21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia March 2024 Download:Click Here Views: 50267 Downloads: 473

(1)-اپنے وطن کے چند سلگتے مسائل

 

مبارک حسین مصباحی

کسی بھی  جمہوری ملک میں مختلف سیاسی پارٹیاں  ہوتی ہیں، ہر پارٹی  اپنے حلقہ انتخاب میں ووٹروں کو لبھانے کے لیے خوابوں کی بارات سجاتی ہے، عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے لمبی لمبی فہرستیں شو کی جاتی ہیں ان میں کئی انہونیاں بھی ہوتی ہیں ، اور الیکشن سے قبل اشتہارات اور بیانات کے چوکے چھکے لگا کر زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کی  سر توڑ کوششیں کی جاتی ہیں۔ حق اور ناحق میں خطِ امتیاز کسی بھی انسان  کی اخلاقی اور سماجی ذمہ داری ہوتی ہے ۔اسی نقطۂ نظر سے ہم چند باتیں عرض کرتے ہیں۔

دہلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ بی جے پی والے الیکشن جیتتے نہیں بلکہ الیکشن چوری کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ دعویٰ سپریم کورٹ کے چنڈی گڑھ پنجاب کے میئر کی فتح یابی کے تعلق سے ایک فیصلے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کیا ہے۔ دراصل کل 36 ووٹ تھے، کاؤنٹنگ کے دوران ۸ ووٹ بی جے پی والوں نے چرالیے۔شدید اختلاف کے بعد کیس سپریم کورٹ پہنچا۔ ججز نے زمینی سچائی طشت از بازم کر دی اور آپ پارٹی کے امیدوار کو میر ڈیکلیئر کر دیا اور بی جے پی امیدوار کو ناکام قرار دیا۔ اپنی نوعیت کے اس منفرد فیصلے کی دنیا بھر میں ستائش ہو رہی ہے۔

 آئندہ ماہ سے ملک کے لوک سبھا الیکشن شروع ہونے والے ہیں۔ ملک میں 90 کروڑ ووٹ ہیں، اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ منصوبے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے شہریوں کے حق اطلاعات کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ایس بی آئی کو حکم دیا گیا ہے کہ بانڈ کی فروخت پر فوری طور پر روک لگائی جائے،سپریم کورٹ نے  ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے الیکٹورل (انتخابی) بانڈ اسکیم پر پابندی عائد کر دی۔ یہ فیصلہ مرکزی حکومت کے لیے ایک جھٹکے کی طرح ہے کیونکہ وہ اس اسکیم کو جاری رکھنے کی حامی تھی۔  

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ وہ الیکٹورل بانڈ کے حوالہ سے 2019 سے اب تک کی تفصیلات طلب کرے۔ وہیں بانڈ جاری کرنے والے ادارے ایس بی آئی کو یہ معلومات فراہم کرنا ہوں گی کہ اپریل 2019 سے لے کر اب تک کتنے لوگوں نے کتنے کتنے روپے کے الیکٹورل بانڈز خریدے ہیں۔ ایس بی آئی تین ہفتوں میں یہ معلومات فراہم کرے گا۔ اس کے بعد الیکشن کمیشن یہ معلومات عوام تک پہنچائے گا۔

اب تک حکومت نے الیکٹورل باند کو آر ٹی آئی کے دائرہ سے باہر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عام لوگ حق اطلاعات کے تحت الیکٹورل بانڈز سے متعلق معلومات حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ووٹرز کو سیاسی جماعتوں کے فنڈز کے بارے میں جاننے کا حق ہے۔ الیکشن کمیشن کو انتخابی بانڈز سے متعلق معلومات اپنی ویب سائٹ پر بھی فراہم کرنی ہوں گی۔ حکومت کی دلیل تھی کہ انتخابی بانڈز کے ذریعے کالے دھن اور سیاسی فنڈنگ ​​میں بے ضابطگیوں کو روکا جائے گا۔ جبکہ عدالت نے کہا کہ کالے دھن کو روکنے کے اور بھی طریقے ہیں۔

اب جبکہ سپریم کورٹ نے الیکٹورل بانڈ اسکیم کو غیر آئینی قرار دینے کا فیصلہ سنایا ہے تو اس کے نتیجہ میں اب بینک الیکٹول بانڈ فروخت یا جمع نہیں کر سکیں گے۔ اگر کوئی شخص کسی سیاسی جماعت کو چندہ دینا چاہتا ہے تو اسے یہ کام اپنے بینک کھاتے کے ذریعے کرنا ہوگا۔ ایس بی آئی کو سیاسی جماعتوں کے ذریعے کیش کیے گئے الیکٹورل بانڈز کی تفصیلات جمع کرانی ہوں گی۔ وہیں، الیکٹورل بانڈز کی رقم جو کیش نہیں کی گئی ہے، اسے خریدار کے اکاؤنٹ میں واپس کرنا ہوگا۔

الیکٹورل بانڈ منصوبہ پر پابندی عائد کر دینے سے  اپوزیشن لیڈران نے حد درجہ خوشی کا اظہار کیا ہے۔ ملکارجن کھڑگے کانگریس صدر نے کہا:

ہم  سپریم کورٹ کے فیصلے کا استقبال کرتے ہیں جس نے مودی حکومت کے اس ’کالا دھن منتقلی‘ منصوبہ کو ’غیر آئینی‘ بتاتے ہوئے رد کر دیا ہے۔  اس میں کوئی حیرت نہیں کہ اس منصوبہ کے تحت 95 فیصد چندہ بی جے پی کو ملا۔ ہمیں امید ہے کہ مودی حکومت مستقبل میں ایسے نظریات کا سہارا لینا بند کر دے گی اور سپریم کورٹ کی بات سنے گی تاکہ جمہوریت میں  شفافیت  کا اجالا نظر آئے ۔

یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے بعد اتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی  کے آرڈر پر ہلدوانی میں سرکاری بلڈوزروں نے ایک مسجد اور مدرسے  کو منہدم کر دیا ۔ حالانکہ انہدامی کارروائی کا معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے اور 14/فروری کی تاریخ بھی طے تھی، لیکن اس سے پہلے ہی بلڈوزر وہاں پہنچ گئے اور انھوں نے مسجدومدرسہ کو مسمار کردیا۔ اس غیرقانونی کارروائی کے خلاف احتجاج کے لیے جو مسلمان سڑکوں پر آئے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا، جوایسے موقعوں پر کیا جاتا ہے۔ نتیجے میں چھ افراد ہلاک ہوگئے ہیں اور درجنوں زخمی ہیں، ان میں تین کی حالت سنگین بتائی جاتی ہے۔ تشدد کے بعد ہلدوانی میں کرفیو نافذ کرکے دیکھتے ہی گولی ماردینے کے احکامات جاری کردئیے گئے ہیں۔  پانچ ہزار لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور فساد بھڑکانے والوں پر قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے)کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ فساد کا نشانہ کون ہوتا ہے اور یک طرفہ کارروائی کس کے خلاف ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ دھامی نے اس تشدد کو منصوبہ بند سازش قرار دیتے ہوئے اس بات پر قطعی غور نہیں کیا کہ اس کی شروعات کس نے کی اور کیوں لوگ اس قدر مشتعل ہوئے۔ یہاں مسلمانوں کی مسجدوں، مدرسوں،مزاروں اور مکانوں کو نیست ونابود کیا جارہا ہے اور امید یہی کی جارہی ہے کہ وہ اف بھی نہ کریں۔

نہ تڑپنے کی اجازت  ہے نہ فریاد کی ہے

گھٹ کے مر جاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے

ہلدوانی سے بلڈوزر کا رشتہ نیا نہیں ہے۔ گزشتہ برس یہی ہلدوانی اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب  ایک مسلم آبادی پر یہ کہہ کر بلڈوزروں سمیت دھاوا بولا گیا تھاکہ یہ آبادی ریلوے کی زمین پر بنی ہے جبکہ مکینوں کے پاس سیکڑوں برس پرانے کاغذات موجود تھے۔ ابھی تک یہ سمجھ میں نہیں آسکا ہے کہ یہ نئے بلڈوزر کس تکنیک سے بنے ہیں کہ وہ جب بھی حرکت میں آتے ہیں تو ان کا نشانہ مسجدیں، مدرسے اور مسلم بستیاں ہی ہوتی ہیں۔ پچھلے دنوں ان ہی بلڈوزروں نے دہلی کی صدیوں پرانی آبادی مہرولی میں ایک 700 سال پرانی مسجد اور مدرسے کو ناجائز تعمیر قرار دے کر مسمار کردیا تھا۔

یہاں یکساں سول کوڈ نہیں بلکہ ہندو کوڈ نافذ کیا جارہا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس قانونی مسودے میں کئی مقامات پرمسلم پرسنل لاء اور شرعی قوانین پر زبردست چوٹ کی گئی ہے اور ایسے موضوعات کو چھیڑا گیا ہے جن سے مسلمانوں میں اشتعال پھیلنا لازمی ہے۔ یہاں تک کہ شوہر کے انتقال یا طلاق کے بعدمسلم خواتین کی عدت پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بعد اتراکھنڈ کے مسلمانوں میں غم وغصے کی لہر پہلے سے ہی موجود تھی جسے ہلدوانی میں مسجد ومدرسہ پر کئی گئی انہدامی کارروائی نے مزید شہ دی۔ 

بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر وارانسی کی گیان واپی مسجد اور دہلی کی سنہری مسجد کے تنازعات جاری ہیں۔

دہلی میں اراضی اور تعمیرات کے انتظامات کے ذمہ دار ادارے ’دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ (ڈی ڈی اے) کے عملے نے 30 جنوری کو علیٰ الصبح ’مسجد آخوندجی‘ اور اس سے ملحق مدرسہ بحرالعلوم کو بلڈوزر سے منہدم کر کے ملبے کو وہاں سے کہیں اور منتقل کر دیا۔

تاریخ دانوں کے مطابق 1922 میں شائع ہونے والی مولوی ظفر حسن،اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی ’لسٹ آف محمڈن اینڈ ہندو مانومنٹس‘ جلد تین میں آخوندجی مسجد کے وجو کو تسلیم کیا گیا ہے۔اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسجد آخوندجی عید گاہ سے تقریباً 100 میٹر کے مغرب میں ہے اور وہ 1398 میں ہندوستان پر تیمور کے حملے کے وقت موجود تھی۔ اس کی تعمیر کا سال نامعلوم ہے لیکن 1853 میں اس کی مرمت کی گئی تھی۔وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مولوی ظفر حسن کی کتاب ’مانومنٹس آف انڈیا‘ میں مسجد کے پاس نصب کتبے کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ظفر کا لکھا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بہادر شاہ ظفر کا لکھا ہوا تھا، کیوں کہ ظفر تخلص انہی کا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اس بورڈ پر درگاہ شیخ جلال الدین تبریزی لکھا ہوا تھا۔ شیخ تبریزی التمش کے زمانے میں 1210 میں دہلی آئے تھے۔ بعدمیں وہ بنگال چلے گئے جہاں انھوں نے صوفی ازم پر کافی کام کیا تھا۔ لیکن وہاں ان کی درگاہ نہیں بلکہ خانقاہیں ہیں۔ ان کی درگاہ دہلی میں مذکورہ مقام پر تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس مسجد اور درگاہ کا اگر کوئی تعلق شیخ جلال الدین تبریزی سے تھا تو ان کی تعمیر 13ویں یا 14 ویں صدی میں ہوئی تھی۔مزید براں یہ کہ اس مسجد اور درگاہ کا طرز تعمیر لودھی دور حکومت کا ہے۔ اس میں کافی مرمت ہوئی تھی۔ لیکن یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسجد سات آٹھ سو سال پرانی تھی۔ایک اور تاریخ داں سہیل ہاشمی کے مطابق مسجد میں باضابطہ نمازیں ادا ہوتی رہی ہیں۔ یہ مسجد سنجے ون کو فارسٹ لینڈ قرار دینے کے پہلے سے تھی۔ اس طرح یہ عمارت تجاوزات کے زمرے میں نہیں آتی۔مقامی باشندوں کے مطابق یہ مسجد رضیہ سلطان کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ رضیہ سلطان نے 1236 سے 1240 عیسوی تک دہلی پر حکومت کی تھی۔مسجد کے امام ذاکر حسین کے مطابق جو کہ دہلی وقف بورڈ کے رکن بھی ہیں، فجر کے وقت ڈی ڈی اے کا عملہ پولیس دستے کے ساتھ پہنچا۔ اس نے ہم لوگوں کو اپنا سامان ہٹانے کے لیے مشکل سے دس منٹ دیے۔انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ڈی ڈی اے کے عملہ نے ان کا فون لے لیا تاکہ انہدامی کارروائی کو ریکارڈ نہ کیا جا سکے۔ انھیں وہاں سے ہٹا کر پورے علاقے کا محاصرہ کر لیا گیا۔ وہاں سیکیورٹی جوانوں کو تعینات کر دیا گیا اور ملبہ دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔ان کے مطابق مدرسے میں تقریباً دو درجن بچے رہتے تھے۔ ان کا سارا سامان تباہ ہو گیا۔اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے۔

 حضرت مفتی سلمان ازہری کی گرفتاری:

حضرت مفتی سلمان احمد قادری ازہری کی گرفتاری ان ہی سوچوں کا نتیجہ ہے،آپ کرناٹک کے شہر ہبلی کے قریب قصبہ درس کے باشندے ہیں، بلا شبہ آپ کامیاب حافظ قرآن ہیں ۔آپ نے حفظ قران کی تکمیل جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے کی ہے سالانہ امتحان اور دستار بندی کے بعد آپ نے دیگر مدارس کا رخ کیا، آخر میں آپ جامع ازہر مصر  تشریف لے گئے ۔ آپ ایک کامیاب خطیب ہیں، موثر اور منفرد لب و لہجہ ، محبتِ الٰہی اورعشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شرابور  خطابات، دلائل کے ساتھ گستاخانِ مصطفیٰ کی  سرکوبی آپ کی شناخت  ہے۔ چند ماہ قبل آپ مبارک پور میں مدعو تھے۔ ہمارے بیان کے بعد آپ کا خطاب ہوا  تھا اور ماشاء اللہ آپ کے نام پر حد نظر مجمع تھا ۔اس گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں اختجاجات ہوئے۔ اسی طرح اور بھی ہزاروں کلمہ پڑھنے والے سلاخوں کے پیچھے ہیں، ہم حکومتیں ہند سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس قسم کے رویوں سے اجتناب  کرے، اور ملک میں امن و شانتی کی قضا قائم رہنے دے۔

حضرت مفتی سلمان احمد ازہری ایک مذہبی خاندان کے فرد ہیں آپ کے والد ماجد حضرت مولانا ابن حسن مصباحی رضوی علیہ الرحمہ نیک سیرت اور فاضل اشرفیہ تھے آپ نو برس کی عمر میں  اپنے استاذ مولانا تقی الدین کے ہمراہ راجستھان کسی مدرسے میں براے تعلیم داخل ہوئے، استاد کسی وجہ سے مدرسہ چھوڑ کر چلے گئے مدرسہ کے ذمہ داروں نے آپ سے کہا کہ آپ بھی تشریف ے جا سکتے ہیں۔ کم عمری میں آپ کے لیے یہ پریشان کن موڑ تھا ۔آپ نے منظر اسلام بریلی شریف ، جامعہ نعیمیہ مراد آباد، اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور مکتوبات لکھے، ان میں صرف حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کا آپ کو جواب موصول ہوا ۔اس میں آپ نے داخلہ لینے کی اجازت   دی تھی ۔آپ اپنے گھر اطلاع دیے بغیر جامعہ اشرفیہ مبارک پور آگئے، ٹیسٹ کے بعد داخلہ بھی ہو گیا۔ اب ان کے والد صاحب کو معلوم ہوا تو سخت خط لکھا کہ جتنی جلدی ہو سکے آپ گھر واپس ا ٓجائیے یہ خبر آپ نے حضور حافظِ ملت کو کو سنائی۔ حضور حافظ ملت نے فرمایا آپ جا سکتے ہیں ،مگر مولانا ابن حسن نے کہا :حضور ہمارے والد اپنے علاقے کے قاضی ہیں ،جانے کے بعد وہ آنے نہیں دیں گے۔ حضور حافظِ ملت نے آپ کے والد کو خط لکھا مگر انھوں نے طیش میں جواب دیا کہ آپ ہمارے بیٹے کو  واپس کر دیجیے ورنہ میں انتہائی قدم اٹھا کر آپ کا مدرسہ بند کرا دوں گا اس خط کا اشرفیہ میں تذکرہ ہوا۔آپ کو بلایا گیا آپ نے کہا میں چلا تو جاؤں گا لیکن اگر میں عالم نہیں بن سکا تو اس کے ذمہ دار والد صاحب اور آپ  ہوں گے۔ اس بات کو سن کر حضور حافظِ ملت  نے آپ کو سینے سے لگا لیا ۔حضور حافظ ملت نے مکتوب تحریر کیا: محترم ابن حسن  جس طرح آپ کا چہیتا بیٹا ہے اسی طرح ہمارا بھی بیٹا ہے وہ پڑھنا چاہتا ہے، اسے پڑھنے دیں، اب آپ جو چاہیں کریں ۔حضرت مولانا ابن حسن مصباحی  نے چھ برس دار العلوم اشرفیہ مبارک پور میں  اس طرح گزارے کہ درمیان میں ایک بار بھی اپنے گھر نہیں گئے، طلبہ کے لیے اس میں بڑی عبرت ہے۔ والد گرامی نے حضور حافظ ملت کا مکتوب پڑھا اور مسکراتے ہوئے رکھ دیا۔

آپ کے بڑے بھائی حضرت مفتی زبیر احمد مصباحی نے بھی اپنی تعلیم جامعہ اشرفیہ  مبارک پور میں مکمل فرمائی ، ان کے علاوہ بھی آپ کے خاندان کے متعدد افراد نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے اکتسابِ علم کیا ہے۔ ہم اس شعر پر اپنی تحریر ختم کرتے ہیں۔

ایک دو زخم نہیں سارا بدن ہے چھلنی           درد بے چارہ پریشاں سے کہاں سے اٹھے

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved