22 November, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia June 2023 Download:Click Here Views: 84113 Downloads: 1190

(17)-سفر آخرت

آہ! صوفی باصفا حافظ محمد صادق   دریاوی بھی

 اس دارفانی سے  چل بسے

     اس کائنات رنگ و بو میں طرح طرح کے لوگ آتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد  سفر آخرت پر روانہ ہو جاتے ہیں ان میں ایسے خوش قسمت  بھی ہوتے ہیں جو جب اس دارفانی سے سفر آخرت پر روانہ ہوتے ہیں تو اپنی یادوں کے ایسے حسین و جمیل نقوشِ جاوداں چھوڑ کر جاتے ہیں جنہیں آنے والی نسلیں کبھی فراموش نہیں کرتیں۔   کچھ  اپنی صالح اور نیک اولاد امجاد چھوڑ کر جاتے ہیں، کچھ اپنے مشاہیر تلامذہ   تو کچھ  اپنے قلم و قرطاس کے حسین و جمیل نقوش چھوڑ کر جاتے ہیں۔ ایسے ہی نفوسِ قدسیہ میں  صوفی باصفا  ‌حافظ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ کا اسم گرامی بھی شامل ہے۔ 

  صوفی باصفا حافظ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ ابن شیخ عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ ابن رحمت جی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 1348ھ/1930ء  میں مملکت خداداد پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع اٹک کے مردم خیز خطہ کامرہ خورد میں ہوئی۔ آپ گجر قبیلہ کے ایک فرد فرید ہیں۔ آپ کا خانوادہ  نجابت و شرافت کا ایک استعارہ ہے۔  آپ کی ابتدائی تعلیم وتربیت گھر میں ہوئی۔  آپ نے  دربار عالیہ دریا شریف  کے مسند نشین حضرت قبلہ ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے قرآن کریم حفظ کرنے کی تکمیل کی اور ان ہی کے دست حق پرست پر بیعت و ارادت کی سعادت حاصل کی۔

1377ھ/1958ء میں آپ کی ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو  کثیر اولاد امجاد سے نوازا۔  آپ کی اولاد امجاد میں سات فرزندان اور تین دختران شامل ہیں۔ 

 آپ نے اپنی اولاد امجاد کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم وتربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔

 آپ کے فرزندان میں  مولانا محمد عارف،   حامد رضا،غلام مرتضیٰ،  محمد حنیف اور محمد طاہر حافظ قرآن اور  عالم فاضل ہیں۔ محمد رحمت عالم باعمل اور محمد بلال بھی نیک اور صالح ہیں۔  آپ کی سبھی دختران بھی نہایت نیک اور پارسا ہیں۔ ان میں سے ایک عالمہ اور فاضلہ ہیں اور درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ آپ کے بھتیجے مولانا اقبال احمد اور مولانا حافظ نسیم صدیقی بھی  عالم فاضل ہیں۔ آپ کے پوتے مولانا طارق مدنی تحریک لبیک تحصیل حضرو اٹک کے نائب ناظم ہیں۔    ایں خانہ ہمہ آفتاب است

1415ھ/1995ء میں آپ کی اولاد امجاد کی کاوشوں سے کامرہ کینٹ میں قطبہ موڑ کے سامنے   اہل سنت کا ایک عظیم ادارہ دارالعلوم محمدیہ غوثیہ فیض القرآن کا قیام عمل میں آیا ۔  مولانا حافظ حامد رضا اس کے سرپرست اعلیٰ اور مولانا حافظ غلام مرتضیٰ اس کے ناظم اعلیٰ ہیں ۔  یہاں قرآن وحدیث کی درس و تدریس کا عمل نہایت ہی احسن انداز میں جاری وساری ہے۔  یہاں سال میں کئی اسلامی تقریبات بھی نہایت ہی شایانِ شان طریقے سے منعقد کی جاتی ہیں جن میں اہل سنت کے جید علماء ومشائخ کو مدعو کیا جاتا ہے جو اپنے مواعظ حسنہ سے عوام وخواص کو مستفیض کرتے ہیں۔

 دارالعلوم میں طلبہ کی تنظیم بزم رضا   بھی علامہ حافظ فرمان علی رضوی کی راہنمائی میں نشرواشاعت کے محاذ پر جہاد بالقلم میں نہایت ہی برق رفتاری سے مصروف ہے۔

 مولانا حافظ محمد صادق دریاوی رحمۃ اللہ علیہ کی ساری زندگی  زہد و تقویٰ سے عبارت ہے ۔ آپ نے اپنی زندگی کا اکثر حصہ نماز تراویح میں قرآن کریم سنانے میں گزارا ہے ۔ 1414ھ/1994ء میں آپ  حج وعمرہ اور مدینہ منورہ میں زیارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی سعادت سے سرفراز ہوئے ‌ ۔

 آپ اس وقت اپنی عمر کے پچانوے سال میں تھے کہ ضعف و علالت کی وجہ سے طویل عرصہ سے صاحب فراش تھے کہ 28شوال المکرم 1444ھ/19مئی 2023ء بروز جمعہ رات دس بجے اپنے گھر کامرہ خورد (اٹک) میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

   اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور آپ جو نیک اور صالح اولاد کا گلستان علم و فضل چھوڑ کر جارہے ہیں ،اسے آپ کا صدقہ جاریہ بنائے۔ آپ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے۔ آپ کے تمام پسماندگان کو صبر جمیل اور صبر جمیل پر اجر جزیل عطا فرمائے۔

آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔                            شریک غم اور پر نم

سید صابر حسین شاہ بخاری قادری

    ختم نبوت اکیڈمی برہان شریف ضلع اٹک پنجاب پاکستان

آہ!   علماء ہم سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں!

 آہ قیامت کی ایک علامات صغریٰ پوری ہوتی جا رہی ہیں ۔  نہایت ہی تیزی سے  دنیا بھر سے  اہل علم و قلم اٹھتے جا رہے ہیں ۔  گلستانِ علم و قلم میں چہکانے والی بلبلیں اڑتی جارہی ہیں ۔  موت العالم موت العالم ، ایک عالم کی موت ایک جہان کی موت ہے ۔  عالم کے جانے سے علم اٹھتا جا رہا ہے ۔ جہان  قلم و قرطاس   پر خزاں چھا جاتی ہے۔  پھر کسی بھی عالم کے جانے سے ان کا نعم البدل تو درکنار بدل بھی بھی نہیں ملتا۔  درس و تدریس کی رونقیں مدھم ہو جاتی ہیں اور محراب و منبر سے کلمۂ حق کے لئے بلند ہونے والی آوازیں خاموش ہوتی جا رہی ہیں ۔  دھیرے دھیرے روشنیاں  مدھم ہوتی جا رہی ہیں اور گھٹا ٹوپ اندھیرے چھائے جا رہے ہیں۔ 

 ابھی تھوڑے سے عرصے میں  سے تین نامور علما و ادبا ہم سے بچھڑ گئے ہیں ۔  عید الفطر کی شام  لاہور میں علامہ پیر  نور الہی انور رحمۃ اللہ علیہ نے رخت سفر باندھا اور عالم بالا کی جانب کوچ کیا ۔ ان کے صدمے سے ابھی ہم سنبھلے بھی نہ تھے کہ کل یہ روح فرسا خبر سننے کو ملی کہ  نیو یارک میں ادیب شہیر علامہ محمد رضا الدین صدیقی  رحمۃ اللہ علیہ   بھی داعی اجل  کو لبیک کہہ گئے ہیں ۔

 ابھی اسی خبر وحشت اثر سے ہم سکتہ میں ہی تھے کہ  یہ پریشان کن اور افسوس ناک خبر سامنے آئی کہ انڈیا میں  دنیائے اہل سنت کے نامور عالم دین ، رئیس التحریر اور ادیب بے نظیر علامہ یٰسٓ اختر مصباحی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہمیں داغ مفارقت دے کر کاروانِ آخرت کے ساتھ جا ملے ہیں۔  انا للہ وانا الیہ راجعون

  پوری دنیائے اہل سنت ان تینوں کی یکے بعد دیگرے  اس دارفانی سے رخصت ہونے پر  سوگوار ہیں ۔ دکھ اور کرب میں مبتلا ہیں۔  اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل ان مرحومین کی بخشش فرما کر انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ہم سب پسماندگان کو صبرِ جمیل اور صبر جمیل پر اجر جزیل عطا فرمائے ۔

آمین ثم آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔                            شریک غم اور پر نم

سید صابر حسین شاہ بخاری قادری

    ختم نبوت اکیڈمی برہان شریف ضلع اٹک پنجاب پاکستان

اک ستارہ اور ٹوٹا آسمانِ علم کا

     اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

 یعنی درحقیقت اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ (فاطر: آیت: 28)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ عالم کی پہچان تقوی سے ہوتی ہے۔ عالم کے علم میں جتنا اضافہ ہوتا ہے اس کا تقوی، خوف الہی، خشیت خدا بھی اتنا ہی بڑھتا جاتا ہے در  اصل عالم  کی یہی پہچان ہے کہ وہ جتنا بڑا عالم ہوگا اتنا بڑا ہی متقی اور پرہیزگار ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خدا کی قسم میں تم  میں سب سے زیادہ اللّٰہ کی  معرفت رکھنے والا اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں۔(بخاری) کائنات میں سب سے افضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے تو ان کے تقویٰ اور علم کا یہ معیار ہےکہ جیسے سب سے افضل ہیں ویسے سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والے اور اس سے ڈرنے والے بھی ہیں، ایک حدیث شریف میں ہےکہ جو اپنے علم پر عمل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو اس چیز کا بھی علم عطا فرمائے گا جس کا اسے علم نہیں۔ چاہے اسے نہ کبھی پڑھابھی ہو، نا کسی سے سنا ہو، تب بھی بندے کے  ذہن میں وہ باتیں اللہ تعالیٰ اس عمل کی برکت سے ڈال دے گا۔ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حسد صرف دو لوگوں سے جائز ہے۔ ایک تو اس شخص سے جس کو اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرے اور دوسرا اس شخص سے جس کو اللہ نے حکمت ( کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ساتھ فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔

دو لوگ قابل رشک ہیں لوگوں کو ان پر رشک کرنا چاہیے: ایک وہ شخص جس کو اللہ رب العزت مال دے اور اسے راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق بھی مرحمت فرمائے، وہ اس میں بخالت نہ کرے،  بلکہ اس کے مصارف میں خرچ  کرے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو ترجیح دے، دوسرا وہ شخص قابل رشک ہے جس  کو اللہ تعالی حکمت، اور عقل و دانش عطافرمائے تو وہ اس کے ذریعے فیصلے کرے اورلوگوں کو اس کی تعلیم دے۔ یہ سب عالم کے اوصاف ہیں۔

    اور باعمل علما کے بارے میں حدیث شریف میں ہے کہ سمندر کی مچھلیاں پانی میں ان کے لیے دعاے مغفرت کرتی ہیں، ان کے رفع درجات کے لیے دعائيں کرتی ہیں اسی لیے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved