ڈاکٹر ارشاد عالم نعمانی
شہید بغداد ، عالم ربانی حضرت علامہ شیخ اسیدالحق محمد عاصم قادری محدث بدایونی (۱۳۹۸ھ-۱۴۳۵ھ)قدس سرہ اس عظیم علمی و روحانی خانوادے کے چشم وچراغ تھے ، جس کی شناخت ہردور میں علم ،روحانیت ،سخاوت ،جاہ وحشمت اور فضل وکمال رہی ہے۔ اور اس کا وافر حصہ قدرت نے آپ کے لیے ودیعت کیا تھا۔آپ نے علمی وروحانی فضا میں شعور کی آنکھیں کھولی ۔قال اللہ وقال الرسول کے علمی ماحول میں آپ کی پرورش وپرداخت ہوئی۔ والد گرامی اور ہندوبیرون ہندکے اپنے عہد کے نامور اساتذہ سے تحصیل علم کیا ۔عمر عزیز کے تیس سال آپ نے تحصیل علم میں گزارے۔ ۲۲؍سال کی عمر میں مروجہ درسیات سے فراغت کے بعد مزید آٹھ سال آپ نے تفسیر، حدیث ،فقہ اور عربی ادبیات کی خصوصی تعلیم میں صرف کیے جس کے نتیجے میں مذکورہ علوم و فنون میں آپ نے کمال اور تبحر حاصل کرلیا ۔ خاندانی وجاہت ،ذہانت وفطانت ،فضل وکمال، علم وروحانیت میں اپنی مثال آپ تھے ۔ معقولات ومنقولات کے بحر زخار تھے ۔اپنی عملی زندگی کے تقریبا دس سال کے مختصر عرصے میں اسلامی علوم ومعارف ،تاریخ وتذکرہ ،شعر وسخن، لسانیات ، ادبیات اور تنقیدات کےمیدان میں آپ نے اس کثرت سے جہان علم ودانش کو اپنی علمی تحقیقات،اور ادبی وتنقیدی رشحات سے فیض یاب کیا کہ ایک بڑے حلقے کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔
جب آپ نے عملی زندگی میں قدم رکھا اس وقت جماعتی سطح پر لکھنے پڑھنے کی جو عمومی فضا تھی اس کا دائرہ فضائل ومناقب اور سیرت وسوانح تک محدود تھا ۔معدودے چند لوگ تھے جو تحقیقی موضوعات کو اپنے مطالعہ وتحقیق کا حصہ بناتے ۔آپ کے میدان ِتحریر و تصنیف میں قدم رکھتے ہی علمی موضوعات اور تحقیقی نگارشات کا ایک دبستان کھل گیا ۔لکھنے پڑھنے کے تعلق سے آپ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ جب تک موضوع میں ندرت نہ ہو یا قارئین کے لیے کسی انکشافی پہلو یا معلومات میں اضافے پر مبنی نہ ہو آپ قلم نہیں اٹھاتے ۔یہی وجہ ہے کہ معاصرین میں سب سے زیادہ آپ کی نگارشات کو پڑھنے کا رجحان عام ہوا ۔
نسل نو میں علمی و تحقیقی شعور کی بیداری :
آج جماعت میں نئی نسل کے اندر جو علمی وتحقیقی شعور پیدا ہواہے اس میں آپ کی قلمی و فکری تحریک کا بڑا حصہ ہے ۔نسل نو کی علمی رہنمائی کے ساتھ ان کے حوصلوں کو امنگ وترنگ بخشناآپ کی زندگی کا ایک اہم ہدف تھا جس میں آپ کو سرخروئی اور کامیابی نصیب ہوئی ۔علمی کام کے سلسلے میں جب بھی کوئی آپ سے رابطہ کرتا آپ بڑے تپاک سے اس کی معروضات سنتے ،فرصت نہ بھی ہو تو ملاقات کاموقع ضرورفراہم کرتے اور ان کے حسب حال موضوعات اور مطالعے کی جہات کی رہنمائی فرماتے ۔بغیر کسی سابقہ تعلق اور مراسم کے آپ سے ملاقات وروابط کے لیے صرف یہ شناخت کافی ہوتی کہ ان کا لکھنے پڑھنے سے تعلق ہے ۔لکھنے پڑھنے والوں کو آپ بہت عزیز رکھتے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے تعصب وتنگ نظری کو حائل نہیں ہونے دیتے ۔ مولانا صادق رضا مصباحی (مدیر سنی دعوت اسلامی ممبئی )اس سلسلے میں لکھتے ہیں :
’’و ہ جب بھی اپنے چھوٹو ں سے ملاقات کرتے تو ان کی حوصلہ افزائی کرتے،ا ن کے کاموں کی تعریف کرتے ، مشورے دیتے اورجب بات سے بات نکلتی توعلمی، تحقیقی، فکری اورمعاشرتی امور زیر بحث آتے اورپھران کی فکری زرخیز ی ، علمی گہرائی و گیرائی اور ادبی وتنقیدی بصیرت کے جلوے بکھرتے۔ ان کی گفتگو چھوٹوں کے لیے بڑی حوصلہ بخش ثابت ہوتی۔ میں نے ماضی قر یب کے علماومشائخ میں حضورحافظ ملت علیہ الرحمۃ والرضوان کے بارے میں سناہے کہ ایک بارکوئی ان سے ملاقات کرلیتاتوپھران سے دوبارہ ملنے کامشتاق رہتا۔ بلامبالغہ حضرت مولاناقادری کے سلسلے میں مَیں بالکل یہی کیفیت اپنے اندر پاتا ہوں۔میری طرح ہر چھوٹا اور جونیئر یہ گواہی دے گاکہ مولاناکی شخصیت ان کے لیے کس درجہ محرک تھی۔وہ خودکام کے آدمی تھے اورکام کرنے والوں ہی کوپسندبھی کرتے تھے۔ ‘‘ (عالم ربانی نمبر ص۲۴۴)
نئی نسل میں سے یہ تو بطور نمونہ صرف ایک فرد کے قلبی اور مشاہداتی تاثرات کو پیش کیا گیا ہے اس حوالے سے نئی نسل کے تاثرات و احساسات کو جمع کیاجائے تو ایک دفتر تیار ہوسکتاہے ۔نئی نسل کی حوصلہ افزائی اور ان کے لیے شاہراہ عمل کی مخلصانہ رہنمائی کا نتیجہ تھا کہ آپ کی شہادت پر نئی نسل کے نمائندہ اصحاب فکر وقلم نے اپنی تاثراتی تحریر میں بجاطور پر اس بات کا اظہار کیا کہ شہید بغداد قدس سرہ کا سانحہ ارتحال ان کے لیے داغ یتیمی سے کم نہیں ۔
محققین کاعلمی تعاون :
عام طور پر لوگ علمی سرمائے کو اپنی ذاتی ملکیت تصور کرتے ہیں ،نہ وہ خود کوئی علمی کام کرتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کی اس تک رسائی ہونے دیتے ہیں،مجھے بھی اس تلخ تجربے سے کئی بار گزرنا پڑاہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ۔ عالم ربانی قدس سرہ اکثر فرماتے کہ’’ پتہ نہیں لوگ علمی سرمایے کواپنی میراث کیوںسمجھتے ہیں،وہ تواہل علم کا سرما یہ ہے،انہیں اس سے استفادے سے روکنا سراسر نا انصافی ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی علمی سرمایہ موجود ہوتاآپ کبھی منع نہیں کرتے بلکہ جو کوئی آپ سے کسی بھی قسم کےعلمی تعاون کا طالب ہوتا آپ اس کی علمی مدد فرماتے ۔اس تعلق سے بھی آپ کی شخصیت اہل علم کے درمیان بے مثال ہے ۔ آپ کی طرح فراخ دلی اور کشادہ قلبی کے ساتھ علمی تعاون کرنے والے خال خال نظر آتے ہیں ۔اہل علم کی ایک بڑی تعداد ہے جن سے آپ کے علمی روابط تھے ، اورعلمی تعاون کا رشتہ استوارتھا۔
واضح رہے کہ علمی تعاون کا دائرہ بہت وسیع ہے،عالم ربانی قدس سرہ نے علمی تعاون کےسبھی ممکنہ ذرائع سے اہل علم اور محققین کی معاونت کی، جسے اجمالا اس طرح ذکر کیا جاسکتا ہے :
مواد کی فراہمی :
آج کے مصروف ترین دور میں کسی کے لیے وقت نکالنا کس قد ر دشوار گزار اور مشکل مرحلہ ہے اسے بتانے کی ضرورت نہیں، مواد کی فراہمی میں خالصۃلوجہ اللہ سرمایہ خرچ کرناتو دور کی بات ہے اس کے لیے وقت نکالنا کار عبث تصور کیا جاتا ہے۔ جب کہ عالم ربانی قدس سرہ کے پاس کام کرنے کا جو وسیع خطہ اور خاکہ تھا اور جس کے پیش نظر آپ اکثر یہ فرماتے کام بہت ہے اور وقت کم ہے، اپنے علاوہ کسی اور کی طرف دیکھنے کی آپ کو بالکل فرصت نہیں تھی، اس کے باوجود آپ نے علمی تعاون کے لیے اہل علم کی گزارشات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا اور نہ ہی اس سے صرف نظر کیا ۔جب بھی کسی نے آپ سے مواد کی فراہمی کے لیے کہا تو آپ نے ہمیشہ ان سےنہ صرف امید افزا اور حوصلہ بخش گفتگو کی بلکہ مواد کی فراہمی کی حتی المقدور کوشش کی ،اپنی علمی لائبریری سے ہروقت مواد کی فراہم کرتے،اسی طرح جب اپنی کسی علمی ضرورت کے تحت آپ کسی لائبریری کا سفر فرماتے اور وہاں کسی کا مطلوبہ مواد مل جاتا تووہاں سے بھی مواد حاصل کرکے ان تک شخصی طور پریا بذریعہ ڈاک ،یا جدید ذرائع وصل ونقل سےاپنے خرچ سے بھیج دیتے ،ہاں !البتہ اپنے وسائل وذرائع استعمال کرنے کے بعد بھی مواد کی حصولیابی میں کامیابی نہیں ملتی تومعذرت کرتے ۔کسی بھی موضوع پرکم یاب مواد کو تلاس کرنا اور پھر اسے محفوظ کرکے بھیجنا کس قدر مشکل کام ہے اس کا صحیح اندازہ وہی حضرات کرسکتے ہیں جنہیں اس طرح کے کام سے سابقہ پڑا ہو ۔ لیکن اس کے باوجود عالم ربانی قدس سرہ دوسروں کے لیےکیسے اتنا وقت نکال لیتے تھے حیرت ہوتی ہے ۔اس سلسلے میں یہاں چندمشاہیرکے تاثرات سے اقتباسات درج کیے جارہے ہیں جن سے فراہمی مواد کے سلسلے میں آپ کی مثالی روش اور بلندی اخلاق کی واضح تصویر سامنے آتی ہے ۔
l۱۹۹۷ءمیں جب عالم ربانی قدس سرہ دارالعلوم نور الحق چرہ محمد پورمیں جماعت سابعہ میں تعلیم حاصل کررہے تھے ، اس وقت فوٹو کاپی کا زیادہ چلن نہیں تھا ، کسی کتاب کی فوٹو کاپی کرانا بہت مشکل امر تھا ،مولانا نفیس احمد مصباحی(شیخ الادب جامعہ اشرفیہ مبارک پور ) جو اس وقت دارالعلوم علیمیہ جمداشاہی ،بستی میں تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے،اس سال آپ کے زیر درس پہلی بار قصیدتان رائعتان آئی ،چند مقامات پر جہاں اکابر خانوادہ عثمانیہ بدایوں شریف کے لیے تلمیحات استعمال کیے گئے ہیں انہیں ان کی وضاحت مطلوب ہوئی،انہیں ایام میں آپ کی ملاقات دارالعلوم نور الحق چرہ محمد پور میں عالم ربانی قدس سرہ سے ہوئی ۔انہوں نے آپ سے اکمل التاریخ کی فراہمی کے لیے کہا اور قصیدتان رائعتان کےچندمقامات کی وضاحت چاہی ،آگے مولانا نفیس احمد مصباحی کے قلم سےپورے واقعے کی تفصیل ملاحظہ کیجیے
’’ دارالعلوم نور الحق چرہ محمد پور میں مولانا اسید الحق قادری صاحب سے ملاقات ہوئی اور تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ آپ امام احمد رضا قادری بریلوی کے ممدوحین گرامی کے خانوادے کے چشم و چراغ ہیں تو میں نے ان سے گزارش کی کہ مجھے ’’اکمل التاریخ‘‘ کی ضرورت ہے جو آپ کے خانوادے کے اکابر و متعلقین کے احوال و آثار کی تاریخ ہے، اور اِدھر کہیں دستیاب نہیں ہے، لہٰذا آپ براے مہربانی کسی بھی طرح اس کی فوٹو کاپی عنایت فرمائیں۔ مولانا موصوف نے نہ صرف پوری کشادہ ظرفی کے ساتھ اس کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا، بلکہ اپنی قدیم خاندانی لائبریری ’’کتب خانہ قادریہ‘‘ سے اس کی فوٹو کاپی کرا کے بہت جلد مجھے بھیج دی اور ساتھ ہی متعلقہ معلومات پر مشتمل ایک شان دار خط بھی ارسال فرمایا جس میں’’قصیدتان رائعتان‘‘ کے تعلق سے بہت سے اہم ادبی اور تاریخی گوشوں پر روشنی ڈالی تھی۔‘‘(عالم ربانی نمبر ص ۱۹۰)
عالم ربانی قدس سرہ کو علمی تعاون کا یہ جذبہ اپنے اسلاف سے ورثہ میں ملا تھا ، آپ علم دوستی کی اہمیت وافادیت سے بخوبی واقف تھے پھر کیوں کر ممکن تھا کہ کسی سے کیے ہوئے وعدے کو ٹال دیتے۔خط کا متن موقع کی مناسبت سے آگے آرہا ہے ۔
*- مفتی آل مصطفی مصباحی (استاذ ومفتی جامعہ امجدیہ گھوسی) علیہ الرحمہ سے عالم ربانی قدس سرہ کےگہرے دوستانہ مراسم تھے ،دونوں حضرات ایک دوسرے سے کھل کرعلمی تبادلہ خیالات فرماتے ،مفتی صاحب کو جب بھی حوالہ جاتی نادر ونایاب کتابوں کی ضرورت ہوتی وہ بلاجھجک عالم ربانی قدس سرہ سےاس کی فراہمی کے لیے کہتے ،اور آپ کبھی بھی ان کی فرمائش کورد نہیں فرماتے ، جب مفتی صاحب نے مجلس برکات جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے علمی منصوبے کےتحت التوضیح والتلویح کے حاشیہ پر کام کا ارادہ کیا تو اس کے لیے آپ کو کئی نادرونایاب کتاب کی ضرورت پڑی ،وہ کتابیں کتب خانہ قادری بدایوں شریف میں موجود تھیں ،آپ کی خواہش پر عالم ربانی نے بڑی کشادہ قلبی کے ساتھ آپ کے نام سے لائبریری سے جاری فرمایا جنہیں آپ نے بعد میں واپس کیا ،اس کے علاوہ بھی متعدد مواقع کا تو یہ ناچیز خود عینی شاہد ہے ۔مفتی صاحب آپ کے علمی تعاون کا ذکرکرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’جب مجھے’’ الاشباہ والنظائر‘‘ لابن نجیم حنفی کامل اور رسائل ابن عابدین (شامی) کی ضرورت پڑی تو انہوں نے مصر سے ایک مولانا صاحب کے بدست بھیجا ،جس سے کتاب کی تعلیم وتدریس اور فقہی مسائل کے حل میں بڑی مدد ملی ،ان کے علاوہ درجنوں کتب ورسائل جو تاج الفحول اکیڈمی کی مطبوعات ہیں انہوں نے بھیجے ۔کئی بار مدرسہ قادریہ بدایوں کی قدیم لائبریری سے چند نایاب کتابوں کے مطالعے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے وہ کتابیں بھیجیں۔(عالم ربانی نمبر ص۶۳)
*-مولانا ڈاکٹر اشرف الکوثر مصباحی نے ۲۰۱۳ ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میںمبلغ اسلام مولا شاہ عبدالعلیم میرٹھی پر پی ایچ ڈی کا رجسٹریشن کرایا اور مواد کے سلسلے میں آپ سے رابطہ کیا، آپ نے اپنے پاس موجود مواد کی فراہمی کے ساتھ پاکستان کے حلقہ احباب میں سے محترم محمد احمد ترازی صاحب کو ان کے علمی تعاون کی طرف متوجہ کرتے ہوئے درج ذیل برقی پیغام بھیجا کہ : ’’ہمارے ایک دوست مبلغ اسلام پر پی ایچ ڈی کررہے ہیں ، میں نے آپ کا حوالہ دیا ہے ،اگر ممکن ہو تو کچھ تعاون فرمادیں ۔‘‘ (عالم ربانی نمبر ص۲۲۴)
علمی مکاتبت:
جب تک پیغام رسانی کے جدید ذرائع عام نہیں ہوئے تھے اس وقت تک اہل علم کے درمیان مکاتبت ہی علمی افادے واستفادےکااہم ذریعہ تھا ، صاحبان علم ودانش ایک دوسرے سے علمی اشکالات واستفسارات مراسلات کے ذریعے فرماتے۔علمی مکاتبت کے لیے وسعت قلبی کے ساتھ متانت و شائستگی ،مناصب وعرفی حیثیات کا خیال اور تہذیب وشرافت کےساتھ احترام وتکریم بہت اہم عناصر ہیں ۔ عالم ربانی قدس سرہ کی معاصر اہل علم سے اس طرح کی جو بھی مکاتبت ہوئی ہے سب میں مذکورہ عناصر کی جلوہ گری آپ کو نظر آئے گی ،یہی وجہ ہے کہ آپ کے علمی مکاتیب سے آپس میں کوئی ترشی یاتلخی کی نوبت نہیں آتی ،بلکہ آپ بات کو سلیقے سے کہنےکا ہنر خوب جانتے تھے جس کا اعتراف مکتوب الیہم نے کشادہ قلبی سے کیا ہے ۔حتی کہ عہد طالب علمی میں بھی بعض اہل علم سے علمی مراسلت کا سلسلہ جاری رہا اس وقت بھی آپ نے زبان وبیان اور سنجیدگی وشائستگی کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔
راقم نے ایک علمی موضوع پر آپ کے اور مولانا شاہ ہلال احمد قادری (پھلواری،پٹنہ )کے مابین علمی مکاتبت پرایک تفصیلی تحریر قلم بند کی ہے جس میں دونوں حضرات کے مکاتیب ،اسلوب بیان اور ایک دوسرے کے احترام وتکریم پر مبنی خیالات کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیاہے ، اس کے مطالعے سے علمی مکاتبت کے سنجیدہ اسلوب سے آگاہی ہوتی ہے ۔یہ مقالہ سہ ماہی المجیب پھلواری کے عمدۃ المتوکلین نمبر میں شائع ہوچکا ہے۔
یہاں عہد طالب علمی ہی کا ایک خط جو آپ نے’’قصیدتان رائعتان‘‘ میں چند مقامات کی تفہیم کےتعلق سے مولانا نفیس احمد مصباحی کے ایک استفسار کے جواب میں تحریر کیا، درج کیا جارہاہے:
مکرمی و محترمی…………سلام مسنون
الحمد للّہ علی کل حال۔امید ہے کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا!
حسب وعدہ ’’اکمل التاریخ‘‘ حاضر خدمت ہے۔ ان قصائد کے متعلق چند اہم امور بھی ملاحظہ فرمائیں:
۱- یہ دونوں قصیدے ۱۳۰۰ھ میں تصنیف کیے گئے، جیسا کہ ان کے تاریخی ناموں سے ظاہر ہے۔
۲-ان میں سے آخر والا یعنی دالیہ ممدوح کے عرس منعقدہ ۱۳۰۰ھ میں خود فاضل مصنف نے عرس کی ایک محفل میں پڑھا ۔ اس قصیدے کے آخر میں اس عرس کی تاریخ بھی بطور تلمیح ہے: یا فضل عرس اما جد۔
۳- پہلے قصیدے یعنی نونیہ کا اصل نام مدائح فضل الرسول ہے اور دوسرے کا اصل نام ’’حمائد فضل الرسول‘‘ ہے۔
(الف) حضرت ملک العلما مولانا ظفر الدین بہاری نے فاضل بریلوی کی تصانیف کی ایک فہرست ’’ المجمل المعدّد لتالیفات المجدّد‘‘ کے نام سے مرتب کی تھی، اس میں ان دونوں قصائد کے نام ہیں۔ حمائد کے آگے مطبوعہ اور مدائح کے آگے مبیضہ تحریر ہے۔
(ب) عرس یعنی ۱۳۰۰ھ میں پڑھا جانے والا سارا کلام’’ماہ تابان اوج معرفت‘‘ (۱۳۰۰ھ)کے نام سے شائع کر دیا گیا تھا۔(اس کے بعض صفحات کا عکس بھی حاضر خدمت ہے) اس میں قصیدۂ دالیہ بھی مطبوع ہے، اس لیے ظاہر ہے کہ حمائد فضل الرسول یہی دالیہ ہوا اور مدائح (جو غیر مطبوعہ تھا) نونیہ ہوا۔
۴-بہتر یہ ہے کہ اس بار یہ قصائد اپنے اصل نام سے شائع ہوں۔ سر ورق پر یوں لکھا جائے:
قصیدتان رائعتان یعنی مدائح فضل الرسول و حمائد فضل الرسول۔
۵-قصیدۂ اولیٰ میں دعا کے بعد حضرت ممدوح کے صاحب زادہ و جانشین حضرت تاج الفحول محب رسول مولانا عبد القادر قادری بدایونی قدس سرہ (میرےوالد گرامی کے حقیقی دادا) کی مدح کی طرف سے اس شعر سے گریز کیا گیا ہے:
تم الدعا فارجع غنیا غانمًا
واقصد سميَّ السید البغدانی
حاشیہ میں حضرت تاج الفحول کی بھی سوانح آنا ضروری ہے جو اکمل التاریخ میں موجود ہے۔ مزید دیکھیں فتاویٰ رضویہ جلد ششم ص: ۳۶۶، ۳۶۷، اور جلد دو ازدہم ص: ۱۳۰، ۱۳۱ (رضا اکیڈمی) اور المعتمد والمستند ص:۱۲۱( ترکی)
۶- حضرت تاج الفحول کی شان میں حضرت فاضل بریلوی نے ایک مستقل قصیدہ اردو میں ’’چراغ انس‘‘ (۱۳۱۵ھ)کے نام سے لکھا ہے ان شاء اللہ اس کو بھی ارسال کروں گا۔
۷-قصیدہ اولیٰ کے اخیر میں ایک مصرع ’’ومحبہ ومطیعہ بحنان‘‘ بھی ہے۔اس میں لفظ محب سے کنایہ حضرت تاج الفحول کی طرف ہے (ان کا نام محب رسول تھا کما مر) اور لفظ مطیع سے کنایہ حضرت تاج الفحول کے صاحب زادہ قدوۃ السا لکین حضرت مولانا عبد المقتدر مطیع الرسول (میرے دادا کے بڑے بھائی) کی جانب ہے۔
اس کے علاوہ بھی اگر کسی شعر میں شبہ ہو تو مطلع فرمائیں۔خط کے جواب اور کتاب کی وصول یابی سے ضرور مطلع فرمائیں۔
شکریہ۔فقط
بد نام کنندۂ نکونامے چند
اسید الحق
احقر طلبہ مدرسہ عالیہ قادریہ
۱۴؍ اکتوبر ۱۹۹۷ء
پس نوشت:قصیدہ ثانیہ میں ایک شعر ہے:
’’اُنطُرْ بَوارقَــــــــــہ إذَا
بَرقَتْ بِعلیا فَرْقَدٖ ‘‘
اس میں حضرت ممدوح کی ایک کتاب ’’بوارق محمدیہ لرجم الشیاطین النجدیہ‘‘ کی طرف اشارہ ہے۔ قصیدۂ اولیٰ میں بھی ایک جگہ ’’بوارق‘‘ کا لفظ آیا ہے، وہاں بھی یہی معاملہ ہے۔
’’فَضْلُ الرسولِ مُوبَّدٌ‘‘(۱۲۸۹ھ) اس مصرعہ سے حضرت ممدوح کی تاریخ وصال برآمد ہوتی ہے۔ اسید الحق
مکتوب الیہ نے اپنے مضمون میں خط کے مذکورہ متن کو نقل کرنے کے بعد ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے :
’’ اس خط کو میں نے کئی بار پڑھا، ہر مرتبہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کے لیے دعائیں نکلیں اور میں نے محسوس کیا کہ موصوف، حضرت شیخ سعدی علیہ الرحمہ کے قول:
’’بالاے سرش ز ہوش مندی
می تافت ستارۂ سربلندی‘‘
کے سچے مصداق ہیں۔‘‘(عالم ربانی نمبر ص۱۹۰-۱۹۱)
علمی سرمائے اور تصانیف کی اشاعت میں مالی تعاون
جماعت اہل سنت میں اشاعت کتب کا رجحان پچھلے دودہائیوں سے نسبتاً زیادہ ہواہے ورنہ اس سے پہلے اہل سنت کا زیادہ سرمایہ جلسہ وجلوس پر صرف ہوتا ۔بڑی سے بڑی کانفرنس کے لیے لاکھوں لاکھ کا سرمایہ آسانی سے اکٹھا ہوجاتا لیکن صاحب تصنیف کو اپنی کتاب کی اشاعت کےلیے سرمائے کی فراہمی میں ناکوں چنے چبانے پڑتے،اس میں بھی اگر فضائل و مناقب پر کتاب ہوتی تو اس کی اشاعت کابار چھوٹے موٹے تاجران کتب تاجرانہ ذہنیت کے زیر اثر اپنے ذمے لے لیتے لیکن اگر خالص علمی موضوع پر کوئی کتاب ہو تو مصنف کو خود ہی بار اشاعت برداشت کرنا پڑتا ، یاپھر کتاب تشنہ طباعت رہتی ۔اہل قلم کی ناقدری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ بہت سے علمی ذخائر مالی وسائل کی نافراہمی کی وجہ سے الماریوں کی زینت بنے بنے یاتو دیمک کی نذر ہوگئے یا ضائع اور تلف ہوگئے ۔ البتہ پہلے کے مقابلے میں اب صورت حال میں کافی تبدیلی آئی ہےاور جماعتی سطح پر علمی سرمائے کی اشاعت کا رجحان بڑھا ہےگو کہ صورت حال ابھی بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔
عالم ربانی قدس سرہ کوعہد طالب علمی ہی سے علمی سرمائے کی اشاعت کا بخوبی احساس تھا یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے عہد طالب علمی ہی سے اہل علم کے علمی سرمائےکی اشاعت میں خالصۃلوجہ اللہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔اپنے مالی تعاون کا ذکرآپ کو بالکل پسند نہیں تھا اور نہ ہی آپ کسی قسم کی تشہیر وتعریف کے قائل تھےبلکہ آپ جب بھی اشاعت کتب کے لیے کسی کا مالی تعاون کرتے توصاحب کتاب یا ناشر کو کسی طرح تشکراتی کلمات یااشارے کنائے کے طور پربھی اپنا ذکر کرنے سے سختی کے ساتھ منع فرمادیتے۔ آپ کا یہ وصف شہادت کے بعد لوگوں کے سامنے آشکار ہوا، احسان شناسوں نے اپنی تحریروں میں منت شناسی کے طورپر آپ کی اس خوبی کا ذکر کیا ۔مولانا ذوالفقار خان نعیمی نے اپنے حوالے سے آپ کے بے لوث مالی تعاون کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جسے پڑھ کر آپ کی علمی فیاضی اور اشاعت کتب کے سلسلے میں مالی تعاون اور علم دوستی کے بہت سے مخفی گوشے سامنے آتے ہیں ،ایک جگہ وہ عالم ربانی قدس سرہ کی بے لوث معاونت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’میں نے اپنی کتاب ’’فتاوی اتراکھنڈ‘‘ اور ’’رکعات نماز‘‘ طباعت سے پہلے ہی نیٹ پراپلوڈکردی توایک دن فون آیا،بہت دیر تک بات ہوتی رہی اور اسی دوران پوچھ لیاکہ کتاب کیو ں نہیں چھپوا رہے ہو؟میں نے کہا:ابھی مکمل رقم کاانتظام نہیں ہواہے، فتاوی اتراکھنڈکے لیے رقم ہے مگررکعات والی کتاب کی گنجائش نہیں نکل پارہی ہے، توفرمایا:’’.کتاب چھپواؤجوخرچ ہوگا میں دوںگا ،مگربس ایک درخواست ہے۔‘‘ میں نے سوچاشایدٹائٹل پرناشرکے حوالے سے اپنی اکیڈمی کانام لکھوانے کو کہیں گے، مگرحیرت ہوئی مجھے یہ سن کر جب انہوں نے کہا:’’ میرانام نہ نوک قلم پرآئے اورنہ نوک زبان پر‘‘ میں نے سوچا: یااللہ! ایسے لوگ بھی دنیامیںہیںجودین کاکام خالص دین کے لیے ہی کرتے ہیں؟یقینااس جملے سے خوشی کی ایک لہردل میں دوڑگئی اوراس جملے سے بزرگوں کی یادتازہ ہوگئی۔خیرخواجہ بک ڈپوسے کتاب چھپ گئی۔‘‘(عالم ربانی نمبر ص۲۳۱)
مولانا نعمان احمد ازہری آپ کی علم دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اسید میاں کی ذات گرامی کتنی علم دوست تھی، اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ مولانا جلال رضا ، مولانا منظر الاسلام اور مولانا گل محمد کشمیری نے اعلی حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کے تین رسالے جو رد قادیانیت میں ہیں، عربی ترجمہ کر کے وہاں قاہرہ سے چھپوانے کی کوشش کی، خادم علمی کاموں میں کم تنظیمی کاموں میں پیش پیش رہا، جب یہ رسالے کمپوزنگ، پروف ریڈنگ کے مراحل سے گزرچکے تو میں نے جناب الحاج سعید نوری سے رابطہ کیا۔ کوئی پانچ سو ڈالر کی ضرورت تھی تو سعید نوری صاحب نے اسید میاں کو فون کر کے درخواست کی کہ آپ حضرات وہاں اہل سنت و جماعت کے فروغ کے لیے جو بھی کام ہوسکے کریں ،پیسے کی پرواہ نہ کریں، جلد بھیجا جائے گا۔ اسید میاں نے فوراً ہم لوگوں سے مل کر فرمایا پیسہ آجائے گا، لیکن یہ کام ابھی ہونا چاہیے، لہٰذا آپ نے اپنی جیب خاص سے پانچ سو ڈالر عنایت کیے اور کتاب چھپ کر منظر عام پر آگئی۔‘‘(عالم ربانی نمبر ص۲۲۷) (جاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org