21 December, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia August 2023 Download:Click Here Views: 85381 Downloads: 1071

(10)- کامن سول کوڈ کے نقصانات

                              افضل العلماء مفتی محمد علی قاضی ،مصباحی ،جمالی، نوری

دستور ہند کی دفعہ 44 ! طلاق ثلٰثہ، تعدد ازواج،حجاب ،حلال وغیرہا مسائل تو محض ایک بہانہ ہیں دراصل مسلم پرسنل لاء کو پوری طرح سے ختم کرنا ہے اس کی جگہ ایسے سول کوڈ کو نافذ کرنے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے جوتمام فرقوں کے لیے یکساں ہو جس میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی امتیاز نہ ہو اور اسلام یا کسی اور مذہب کا عائلی قانون باقی نہ رہے۔ دستور ہند کے دفعہ ۴۴ نے جو رہنما اصولوں میں سے ہے اس کے لیے اساس مہیا کردی ہے ۔اس دفعہ میں کہاگیا ہے

The State shall endeavor to secure for citizens a Uniform Civil Code

 throughout the territory of India یعنی ریاست کوشش کرے گی کہ پورے ملک میں شہریوں کے لیے یکساں سول کوڈ ہو مگر یہ محض ایک رہنما اصول (Directive Principles) ہے اس پر دستور کے بنیادی حقوق (Fundamental Rights)کو بہر حال فوقیت رہے گی جس میں کہا گیا ہے کہ تمام لوگوں کو یکساں طور سے ضمیر کی آزادی حاصل ہوگی اور اپنے مذہب کو آزادانہ طور پر اختیار کرنے ،اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا بھی حق حاصل ہوگا۔ ( دفعہ ۲۵) ۔

یکساں سول کوڈ (Uniform Civil Code)!ملک کی دستور ساز اسمبلی میں جس وقت دستور کی دفعہ 44 پر غور ہورہا تھا اس وقت مسلم ممبران پارلیمنٹ نے متعدد ترمیمات پیش کی تھیں ۔کے ایم منشی نے یہاںتک کہا تھا

It was the desire of the framers of the Constitution the divorce religion from personal law.

یعنی دستور کی تشکیل دینے والوں کی یہ خواہش ہے کہ مذہب کو پرسنل لاء سے طلاق دلوائی جائے ۔لیکن امبیڈکر جی

نے مسلمانوں کو یقین دلایا تھاکہ یکساں سول کوڈ ان پر زبردستی مسلط نہ کیا جائے گا۔

 (مسلم پرسنل لاء ویکساں سول کوڈ از شمس پیرزادہ)۔

اگر ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ ہوگیا تو کیا ہوگا؟نفاذ کے نتیجے میں شریعت اسلامیہ کے بے شمار اصول واحکام ترمیم وتنسیخ کے زد میں آجائیں گے مثلاً(۱) قرآن وسنت کے بہت سارے احکامات وتعلیمات میں ترمیم وتنسیخ کا راستہ کھل جائے گا جب کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(الف) سُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا ( الفتح ۴۸آیت ۲۳)

ترجمہ! اللہ کا دستور ہے کہ پہلے سے چلا آتا ہے اور ہر گز تم اللہ کادستور بدلتا نہ پاؤگے۔

(ب)اَفَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْتَغِیْ حَڪَمًا وَّھُوَالَّذِیْ اَنْزَلَ اِلَیْڪُمُ الْڪِتٰبَ مُفَصَّلًا وَالَّذِیْنَ آتَیْنَا ھُمُ الْڪِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَاَتڪُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ وَ تَمَّتْ ڪلِمَۃُ رَبِّكَ صِدْقًا وَّعَدْلًا لَامُبَدِّلَ لِڪَلِمٰتِہِ (الانعام ۶آیت ۱۱۵)

ترجمہ! تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کا فیصلہ چاہوں اور وہی ہے جس نے تمہار ی طرف مفصل کتاب اتاری اور جن کو ہم نے کتاب دی وہ جانتے ہیں کہ یہ تیرے رب کی طرف سے سچ اترا ہے تو اے سننے والے تو ہرگز شک والوں میں نہ ہو اور پوری ہے تیرے رب کی بات سچ اور انصاف میں اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں ۔

(۲) تعدد ازدواج ممنوع ہوجائے گا جب کہ ارشاد ہوتا ہے  :

فَانْکِحُوْ امَاطَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْافَوَاحِدَۃً(النساء ۴آیت ۳)

ترجمہ ! تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں پسند آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار پھر اگر ڈرو کہ دوبی بیوں کو برابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو۔

(۳)طلاق کااختیار شوہر کو نہ ہوگا بلکہ عدالت کو ہوگا جب کہ ارشاد ہوتا ہے:

  اَلَّذِیْ بِیَدِہِ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ (البقرہ ۲۳۷)

ترجمہ!جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے( شوہر)۔

حدیث: اَلطَّلَاقُ لِمَنْ اَخَذَ بِالسَّاقِ یعنی طلاق کا مالک وہی ہے جو عورت سے جماع کرے۔

 (۴)وراثت کی تقسیم میں لڑکا اورلڑکی کا حصہ برابر ہوگا جب کہ ارشاد ہوتا ہے:

(الف)  یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ(النساء ۴ آیت ۱۱)

ترجمہ!اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر ہے(اگر میت نے بیٹے بیٹیاں دونوں چھوڑی ہوں تو)

(ب)وَاِنْ کَانُوْااِخْوَۃً رِّجَالًاوَّنِسَاءً  فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ(النساء آیت ۱۷۶)

ترجمہ! اور اگر بھائی بہن ہوں مرد بھی عورتیں بھی تو مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر۔

(۵)اور قرآن کی بے شمار سورتیں مثلا سورہ بقرہ ،نساء ،طلاق اور تحریم او ر دیگر قرآنی آیات مبارکہ کے احکامات کو بھول جانا ہوگا ۔

یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ عائلی قوانین سے ملک کے سیکولر کردار کو دھکا پہونچے گا ۔سیکولر ہونے کا تقاضا ہے کہ تمام شہریوں کے عائلی قوانین میں یکسانیت ہوکیونکہ الگ الگ عائلی قوانین ان کے درمیان امتیاز (Discrimination ) پیداکرنے کے ہم معنی ہوگا ۔اور قومی یکجہتی National Integration کے لیے بھی ضروری ہے کہ یکساں سول کوڈ کو جاری کیاجائے ۔اگر اس منطق کو قبول کیاجائے تو پھر کل چل کر (Union Worship Code, Uniform Moral Code)  یعنی ملک میں یکساں ضابطۂ پرستش ویکساں ضابطۂ اخلاق بھی بن سکتا ہے ۔اور یہ دلیل دی جائے گی کہ یکساں ضابطۂ پرستش کے تحت مندر ومسجد کا جھگڑا ہی ختم ہوجائے گا ۔اور یکساں ضابطۂ اخلاق کے تحت بیٹا کل اپنے باپ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں اور تم برابر ویکساں ہیں لہٰذا میں ہی کیوں تمہاری فرمانبرداری کروں ؟تم بھی تو میرا کہا مانو

بریں عقل ودانش بباید گریست

ایسے ہی موقعوں کے لیے یہ آیت کریمہ خوب صادق آتی ہے:

 وَاِنْ تُطِعْ اَکْثَرَ مَنْ فِی الْاَرْضِ یُضِلُّوْنَكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِلاَّالظَّنَّ وَاِنْ ھُمْ اِلَّا یَخْرُصُوْنَ اِنَّ رَبَّكَ ھُوَ اَعْلَمُ مَنْ یُّضِلُّ عَنْ سَبِیْلِہِ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ.

(الانعام ۶ آیت ۱۱۷)

ترجمہ! اور اے سننے والے زمین میں اکثر وہ ہیں کہ تو ان کے کہے پر چلے تو تجھے اللہ کی راہ سے بہکادیں وہ صرف گمان (بصیرت وحق شناسی سے محروم) کے پیچھے ہیں اور نری اٹکلیں دوڑاتے ہیں تیرا رب خوب جانتا ہے کہ کون بہکا اس کی راہ سے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت والوں کو۔ساری دنیا کے عقلمند ودانشور اور اہل علم وحکمت جمع ہوکر بھی انسانوں کے حق میں کیا مفید ہے اور کیا مضر ؟اُن کے حق میں کیا سود مند ہے اور کیا مضرت رساں ؟ اور اُن کے لیے کیا بھلا ہے اور کیا برا ؟ اِ س کا فیصلہ کرنا اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔یہ صرف دنیا پیدا کرنے والے اور حیات وکائنات کو وجود بخشنے والے اللہ رب العزت یعنی فا طرُ السمٰواتِ والارضِ ہی کا کام ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کونسا لائحہء حیات اور کون سا دستورالعمل کب اورکہاں؟ کس کے لیے اور کب تک جاری رہے اور یا منسوخ کردیا جائے۔ ہمارے دستور ومنشور اور ہمارے بنائے گئے قوانین وضوابط نہ صر ف ادھورے ونامکمل ہیں بلکہ یقین کامل واعتماد کلی کی دولت سے محروم ہیں ۔یہ تو صر ف ہمارے ذہن ودماغ کی اختراع اور ہمارے تجربات ومشاہدات کا ایک تخمینہ ہے۔

اسی لیے رسول اعظم ﷺ کی شانِ رسالت وعظمت ِنبوت اور ان کی تعلیماتِ صداقت کے حوالے سے احکم الحاکمین نے قرآن کریم میں یہ فیصلہ ء حق سنایاا ورسند یقین وصداقت عطاکیا:

  وَمَا یَنْظِقُ عَنِ الْھَویٰ اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی

( النجم ۵۳آیات ۳۔۴)

ترجمہ! اور کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو انھیں کی جاتی ہے ۔

معلوم ہوا کہ قرآن ہوکہ احادیثِ رسول اعظم ﷺ سب اللہ تعا لیٰ کے احکامات ہیں اور دین الٰہی کے قوانین وہدایات ہیں۔بھارت کے ۱۱ کروڈ غیر ہندو آدی واسی یکساں سول کے مخالف! ہمارے ملک کی گنگا جمنی اور رنگا رنگی تہذیب کا امتیاز کثرت میں وحدت (Unity in Diversity) سے ہے۔ چنانچہ ملک کی گیارہ کروڈ سے زیادہ ،ایک بڑی آبادی قبائلی آدی واسیوں کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ ہندو نہیں ہیں کیونکہ وہ بتوں کی نہیں بلکہ مظاہرِ فطرت کی پوجاکرتے ہیں اور اپنے مردوں کو جلاتے نہیں بلکہ زمین میں دفناتے ہیں ۔اور اِن کے یہاں شادی بھی ہندو تہذیب سے مختلف اندازمیں رچائی جاتی ہے۔اگر یکساں سول کوڈ کا ملک میں نفاذ ہوگا تو اُ ن کا کہناہے ہماری ممتاز ومنفرد مذہبی تہذیب و ثقافت ، ہماری تعدد ازدواج اور بیک وقت ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی قدیم روایت پر اور ہمارے آئینی حقوق پر کاری ضرب لگے گی اور یہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔اسی لیے انہوں نے حال ہی میں ملک کی عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ہے۔ایک اخباری رپورٹ کا یہ خلاصہ ہدیۂ قارئین ہے۔

ٓA group representing interests of tribals has approached the Supreme Court, contending that any direction to impose Uniform Civil Code would affect their distinct customs, culture, heritage and religious practices, including their right to practice polygamy and polyandry (D.H.21,October 2016)

   ملک کی عدلیہ ہی کو حکومت ہند سے براہ راست یہ سوال کرنا چائیے کہ اس نے دفعہ 44 کی تنفیذ کے لیے کیا کیا اقدامات کئے ہیں ۔ ملک میں سیکولر اور مشترکہ سول کوڈ کی وکالت کرنے والی تنظیموں کو بھی حکومت ہند سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ دفعہ44 کی تنفیذ کے لیے کئے گئے اقدامات پر قرطاس ابیض جاری کرے اور اگر اس سمت ابھی تک کچھ نہیں ہوا ہے تو پھر اس کا مطلب سمجھنا چاہئے کہ حالات نے ثابت کردیا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ ایک ملی جلی تہذیب والے ملک میں ناممکن الحصول امر ہے۔ اگر کامن سول کوڈ لانا ہوتو ہندؤوں کی شادی کوڈ کو منسوخ کرنا ہوگا،سکھوں سے کرپال رکھنے ،جینیوں کو ننگار ہنے سے روکنا ہوگا،مذہبی مقامات پر نشہ خوری پر پابندی لگانا ہوگا کیوں کہ یہ سب بھی آئینی دفعات کے مخالف ہیں لیکن ان سبھوں کو مذہبی معاملات بتا کر اجازت دی گئی ۔

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved