مفتی محمد ساجد رضا مصباحی
مسلمان ملک کے ہر صوبے میں طرح طرح مسائل سے دوچار ہیں ، کہیں ان کے تحفظ کا مسئلہ ہے ، کہیں ان کے معاش اور روزگار کا مسئلہ ہے ، کہیں ان کے ساتھ مذہبی تعصب کا مسئلہ ہے، کہیں انھیں اپنی بقا کی جنگ لڑنی پڑڑہی ہے توکہیں سیاسی وجود کو ثابت کر نے کے لیے جد وجہد کر نی پڑرہی ہے اور کہیں یہ سارے مسائل ایک ساتھ مسلمانوں کا دائرۂ حیات تنگ کررہے ہیں ۔ بنگال ملک کا ایک اہم صوبہ ہے ،جو تہذیب وثقافت ، امن وآشتی،اخوت ومحبت ،سماجی ومعاشرتی ہم آہنگی اور علم وادب کے حوالے سے جانا جاتا ہے ،یہاں کے مسلمان قومی سیاست میں ہمیشہ موضوع بحث رہتے ہیں ،مغر بی بنگال میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۷فیصداور غیر سرکاری ذرائع کے مطابق ۳۰ فیصدآبادی مسلمانوں کی ہے۔ مالدہ ،مرشد آباد اور اتر دیناج پور خاص طور سے مسلم اکثریتی اضلا ع شمار ہو تے ہیں۔ بنگال کے مسلمان آزادی کے بعد سے ہی مسائل کے شکارر ہے ہیں ، ۷۵سالوں میں کئی سیاسی پارٹیوں نے بنگال پر حکمرانی کی ، حکومتیں بدلیں لیکن مسلم مسائل جوں کے توں رہے ، ان ۷۵ سالوں میں یہاں کے مسلمان نہ تو تعلیم کے میدان میں خاطر خواہ آگے بڑھ سکے اور نہ ہی معاشی اعتبار سے مستحکم ہو سکے ،وہ کل بھی سیاسی پارٹیوں کے لیے ووٹ بینک تھے اور آج بھی ان کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نھیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ تقسیم وطن کے بعد سے ہی جان بوجھ کر مرکزی اور ریاستی حکو متوں نے مغربی بنگال کے مسلمانوں کو پس ماندگی اور غربت و جہالت میں چھوڑدیا ہے، خودمسلمانوں نے بھی۷۵سال سے اس افسوس ناک غربت سے نکلنے کے لیے کوئی خاص جد و جہد اور محنت و مشقت نہیں کی ہے۔المیہ یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان کوئی ایسا ترقی پسندقائد نھیں ابھرا جو ان کے اندر انقلابی روح پھونک سکے، جتنے بھی سیاسی قائدین ان علاقوں سے منتخب ہوکر اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کرتے رہے، انہیں مسلمانوں کی عمومی صورت حال سے کوئی سروکار نہیں رہا اور نہ ہی مسلمانوں کو پسماندگی سے نکالنے کے ليے کوئی ٹھوس اقدامات کیے۔
تعلیم ،صحت ، ٹرانسپورٹ ، معاش، روزگار، ملازمت اور زندگی کے ہر شعبے میں یہاں کے مسلمان پچھڑے ہی رہے ، یہ کوئی پانچ دس سال کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ نھیں بلکہ ساٹھ ستر سال کی بے توجہی کا شاخسانہ ہے۔مسلم علاقوں کی بدتر صورت حال کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ ہمارے ضلع اتر دیناج پور میں ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے اعتبار سے 49.92فیصد مسلم آبادی ہے ، حالاں کہ غیر سر کار ی اعداد وشمار کے اعتبارسےیہاں تقریبا60فیصد مسلم آبادی ہے ،اس کثیر مسلم آبادی والے ضلع میں تعلیمی اداروں کی شدید قلت ہے، آج بھی اتر دیناج پور کے کئی بلاک ایسے ہیں جہاں بچوں اور بچیوں کو ہا ئی اسکول کی تعلیم کے لیے دس سے پندرہ کلو میٹر کی مسافت روزانہ طے کر نی پڑتی ہے ، کئی بار سڑک حادثات بھی رو نما ہو تے ہیں اور بچیاں تحفظ کے مسائل کی شکار ہوتی ہیں ، ان علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول مزید مشکل ہو جاتا ہے ،انھیں گریجویشن کے لیے بھی بڑی مشقتوں کا سامناہو تاہے ، ہائی اسکول کی تعلیم جیسے تیسے مکمل کر نے کے بعداکثر بچے کشن گنج بہار کا رُخ کرتے ہیں جہاں ان کے ساتھ کئی طرح کے مسائل پیش آتے ہیں ،مائیگریشن کارڈ کے لیے دفاتر کا چکر لگانا پڑتا ہے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے جو پرائمری اسکول ہیں ان کا نظام تعلیم اس قدرغیر منظم ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو ان اسکولوں میں بھیجنا گوارہ نہیں کرتے ، ادھر چند سالوں سے مڈ ڈے میل اور سر کاری وظائف نیز مفت ڈریس کے نام پر کچھ بچے ان اسکولوں میں جانے لگے ہیں لیکن وہ بھی’’ کھچڑی خوری‘‘ تک ہی محدود ہے ۔سچر کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ پرائمری اسکولوں میں مسلم بچوں کی شرح ۵۰فیصد کے قریب ہےجو مڈل اسکول جاکر ۲۶فیصد ہوجاتا ہے اور ہائی اسکول تک صرف۱۲؍فیصد مسلم بچے ہی پہنچ پاتے ہیں۔ اس رپورٹ کے بعداقتدار کی کرسی تو بدلی لیکن اس بدتر تعلیمی صورت حال کو سدھار نے کے لیے خاطر خواہ کوشش نھیں ہوئی۔یہاں کے سیاسی قائدین نے کبھی بھی تعلیم اور تعلیم گاہوں کے مسائل کو ترجیحی طور پر حل کر نے کی کوشش نھیں کی ۔اس جُرم میں یہاں کی عوام بھی برابر کی شریک ہے ، عوام بھی سیاسی قائدین سے پُر زور انداز میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کی مانگ نھیں کرتی ،عوام کی اکثریت نفع عاجل پر یقین رکھتی ہے، جو چھوٹی موٹی اسکیموں سے پورا ہو جاتا ہے ، نسلوں کی بقا اورمستقبل کی تاب ناکی ان کے نزدیک معنی نھیں رکھتی ،اپنے قیمتی ووٹوں کو دو چار سو میں بیچنے والے ووٹر اپنے سیاسی قائدین سے مضبوظ انداز میں کس منھ سے مطالبہ کریں گے ۔
2001ءکی مردم شماری کے مطابق مغربی بنگال کے مسلمانوں میں تعلیمی شرح 57.7فیصد ہے مگر 2011ءکی مرد م شماری میں تعلیمی شرح بڑھ کر 68.74 فیصد ہوگئی ہے جب کہ قومی سطح پر مسلمانوں میں تعلیمی شرح 68.53 فیصد ہے ۔مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق بنگال میں 6.15کروڑ افراد تعلیم یافتہ ہیں یعنی کل آبادی کا 68.53 فیصد افراد تعلیم یافتہ ہیں، جس میں 4.5کروڑ ہندو شامل ہیں بقیہ 23.4فیصد افراد مسلمان ہیں ۔ریاست میں کل 2.9کروڑ افراد غیر تعلیم یافتہ ہیں جس میں 1.86کروڑ افراد ہندوہیں اور 1.2کروڑ مسلمان ہیں ۔مغربی بنگال میں مسلمانوں کی آبادی 27.01 فیصد ہے یعنی ریاست میں 9.12کرو ڑ مسلم آباد ی ہے ۔مردم شماری کے اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ریاست کے 41.5فیصد مسلمان پڑھنا لکھنا نہیں جانتے ہیں۔
[یہ اعداد وشمار https://urdu.news18.com – سے ماخوذ ہیں ]
صحت کا شعبہ پورے ملک میں لوٹ کھسوٹ کا شعبہ بن گیا ہے ، سر کاری اور غیر سر کاری دونوں طرح کے اسپتالو ں میں مریضوں کے ساتھ جو ظلم وزیادتی ہوتی ہے وہ کسی سے پوشیدہ نھیں ہے ، بنگال کے مسلم علاقے اور مسلم آبادیا ں خاص طور سے ان مظالم کا شکار ہیں ، دیہی علاقوں میں ابتدائی علاج کے لیے جو ہیلتھ سینٹر بنائے گئے ہیں وہ محض شو پیس بن کر رہ گئے ہیں ، ڈاکٹر اکثر غائب رہتے ہیں ، افسران کی لاپروائی سے گورنمنٹ کی جانب فراہم کی جانے والی طبی سہولیات عوام تک نہیں پہنچ پاتیں، بلاک سطح کے اسپتالوں کی صورت حال بھی ناگفتہ بہ ہے ، یہاں دلالوں کی بالادستی چلتی ہے،علاج کے نام پر کوئی سہو لت دستیاب نہیں ہے ، چھوٹے موٹے مریضوں کو بھی ضلع اسپتال ریفر کر نا یہاں کے ملازمین کے روز کا کھیل ہے ۔ ہمارے ضلع اتر دیناج پور کے اکثر افراد بہتر علاج کے لیے کشن گنج اور پور نیہ کے پرائیوٹ کلینک جانے پر مجبور ہیں ، جب کہ یہاں کے ڈاکٹر’’ معالج‘‘ کم ’’ قصائی‘‘ زیادہ ہیں ، معمولی سردی کھانسی کے مریض کودن بھر لائن میں بٹھا کر تین ہزار سے کم میں واپس نھیں آنے دیتے ، روز تین سے چار سو کمانے میں والا مزدور دس بارہ دن کی کمائی ایک ہی دن میں ان ظالم ڈاکٹروں کی جھولی میں ڈال آتا ہے، ایسے میں ان مسلمانوں کے یہاں معاشی خوش حالی کیسے آئے گی؟ ۔ حکومت کی ذمے داری ہے کہ سر کاری اسپتالوں کو فعال بنائے ، قابل ڈکٹروں کو تعینات کرے ،اور غفلت برتنے والے ڈاکٹروں کو کڑی سے کڑی سے سزا دے ۔ حکومت نے صحت کے شعبے کو مستحکم بنانے اور مریضوں کو مفت علاج فراہم کر نے کے لیے حال ہی میں کئی اسکیمیں لانچ کی ہیں ، ان اسکیموں سے یہ شعبہ کس قدر مستحکم ہو گا یہ توآنے والا قت ہی بتائے گا ۔
بنگال میں سر کاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی حصے داری کا مسئلہ بہت پرا نا ہے ، کمیو نسٹ حکومت نے اپنے طویل دورِ اقتدار میں بنگال میں امن وامان قائم رکھنے میں تو کام یابی حاصل کی ، لیکن مسلمانوں کو دانستہ یا نادانستہ ہر میدان میں بہت پیچھے کر دیا ، تین دہائی سے زائد کمیونسٹ پارٹی کی حکومت یہاں رہی ، ان تین دہائیوں کے اندر مسلمان نہ تو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ سکے اور نہ سر کار ی ملازمتوں میں ان کی حصے داری رہی ، یہی وجہ ہے کہ ۲۰۰۶ ءمیں جب سچر کمیٹی کی رپورٹ آئی تو بنگال میں مسلمانوں کی بدترین صورت حال کا صحیح نقشہ دنیا کے سامنے آیا ۔
۲۰۰۶ء میں بایاں محاذ کے دور ِحکومت میں جسٹس راجندر سچر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بنگال کی سرکاری ملازمتوں میں [گروپ اے اور بی] میں مسلمانوں کی شرح 4.7فیصد،گروپ سی اور ڈی میں مسلمانوں کی نمائندگی کی شرح2فیصد یعنی اوسطاسرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کی شرح نمائندگی 3.4فیصد ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو گزشتہ ایک دہائی میں مسلمانوں کی سرکاری ملازمت میں دو فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ ڈیڑھ دہائی میں نمائندگی کی شرح میں محض 2فیصد کا اضافہ ہوا ہے تو پھر آبادی کے لحاظ سے یکساں مواقع ملنے میں تو صدیاں بیت جائیں گی ۔
اب ریا ست میں گیارہ سالوں سے ترنمول کانگریس کی حکومت ہے ، جو نسبتاً فرقہ پرست سیاسی پارٹیوں سے بہتر اور مسلمانوں کے مفادات کے تئیں قدرے سنجیدہ ہے ، ان گیارہ سالوں میں بنگال حکومت کی جانب سے کئی قابل تعریف کام بھی ہوئے ہیں ،یہی وجہ ہے یہاں کے مسلمانوں نے تیسری بار ترنمول کانگریس کی حکومت بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے ،لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے بنیادی مسائل آج بھی اسی حال پر ہیں جوں بایاں محاذ کے دورِ حکومت میں تھے ، تعلیم اور روزگار کے مسائل سب سے بنیادی حیثیت کے حامل ہیں ، واضح اکثریت کے ساتھ بنگال کی اقتدار کی کر سی پر تیسری بار براجمان ہو نے کے بعد بھی اگر ترنمول گانگریس مسلمانوں کے ان مسائل کی طرف خصوصی تو جہ نہیں دیتی ہے تو یہاں کے مسلمانوں کو راشٹر یہ سہار ا پورٹل میں شائع فاروق اعظمی صاحب کے اس تجزیے پر یقین ہو نے لگے گا کہ :
’’ کہ ترنمول کانگریس نے اپنی ۱۰برسوں کی حکومت میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود اورا نہیں مین اسٹریم میں لانے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی ہے اور نہ سچر کمیشن کی سفارشات کے مطابق کوئی عملی اقدام کیا ہے۔ مسلمانوں میں تعلیم کی شرح بھی وہی ہے جو آج سے دس سال قبل بایاں محاذ کے زمانے میں تھی۔ نئے اسکول،کالج کھولے جانے کے بجاے درجنوں اسکول بند ہوچکے ہیں۔ خاص کرمسلم اکثریتی اضلاع میں صورت حال انتہائی سنگین ہے۔ روزگار کے معاملے میں بھی مسلمان پوری ریاست کے منظر نامہ سے غائب ہیں۔ اضلاع کی مسلم آبادی کی ماہانہ فی کس آمدنی 2500 سے 3000 ہزار روپے کے درمیان ہے۔روزگار کے لیے لاکھوں کی تعداد میں مسلم نوجوان دوسری ریاستوں میں ہیں۔‘‘ [سیاسی کش مکش میں مبتلا بنگال کے مسلمان۔از:فاروق اعظمی۔ https://roznamasahara.com/]
بنگال کے مسلمانوں کا ایک بڑا مسئلہ معاش اور روز گار ہے ، یہاں روزگار کے مواقع فراہم نہ ہو نے کی وجہ سے انھیں دوسرے صوبوں کا رخ کر نا پڑتاہے ، جہاں ان کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کیا جا تاہے ، مسلم علاقوں میں فیکٹریاں نہ ہو نے کے برا بر ہیں ،مزدور طبقے کے پاس کھیتی باڑی کے علاوہ کوئی دوسرا کام نھیں ہے ، اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان بھی ملازمت اور اپنے وطن میں ذریعۂ معاش نہ ہو نے کے سبب دوسرے صوبوں میں دھکے کھارہے ہیں ۔
سرکاری دفاتر میں مسلمانوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نھیں ہو تا ، افسر شاہی بنگال میں بایاں محاذ کے دورِ حکومت میں بھی تھی، آ ج بھی ہے، افسران جان بوجھ کر کاموں کو لٹکاتے ہیں،ٹال مٹول ان کی روش بن چکی ہے، گاؤں دیہات کے سیدھے سادے افراد چھوٹے موٹے کاموں کے لیے کئی کئی دنوں تک آفس کا چکر لگاتے ہیں، پنچایت آفس تک کے تیسرے درجے کے ملازم بھی سیدھے منھ بات کر نے کے لیے تیار نھیں ہوتے ، اعلیٰ افسران کی تو بات ہی الگ ہے ، پولیس کا محکمہ رشوت خوری اور دلالی سارے محکموں کو پیچھے چھوڑ چکی ہے ، الیکشن سے قبل ترنمول کا نگریس نے اس سلسلے میں ایک اچھی پہل’’دوارے سر کار‘‘ کے نام سے کی تھی ،اس مثبت پیش رفت کو ہمیشہ باقی رکھنا چاہیے اور ہفتے میں ایک دن ہر پنچایت کے تحت کیمپ لگاکر مسائل کا تصفیہ کرنا چاہیے ، مسلم علاقوں میں بینکوں کی بھی شدید قلت ہے ، آج ہر فرد کا بینک اکاؤنٹ لازمی ہو گیا ہے ، ایسے میں انھیں کئی کئی کیلو میٹر کا سفر کر کے بینکوں کی لمبی قطاروں میں گھنٹوں انتظار کر نا پڑتا ہے ،اس مسئلے کا حل حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر نکالنے کی ضرورت ہے ۔
چند سال قبل سے ممتا حکومت ائمۂ مساجد اور موذنین کو مشاہرے دے رہی ہے ، یہ ایک اچھی پیش رفت ہے ، لیکن اسے وقف بورڈ کی عارضی اسکیم کے تحت نہ رکھ کر اس سلسلے میں باضابطہ بل پاس کر کے ان ائمہ کی ملازمت کو مستقل کر دینی چاہیے ، اگر ایسا نہیں ہوا تو مستقبل میں کوئی دوسری حکومت آنے پر اس اسکیم کو ختم کر نے میں ذرا بھی وقت نھیں لگے گا ۔ اس اسکیم میں کئی طرح کے اصلاحات کی ضرورت ہے ، اکثر مساجد میں ائمہ کرام اپنے فرائض انجام نہیں دے رہے ہیں ، اس سلسلے میں حکومتی سطح پر نگرانی اور چانچ پڑتال کا بھی کوئی نظم نھیں ہے ، جس کی وجہ سے آئے دن تنازعات پیدا ہورہے ہیں ، اکثر مساجد میں اسی وجہ سے اختلاف و انتشار کی صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔
بنگال کے مسلمانوں کا ایک اہم مسئلہ ان کی شناخت اور ان کی شہریت کا ہے ، بنگلہ دیشی در اندازوں کے بہانے صدیوں سے یہاں آباد مسلمانوں کو بھی بنگلہ دیشی ہو نے کا طعنہ دیا جاتا ہے ، بلکہ ڈرایا اور دھمکایا جاتا ہے۔ ۲۰۱۹ء میں جب این آر سی کا اعلان ہوا تو سب سے زیادہ خوف وہراس بنگالی مسلمانوں ہی کے تعلق سے پھیلا یا گیا ،سارے ثبوت اور دستاویزات کو پس پشت ڈال کر انھیں بنگلہ دیشی قرار دینے کی سازش انتہائی تکلیف دہ ہے ،یہاں کے مسلمان اس سلسلے میں بہت ہی اضطراب کے شکار ہیں ، اور جوں جوں این آرسی کی سر گر میاں تیز ہوتی ہیں ، مسلم سماج کی بے چینی بھی بڑھ جاتی ہے ، ان کے درمیان عدم تحفظ کا احساس بڑھنے لگتا ہے ، یقینا بنگال کے مسلمانوں کو اس اضطرابی کیفیت سے نکالنے کے لیے ریاستی ومرکزی حکومت کو خاطر خواہ اقدام کر نا چاہیے ۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org