بسبب اجتماع شرائط کے حج فرض ہوگیا تھا اور اب معیت محرم کی نہیں ملتی تو چارہ کار یہی ہے کہ نکاح کرے، اگر یہ خوف ہو کہ شاید اس نے نکاح کرلیا اور پھر نہ گیا تو یہ پھنس گئی اور حج بھی نہ ہوا، یا اندیشہ ہو کہ شوہر موافق مزاج نہ نکلے چاہیے تو تھا چند روز کے لیے اور پابند ہوگئی عمر بھر کی، یا سرے سے اسے پابند شوہر رہنا منظور ہی نہ ہو، صرف اس ضرورت کی رفع تک کہ نکاح چاہئے، تو اقول (میں کہتا ہوں۔ ت) اس کی تدبیر یہ ہے کہ اس شرط پر نکاح کرے کہ اگر تواس سال میرے ساتھ حج کو نہ جائے تو مجھ پر ایک طلاق بائن ہوا ور جب بعد حج میں واپس آؤں اور اپنے مکان میں قدم رکھوں تو فوراً مجھ پر طلاق بائن ہو، یوں اگر وہ نہ گیا تو طلاق ہوجائے گی اور اگر گیا تو واپسی پر عورت جس وقت اپنے مکان میں قدم رکھے گی نکاح سے نکل جائے گی، اور بہتر اورآسان تر یہ ہے کہ اس شرط پر نکاح کرے کہ مجھے ہر وقت اپنے نفس کا اختیار ہو کہ جب کبھی چاہوں اپنے آپ کو ایک طلاق بائن دے لُوں، یوں اس کے نہ جانے یا واپس آنے پر اور اس کے بعد بھی ہر وقت عورت کو اختیار رہے گا مرضی ہو اس کی زوجیت میں رہے نہ مرضی ہو اپنے آپ کو ایک طلاق بائن دے کر جُدا ہوجائے، درمختار میں ہے:

مع زوج او محرم بالغ عاقل غیر مجوسی ولا فاسق لامرأۃ ولو عجو زا وھل یلزمھا التزوج قولان ولوحجت بلامحرم جازمع الکراھۃ ۔

عورت خواہ بوڑھی ہو اس کے لیے خاوند یا محرم بالغ کاہونا ضروری ہے بشرطیکہ وہ محرم فاسق اور مجوسی نہ ہو کیا عورت پر حج کے لیے نکاح ضروری ہے، اس بارے میں دو قول ہیں، اگرعورت نے بغیر محرم حج کرلیا تو جائز مع الکراہت ہوگا۔ (ت)

امام احمد رضا محدث بریلوی اپنے ایک دوسرے فتوے میں لکھتے ہیں:

 ’’اس میں کچھ حج کی خصوصیت نہیں، کہیں ایک دن کے راستہ پر بے شوہر یا محرم جائے گی تو گنہگار ہوگی، ہاں جب فرض ادا ہوجائے تو بار بار عورت کو مناسب نہیں کہ وُہ جس قدر پردے کے اندر ہے اُس قدر بہتر ہے۔ حدیث میں اس قدر ہے کہ رسول اﷲصلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے امہات المومنین کو حج کراکر فرمایا : ھذہ ثم حصر البیوت۔ یہ ایک حج ہوگیا اس کے بعد گھر کی چٹائیاں۔ پھر یہ بھی اولویت کا ارشاد ہے نہ کہ عورت کو دُوسرا حج ناجائز ہے، ام المومنین صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا نے اس کے بعد پھر حج  کیا۔ واﷲتعالٰی اعلم ۔‘‘ (فتاوی رضویہ  مترجم، ج۱۰، ص:۶۵۷)

اب آپ دوسرے نقطۂ نظر پر بھی غور فرمائیں، حضرت مفتی عبد القیوم ہزاروی نے تحریر کیا ہے:

” ریاست کی طرف سے ملنے والی سکیورٹی اور سیفٹی مَحرم بن گئے ہیں، کیوں کہ حکمِ مَحرم کی حکمت یہی تھی۔ لہٰذا اِن سفری سہولیات کے ساتھ جب عورت عورتوں کے گروپ میں یا ایک ایسے گروپ میں جہاں مرد و خواتیں اکٹھے ہوں لیکن فیملیز ہوں اور خواتین کی کثرت ہو تو یہ اِجتماعیت مَحرم کا کردار ادا کرتی ہے۔ انِ حالات میں عورت کے لیے مَحرم کے بغیر سفر کرنا ناجائز نہیں رہتا۔ چاہے وہ (تین دن سے زیادہ مسافت کا) عام سفر ہو یا سفرِ حج اور عمرہ۔واللہ و رسولہ اعلم بالصواب“۔

ہم نے آپ کی تحریر بالقصد نقل کی ہے، پہلے ہم نے مشائخ اہل سنت اور امام احمد رضا محدث بریلوی کے افکار نقل کیے، اب آپ غور کریں کہ دونوں کے نقطہ ہاے نظر میں کیا فرق ہے، ایک جانب دلائل ہیں اور دوسری جانب فقط دعویٰ۔آپ بتائیں کہ سیکورٹی اور سیفٹی محرم کیسے بن گئے، ان پر شرعی دلائل بھی ہونے چاہئیں۔

حضرت مفتی عبد القیوم ہزاروی نے آج اور پہلے کے سفروں میں فرق بیان کیا ہے، وہ ذرا غور کریں آج ہزاروں میل کا سفر بائی پلین چند گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے م جب کہ نماز کے قصر کے لیے ۹۲ کلو میٹر فاصلہ مقرر ہے۔اب اس سفر میں  نہ تھکاوٹ ہوتی ہے نہ پریشانی تو نمازوں میں قصر کیوں کیا جاتا ہے؟

 ایک بندۂ مومن کو شریعت پر عمل کرنا لازم ہے حالات ، تقاضے اور حکومت کیا کہتی ہے ان تمام چیزوں پر نظر کرنا کوئی ضروری نہیں ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کو اسلام کے اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved