مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
قرآن اللہ کا کلام ہے، قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر بے شمار دلائل قائم ہیں، ان میں ایک اہم اور واضح دلیل یہ ہے کہ قرآن میں کوئی تعارض اور اختلاف نہیں ہے، قرآن کریم نے اسی عدم تضاد کو کلام الٰہی ہونے کی دلیل قرار دیا، اورفرمایا:
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ﴿ سورۂ نساء: ۸۲﴾
کیا یہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے، اور اگر قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے۔
اللہ وحدہ لا شریک نے اس آیت مبارکہ میں تدبر کا حکم دیا اور فرمایا کہ قرآن میں تدبر کرو، تمھیں یقین کے ساتھ معلوم ہوجائے گا کہ قرآن بندے کا کلام نہیں، بلکہ اللہ کا کلام ہے، کیوں کہ یہ کلام ان عیوب ونقائص سے پاک ہے جوبندوں کے کلام کا حصہ ہوا کرتے ہیں، بندوں کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ کلام بشر میں جگہ جگہ الفاظ میں ثقالت، معانی میں خفت، مضامین میں اختلاف، افکار میں تضاد اور بجا طور پر حقائق سے انحراف ہوتا ہے، کیوں کہ بندوں کی علمی اور تخلیقی صلاحتیں بتدریج پروان چڑھتی ہیں،کثرت مطالعہ اور طول ممارست سے ان کی عقلوں میں پختگی آتی ہے، مسلسل تجربات و مشاہدات سے گزرنے کے بعد ہی ان میں مثبت فکر اور صحیح سوچ پیدا ہوتی ہے، جو مرور ایام کے ساتھ نمو پاتی اور بدلتے حالات کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، کچھ دنوں تک علم ودانش اور فکر وتدبر کا یہ ارتقائی سفر جاری رہتا ہے، پھر ایک حد تک پہنچنے کےبعد رک جاتا ہے۔
ظاہر سی بات ہےکہ جوکلام ان تدریجی مراحل سے گزر کر تشکیل پا ئےگا، اور جو افکار ومضامین حالات زمانہ سے متاثر ہوکر وجود میں آئیں گے ان میں کافی نشیب وفراز ہوگا، اول تا اخیر سارا کلام فصاحت وبلاغت کے ایک معیار پر نہیں اترے گا، افکار ومعانی میں اختلاف اور تضاد ہوگا، بعض باتیں خلاف واقع ہوں گی، کچھ نظریات غلط ثابت ہوں گے، کہیں دلائل کی کمی ہوگی، اور کہیں دلائل تو ہوں گے، لیکن اطمینان بخش نہیں ہوں گے، ان سب کے ساتھ ساتھ سہو ونسیان کا اندیشہ ہوگا،جس کے بعد مزید تحقیق وتدقیق کی گنجائش نکل آئےگی، اور اس بات کا قوی امکان ہوگا کہ جو حقائق پیش کیے گئے آنے والے دنوں میں ان کی تردید ہوجائے اور دوسرے نظریات قائم ہوجائے، اسی لیے ہر قلم کار کو بجا طور پر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ جو کچھ بیان ہوا یہی حرف اخیر یا قول فیصل نہیں ہے، لہٰذا ہر شخص مکمل طور پر اس بات کا مجاز ہوگا کہ وہ اپنی تحقیق پیش کرے، اورہم سے اختلاف رائے کرے۔
یہ کلام بشر کا حال ہے، اس کے بالمقابل کلام الٰہی کی شان یہ ہوتی ہے کہ وہ شکوک وشبہات سے بالا تر ہوتا ہے، خطا اور امکان خطا سے پاک ہوتا ہے، ہر قسم کی تحریف وتبدیلی سےمحفوظ ہوتا ہے، اس کےاخبار وواقعات واقع کے عین مطابق ہوتے ہیں، اس کی پیشین گوئی سچی ثابت ہوتی ہے، اور اس کے بیان کردہ حقائق نا قابل انکار ہوتے ہیں، قرآن کریم کی صداقت وحقانیت اور اس کے محاسن وکمالات پر بے شمار آیتیں پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن ہم طوالت سے احتراز کرتےہوئے مقالے کے شروع میں پیش کی گئی آیت پر اکتفا کرتے ہیں، جس میں اللہ وحدہ لاشریک نے فرمایا:
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا ﴿ سورۂ نساء: ۸۲﴾
کیا یہ قرآن میں تدبر نہیں کرتے، اور اگر قرآن غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف پاتے۔
اس آیت کا واضح مفہوم یہی ہے کہ قرآن کلام الٰہی ہے، اس کے کلام الٰہی ہونے پر ایک دلیل یہ ہے کہ اس میں کہیں کوئی اختلاف نہیں ہے، مفسرین کرام نے اختلاف کے دو معانی بیان کیے ہیں: ایک تفاوت اور دوسرے تعارض، تفاوت کا تعلق کلمات سے ہے، اور تعارض کا تعلق معانی سے،قرآنی آیات میں تفاوت نہ ہونے کا مطلب یہ ہےکہ اول تا آخرپورے قرآن کا اسلوب یکساں ہے،اور فصاحت وبلاغت کے اعتبار سے کہیں کوئی کمی بیشی نہیں ہے،یعنی ایسا نہیں کہ ایک آیت حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے تو دوسری قابل اعتراض ہے، ایک آیت لسانی کمالات کی جامع ہے تو دوسری محل نظر ہے، بلکہ سارا کلام ایک جیسا، اورساری آیات ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ معانی قرآن میں تعارض نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سارے مضامین یکساں ہیں،اور ایک دوسرے کی تصدیق وتوثیق کرتے ہیں، ایسا نہیں کہ ایک آیت جس چیز کی نفی کردے دوسری آیت اس کو ثابت کر تی ہو، اور ایک آیت جس مضمون کی تائید کردے دوسری آیت اس کی تردید کرتی ہو، بلکہ پورا قرآن اپنے معانی ومطالب کے اعتبار سے ایک محور پر گردش کرتا ہے، اور ہر گام پر رشد وہدایت کی تعلیم دیتا ہے۔
اس آیت کی روشنی میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ ومعانی ہر قسم کے اختلاف وتعارض سے پاک اور منزہ ہیں، اور یہی اس کی حقانیت کی دلیل ہے، لیکن حیرت کی بات ہے کہ اللہ وحدہ لا شریک نے جس آیت کو قرآن کی حقانیت کی دلیل بنا کر نازل کیا کچھ ظاہر بیں مفکرین اور کم نظر مستشرقین نے اسی کا سہارا لے کر قرآن پر اعراضات قائم کیے، اور اس کے منزل من السما پر شکوک وشبہات پیدا کرنے کی بے جا کوششیں کیں،انھوں نے اپنے مقصود پر استدلال کے لیے آیت کے مفہوم مخالف کا سہارا لیا، اورسوچا کہ اللہ نے فرمایا کہ اگر قرآن غیر اللہ کا کلام ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن میں اختلاف وتعارض ثابت کردیا جائےتو خود بخود اس کے کلام الٰہی ہونے کی نفی ہوجائے گی، اسی لیے انھوں نے ظاہری تعارض پر مشتمل آیات کو پیش کرکے تشکیک پیدا کرنے کی کوشش کی۔
ایسے رکیک اعتراضات راسخ العقیدہ مسلمانوں پر اثر انداز نہیں ہوتے، البتہ مذہب بیزار، آزاد طبیعت اورناخواندہ افراد کو ضرور متاثر کر سکتے ہیں، ایسے ضعیف الاعتقاد افراد کو بر وقت حقائق سے آگاہی نہیں ملی تو اندیشہ ہے کہ ان کا ایمان خطرے میں پڑ جائے، اسی لیےہمیں ان کے شکوک وشبہات کا ازالہ کرنا چاہیے، تاکہ وہ دامن اسلام سے وابستہ رہیں، اور قرآن کی آئینی حیثیت پر غیر متزلزل یقین رکھیں۔
ہمارے اسلاف کرام نے صدیوں پہلے ایسے شکوک و شبہات کا ازالہ کردیا، اور مشکل القرآن اور دفع الشبہات وغیرہ عنوانات کے تحت ان آیات پر مفصل کلام کیا جن میں بظاہر تعارض یا اختلاف نظر آتا ہے، ہم اپنے مقالے میں ظاہری تعارض پر مشتمل انھی آیات کو جمع کریں گے، اور اسلاف کرام کے ارشادات کی روشنی میں ان کے تشفی بخش جوابات دینے کی بھر پور کوشش کریں گے۔
شبہات اور ان کے جوابات سے پہلےظاہری تعارض کے حوالے سے شبہات اور ان کے جوابات جاننے سے پہلے چند امور سے واقفیت ضروری ہے۔
(1) بلاغت کا تقاضا یہ ہے کہ جہاں جیسی ضرورت ہو ویسی بات کہی جائے، اسی لیے موقع ومحل کا لحاظ کرتے ہوئے ایک مضمون کئی طریقوں سے پیش کیا جاتا ہے، کہیں کوئی بات اجمالاً کہہ دی جاتی ہے اور کہیں تفصیل سے بیان کی جاتی ہے، ممکن ہے کہ کسی کو اجمالی اور تفصیلی کلام کے درمیان تعارض نظر آئے، لیکن اسے تعارض نہیں کہیں گے، کیوں کہ جو کلام ایک جگہ اجمالاً پیش کیا جاتاہے دوسری جگہ اسی کی تفصیل ہوتی ہے، مثلاً کسی مقام پر مطلق نماز کا حکم ہے، اور کسی مقام پر اوقات نماز کی تفصیل کے ساتھ حکم ہے، تو ان دونوں آیات کو آپس میں متعارض نہیں مانا جائے گا، لہٰذا آیت مبارکہ: اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ، آیت مبارکہ: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ کے معارض نہیں ہوگی۔
(2) کہیں کوئی حکم مطلق بیان ہوتا ہے، اور وہی حکم دوسری جگہ کسی قید، شرط یا صفت کے ساتھ بیان ہوتا ہے، تو مطلق ومقید آیات باہم متعارض نظر آتی ہیں،لیکن ان آیات میں بیان کردہ احکام ایک دوسرے کے معارض نہیں مانے جائیں گے، ایسی آیات میں تطبیق کے سلسلے میں ائمہ فقہ اور علماے اصول کے مختلف مذاہب ہیں جو اصول فقہ کی کتابوں میں مرسوم ہیں۔
(3) کہیں کوئی حکم مطلقاً بیان ہوتا ہے، اور کہیں استثنائی صورت کے ساتھ بیان ہوتا ہے، دونوں آیات میں کوئی تعارض نہیں مانا جائے گا، کیوں کہ حکم مطلق میں استثنائی صورت بھی ملحوظ ہوتی ہے، جو مقتضائے حال کے پیش نظر بیان نہیں کی جاتی، اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک نے حضور اکرمﷺ کو قرآن یاد کرانے اور آپ کے قلب اطہر میں قرآن محفوظ رکھنے کا ذکر کیا، تو ایک مقام پر مطلقاً فرمایا:
اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ۔ (سورۂ قیامہ: ۱۷)
یعنی قرآن کو آپ کے سینے میں محفوظ کرنا اور آپ کی زبان پر اس کی تلاوت جاری کرنا ہمارے ذمہ کرم پر ہے۔ (جاری)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org