فکر امروز
محمد مدثر حسین اشرفی
انسان کی دنیوی زندگی میں حالات دائمی یکساں نہیں رہتے، کبھی عروج و خوشحالی کی زندگی میسر ہوتی ہے،کہ جس میں آسائش نام کی تمام سہولیات میسرہوتی ہیں، تو کبھی زوال چاروں طرف سے ایسے گھیرلیتاہے کہ حالات ناگفتہ بہ ہوجاتے ہیں ۔مگر انسانوں کوگھبرانانہیں چاہیے ۔”مرضیِ مولیٰ ازہمہ اولیٰ “کے تحت بہر حال ہر لمحہ ہرآن پروردگارعالم کاشکربجالانا اور دامنِ صبر مضبوطی سے تھامے رہنا، یہی مومن کامل کی علامت ہے ۔یہاں یہ خیال رہے کہ ضروری نہیں کہ کسی کاعروج دائمی رہے، ممکن ہے کہ زوال اس کامقدرہو، اسی طرح یہ بھی خیال رہے کہ کسی کازوال دائمی نہیں، ممکن ہے کہ عروج اس کے نصیب میں ہو ۔جب انسان مصائب وآلام سے گھراہواہوتاہے اور اسے اس سے نجات کی کوئی سبیل نظرنہیں آتی تووہ اپنے ہاتھوں کوبلندکرکے اپنے رب تعالیٰ سے دعاکرتاہے ۔بسا اوقات دعابہت جلد قبول ہوتی ہے اور کبھی کسی مصلحت کی بناپر قبولیت میں تاخیرہوتی ہے مگر آپ گھبرائیں نہیں یقین رکھیں، پروردگارعالم عزوجل آپ کی دعاؤں کوضرور قبول فرمائے گا ۔
رب تعالیٰ ارشادفرماتاہے:وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ-اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ-فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنٍٍَ(پ 2 سورہ البقرہ آیت نمبر 186)
ترجمہ: اوراے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تومیں نزدیک ہوں، دعاقبول کرتاہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے توانہیں چاہیے میراحکم مانیں اورمجھ پرایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں ۔ (کنزالایمان)
مذکورہ اسی آیت کے ضمن میں حضرت صدرالافاضل مولانا سید نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ فرماتے ہیں:
”اس میں طالبان حق کی طلب مولیٰ کابیان ہے، جنہوں نے عشق الٰہی پراپنے حوائج کوقربان کردیا وہ اسی کے طلبگارہیں انہیں قرب و وصال کے مژدہ سے شادکام فرمایا ۔شانِ نزول: ایک جماعت صحابہ نے جذبہ عشق الٰہی میں سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ہمارارب کہاں ہے؟ اس پرنویدِ قرب سے سرفراز کرکے بتایاگیا کہ اللہ تعالیٰ مکان سے پاک ہے جوچیزکسی سے مکانی قرب رکھتی ہووہ اس کے دوروالے سے ضروربُعد رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ سب بندوں سے قریب ہے مکانی کی یہ شان نہیں ۔منازل قرب میں رسائی بندہ کواپنی غفلت دور کرنے سے میسر آتی ہے ۔دوست نزدیک تر ازمن بمن است ۔ویں عجب تر کہ من ازوے دورم (دوست تومجھ سے بھی زیادہ میرے قریب ہے ۔اوریہ عجب ترہے کہ میں اس سے دور ہوں) ۔ ”دعا “عرض حاجت ہے، اور اجابت یہ ہے کہ پروردگاراپنے بندے کی دعاپر ”لَبَّیکَ عَبدِی“ فرماتاہے ۔مُرادعطافرمانادوسری چیزہے وہ بھی اس کے کرم سے فی الفورہوتی ہے کبھی بمقتضاے حکمت کسی تاخیرسے، کبھی بندے کی حاجت دنیا میں روافرمائی جاتی ہے کبھی آخرت میں، کبھی بندے کانفع دوسری چیزمیں ہوتاہے وہ عطاکی جاتی ہے کبھی بندہ محبوب ہوتاہے اس کی حاجت روائی میں اس لیے دیرکی جاتی ہے کہ وہ عرصہ تک دعامیں مشغول رہے، کبھی دعاکرنے والے میں صدق واخلاص وغیرہ شرائط قبول نہیں ہوتے اسی لیے اللہ تعالیٰ کے نیک اورمقبول بندوں سے دعاکرائی جاتی ہے ۔
مسئلہ: ناجائزامرکی دعاکرناجائزنہیں ۔دعاکے آداب میں سے ہے کہ حضورقلب کے ساتھ قبول کایقین رکھتے ہوئے دعاکرے اورشکایت نہ کرے کہ میری دعاقبول نہ ہوئی ۔ترمذی شریف کی حدیث شریف میں ہے کہ نمازکے بعد حمد وثنا اور درودشریف پڑھے پھردعاکرے“۔ (خزائن العرفان)
آیت وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ الخ کے تحت حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمدیارخان نعیمی اشرفی قدس سرہ فرماتے ہیں:
”دعامانگنا بھی عبادت بلکہ عبادات کامغزہے اس کے عقلی اورنقلی بے شمارفائدے ہیں ۔
(1) دعاسے اظہار بندگی ہوتاہے اور دعانہ مانگنابے پرواہی کی نشانی ہے بندے کی شان یہ ہے کہ اپنے مولا سے ہروقت دعا مانگتارہے ۔ (2) دعاسے محبت الٰہی پیداہوتی ہے کیونکہ انسان اپنے حاجت رواکومحبوب جانتاہے ۔ (3) دعاسے اطاعت الٰہی کاجذبہ پیداہوتاہے کیونکہ اس سے اپنی محتاجی اور رب تعالیٰ کی بے نیازی کاپتہ لگتاہے۔رعایااپنی مجبوری اورحاکم کے اختیارات جان کرہی اس کی اطاعت کرتی ہے ۔(4) دعاسنت انبیاہے، ہرپیغمبرنے ہرموقع پردعائیں مانگیں ۔ (5) دعارب کوپیاری ہے اسی لیے اس نے جگہ جگہ اس کاحکم دیاہے ۔ (6) ہرمذہب نے دعاکی رغبت دی کفاربھی دعائیں مانگتے ہیں ۔ (7) دعاسے آنے والی مصیبت ٹل جاتی ہے اور بدنصیبوں کے نصیب کھل جاتے ہیں ۔ (8) دعاسے رب کی رحمتیں قائم رہتی ہیں ۔ (9) ہرعبادت بغیردعامعلق رہتی ہے، دعااس کاپرہے جس سے وہ بارگاہ الٰہی میں پہنچتی ہے ۔ (10) رب تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے فرمایاکہ ایک کام تمہاراہے اور ایک کام ہمارا تمہاراکام دعامانگناہے ہماراکام قبول کرنا ۔ (11) حق تعالیٰ اس سے حیافرماتاہے کہ بندے کے پھیلے ہوئے خالی ہاتھ واپس کرے ۔“(تفسیرنعیمی)
دعاکی مقبولیت کے چندمخصوص اوقات ومقامات ہیں مثلاً:
( 1) جمعہ کے دن دوخطبوں کے درمیان (2) خطبہ اور نماز کے درمیان (3) جمعہ کے دن سورج غروب ہوتے وقت۔ (4) بارش کے وقت۔(5) مرغ کے اذان دیتے وقت۔ (6) ہررات کے اخیری چھٹے حصہ میں۔ (7) رمضان میں افطاراورسحری کے وقت۔ (8) قرآن پاک ختم ہوتے وقت۔ (9) اذان کے بعد۔ (10) فرض نمازوں کے بعد۔ (11) شب قدرمیں ۔
وہ مقامات جہاں دعائیں مقبول ہوتی ہیں وہ یہ ہیں :
(1) بیت اللّٰہ شریف پرپہلی نظرپڑنے کے وقت۔ (2) طواف میں ملتزم کے پاس۔ (3) بیت اللہ میں چاہ زمزم کے پاس۔(4) زمزم پیتے وقت۔ (5) صفا اور مروہ پر۔ (6) سعی میں۔ (7) مقام ابراہیم کے پیچھے عرفات مزدلفہ اور منیٰ میں۔(8) تینوں جمروں کے پاس۔ (9) انبیاے کرام کے مزارات کے پاس۔ (10) بزرگان دین کی قبروں کے پاس، بلکہ بزرگوں کے پاس دعامانگناسنت انبیاہے زکریاعلیہ السلام نے بی بی مریم کے پاس کھڑے ہوکراولادکی دعاکی قرآن شریف فرماتاہے:
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً (سورہ آل عمران)
جن کی دعائیں بارگاہ الٰہی میں جلد مقبول ہوتی ہیں وہ یہ ہیں :
○ روزہ دار کی افطارکے وقت○ عادل بادشاہ کی ○مظلوم کی ○ماں باپ کی○ مسافرکی○ بیمارکی○ گھرپہنچنے سے پہلے حاجی کی○ مسلمان کے ليے اس کے پیچھے دعا○مجاہدکی ۔
مسئلہ: ناجائزکاموں کے لئے دعاکرنامنع ہے، مسئلہ: محال چیزکی دعاکرنامنع ہے ۔مسئلہ اگرقبول دعامیں دیرلگے توشکایت نہ کرے ورنہ دعا قبول نہ ہوگی۔ (تفسیر نعیمی)
دعامانگنے کے آداب میں ہے کہ بندہ نہایت ہی تضرع، عاجزی وانکساری کے پیکر میں، گریہ وزاری سے اس یقین کے ساتھ بارگاہ الٰہی میں دست درازکرے کہ، ہمارا رب ہماری فریادسن رہاہے، اور ہماری مراد کی تکمیل بھی فرمائے گا ۔فرمان باری تعالیٰ ہے:
اُدعُوارَبَّکُم تَضَرُّعًاوَّخُفیَةً اِنَّه لَایُحِبُّ المُعتَدِین (پ 8 سورہ الاعراف آیت نمبر 55)
ترجمہ: اپنے رب سے دعاکرو گڑگڑاتے اور آہستہ بیشک حد سے بڑھنے والے اسے پسند نہیں ۔ (کنزالایمان)
تفسیر: دعا اللّٰہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنے کوکہتے ہیں اوریہ داخل عبادت ہے کیونکہ دعاکرنے والااپنے آپ کو عاجزومحتاج اور اپنے پروردگار کوحقیقی قادر وحاجت روا اعتقادکرتاہے، اسی لیے حدیث شریف میں واردہوا ”اَلدُّعَاءُ مُخُّ العِبَادَۃ“یعنی دعاعبادت کامغزہے ۔تضرع سے اظہارعجزوخشوع مرادہے، اور ادب دعامیں یہ ہے کہ آہستہ ہو ۔حسن رضی اللہ عنہ کاقول ہے آہستہ دعاکرناعلانیہ دعاکرنے سے ستّر درجہ زیادہ افضل ہے ۔
مسئلہ: اس میں علماکااختلاف ہے کہ عبادات میں اظہار افضل ہے یااخفا ۔بعض کہتے ہیں کہ اخفاافضل ہے کیونکہ وہ ریاسے بہت دورہے، بعض کہتے ہیں کہ اظہار افضل ہے اس لیے کہ اس سے دوسروں کورغبت عبادت پیداہوتی ہے ۔ترمذی نے کہاکہ اگرآدمی اپنے نفس پرریاکااندیشہ رکھتاہوتواس کے لیے اخفاافضل ہے اور اگر قلب صاف ہواندیشہ ریانہ ہوتواظہارافضل ہے ۔بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ فرض عبادتوں میں اظہارافضل ہے نمازفرض مسجدہی میں بہترہے اور زکات کا اظہارکرکے دیناہی افضل ہے اورنفل عبادات خواہ وہ نمازہویاصدقہ وغیرہ ان میں اخفاافضل ہے ۔دعامیں حدسے بڑھنا کئی طرح ہوتاہے اس میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بہت بلند آواز سے چیخے“۔ (خزائن العرفان)
مزیدارشادباری تعالیٰ ہے: وَقَالَ رَبُّڪُمُ ادعُونِی اَستَجِب لَڪُم (پ 24 سورہ المؤمن آیت نمبر 60)
ترجمہ: اورتمہارے رب نے فرمایامجھ سے دعاکرومیں قبول کروں گا ۔ (کنزالایمان)
صدرالافاضل حضرت مولاناسیدنعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ مذکورہ آیت کی تفسیرمیں فرماتے ہیں:
”اللہ تعالیٰ بندوں کی دعائیں اپنی رحمت سے قبول فرماتاہے، اور ان کے قبول کے لیے چندشرطیں ہیں ایک اخلاص دعامیں، دوسرے یہ کہ قلب غیرکی طرف مشغول نہ ہو، تیسرے یہ کہ وہ دعاکسی امرممنوع پرمشتمل نہ ہو ۔چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پریقین رکھتاہو، پانچویں یہ کہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعامانگی قبول نہ ہوئی، جب ان شرطوں سے دعاکی جاتی ہے قبول ہوتی ہے ۔حدیث شریف میں ہے کہ دعاکرنے والے کی دعاقبول ہوتی ہے یاتو اس کی مراد دنیا ہی میں اس کوجلد دے دی جاتی ہے یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا اس سے گناہوں کا کفارہ کردیاجاتاہے“۔ (خزائن العرفان)
دعا کی عدم قبولیت میں انسان کاگناہوں کی کثرت میں ملوث رہنا بھی شامل ہے، اس لیے کہ کثرت گناہ سے انسان کی زبان میں تاثیرباقی نہیں رہتی ۔ہاں اگرصدق دل سے تائب ہوکراس کی بارگاہ کرم میں دست درازکیاجائے توفورًادعامقبول ہوتی ہے ۔
حضرت کعب احباررضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں لوگ سخت قحط میں مبتلاہوئے، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کولے کربارش کے لیے دعامانگنے کی خاطرنکلے توانہیں بارش عطانہ ہوئی، یہاں تک کہ تین قرنیہ نکلے لیکن بارش نہ ہوئی ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ میں تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی دعاقبول نہیں کروں گا، کیوں کہ آپ کے ساتھ چغل خورہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے رب! وہ کون ہے؟ تاکہ ہم اسے اپنے درمیان سے نکال دیں ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف بھیجی اے موسیٰ! (علیہ السلام) میں تم لوگوں کوچغلی سے منع کرتاہوں توکیاخودچغل خوربن جاؤں ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل سے فرمایاتم سب چغل خوری سے توبہ کرو جب انہوں نے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پربارش نازل فرمائی۔
محبوبان خداعزوجل اور رسول کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں کے توسل سے دعا بہت جلدمقبول ہوتی ہے ۔
”روایت میں ہے حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے توسل سے بارش کی دعامانگی، جب حضرت عمررضی اللہ عنہ دعاسے فارغ ہوئے توحضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یوں دعاکی ۔اے اللہ! آسمان سے مصائب گناہ کی وجہ سے نازل ہوئے ہیں اور توبہ سے دور ہوجاتے ہیں، یہ قوم میرے وسیلے سے تیری طرف متوجہ ہوئی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے میرا ایک مقام ہے، ہمارے گناہ بھرے ہاتھ تیری بارگاہ میں اٹھے ہیں اورہماری پیشانیاں توبہ کے ساتھ حاضرہیں ۔ تو محافظ ہے بھٹکے ہوؤں سے بے خبر نہیں رہتا شکستہ حال کوضائع ہونے کی جگہ نہیں چھوڑتا ۔چھوٹے فریادکرتے ہیں اور بڑے روتے ہیں دُھائی کے ساتھ آوازیں بلندہوگئیں اور تو نہایت پوشیدہ بات کوبھی جانتاہے یااللہ! ہمیں اپنی خصوصی بارش سے نوازدے اس سے پہلے کہ ہم ناامیدہوکرہلاک ہوجائیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کافرہی مایوس ہوتے ہیں، راوی کہتے ہیں آپ کاکلام پوراہوتے ہی پہاڑوں کی مثل بادل اٹھنے لگے “۔ (احیاءالعلوم جلداول)
بعض حضرات یہ شکوہ کرتے ہیں کہ برسوں سے ہم بارگاہ الٰہی میں دعائیں کررہے ہیں، مگرآج تک ہماری ایک بھی دعاباب اجابت تک نہیں پہونچی ۔یہاں پریہ بات ذہن نشین رہے کہ قدرت کے خزانے میں کسی چیزکی کوئی کمی نہیں ہے،مگر وہ حکیم ہے، کبھی کسی مصلحت کی بناپر دعافوراً قبول نہیں فرماتا ۔دعاکی عدم قبولیت کے اسباب میں یہ بھی ہے کہ جب بندہ خوردونوش میں حرام کی آمیزش کی پرواہ نہیں کرتا، توایسے کی زبان سے تاثیرکھینچ لی جاتی ہے، پھروہ کتنے ہی گریہ وزاری سے دعامانگے، بارگاہ الٰہی میں مقبول نہیں ہوتی ۔مسلم شریف کی حدیث ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
”ایک شخص طویل سفرکرے، بال اُلجھے، کپڑے گردمیں اٹے، اپنے ہاتھ آسمان کی طرف پھیلائے اور یارب! یارب! کہے اور اس کاکھانا حرام سے اورپیناحرام سے اور پہننا حرام سے اور پرورش پائی حرام سے، تواس کی دعاکہاں قبول ہو“۔
معجم الاوسط کی حدیث شریف ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا:
اے سعد! اپنی غذا پاک کرلو مستجاب الدعوات ہوجاؤگے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی جان ہے! بندہ حرام لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتاہے تو اس کے چالیس دن کے عمل قبول نہیں ہوتے، اور جس بندہ کاگوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔
مندرجہ بالا احادیث کریمہ سے صاف واضح ہے کہ دعاکی قبولیت میں رزق حلال کی بہت بڑی اہمیت ہے ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن واحادیث اور تفسیر میں جن شرائط کی پابندی کے ساتھ دعامانگنے کاحکم فرمایاگیا، اگراسی کے عین مطابق دعامانگی جائے تودعائیں مقبول ہوں گی ۔اور اگرمعاملہ اس کے برعکس ہوں تو نتیجہ بھی برعکس ہوگا ۔وہ دعا جس کے ابتدا وانتہا میں درود شریف پڑھے جائیں ایسی دعا بہت جلد مقبول ہوتی ہے۔
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org