11 July, 2025


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia March 2024 Download:Click Here Views: 84881 Downloads: 705

(14)-کشمیر میں اسلامی انقلاب

اور حضرت شاہ ہمدان رحمہ اللہ

مبارک حسین مصباحی

یہ وقیع مجموعہ مضامین 370 صفحات کا گراں قدر مرقع ہے۔ اس میں جند ابواب ہیں، تاثرات ، اوراق حیات ، افکار و خیالات ، ادبیات ، پیغامات ۔ میر امتیاز آفریں ترتیب کار ہیں۔ اس کی اشاعت ” رضائے مصطفےٰ فاؤنڈیشن“ کا نیر ،چاڈرہ، بڈگام ، کشمیر نے کی ہے۔ کا غذ عمدہ اور طباعت اعلیٰ ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ حضرت پیر سید علی ہمدانی قدس سره ہمدان ، ایران میں 714 ھ میں پیدا ہوئے۔ علما اور محدثین سے علوم و فنون حاصل کیے اور شیوخ اور اولیاے کرام سے معارف اور فضل و کمال کی دولت حاصل فرمائی۔ آپ تین بار کشمیر ہند تشریف لائے ، آپ نے اپنے احباب کے ساتھ جگہ جگہ علم و حکمت کے دبستان کھولے۔ آپ نے صنعت و حرفت اور کسب کلاہ دوزی  وغیرہ میدانوں میں بھی اہل کشمیر کو یکتا بنایا ۔ باشندگان کشمیر پر آپ کے حد درجہ احسانات ہیں۔ جنھیں بیان کرنا انتہائی مشکل ہے۔ 4 جولائی 1387 ء/ 25 جمادی الاولیٰ کو لاب تاجکستان ایران میں تدفین ہوئی ۔ آپ کا روحانی اور عرفانی میکدہ آج مرجع خلائق ہے۔ بڑی تعداد میں عشاق آپ کے وسیلے سے مرادیں حاصل کرتے ہیں

 آپ کی شخصیت و خدمات پر 24 مارچ 2019 میں  ریاستی سطح کا ایک کا میاب سیمینار بڈگام  کشمیر میں منعقد ہوا، اس کے مضامین کو بڑے سلیقے سے جمع کیا ، بعد میں بعض حضرات سے رابطہ کیا گیا ان تحریروں کو بھی اس میں شامل کیا گیا، ”فضان شاہ ہمدان اور کشمیر“ کے عنوان سے ہم نے بھی اپنا تاثر نوٹ کیا ، جو بفضلہ تعالیٰ اس کتاب کی زینت ہے ۔ ہم ذیل میں اسے پیش کرتے ہیں۔

فیضان شاہ ہمدان اورکشمیر

 

وادی کشمیر بلا شبہ ارضِ ہند پر جنت کا ایک خوشگوار نمونہ ہے، یہاں قدم قدم پر حسن و جمال کے پیکر دلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ جنت نشاں کشمیر کے حسین خطوں سے دل و جاں کو معطر کرنے والے گل بوٹے اُگتے ہیں، پہاڑیوں کی چوٹیوں سے بہتے جھر نے آنکھوں کو سرور بخشتے ہیں، آب و ہوافرحت و انبساط سے بے خود کرتے ہیں ، ہم کئی بار جموں و کشمیر کی وادیوں میں حاضر ہو چکے ہیں۔ ہم نے دوران سفر ”اورادِ فتحیہ“ اور ”ذخیرۃ الملوک“ کے تذکرے سنے ۔ وادی کشمیر کے عظیم داعی سید السادات امیر کبیر میر سید علی ہمدانی قدس سرہ کا بار بار ذکر خیر سنا۔ آپ کے حوالے سے عشق انگیز بیانات بھی سنے اور خوش بختی سے صوفیانہ کتابوں میں تذکار پڑھنے کا بھی شرف حاصل کیا۔ وادی کشمیر بلا شبہ صوفیاے کرام کی سرزمین ہے۔ ”واقعات کشمیر، تحالف الابرار ، تاریخ اولیاے کشمیر “اور” تاریخ بزرگان کشمیر“ بھی بڑی حد تک روحانی تاج داروں کی یادیں تازہ کر دیتی ہیں۔

اس وقت ہمارے روبرو” کشمیر میں اسلامی انقلاب اور حضرت شاہ ہمدان“ ہے۔ یہ گراں قدر مقالات اور مضامین کا معلومات افزا مرقع جمیل ہے۔ اس کے مرتب ہیں علم و ادب کے نیرِ تاباں محترم میر امتیاز آفریں دام ظلہ العالی ۔ آپ کی شخصیت پر بعد میں روشنی ڈالیں گے، سر دست ہم سید السادات حضرت میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کے ذکر و فکر کی روشنی سے نوک قلم کوتابندہ کرتے ہیں۔

آپ کی ولادت با سعادت بروز دوشنبه بوقت فجر ۱۲ رجب المرجب ۷۱۴ھ/ ۱۲ اکتوبر ۱۳۱۴ء کو ایران کے معروف شہر ہمدان میں ہوئی ۔ ہمدان ، تہران سے ۲۰۰ کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ آپ کے والد ماجد حضرت سید شاہ شہاب الدین قدس سرہ ہمدان کے روح رواں اور حکمراں تھے۔ آپ کا خاندان ۲۰۰ برس سے ہمدان میں مقیم اور وہاں کا حکمراں رہا ہے۔ اہل خانہ حکمرانی کے باوجود صوفیاے کرام سے گہرے روابط رکھتے تھے، آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔ آپ نے اپنے ماموں جان حضرت سید علاؤالدین علیہ الرحمہ سے تجوید کے ساتھ قرآن عظیم حفظ کیا اور علوم و فنون میں امتیازی مقام حاصل فرمایا۔ تزکیۂ نفس اور روحانی تربیت کے لیے حضرت شیخ تقی الدین علی دوسی قدس سرہ کی بارگاہ میں حاضری دی اور اس روحانی بحر شیریں سے اکتساب فیض فرمایا۔ اُن کے وصال کے بعد عظیم روحانی شخصیت حضرت شیخ شرف الدین محمود مزدقانی کی مقدس خانقاہ میں حاضری کی سعادت حاصل کی اور چھ برس تک جاروب کشی فرمائی، عرفان و تصوف کے اس موجزن  سمندر سے ظاہری علوم اور باطنی معارف سے جی بھر کر شادکام ہوئے ۔ اب مرشد گرامی کا ارشاد ہوا اور آپ مختلف ممالک کے روحانی سفر پر روانہ ہو گئے۔

 آپ سلسلہ عالیہ کبرویہ میں اعلیٰ امتیازی مقام رکھتے تھے۔ آپ کا ۲۰ یا ۲۱ برس یعنی ۷۳۳ھ تا ۷۵۳ھ تک یہ سفر جاری رہا، اس مبارک روحانی سفر میں آپ نے چودہ سو (۱۴۰۰) اہل ِمعرفت اور اہل کمال سے نیاز مندانہ اکتساب فرمایا، اپنے وطن لوٹے تو اہل محبت کےاصرار پر آپ نے نکاح کی سنت ادا فرمائی۔

سات سو (۷۰۰) با کمال مریدین ، خلفا اور مختلف شعبوں کے ماہرین کے ساتھ آپ وادی کشمیر میں ۷۷۴ ھ / ۱۳۷۳ ء میں تشریف لائے۔ سری نگر میں دریاے جہلم کے کنارے خانقاہ معلیٰ ہے، جہاں آپ پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرتے، رشد و ہدایت اور درس و تدریس کا اہتمام کرتے ، یہی آپ کا کتب خانہ اور دار القلم بھی تھا ،اس جگہ خانقاہ تعمیر ہوئی جو خانقاہ معلیٰ اور ”خانقاہ شاہ ہمدان“ کے نام سے منسوب ہوئی ، یہ خانقاہ چوبی فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے، آج تک موجود ہے۔ اس تاریخی جگہ کا ابوالفضل نے ”آ ئین اکبری“ میں اور مغل شہنشاہ جہاں گیر نے ”تزک جہاں گیری“ میں تذکرہ کیا ہے۔ خانقاہ کے ساتھ آپ کے فرزند حضرت میر محمد ہمدانی علیہ الرحمہ نے ۷۹۸ھ میں ایک شان دار مسجد تعمیر کرائی جو آج تک اپنی انفرادی شان کے ساتھ موجود ہے۔

کشمیر میں آپ ۳ بار تشریف لائے، پہلی بار اپنے رفقا و خلفا کو جا بجا متعین فرما کر ۱۳۷۶ء میں حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے  اور ۷۸۱ھ/۱۳۷۹ء میں دوبارہ وارد کشمیرہوئے اور ۷۸۵ھ/ ۱۳۸۷ء  میں آپ کشمیر میں تیسری بار تشریف لائے۔ اس عرصے میں تبلیغ اسلام اور اشاعت دین کے ساتھ ساتھ کشمیر کے تہذیب و تمدن ، ثقافت اور طرزِ معاشرت میں بھی ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ کسب کلاہ دوزی جو آپ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے  اختیار کیا تھا ، آج اہلِ کشمیر کا خاص ذریعۂ معاش ہے ۔آپ کی زیرِ قیادت جو حضرات آئے تھے ان  میں علما، اہلِ فن، ماہرِ طب و حکمت اور ماہر زراعت شامل تھے ، آپ نے انھیں مستقل طور پر کشمیر میں رہنے دیا تھا  جن سے اہلِ کشمیر نے بہت کچھ حاصل کیا ، یہ سب اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔ اب کشمیری عوام کا ذریعۂ روزگار شال بافی ، پشمینہ بافی، سوتی و ریشمی سوزن کار ، خطاطی، چوبی کاری، قالین سازی، نمدہ سازی، ظروف سازی، گل کاری  اور عمارتی تزئین و آرائش ہے۔

میر سید علی ہمدانی ﷫ نے اپنے رفقا کے ذریعہ ان دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں درس گاہیں، شفا خانے اور گھر گھر ہنر مندی کے مراکز قائم فرمائے تبلیغ اسلام کے ساتھ کشمیری عوام کو علم و فن کی دولت سے مالا مال فرمادیا ، صنعت و حرفت میں کمالِ عروج کی وجہ سے اس سارے خطے کو ایران صغیر کر دیا۔

تحائف الابرار میں آپ کی تصانیف کی تعداد ۱۷۰ ہے، چند کتابوں کے نام یہ ہیں:

ذخیرۃ الملوک،مشارب الاذواق شرح قصیدۂ خمریۂ ابن فارض المصری، سیر الطالبین، حل مشکل،فتوتیہ اوراد فتحیہ، آداب الطالبین، ہمدانیہ،  عقلیہ،انسان کامل معروف بہ روحِ عظیم ، رسالہ ذکریہ،مرآت الطالبین، وارداتِ غیبی و لطائف قدسی ،رسالہ در وجود مطلق، رسالہ دہ قاعدہ، عقبات، درویشیہ ، چہل مقام، رسالہ ای در معرفت، شرح اسماء اللہ، شرح فصوص الحکم، اخبار المہدی، مودۃ القربیٰ، اسرار النقطہ، رسالہ مشیت ،رسالہ منامیہ، رسالہ قدوسیہ، رسالہ اورادیہ، مکتوبات امیریہ ، داؤدیہ،رسالہ بہرام شاہیہ، بہرام شاہ حاکم بدخشاں۔

 مغلیہ دور میں آپ کی چند کتابیں داخلِ درس تھیں۔ ملک اور بیرون ملک کی لائبریریوں میں آپ کی کتابوں کے مخطوطے موجود ہیں۔ حضرت مرتب نے چند کتابوں پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔ مستقل مضامین میں بھی ، چند کتابوں کا تعارف و تجزیہ کیا گیا ہے، جن کی مختصر فہرست حسب ذیل ہے۔

(1)-چہل اسرار مختصر تعارف و تجزیہ۔ پروفیسر غلام رسول ملک

(2)-شاہ ہمدان کی غزل کا تعمیری کردار۔ پروفیسر قدوس جاوید

(۳)رسالہ خاطریہ-ایک مطالعہ۔ پروفیسر حمید نسیم رفیع آبادی

(۴)-ذخیرۃ الملوک-ایک تحقیقی تجزیاتی مطالعہ-ڈاکٹر مفتی محمد ابراہیم مصباحی

(۵)-اوراد فتحیہ-ایک مختصر تعارف۔ ڈاکٹر ذوالفقار صدیقی۔اس رسالے میں دعاے رقاب بھی ہے۔

اب ہم ذیل میں” اوراد فتحیہ“ مع ”دعاے رقاب“ حضرت مرتب کے قلم سے نقل کرتے ہیں، ہم نے ایک اقتباس حذف کر  دیا ہے۔ دعائے رقاب کی توضیح میں” غلام“ کی جگہ ”بندہ“ کر دیا گیا ہے اور بھی کچھ معمولی تبدیلی کی گئی ہے:

کشمیر کے اکثر گھرانوں اور مساجد میں روزانہ اوراد فتحیہ بڑے ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اورادِ فتحیہ روحانی تسکین اور وجدانی کیف وسرور کا مجرب نسخہ ہے جسے بے شمارکشمیری مسلمان بیک زبان مسجدوں میں اور تنہائیوں میں پڑھ کر جذب وسلوک کی منازل کا بھر پورمشاہد ہ کر تے ہیں ۔

یہ اوراد اور دعا حضرت خواجہ سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ کی وہ لازوال تصنیف ہے جو مختلف وظائف کا مجموعۂ بے مثال ہے۔ قرآن مجیدفرقان حمید اور احادیث نبویہﷺ کی حسین نکھری چاندنی میں حمد باری تعالیٰ کو ایسے موثر ،منور اور دل نشین انداز میں مرتب کیا گیا ہے کہ جس کو ہر خاندان کے صوفیاے کرام اور علماے ذی احترام نے حرز جان بنایا اور اپنے وردمیں شامل کیا۔ حضرت خواجہ سیدعلی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ عشقِ الٰہی میں ڈوبے اور رنگِ الٰہی سے رنگے پیر طریقت تھے ۔ ” اورادِ فتحیہ“ اور " دعاے رقاب“ اس روشن حقیقت کی آئینہ دار ہے......اب تک اس کی متعدد شرحیں لکھی جا چکی ہیں۔

آپ مزید تحریر فرماتے ہیں:حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ 1176ء) اپنی کتاب ”انتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ “میں اورادِ فتحیہ کے بارے میں یوں گوہر فشاں ہیں:

 ”اب اگر فضائل اورخواص اس اوراد کے بیان کیے جائیں تو بہت طویل ہو جائے ۔ اس لیے کہ آں حضرت (یعنی میر سید علی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ)  نے اپنی ساری عمر میں معمورۂ عالم کی تین مرتبہ سیر کی ہے اورچودہ سو (1400) ولیِ کامل سے ملے ہیں اور ہر ولی سے رخصت کے وقت دعا اور رُقعہ کی التماس کی ہے اور ان رقعوں کو اپنے جامہ پرمرقع کیا ہے اور ان دعاؤں اور اذکارکو جو بے اختیار ان کی زبان پر جاری ہوتے تھے جمع کیا ہے۔ یہ اوراد ہو گیا ہے ۔ انہی ( حضرت میر سیدعلی ہمدانی رحمۃ اللہ علیہ )سے منقول ہے کہ ”جب میں بارہویں دفعہ کعبہ شریف کی زیارت کو چلا اور راستے میں مسجد  اقصیٰ پہنچا تھا تو وہاں پر حضرت رسول ﷺکی خواب میں زیارت  ہوئی کہ آپ ﷺ اس درویش کی طرف تشریف لا رہے ہیں ۔ میں اٹھا ، آگے بڑھا اور سلام عرض کیا۔ آپ ﷺنے اپنی آستین مبارک سے ایک جزو و نکالا اور اس درویش سے فرمایا کہ ”خذ ہذۃ الفتحیۃ“یعنی اس فتحیہ کو لے۔ جب میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے اسے لیا اور اس پر نظر ڈالی تو یہی اوراد تھے ۔ اس اشارہ سے ان کا نام ”فتحیہ “رکھا گیا ۔“

دعائے رقاب: رقبہ کی جمع رقاب ہے جس کے معنی گردن کے ہیں ۔ عربی زبان میں رقہ کے اصطلاحی معنی غلام کے ہیں۔ اس دعا کا نام دعاے رقاب اس مناسبت سے رکھا گیا ہے کہ انسان اللہ کریم کا بندہ ہے ۔ بندے کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ بندہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ جو کچھ بھی بندے کے پاس ہوتا ہے وہ مالک کا عطا کردہ ہوتا ہے۔ اس دعا میں بندہ بطور بندہ کے اپنی حاجتوں کی عرضی اللہ کریم کی بارگاہ عالیہ میں پیش کرتا ہے جو مالک حقیقی ہے۔ انسان بطور بندہ کے اللہ کریم کے در با رعالی میں لبیک کی جھولی پھیلائے گا تو پھر وہ خالی ہاتھ کیسے اوٹ سکتا ہے۔

جب آپ گل پوش  وادیِ کشمیر سے واپس ہونے لگے تو سلطان قطب الدین نے گذارش کی کہ آپ تو جا رہے ہیں اپنے کسی نائب کو چھوڑ جائیے۔ آپ نے عظیم داعی حضرت مولانا محمد قادری قدس سرہ کو کشمیر میں چھوڑ دیا اور باقی رفقا کو ساتھ لے کر روانہ ہو گئے۔ علاقہ پکھلی کے شاہی مہمان خانے میں جب آپ کی طبیعت بگڑی تو آپ نے اپنے رفقا کو بلایا اور یہ وصیت فرمائی، فارسی زبان میں کی ہوئی  وصیت کا ہم اردو ترجمہ پیش کرتے ہیں:

قناعت اختیار کرو ، خصوصًا کھانے پینے اور لباس کے معاملے میں ، رضاے الٰہی پر قانع رہنا چاہیے ہاں! علم کے معاملے میں قناعت نہیں کرنی چاہیے، عالم سے ہمیشہ تعلق استوار رکھنا چاہیے ، نفس و ہوا کا اتباع نہ کیا جائے ، آپ نے ذکر کی تاکید فرمائی، مساجد کی تعمیر کی ترغیب دی ، اذکار، اوراد، روزہ، نماز، تسبیح و تہلیل ، زکوٰۃ، علم و حیا اور صبر و شکر کے ساتھ خدا کی رضا اور خوشنودی کا متلاشی رہنا چاہیے ۔ اپنے آپ کو، خویش و اقارب کو اور دوسروں کو ظلم ، زنا، جھوٹ، دغا، چغلی، اور غیبت سے پوری طرح بچنا چاہیے۔

جب سوادِ اکبر میں آپ کا روحانی قافلہ پہنچا حیرت انگیز روحانی فضا تھی آپ کا وظیفہ درود شریف کے بعد ایک ہزار بار ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ تھا۔ وصال سے قبل آپ ”بسم اللہ الرحمٰن الرحیم“ کا ورد فرما رہے تھے۔آپ نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی اور کتنا حسین حسن اتفاق ہے کہ از روے حروفِ ابجد انھیں آخری کلمات سے آپ کا سالِ وفات نکلتا ہے یعنی ۷۸۶ھ۔ تاریخ وصال بھی چہار شنبہ  ۶؍ ذی الحجہ ۷۸۶ /۱۹؍ جنوری ۱۳۸۷ء ہے۔ وصال کے بعد اہلِ کشمیر ، اہلِ طایفان اور پکلی والوں کے درمیان تدفین کے تعلق سے شدید اختلاف ہو گیا۔ ہر طبقہ اپنے علاقے میں مزار اقدس بنانا چاہتا تھا۔ غسل و جنازہ کے بعد آپ کے خواص میں سے حضرت شیخ قوام الدین بدخشی  علیہ الرحمہ نے فرمایا جو لوگ حضور کے تابوت کو اٹھا لیں اپنے علاقے میں لے جائیں اور قبر کی آغوش میں سلا دیں اور مزار شریف بنا لیں۔ عشق و وارفتگی میں ڈوب کر ہر ایک نے اپنی طاقت صرف کی مگر دلوں کی بے تاب آرزوؤں کے خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ کر سکے۔ ہوا وہی جو اللہ تعالیٰ کو منظور تھا۔ تنِ تنہا حضرت شیخ قوام الدین بدخشی  نے تابوت کو اٹھا لیا اور اپنے احباب کے ساتھ ختلان [تاجکستان] لے گئے۔

تاریخ نگاروں نے تحریر کیا ہے کہ یہ قافلہ پانچ ماہ انیس دن کے بعد ختلان پہنچا، راستے میں بادل کا ایک ٹکڑا سایہ فگن رہا، اتنے طویل عرصے میں نعش مبارک پر کوئی اثر نہیں پڑا، بلکہ اس سے مشک کی خوشبو پھوٹتی رہی، اس روحانیت کے تاج دار کی تدفین بمقام کولبا بعمر ۷۷ برس ہوئی۔ اور اسی مقدس مقام پر آپ کا مزار شریف زیارت گاہ عوام و خواص ہے۔

پیشِ نظر کتاب خاکِ ہند کے علما اور دانش وروں کے مقالات اور مضامین کا مرقع ہے۔ اس میں عالی جناب میر امتیاز آفریں نے سید السادات میر سید علی ہمدانی قدس سرہ کی ہمہ گیر علمی، روحانی اور داعیانہ شخصیت پر ایک ویبنار کا انعقاد فرمایا۔ علماے کرام اور عصری علوم کے ماہرین نے اپنی گراں قدر تحریریں پیش فرمائیں۔ ان میں خاص طور پر جنت نشاں وادیِ کشمیر میں آپ کی داعیانہ اور مصلحانہ خدمات کو اجاگر فرمایا گیا ہے۔ آپ کی بعض  تصانیف اور تحقیقات پر تجزیے کیے گئے ہیں۔ مختلف زاویوں سے ہنر مندیوں کو فروغ دینے میں  آپ نےجو کلیدی کردار ادا کیا ہے، مختلف جہتوں سے انھیں اجاگر کیا گیا ہے۔ معلوام ہوا ہے کہ بعد میں بھی چند علماے کرام اور ڈاکٹرز کے مضامین حاصل کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضرت مرتب کو ان کے دینی اور تاریخی مقصد میں کامیاب فرمائے۔

میر امتیاز آفریں وادیِ کشمیر  کے ایک پر نور نقشِ جمیل ہیں۔ آپ ماشاء اللہ تعالیٰ اسلامی اسکالر ، ادیب، کالم نگار، مصنف، شاعر اور معتبر استاذ ہیں۔ سوشل ایکٹوسٹ میں بھی شہرت رکھتے ہیں۔ آپ نے کشمیر یونیورسٹی سے انگریزی ادب اور اسلامیات میں ماسٹرز کیا ہے۔ محکمۂ تعلیم میں بحیثیت استاذ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی تحریریں اور منظومات اخبارات اور رسائل کی زینت بنتی رہتی  ہیں ، اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں، کتاب الزکاۃ، نقشِ وفا[ شعری مجموعہ] اور رہنماے حج و عمرہ۔ چند کتابیں اس وقت بھی اشاعت کے مراحل میں ہیں۔ قریب دس برس پہلے آپ نے ”تنظیم رضاے مصطفیٰ فاؤنڈیشن“ [رجسٹرڈ] کی بنا ڈالی، آپ اس کے بانی ہیں۔

پیشِ نظر کتاب بھی آپ کی محنتوں کا نتیجہ ہے ۔ ہم بطور خاص ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں حضرت مولانا قاری پیر منظور احمد دام ظلہ العالی کی بارگاہ میں آپ تنظیم رضاے مصطفیٰ کے سرگرم چیئر مین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ مرکزی جامع حنفیہ کانیر جاڈو رہ، بڈگام کشمیر میں امامت و خطابت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔

ہم اللہ عز و جل کی مقد بارگاہ میں دعا کرتے ہیں ، مولا تعالیٰ  پیش نظر کتاب کو اپنے خصوصی فضل و کرم سے قبولِ عام عطا فرمائے۔ سید السادات، حضرت سید شاہ میر علی ہمدانی قدس سرہ کے فیضان سے جمو و کشمیر کے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے اور سب کو حق و صداقت کے راستے پر چلنے کی توفیق ارزانی فرمائے اور محترم میر امتیاز آفریں کو خوب خوب جزاؤں سے سرفراز فرمائے۔ آمین بجاہ حبیبہ سید المرسلین علیہ الصلاۃ والتسلیم

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved