21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia March 2024 Download:Click Here Views: 50373 Downloads: 474

(3)-آپ کے مسائل

مفتی محمد نظام الدین رضوی

روزہ اور زکات کے مسائل

سوال : ایک شخص نے روزے کی منت مانی تھی، مگر اس کو یاد نہیں رہا کہ پندرہ دن کی مانی تھی یا ایک ماہ کی تو ، اس صورت میں وہ کیا کرے؟

جواب: اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ وہ پورے ایک ماہ کے روزے رکھے تاکہ پورے طور پر اطمینان حاصل ہو جائے کہ اس نے جو منت مانی تھی وہ ضرور ادا ہو گئی اور اس کی ادائگی میں کوئی شبہ نہ رہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

دَعْ مَا يُرِيْبُكَ إِلَى مَا لَا يُرِ بَيْك .(صحیح البخاری، ج:۱، ص:۲۷۵، کتاب البیوع، مجلس برکات)

 شہبہ کو چھوڑ کر یقین پر عمل کرو۔ واللہ تعالی اعلم

 سوال : شوال کے روزے کب رکھے جائیں ؟

جواب: عید کے بعد دوسرے دن سے جب چاہیں یہ روزے رکھ سکتے ہیں،بس یہ لحاظ رہنا چاہیے کہ ماہ شوال میں یہ روزے مکمل کر لیے جائیں کہ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً شوال میں چھ روزے رکھنے کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ مثلا صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر ان کے بعد چھ دن شوال میں رکھے تو وہ ایسا ہے جیسے اس نے زمانے کا روزہ رکھا۔“

(الصحیح لمسلم، کتاب الصیام، باب استحباب صوم ستۃ أیام من شوال)

اس سے یہ معلوم ہوا کہ یہ فضیلت شوال میں چھ روزے رکھنے کی ہے اور جب یہ ترغیب مطلق ہے تو پورے ماہ شوال میں ایک ساتھ یا الگ یہ روزے رکھے گا اختیار ہے، ہاں اگر  ایک ایک دن کے ناغے سے یہ روزے رکھے تو بہتر ہے۔

اگر عورتوں کو روزے رکھنے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ وہ ایام عورتوں کی پاکی کے ہوں، یعنی نہ تو حیض کا خون آرہا ہو، اور نہ نفاس کا خون آرہا ہو، ان دنوں کے علاوہ وہ جب چاہیں پورے شوال میں روزے رکھ سکتی ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم

 سوال : آج کل کچھ جگہوں پر یہ طریقہ ایجاد کیا گیا ہے کہ شعبان کے آخری ہفتے میں استقبال رمضان کے عنوان سے کچھ لوگ چلے یا اجتماع کرتے ہیں جس میں روزے کے فضائل و مسائل بتاتے ہیں، اس کا ثبوت سلف سے ہے یا اس زمانے کے علما کی ایجاد ہے ؟

جواب: اس کا ثبوت حدیث شریف سے ہے، یہ بدعت نہیں، سنت ہے، مسلمان اگر جگہ جگہ اس کا اہتمام کریں اور لوگوں کو رمضان شریف کے فضائل و مسائل سےآگاہ کریں تو وہ اجر کے حق دار ہوں گے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن میں یہ وعظ فرمایا :

اے لوگو! تمھارے پاس عظمت والا، برکت والا مہینہ آیا، وہ مہینہ جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کیے۔ حضور نے دیر تک یہ وعظ فرمایا اور رمضان کے بہت سے فضائل بیان فرمائے۔یہ پوری حدیث بہار شریعت میں موجود ہے ۔ (بہار شریعت ، حصہ ۵، ص: ۹۵۰ روزے کابیان ، بحوالہ بیہقی شعب الایمان، مطبوع مجلس المدینہ)

سوال : انسان اب چاند پر پہنچ چکا ہے، ممکن ہے کوئی صورت ایسی نکل آئے کہ وہاں انسان رہنے بسنے لگیں تو وہ رمضان کے روزے کتنے دن رکھیں گے ؟

 جواب: ابھی تو اس کی حاجت نہیں، مگر شریعت کسی بھی صورت کے جواب سے عاجز نہیں، اگر کبھی چاند پر انسانی آبادی ہو جائے تو ظاہر یہ ہے کہ چاند برابر ان کے پیش نظر ہوگا  اس لیے وہ ہمیشہ تیس دن کے روزے رکھیں گے۔ واللہ تعالی اعلم۔

سوال : رمضان شریف میں عمرے کے لیے غروب آفتاب کے قریب جہاز نے اڑان بھری، اگر ایئر پورٹ پر رہتے تو دو تین منٹ میں روزہ افطار کر لیتے مگر پرواز کی صورت میں دیر تک سورج نظر آتارہا تو افطار کب کریں ؟

جواب: جب یقین ہو جائے کہ سورج غروب ہو گیا، اور اندھیرا چھا جائے تب افطار کرے۔ زمین پر ہو تو جس جگہ رہتا ہے وہاں کے غروب کا لحاظ کر کے روزہ افطار کرناہے۔ مثلاً یوپی کا رہنے والا ممبئی چلا جائے تو اپنے یہاں کی بہ نسبت بہت دیرسے روزہ افطار کرے گا، یوں ہی زمین کا رہنے والا اگر فضاوں میں چلا جائے تو وہاں کے اعتبار سے جب غروب ہو  تب افطار کرے ۔ قرآن حکیم میں مطلقاً یہ حکم دیا گیا: ثُمَّ أَتِمُّوا القِيَامَ إِلَى اللَّيْلِروزے رات تک پورے کرو۔

اس اطلاق کا تقاضا یہی ہے کہ جس کے حق میں جہاں رات آئے وہ وہاں پر روزہ افطارکرے۔ واللہ تعالی اعلم۔

سوال : سعودیہ میں ملازمت کرنے والے وہاں روزے پورے کر کے عید کرنے اپنے وطن چلے آتے ہیں، ایسا بھی ہوتا ہے کہ یہاں کے لوگ تیسواں روزہ رکھتے ہیں، اور سعودیہ سے آنے والا تیس روزے پورے کر چکا ہوتا ہے تو اب وہ کیا کرے ؟

 جواب: وہ بھی لوگوں کے ساتھ تیسواں روزہ رکھے۔ قرآن حکیم میں مطلقا ًیہ حکم دیا گیا:فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.

تم میں سے جو رمضان کا مہینہ پائے وہ روزہ رکھے۔

اور سعودیہ سے آنے والے نے یقینا ًیہاں رمضان کا مہینہ پایا، لہذا اس پر تیسواں روزہ رکھنا فرض ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم

سوال : برطانیہ وغیرہ کچھ ممالک میں کچھ خاص ایام میں دن غروب ہونے کے چند گھنٹے بعد سورج طلوع ہو جاتا ہے، حالاں کہ ابھی نہ شفق غروب ہوتی ہے اور نہ صبح کاذب یا صادق طلوع ہوتی ہے ۔وہ لوگ رمضان المبارک کی راتوں میں کب تک کھاپی سکتے ہیں ؟

جواب: وہ لوگ رات کا پورا وقت جوڑ کر تنصیف کرلیں، آدھی رات تک کھائیں، پئیں، اور آدھی رات کے بعد روزے کے ممنوعات سے بچیں۔ آدھی رات تک تو یقیناًرات ہے اور اس کے بعد شک ہے۔ لہذا شک والے اوقات میں کھانے پینے سے احترازکریں، عبادات میں احتیاط پر عمل ضروری ہوتا ہے۔ لہٰذا یقینی طور پر روزے کو محفوظ رکھنے کی یہی صورت ہے کہ نصف شب سے پہلے تک کھائیں پئیں  ۔ واللہ تعالی اعلم۔

سوال : ہندہ ایک طلاق شدہ عورت ہے، اس نے عربی کی کتاب پڑھا کر۳۰ر ہزار روپے اکٹھا کر لیے ہیں تو کیا اس پر بھی زکات واجب ہے؟

جواب: ہاں ! اس عورت پر بھی زکات فرض ہے اور صدقہ فطر و قربانی واجب۔

جس کے پاس انگریزی زمانے کے چاندی کے چھپن روپے ہوں، یا اتنے وزن کی چاندی ہو یا اتنی قیمت کا چاندی کا زیور ہو تو اس پر زکات فرض ہو جاتی ہے۔ چاندی کا دام گھٹتا، بڑھتارہتا ہے، اس لیے اس کی قیمت بھی گھٹتی بڑھتی رہتی ہے، تو الگ الگ زبانوں میں اس کی قیمت بھی الگ الگ ہوگی۔ آج کے دن (۱۸ فروری ۲۰۱۷ء)چاندی کے چھپن روپے بھر کی قیمت ۷۵۰۰  روپے بنتی ہے ۔ آگے چل کر اس کی قیمت اس سے زیادہ یا بہت زیادہ بھی ہو سکتی ہے تو ہر زمانے کے لوگ اپنے اپنے زمانے میں اتنی چاندی کی قیمت کسی قابل اعتماد سنار سے معلوم کر کے اس کی زکات ادا کریں۔

الغرض جس عورت کے پاس اتنے روپے ہوں جو سوال میں مذکور ہیں، یا اس سے زائد ہوں اس پر فی الحال زکات بھی فرض ہے، اور قربانی اور صدقہ فطر بھی واجب ہے۔واللہ تعالی اعلم

سوال : زید نے اپنی پھوپھی کو ایک ہزار روپے قرض دیے، لیکن اس نےابھی قرض کی رقم واپس نہیں کی کیوں کہ اس وقت اس کی حیثیت دینے کے لائق نہیں ہے، زید نے سوچا کہ وہ زکات کے طور پر اسے دے دوں، تو کیا اس سے زید کی زکات ادا ہو جائے گی یا نہیں؟

جواب: ایسا نہیں ہو سکتا کہ قرض کے طور پر دیا تھا اور اب زکات کی نیت کرلے تو زکات ادا ہو جائے ۔ زکات ایک عبادت ہے ، جس طرح نماز ایک عبادت ہے اور عبادت اداہونے کے لیے وقت ادا نیتِ عبادت ضروری ہے اور یہاں تو وقت ادانیت قرض تھی۔ اگر کوئی نماز کی طرح اٹھک بیٹھک کرے اور نماز کی نیت نہ کرے تو اس کی نماز نہ ہوگی اور اسی طرح سے کوئی رقم کسی محتاج فقیر کو دےدے اور دیتے وقت زکات کی نیت نہ کرے تو زکات بھی ادا نہیں ہوگی، اور جس وقت زید نے وہ روپیہ دیا تھا اس وقت اس کی نیت زکات کی نہ تھی،اس لیے اس کی زکات ادا نہیں ہوگی۔

ہاں اگر زید چاہتا ہے کہ وہ روپیہ زکات میں شمار ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ پھو پھی کواپنے پاس سے زکات کی نیت سے زکات کا دوسرا مال دےدے اور جب پھوپھی اس پر قبضہ کرلے تو وہ ادائے قرض کی نیت سے زید کو واپس کر دے۔ اور اگر وہ واپس نہ کرے تو زید اس کے ہاتھ سے اپنے قرض کی وصولی میں لے بھی سکتا ہے۔ اس طریقے سے زکات بھی ادا ہو جائے گی اور اسے قرض کا روپیہ بھی مل جائے گا۔ واللہ تعالی اعلم

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved