21 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia Sept 2023 Download:Click Here Views: 39848 Downloads: 1310

(5)-عید میلاد النبی ﷺ

شعاعیں

(حافظ)افتخاراحمدقادری برکاتی

ماہ ربیع النور کا چاند جیسے ہی طلوع ہوتا ہے تو اہل ایمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد  کی خوشیاں منانے میں جٹ جاتے ہیں۔  کچھ لوگ اپنے علم وقلم کی زور آزمائی کرکے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے اعتراضات واشکالات وارد کرتے ہیں۔ یہ ہر سال ربیع الاول کے ماہ میں ہوتا ہے۔ جس سے بھولے بھالے مسلمان ان فتنہ پردازوں کے دام فریب میں پھنس جاتے ہیں۔ لہٰذا میں نے یہ محسوس کیا کہ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے امت مسلمہ کے چند اکابر آئمہ، محدثین اور جلیل القدر علما و مفتیانِ عظام کی کتب سے ان کی تحقیق پیش کی جائے۔ تاکہ ہم بھی ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وہی وطیرہ اور طرزِ عمل اپنائیں جو انہوں نے اپنی علمی دیانت سے تحقیق کرکے امت کی رہنمائی کے لیے دے دیا۔ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق علماے امت کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں۔

حضرتِ امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جس نے محفلِ میلاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے دوستوں کو جمع کیا، کھانا تیار کیا اور مکان خالی کرایا اور میلاد خوانی کا سبب بنا تو اللہ رب العزت اس کو قیامت کے دن صدیقین، شہدا اور صالحین کے ساتھ اٹھائے گا اور اس کا ٹھکانہ جنت النعیم میں ہوگا۔)معمولات اہل سنت، صفحہ 340)

امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب ”بالوسائل فی الشرح الشمائل“ میں تحریر فرماتے ہیں: کہ جس گھر میں،جس مسجد اور جس محلہ میں امام النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا میلاد پاک پڑھا جائے تو اللہ کی رحمت کے فرشتے اس مکان، اس مسجد اور محلے کو گھیر لیتے ہیں اور اس مکان والوں پر درود شریف پڑھتے ہیں۔ (شرحِ الشمائل)

حضرتِ معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: کہ جس نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر کھانا پکایا، لوگوں کو جمع کیا، نیا لباس پہنا اور خوشبو سے میلاد کی جگہ کو معطر کیا اور چراغاں کیا، تو اس کا حشر انبیاے کرام علیہم السلام کی رفاقت میں ہوگا۔(النعمۃ الکبریٰ علی العالم، ص، ٧ تا ١٢(

حضرتِ علامہ اسماعیل حقی صاحب تفسیر روح البیان آیتِ کریمہ ”محمد رسول اللہ“  کے تحت تحریر فرماتے ہیں: میلاد شریف کرنا بھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک تعظیم ہے۔

امام سیوطی قدس سرہ فرماتے ہیں:  ہمارے لیے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت پر شکر کا اظہار کرنا مستحب ہے۔

(روح البیان، جلد/٥، صفحہ /نمبر، ٦٦)

امام الآمہ حضرتِ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ سے ربیع الاول کے مہینے میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منانے کے بارے میں سوال کیا گیا کہ شریعتِ اسلامی میں اس کا کیا حکم ہے؟ آیا میلاد منانا قابلِ تعریف ہے یا مذموم؟ اور میلاد منانے والے کو ثواب ملے گا یا نہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرتِ علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میرے نزدیک میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو کہ لوگوں کا جمع ہونا اور قرآن مجید سے جو میسر آئے اس کی تلاوت کرنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تخلیق میں وارد احادیث کو بیان کرنا وغیرہ اور آپ کی میلاد میں واقع قرآنی آیات کو بیان کرنا پھر حاضرین کے لیے دسترخوان بچھایا جاتا ہے۔ جس پر وہ لوگ کھاتے ہیں اور بغیر زیادتی کے اس پر خرچ کرتے ہیں- یہ ساری باتیں بدعتِ حسنہ میں سے ہیں۔ جن کا کرنے والا ان کے کرنے کے سبب ثواب پاتا ہے۔ اس لیے کہ اس میں نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم کے مرتبہ کی تعظیم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد شریف سے خوش ہونا اور خوشی کا اظہار کرنا ہے۔ (الحاوی للفتاوی، جلد،١ صفحہ، ١٨٩)

امام شہاب الدین احمد ابنِ محمد خطیب قسطلانی مصری شافعی اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ”المواہب اللدنیہ المدح المحمدیہ“ میں میلاد شریف منانے سے متعلق اپنا خیال اور اپنا عقیدہ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کے مہینے میں اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی محفلیں منعقد کرتے چلے آئے ہیں اور خوشی کے ساتھ کھانا پکانے، دعوتیں کرتے اور ان راتوں میں قسم قسم کے صدقے وخیرات کرتے۔ خوشی ومسرت کا اظہار کرتے اور نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد شریف پڑھنے کا خاص اہتمام کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ان پر اللہ کے فضلِ عظیم اور برکتوں کا ظہور ہوتا ہے اور میلاد شریف کے خواص میں سے آزمایا گیا ہے کہ جس سال میلاد شریف پڑھا جاتا ہے وہ سال مسلمانوں کے لیے حفظ وامان کا سال ہوتا ہے اور میلاد پاک سے دلی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحمتیں نازل فرمائے جو حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کی مبارک راتوں کو خوشی اور مسرت کی عید بنائے تاکہ یہ میلاد پاک سخت ترین علت و مصیبت ہو جائے اس پر جس کے دل میں بیماری ہے۔(المواہب اللدنیہ، جلد،١ صفحہ، ١٤٨)

حضرتِ علامہ سید احمد ابنِ زینی دہلان شافعی علیہ الرحمہ اپنی مشہور کتاب ”الدررالسنیہ“میں میلاد شریف کے متعلق اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: میلاد کی رات خوشی کا اظہار کرنا، میلاد شریف پڑھنا، ولادت کے ذکر کے وقت کھڑے ہونا، مجلس میں حاضرین کو کھانا کھلانا، اور ان کے علاوہ نیکی کی باتیں جو مسلمانوں میں رائج ہیں یہ ساری باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم سے ہیں اور مجلس میلاد اور جو باتیں اس سے متعلق ہیں ان کا مسئلہ ایسا ہے کہ ان کے متعلق مستقل کتابیں لکھی جاچکی ہیں اور کثرت سے علمائے دین نے اس کا اہتمام فرمایا ہے اور دلائل وبراہین سے بھری کتابیں اس سے متعلق تالیف فرمائیں ہیں تو ہمیں اس مسئلہ کو طول دینے کی ضرورت نہیں۔(الدرر السنیہ، بحوالہ اقامتہ القیامہ، ص،٢٣)

حضرتِ علامہ ابو شامہ علیہ الرحمہ استاذ امام نبوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ہمارے زمانے میں جو بہترین نیا کام کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ لوگ ہر سال حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی میلاد کے دن صدقات وخیرات کرتے ہیں اور اظہارِ مسرت کے لیے اپنے گھروں اور اپنے کوچوں کو آراستہ کرتے ہیں۔ کیونکہ اس میں کئی فائدے ہیں۔ فقراے مساکین کے ساتھ احسان ومروت کا برتاؤ ہوتا ہے۔ نیز جو شخص یہ کام کرتا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے محبوب کی محبت اور عظمت کا چراغ ضیا بار ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کریم (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) کو پیدا فرما کر پورے عالم کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور یہ اللہ رب العزت کا اپنے بندوں پر بڑا احسان ہے۔ جس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے مسرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔(السیرۃ الحلبیہ، جلد،١ صفحہ، ٨٠)

حضرتِ شاہ ولی اللہ محدثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”فیض الحرمین فی مکۃ المکرمہ“ میں ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں منعقدہ ایک محفل میلاد النبی میں شرکت کرکے اپنے مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ایک مرتبہ میں مکہ المکرمہ میں مولود شریف کی جگہ پر بارہ ربیع الاول کو منعقدہ مجلس میں حاضر ہوا۔ جہاں ولادتِ مصطفیٰ کا ذکر مبارک ہو رہا تھا۔ جب ولادتِ باسعادت کا ذکر ہو رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ ایک دم کچھ انوار وتجلیات اس مجلس پر ظاہر ہوئے۔ میں نے ان انوار پر غور کیا کہ یہ انوار کیسے ہیں؟ تو معلوم ہوا یہ ملائکہ کے انوار ہیں جو ایسی متبرک محافل میں حاضر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ رحمت الٰہی کے انوار سے بھی اس محفل کو ڈھانپ رکھا تھا۔(تواریخ حبیب الہ /ص ٨)

حضرتِ مولانا الحاج الحافظ شاہ محمد امداد الله مہاجر مکی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”ہفت مسئلہ“ میں لکھتے ہیں: فقیر کا مشرب یہ ہے کہ محفلِ میلاد میں شریک ہوتا ہوں بلکہ اسے ذریعہ برکات سمجھ کر منعقد کرتا ہوں۔(فیصلہ ہفت مسئلہ/ صفحہ/ ٥)

حضرتِ شیخ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: محفلِ میلاد مصطفی میں ادب وتعظیم کے ساتھ حاضری دینے والے کا ایمان سلامت رہے گا۔(النعمۃ الکبریٰ علی العالم/صفحہ/ ٢٤)

آٹھویں صدی ہجری کے جلیل القدر محدث حضرتِ علامہ ابنِ حجر عسقلانی فتاویٰ حدیثیہ میں فرماتے ہیں: میلاد اور اذکار کی محفلیں جو ہمارے یہاں منعقد ہوتی ہیں اکثر خیر ہی پر مشتمل ہیں کیونکہ ان میں صدقات، ذکر الٰہی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جاتاہے۔ 

(فتاویٰ حدیثیہ/ ١٢٩)

حضرتِ علامہ عبد الرحمن ابنِ جوزی جو کہ پائے کے محدث ہیں، آپ نے تو میلاد کے موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھی ہے، اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں:

اہل مکہ ومدینہ ،اہل مصر، یمن، شام اور عالم اسلام شرق تا غرب ہمیشہ سے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ سعیدہ کے موقع پر محفلِ میلاد کا انعقاد کرتے چلے آرہے ہیں اور ماہ ربیع الاول کی آمد پر خوشیاں مناتے ہیں، ان میں سب سے زیادہ اہتمام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور مسلمان ان محافل کے ذریعے اجر عظیم اور بڑی روحانی کامیابی پاتے ہیں۔(المیلاد النبی/ صفحہ/٨٥)

محترم قارئین! اب آپ کی خدمت میں ایک ایسا فتویٰ پیش کروں جو تیرہویں صدی ہجری کے چارو مسلک کے حرمین شریفین کے علما و مفتیان عظام کا متفق علیہ فتویٰ ہے اور اس فتویٰ پر مفتی شافعیہ قاضی القضات حضرتِ علامہ سید احمد ابنِ زینی دہلان شافعی علیہ الرحمہ اور حضرتِ علامہ ابنِ خیار شافعی علیہ الرحمہ جیسے جلیل القدر شوافع مفتیانِ کرام قدس سرہ کی دستخطیں اور تصدیقی مہریں ہیں۔ ساتھ ہی مفتی حنفیہ علامہ عبد الرحمٰن سراج، مفتی حنبلیہ علامہ الشیخ حسن اور مفتی مالکیہ علامہ شرفی وغیرہم چاروں مسلک کے تقریباً پینتالیس علماے امت رحمہم اللہ کی تصدیقی مہریں ہیں- فتاویٰ ملاحظہ ہو:

”مجلسِ میلاد وقیام کا منکر بدعتی ہے اور اس منکر کی بدعت سئیہ مذمومہ ایسی چیز کا انکار کیا جو خدا اور اہل اسلام کے نزدیک نیک تھی جیسا کہ حدیث ابنِ سعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں آیا ہے کہ جس چیز کو مسلمان نیک اعتقاد کے ساتھ کرے وہ خدا کے نزدیک نیک ہے اور یہاں مسلمانوں سے کامل مسلمان مراد ہے۔ جیسا علماے باعمل، مجلس میلاد وقیام کو علماے عرب، مصر، شام، روم و اندلس سلف سے آج تک مستحسن جانا تو اجماع ہوگیا، جو امر اجماعِ امت سے ثابت ہو وہ حق ہے گمراہی نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: میری امت گمراہی پر اتفاق نہیں کرتی، پس حاکم شرع پر لازم ہے کہ منکر میلاد وقیام کو سزا دے واللہ تعالیٰ اعلم۔“(اقامتہ القیامتہ/صفحہ٢٩,٣٠)

     معزز قارئینِ ! محدثین، مفسرین اور اولیائے کرام کے ارشاداتِ عالیہ جو میلاد النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے متعلق ہیں اُنہیں آپ نے پڑھا- اب آپ ہی فیصلہ کیجیے کہ ان روشن حقائق اور ایمان افروز ملفوظات کے بعد میلادالنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جائز ہونے میں کیا کسی اور دلیل کی ضرورت ہوسکتی ہے ؟

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved