ڈاکٹر محمد ولی اللہ قادری
سر زمینِ بہار کا خطۂ چمپارن علمی، ثقافتی اور مذہبی ہر لحاظ سے تاریخی ہے۔ خطۂ چمپارن کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ ہر دَور میں وہ بزرگوں اور اہالیانِ تصوّف کے فیض سے مالا مال رہا ہے۔ یہ خطّہ درگاہ شاہ ارزاں عظیم آباد، پٹنہ کے زیر جاگیر رہا۔ اس خاک سے بڑے بڑے علما، نقبا اور نامور شخصیات پیدا ہوئیں، لیکن یہ تلخ حقیقت بھی ہے کہ اس خطّے کے بہت سے علما و شعرا اور بزرگانِ دین آج بھی پردۂ خفا میں ہیں۔ ان شخصیات میں شاگرد ملک العلما حضرت مولانا سید ابو نعیم محمد عبد الحکیم نقشبندی علیہ الرحمۃ بھی شامل ہیں جن کا تخلص ’ارمان ‘ ہے۔ مولاناسید عبد الحکیم نقشبندی کی شخصیت شریعت و طریقت کا مجمع البحرین تھی۔ حضرت ارمان کی شخصیت دو وجوہات کے سبب راقم الحروف کے لیے قابل توجہی ہے۔ اولاً آپ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کے نامور خلیفہ و شاگرد حضرت ملک العلما کے شاگرد و رشید تھے۔ ثانیاً راقم الحروف کا وطنی تعلق حضرت کے دیارِ وطن سے ہے۔
مولانا عبد الحکیم نقشبندی کی پیدائش 1907 ء میں ہوئی۔ مقام پیدائش موضع بانس گھاٹ ٹولہ کوندھیا پوسٹ بھون چھپرہ وایا بارا چکیا ضلع مشرقی چمپارن ہے۔ بعض کتب میں 1908 ء بھی سال پیدائش درج ہے۔ آپ کے والد بزرگوار سید محمد کریم بخش تھے۔ اسی طرح جد امجد میر الہی بن میر بشارت بن میر عبد اللہ تھے اور آپ کا سلسلۂ نسب حضرت غوث پاک سیدنا محی الدین جیلانی قدس سرہ تک پہنچتا ہے ۔
آپ کے خاندانی احوال و کوائف پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب معین شاہد لکھتے ہیں:
’’ آپ ( مولانا ارمان نقشبندی) کا سلسلۂ نسب مولانا جمال الدین کوڑہ، جہاں آباد لکھنؤ علیہ الرحمۃ سے ملتا ہے۔ ان کی اولاد کو حضرت مخدوم قتال رحمۃ اللہ علیہ نے بحیثیت امام مسجد واقع چوکی قتال پورہ چھپرہ بلایا تھااور ان کا خاندان اس علاقہ میں آباد ہو گیا۔ اس خاندان کی علمی و دینی شہرت کا شہرہ دور دور تک ہوا اور بالآخر بتیا مہاراجہ نے ان کے پر دادا کومسجد کی امامت پر بلوا کر فائز کیا اور نرکٹیا گنج کے علاقہ میں بڑی بڑی جاگیروں سے نوازا۔ مہاراجہ بتیا بڑے علم دوست تھے اور عالموں اور شاعروں کے قدرداں تھے۔ تعصب نام کو نہ تھا۔ انھیں خاص کر مسلمان صوفیاے کرام اور علما سے دلی تعلق تھا۔ انگریزوں نے (Couit of words) کے زمانہ میں ان کی جاگیریں چھین لیں۔ اور انھیں اتنا ستایا کہ عاجز ہو کر انھیں اس علاقہ کو چھوڑنا پڑااور کوندھیا میں جا کر آباد ہوئے۔‘‘[ ماہنامہ اشارہ پٹنہ۔ مئی 1962ء۔ صفحہ21]
مولانا سید عبدالحکیم ارمان نقشبندی کی ابتدائی تعلیم اپنے بڑے بھائی سید آرش حسین مرحوم سے ہوئی۔ متوسطات درجات یہاں تک کہ مولویت تک کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ موتی ہاری مشرقی چمپارن سے حاصل کی اور وسطانیہ کے امتحان میں ضلع بھر میں اول آنے پر خان بہادر محمد جان مرحوم کے ذریعہ مڈل حاصل کیا۔ بعدۂ مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ تشریف لے گئے اور وہاں سے اعلیٰ سند حاصل کی۔ مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ کے اساتذہ میں سب سے زیادہ عزیز ملک العلما مولانا ظفر الدین بہاری علیہ الرحمۃ کی نظر میں رہے۔ یہاں تک کہ مولانا کو ملک العلمانے اپنے اکلوتے شہزادے پروفیسر مختار الدین احمد آرزو مرحوم کا ٹیوٹر مقرر فرما دیا۔ جیسا کہ مشہور محقق پروفیسر مختار الدین احمد آرزو رقم طراز ہیں:
’’ مولانا عبد الحکیم ارمان سے میری ملاقات 1933 ء میں ہوئی۔ آج (2005ء) سے 72 سال ہو گئے لیکن ان سے پہلی ملاقات آج تک یاد ہے۔ وہ اسی سال کچھ دن پہلے اپنے وطن بتیا (موتی ہاری شمالی بہار) سے متوسطات کی تعلیم ختم کر کے اعلیٰ تعلیم کے لیے پٹنہ آئے اور مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں درجہ عالم میں داخل ہوئے۔ وہاں کے اساتذہ میں سب سے پہلے جس استاد سے ان کا سابقہ ہوا وہ میرے والد محترم مولانا محمد ظفر الدین قادری علیہ الرحمۃ تھے۔ وہ درگاہ شاہ ارزاں کے متصل محلّہ شاہ گنج میں ’ ظفر منزل ‘ میں قیام پزیر تھے جہاں ان کے تلامذہ ومعتقدین احباب و مخلصین اور ان سے استفادے کے لیے شہر کے لوگ بغیر کسی تکلف کے آتے جاتے تھے۔ عبد الحکیم صاحب کا داخلہ تو مدرسے میں ہو گیا لیکن مدرسے کے ہوسٹل ’ شیش محل ‘ اور وہاں کی دوسری اقامت گاہوں میں انھیں جگہ نہ مل سکی۔ والد مرحوم نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ وہ درگاہ شاہ ارزاں کے سجادہ نشین شاہ حامد حسین کے چھوٹے بھائی شاہ عاشق حسین کے استاد اور اتالیق مقرر کر دیے گئے جو ابھی تک مدرسے میں داخل نہیں کیے گئے تھے اور گھر پر ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس طرح ان کے قیام و طعام کا مناسب انتظام ہو گیا۔ عبد الحکیم ارمان صاحب کی فرض شناسی اور ان کے حسن اخلاق سے سجادہ نشین صاحب متاثر ہوئے۔ اس طرح وہ کئی سال درگاہ شاہ ارزاں میں مقیم رہے۔ کچھ دنوں تک وہ درگاہ کی مسجد کی امامت کے فرائض بھی انجام دیتے رہے۔ اس طرح وہاں کے لوگ مواعظۂ حسنہ سے بھی مستفید ہوتے رہے۔‘‘ [ الہام ارمان، مرتب سید ابو ارشد، ناشر آستانۂ امینیہ محلّہ بسوریا، بتیا مغربی چمپارن بہار، صفحہ14، سنہ اشاعت 2005ء]
پروفیسر مختار الدین احمد آرزو مزید لکھتے ہیں:
’’ سال ٹھیک یاد نہیں شاید 1934 ء ہو۔ میں مدرسے میں مولوی سال دائم کا طالب علم تھا۔ ایک درسی کتاب کے موضوع سے مجھے بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ کتاب شاید شرح ہدایت الحکمت تھی۔استاد آتے اور سبق پڑھا کر چلے جاتے طلبا آپس میں بیٹھ کر نوٹس بناتے ۔ انھیں رٹ لیتے اور امتحان میں کامیاب ہو جاتے۔ طالب علموں میں اس موضوع کا ذوق پیدا کر دینا اساتذہ کے فرائض میں نہیں سمجھا جاتا تھا۔ والد مرحوم نے عبد الحکیم صاحب کو جو ان کے پاس اکثر آیا کرتے تھے میرا ٹیوٹر مقرر کر دیا۔‘‘ [ ایضاً صفحہ17۔16]
زیر نظر اقتباس میں شاید کا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے اس کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ مولانا عبد الحکیم ارمان کی تعلیم مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں ہوئی ہے جیسا کہ خود اپنے شعر میں مولانا ارمان فرماتے ہیں:
برجستہ اب تو لکھتا ہے ارمان تو غزل
تعلیم تیری سچ ہے کہ شمس الہدیٰ کی ہے
مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ، پٹنہ سے فارغ ہونے کے بعد اپنے وطن میں تشریف لائے اور چمپارن کی علمی و ادبی مقام بتیا (مغربی چمپارن کا ہیڈ کواٹر) کو اپنی خدمات کا مرکز تجویز فرمایا۔ کے آر مشن اسکول، بتیا میں ہیڈ مولوی کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ اور اخیر عمر تک اسی ادارے سے وابستہ رہ کر مذہبی و ملّی اور ادبی خدمات انجام دیتے رہے۔ 1945 ء میں بزم ادب، بتیا کے صدر منتخب ہوئے اور عمر طبعی سے قبل ہی 27 نومبر 1952 ء کو اللہ کے پیارے ہو گئے۔ آستانۂ امینیہ محلّہ بسوریا، بتیا مغربی چمپارن بہار میں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔
مولانا ارمان ایک صوفی ، سالک، زاہد اور متقی عالم تھے۔ آپ 1942 ء میں مولانا سید شفیق نقشبندی سندیلوی خلف ثانی حافظ محمد صدیق عرف چھوٹے بھیا کے ہاتھ پر بیعت کی۔ روحانی سلسلہ کی تعلیم ہر چند حضرت مولانا محمد امین خانقاہ امینیہ بسوریا، بتیا سے حاصل کی لیکن اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی اور ملک العلما کی فکر یعنی مسلک اہل سنت پر سختی سے قائم رہے اور تا عمر بد عقیدوں کی اصلاح فرماتے رہے۔ اس بات کا اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین ان کی شعری باقیات اور ایک خط سے ہوتا ہے۔ مولانا ریاض احمد [دیوبندی] خلیفہ شاہ نعمت اللہ کو لکھتے ہیں:
’’ ہاں ایک بات گرچہ فخرو مباہات کی ہے، کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اپنے خاندان پر غرور، اسلام کی محبت، امّتِ محمدیہ پر شفقت اور حبِ نبی اور نور احدیت کا کیا عجب کہ ابتدائے آفرینش میں جب میں ذریاتی شکل میں تھا، فدائی نہیں سودائی بلکہ اظہارِ حقیقت کے لیے لفظ نہیں۔ اولیاء کے فیوض کا قائل ہوں۔ حضرت جیلانی سے خونی لگائو کے ساتھ ساتھ قلبی لگائو۔ ہر آن مصیبت ہو یا خوشی، یا روح قادر المدد، یا حسین و حسن المدد کی رٹ لگاتا ہوں۔‘‘ [ ماہنامہ اشارہ، پٹنہ، مئی 1962ء]
مولانا عبد الحکیم نقشبندی ارمان جہاں ایک صوفی عالم اور ماہر تدریس تھے وہیں آپ نے قلم سے بھی تعلق رکھا۔ نثر میں آپ کی ایک کتاب ’دیہات کی کہانی ارمان کی زبانی‘ یادگار تھی لیکن وہ کتاب اب نایاب ہے۔ جب کہ نظم و شاعری میں آپ کا شعری مجموعہ ’الہام و ارمان‘ ہے۔ حضرت ارمان کی شخصیت اور ادبی خدمات کے حوالے سے ڈاکٹر شمس الحق نے بجا لکھا ہے کہ :
’’ سید عبد الحکیم ارمان کی زندگی اور تخلیقات کا تجزیہ ایک خاصا دشوار مرحلہ ہے۔ موصوف کا انتقال آج سے 53 سال قبل محض 44 سال کی عمر میں ہو چکا ہے اور اکلوتے وارث سید ابو رارشدایڈوکیٹ والد کے انتقال کے وقت محض آٹھ ماہ کے تھے۔ اسی لیے یہ بھی میری طرح آنکھوں دیکھی کوئی بات کہنے سے قاصر ہیں۔ اس لیے ان کا کلام ہی وہ آخری سہارا ہے جس کے مطالعے سے ان کی ذہنی کیفیات اور شاعرانہ معیار طے کیاجا سکتا ہے۔ ایک بات جو حیرت سے خالی نہیں کہ یہ مولانا ارمان متعلم، معلم، مبلغ اسلام، بحر شعر و سخن کے شناوراور راہِ طریقت کے جذب و سلوک کے تمام کردار نبھا کر محض 44 سال کی عمر میں اپنے رب سے جا ملتے ہیں کیوں کر ممکن ہو اور آخر کار ذہن اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ :
جسے چاہے مالک رنگ و بو
اُسے بے خودی میں نواز دے
ورنہ بتیا جیسی چھوٹی جگہ میں جہاں شعر و ادب کا ماحول سازگار نہ ہو، وہاں رہ کر شعر و سخن کے ایسے گل بو۔ کھلانا اور چمن بندی کرنا مولانا ارمان جیسے ہی سے ممکن ہے۔‘‘ [ الہام ارمان صفحہ۔ 41۔40]
مولانا سید عبد الحکیم نقشبندی علیہ الرحمۃ کے عقائد و نظریات کی تفہیم میں ان کا شعری مجموعہ ’الہام ارمان‘ یقینی طور پر ممدود و معاون ہے۔ ’ الہام ارمان ‘ میں حضرت ارمان کی دو نعتیں، تیس نظمیں اور سرسٹھ غزلیںشامل ہی۔ کتاب کا مرتب جناب سید ابو ارشد ایڈوکیٹ ہیں۔ ’ الہام ارمان‘ میں حضرت ارمان کی تخلیقات سے پہلے ’ عرض حال‘ کے عنوان سید ابو ارشد کی تحریر ہے جس میں مجموعہ کے ترتیب و تذئین و اشاعت پر روشنی ڈالی ہے۔ پروفیسر مختار الدین احمد آرزو نے کچھ ’ ذاتی تاثرات‘ کے عنوان سے غیر معمولی معلومات فراہم کی ہیں۔ پروفیسر آرزو کی تحریر کی انفرادیت یہ ہے کہ جن باتوں کی انھوں نے اطلاع دی ہے کوئی دوسرا نہیں دے سکتا۔ حضرت آرزو نے ایک انٹرویو میں بر ملا اظہار کیا ہے کہ آرزو کا تخلص حضرت مولانا سید عبد الحکیم ارمان کی دین ہے۔ڈاکٹر خورشید سمیع نے حضرت ارمان کی نظموں کا بہترین تجزیہ پیش کیا ہے جب کہ ڈاکٹر شمس الحق نے صوفیانہ شاعری کے حوالے سے حضرت ارمان کی فکر و فن پر معتدل نظریہ پیش کیا ہے۔ سید ظفیر عالم نے اپنے چچا حضرت ارمان کے اخیر عمر کے حالات کو بہترین انداز میں پیش کیاہے۔ بہر کیف! حضرت ارمان کی پہلی نعت سات اشعار پر مشتمل ہے جب کہ دوسری نعت میں گیارہ اشعار ہیں۔ کل اٹھارہ اشعار کے ذریعے حضرت ارمان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی و مدنی زندگی کے نقوش کو پیش کیا ہے۔ حضرت ارمان نے اپنی نعت گوئی میں عقائد اہل سنت کی بھرپور ترجمانی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اہل بیت اطہار کے متعلق اشعار بھی ہمیں خاص متوجہ کرتے ہیں۔ تبرکاً چند اشعار دیکھیں:
مریضانِ محبت کی بظاہر تو دوا تم ہو
مسیحا دیکھنے میں ہو، انالحق کی ادا تم ہو
لحد میں ہوگا پورا دید کا ارمان بھی ارماںؔ
طلب صادق جو دل میں ہے، کہاں اہل خطا تم ہو
”الہام ارمان“ میں منظومات کے تحت تیس نظمیں مختلف عناوین سے ہیں۔ ان نظموں کے موضوعات میں بھرپور تنوع ہے۔ ’آزادی کی دلہن ‘ پہلی نظم ہے۔ اس نظم میں حضرت ارمان نے مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے ایک سچّے محب وطن ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا ہے۔ اس نظم کا ہر ایک شعر حب الوطنی اور شہدائے وطن کی عقیدت سے لبریز ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی پیغام دیا گیا ہے کہ ’ آزادی کی دلہن‘ کا استقبال اس طرح کریں تاکہ اس کی تاثیر دیر پار ہے۔ نظم کا آخری شعر ملاحظہ کریں:
اپنے دل کو صاف کر کے ہم دکھائیں آئینہ
بول اٹھے خود یہ دلہن خوب ہے میرا سنگار
’ گاندھی کا سوگ‘ نظم قومی شاعری کا بہترین ترجمان بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ چھتیس (36) اشعار پر مشتمل یہ نظم گاندھی جی کے قومی و فکری نظریات کا بہتر عکاس ہے۔ اس نظم میں حضرت ارمان نے شرعی حدود کی پاس داری جس عمدہ طریقے سے کی ہے وہ نہ صرف قابل صد ستائش ہے بلکہ عہد حاضر کے شعرا کے لیے قابل نمونہ بھی۔ اس نظم کے مطالعہ سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ شاعر نے اپنے مذہبی استاد اور ان کے عقائد و نظریات کا بھرپور خیال رکھا ہے۔ ورنہ گاندھی جی کی عقیدت میں بہت سے نامور علما و مشائخ نے اعتدال کے حدود کا خیال نہیں کیا ہے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ پوری نظم میں گاندھی جی کے لیے ’ مہاتما ‘ کی صفت کے استعمال سے گریز کرنا اس بات کا غماز ہے کہ شاعر کے پیش نظر اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کا اس موضوع پر لکھا فتویٰ ضرور رہا ہوگا۔ اس نظم کے مطالعے سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ برادرانِ وطن کی موت پر ہمیں ان کی تعریف کرتے ہوئے اپنے عقائد کی حفاظت کیسے کی جا سکتی ہے؟
حضرت ارمان بتیا چمپارن، کو اپنی خدمات کے لیے منتخب فرمایا جو کانگریس کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ خود آپ کے متعدد تلامذہ مجاہدین آزادی اور کانگریسی رہے لیکن حضرت ارمان نے کانگریسی نظریات کا پٹّا اپنے گردن میں نہیں باندھا بلکہ ہر جگہ اعتدال کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت ارمان کی شخصیت کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ انگریزی اسکول میں ہیڈ مولوی رہنے کے باوجود بھی آزاد خیالی سے اپنے آپ کو دور رکھا۔ آپ پر نیچریت یا جدیدیت کا اثر مرتب نہیں ہو پایا۔ آپ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کی تاریخ کی مناسبت سے ’ بڑا دن‘ کے موضوع پر نظم لکھی۔ اس نظم میں حضرت ارمان نے قرآن و حدیث کے عقائد و نظریات کو پیش کر کے یہودی و نصرانی کے عقائد باطلہ کی تردید اس عمدگی سے کی ہے کہ دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ اس نظم میں بارہ اشعار ہیں جن میں بارہویں کا فیض داخل ہو گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے چوتھے آسمان کے سفر کے حالات کی پیش کش مومنانہ فکر کے مطابق کی ہے۔ اس نظم کے محض تین اشعار کی زیارت کی جائے:
بتاؤ کون ہستی تھی، سمجھ میں کچھ نہیں آتا
ابھی تھے تین ہی دن کے، جو پایہ زور گو یائی
جناب حضرت عیسیٰ گئے جو چرخ رابع پر
فلک قسمت پہ اترایا، ہوئی جنت کو زیبائی
خدائے لم یزل کی بندگی دل سے کرو یارو
وگر نہ روز محشر میں اٹھانی ہوگی رسوائی
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے علاوہ حضرت ارمان کی شاعری پر شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال کے اثرات بھی مرتب ہوئے ہیں۔ آخر کیوں نہ ہو کہ اقبال اور ارمان میں ایک نسبت یہ بھی ہے کہ اقبال شروع کے ادوار میں جناب داغ دہلوی سے اصلاح لی تھی جب کہ ارمان داغ دہلوی کے مشہور شاگرد جناب نوح ناروی سے اصلاح لی اور ان کی شاگردی اختیار کی۔خود اس بات کا اعتراف حضرت ارمان نے کیا ہے:
جناب نوح کے طوفان کا یہ فیض ہے ارماں
اضافہ ہو گیا میری طبیعت کی روانی میں
’ پیغام عمل‘، ’ نالۂ یتیم‘، ’ درّ یتیم‘، ’ حیدری للکار‘ اور ’ قلب مضطر کی آواز‘ جیسی نظموں میں ڈاکٹر اقبال کی نظموں کے اثرات واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ حضرت ارمان کی شاعری کا دور سامنے ہو تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسی دور میں بہت سے مسلم شعراقومی یکجہتی کے نام پر شریعت اسلامیہ کی روح کو مجروح کیا یہاں تک کہ قوم مسلم کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا۔ لیکن حضرت ارمان نے اس دور میں قوم مسلم بالخصوص نوجوان طبقے کے ذہن و فکر میں اسلام کی حقاّنیت اور قوم مسلم کے امتیازات کو ڈالا۔ کانگریس کے گڑھ میں رہ کر مولانا ارمان نے مسلم نوجوان کے اندر جو جوش و جذبہ بھردیا، اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔
صوفیوں میں آج آ جائے اگر شانِ عمر
چھین لیں ہم مال مسروقہ ابھی اغیار سے
نام لیوا احمد مختار کے اور یوں ذلیل
شرم کچھ بھی چاہیے اپنے بُرے کردار سے
ہل میارز کی صدا ارمان پھر آنے لگی
لے خبر اعدا کی اپنی حیدری تلوار سے
( حیدری للکار)
حضرت ارمان کی شاعری پر ڈاکٹر اقبال کے اثرات کی بات چل پڑی تو یہاں اقبال اور ارمان کے مابین ایک روحانی نسبت کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ علامہ اقبال اگر مجدّدِ الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی کے عقیدت مند ہیں تو حضرت ارمان مجدّدِ الفِ ثانی کے سلسلہ میں داخلِ بیعت۔ جس طرح اقبال نے مجدّدِ الفِ ثانی کی بارگاہ میں حاضر ہو کر نذرانۂ عقیدت پیش کیا، اُسی طرح حضرت ارمان کے سرمایۂ شعر و سخن میں ایک نظم ’غلامِ نقش بند‘ کے عنوان سے ہے۔ اِس نظم میں مجدّدِ الفِ ثانی کا ذکر نہایت ہی ادب و احترام سے کیا گیا ہے۔ اِس نظم کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
واعظو! اِس مے کدے پہ کیوں نہ ہو رنداں کو ناز
جب پلائیں خود مجدد بھر کے جامِ نقش بند
ہے تنفر تجھ کو واعظ ہاں مگر یہ یاد رکھ
کرتے ہیں اہلِ فلک بھی احترامِ نقش بند
حضرات ارمان کے اشعار پڑھنے کے دَوران علامہ اقبال کا منقبتیہ اشعار ذہن میں گردش کرتا ہے۔ اِس لیے زیرِ بحث موضوع کے سلسلے میں علامہ اقبال کے اشعار کو پیش کرنا،اہمیت و افادیت سے خالی نہیں:
حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیرِ فلک مطلع انوار
اس خاک کے ذرّوں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار
باقی کلہ فقرسے تھا ولولۂ حق
طروں نے چڑھایا نشۂ ’خدمتِ سرکار‘!
حضرت ارمان کی نظموں کے مطالعے کے دَوران علامہ اقبال کثرت سے یاد آتے ہیں۔ حضرت ارمان نے اقبال کی طرح اپنے اکلوتے شہزادے سیّد ارشد نقش بندی کی نصیحت پر مبنی نظم لکھی ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے بیٹے جاوید اقبال کے نام نظم لکھ کر اُنھیں خودی کا سبق پڑھایا ہے۔ اُسی طرح حضرت ارمان نے بھی۔ دونوں بزرگوں میں فرق یہ ہے کہ علامہ اقبال نے اپنے بیٹے جاوید اقبال کو ’لندن‘ بھیجنے کے بعد نصیحت کی تھی جب کہ حضرت ارمان نے بیٹے کے ’چھٹیار‘ کے موقع پر۔ یہاں سوال کھڑا ہوتا ہے کہ حضرت ارمان کو ایک معصوم بچے کو نصیحت کرنے کی ضروت کیوں پڑی؟ اِس سوال کا جواب آسان ہے کہ حضرت ارمان کو بہ ذریعہ کشف معلوم ہو گیا تھا کہ وہ چند دنوں کے مہمان ہیں، اِس لیے وہ والد کا فرض نبھانا ضروری سمجھتے ہوئے چھٹیار کے موقعے پر ناصحانہ نظم کہہ دی۔ چھتیس اشعار کی نظم لکھنے کا مقصد ہر چند اپنے بیٹے کو نصیحت کرنا ہے لیکن اس کی اہمیت و افادیت خاص نہیں بلکہ عام ہے۔ اِس نظم کی اہمیت عصرِ حاضر میں زیادہ ہی سمجھ میں آجاتی ہے۔ اِس لیے زیرِ تبصرہ نظم کے منتخب اشعار ملاحظہ کریں:
میں تو ہوں ننگِ سلف میری تمنّا ہے یہی
رو بہ رو تیرے رہے ہر دم بزرگوں کا خیال
خون ہے تیری رگوں میں حضرت حسنین کا
اے مرے لخت جگر سادات کی تنہا مثال
ہو سکے تجھ سے جہاں تک غیر پر احسان کر
اور اُن سے خیر کا رکھنا نہیں ہرگز خیال
گرچہ مال و زر نہیں چھوڑا مگراک بات ہے
ہیں گہر ہائے دعا تیرے لیے مال و منال
ہیں سلاسل اور بھی لیکن یہ اقرب ہے طریق
صرف میرا ہی نہیں اسلاف کا بھی ہے خیال
حضرت ارمان نے مسلمانوں کی فکری اصلاح تک محدود نہیں رکھا ہے بلکہ ان کے اعمال اور معاشرے کی اصلاح کی بھرپور کوشش کی ہے۔ حضرت ارمان کی نظموں میں ’ ٹاکی (سنیما)‘ ایسی نظم ہے جس کا ذکر بہت ضروری ہے۔ یہ نظم حضرت ارمان نے 1930 ء میں لکھی تھی۔ یہ طالب علمی کے دَور کی یادگار نظم ہے۔ اس نظم میں شاعر نے جو پیش گوئی کی تھی اس کا مشاہدہ عہد حاضر میں ہر فرد کر رہا۔ اٹھارہ اشعار کی یہ نظم سماجی اصلاحات کے سلسلے میں مؤثر کردار ادا کر رہی ہے۔
یہاں تک کی گفتگو سے کسی ناقد کا ذہن خطا نہ کرے کہ حضرت ارمان کے یہاں ادبی نظموں کا فقدان ہے۔ پیش کردہ اشعار اور متذکرہ بالا نظموں میں مذہبی موضوعات کی کثرت ضرور ہیں لیکن وہ نظمیں ادبیت اور فکر و فن کے لحاظ سے غیر معیاری ہر گز نہیں ہیں۔ اس کے باوجود حضرت ارمان کے سرمایۂ شاعری میں موسم اور تہواروں پر بھی اچھی خاصی نظمیں ہیں۔ ’’ آمد فصلِ بہار‘، ’ ساون‘ اور ’بھادوں کی بہار‘ہو یا ’ ہولی میں‘ اور ’ نوید عید‘ موضوع سے نظمیں شاعر کو ادبی مقام دلانے میں ممدود و معاون ہیں۔ ان نظموں میں حضرت ارمان نے جو اسلوب پیش کیا ہے وہ ناقدین کی توجہ طلب کر رہا ہے۔ ارمان کی نظموں کے حوالے سے مشہور ناقد ڈاکٹر خورشید سمیع کی رائے قابلِ قبول ہے۔ موصوف لکھتے ہیں:
’’ ارمان کی شاعری ایک بحر ذخّار ہے مگر بحر میں ان قطروں کی کمی نہیں جو اپنے آپ میں سمندر کوش ہیں۔ زود نویسی اور بسیار نویسی کے باوجود اصناف نظم میں قوافی کا جو انتظام ملتا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ ساتھ ہی موضوع پر مکمل گرفت اور اُسے نظم کے پیکر میں ڈھالنے کی صنعت انھیں ممتاز بنا دیتی ہے۔ نظموں میں ارتکاز اور ایجاز بھی ان کے شعری محاسن میں شامل ہے۔ اسی طرح غزلوں میں روایت کا جو شعور ملتا ہے اور جس نرم آہنگ میں پورے کیف و انبساط سے پیش کیا گیا ہے وہ واقعی قابلِ التفات ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ ’ صوبہ بہار‘ کے اس عظیم شاعر کو اب تک (2005 ء تک) منظرِ عام پر نہیں لایا جا سکا۔‘‘ [ الہام ارمان صفحہ،31]
حضرت عبد الحکیم ارمان نقشبندی کی باقیات ’ الہام ارمان‘ میں شامل غزلیں بھی اہم اور معیاری ہیں۔ ان کی غزلوں میں عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔طوالت کے پیشِ نظر اُن کی غزلیہ شاعری پر اظہارِ خیال آیندہ کے لیے چھوڑا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حضرت سیّد عبد الحکیم ارمان نقش بندی کی خدمات کو قبول کرتے ہوئے اُن کے درجات کو بلندفرمائے۔ آمین بجاہ سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org