8 September, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia June 2023 Download:Click Here Views: 40437 Downloads: 921

(7)-فاضل بریلوی اور ملک شام

علامہ سہیل احمد سیالوی

ملک شام یہ وہ مقدس سر زمین ہے جس کے بارے میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے شام پر سایہ کناں رہتے ہیں۔ دوسرے مقام پر فرمایا کہ جب تک شام میں خیر رہے گی پوری دنیا میں خیر رہے گی اور جب یہاں شر آئے گا، پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آجائے گی۔ یہ مقدس سرزمین انبیا وصالحین کے مزارات اور مشاہد سے بھری ہوئی ہے۔ایک ہزار سال سے زیادہ پرانے ، جامع مسجد اموی کے قدیم در و دیوار اور اس کے اندر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا مزار مقدس ، محب محبوب رب العالمین ، کشتۂ    عشقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سید الاولیا، شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن العربی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام العلما حضرت سیدنا عبد الغنی نابلسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،فقہ شافعی کے مجدد، حضرت سید نا امام نووی رضی اللہ عنہ، صاحب در مختار، امام علاء الدین حصکفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، علامہ ابن عابدین شامی رضی اللہ عنہ اور دیگر درجنوں اکابر عظما وصلحا کے مزارات سرزمین شام کے ماتھے کا وہ جھومر ہیں جو اسے دیگر بلاد و اوطان سے ممتاز کرتے ہیں۔

 شام کے علما میں تواضع ، انکساری، علم کی تڑپ، تحقیق و جستجو کا ذوق قابلِ تقلیدحد تک موجود ہے۔ طلبہ میں خوش اخلاقی اور حصولِ دین کا جذبہ ہمارے مدارس کے طلبہ کی بہ نسبت بہت زیادہ ہے۔ مدارس میں حکومت کا معین کردہ نصاب پڑھایا جاتا ہے، علماحکومتی نظام تعلیم میں پوری طرح شامل ہیں لیکن حکومتی نصاب تعلیم کو علما دینی ضروریات کے اعتبار سے کافی خیال نہیں کرتے ، اور طلبہ کو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ ان کے پاس الگ پڑھیں ، یوں مساجد میں اور شیوخ کی بیٹھکوں میں علمی محفلیں آباد ہیں۔ کہیں صحیح بخاری اور سنن ترمذی کا درس ہورہا ہے تو کہیں ہدایہ اور در مختار پڑھائی جارہی ہیں ۔ کہیں میراث اور کہیں علم کلام کی بحثیں گرم ہیں۔ یہ سارا کام علما بغیر کسی معاوضے اور فیس کے کر رہے ہیں۔ طلبہ میں اساتذہ کے ادب و احترام کی جو کیفیت شام میں دیکھنے کو ملی وہ ہمارے یہاں مفقود ہو چلی ہے۔

ہندوستان کے علما کا علوم عقلیہ کے اعتبار سے توفق بلادِ شام میں ہر دور میں مسلم رہا ہے۔ اب بھی شام کےعلما ، منطق و فلسفہ وغیرہ علومِ عقلیہ میں بہت کم دست رس رکھتے ہیں اور ان فنون میں علماے پاک و ہند کی برتری تسلیم کرتے ہیں۔ تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ علوم ان علماکی توجہ کا خاص مرکز ہیں ۔ ایک خاص علم جس کی طرف وہاں کے علما و طلبہ کو راقم نے خاص طور پر منعطف دیکھا وہ علم کلام ہے۔

عقائد کے مختلف منظوم متون وہاں نہ صرف پڑھائے جار ہے ہیں بلکہ بعض طلبہ انہیں ازبر بھی کرتے ہیں۔ حمص کے ایک نوجوان عالم دین جن سے دو تین دفعہ شرف ملاقات ملا، اس فن سے خصوصی شغف رکھتے تھے ، انہوں نے خود اس فن میں ایک منظومہ تحریر کیا ہے ، جو ابھی تک طبع نہیں ہوا ۔ میری گزارش پر انہوں نے اس کے دس سے زائد اشعار سنائے جن میں اعلیٰ درجے کی لطافت ،سلاست اور معنویت تھی ۔ میں نے جب اس موضوع پر انہیں چھیڑا تو انہوں نے علم کلام پر لکھے گئے ایک درجن سے زائد منظومات اور ان کے مصنفین کے اسماے گرامی مجھے یوں سنائے جیسے یہ سب اچھی طرح ان کی نظر سے گزر چکے ہیں۔ فرقۂ مجسمیہ کے رد میں ان لوگوں کی تحقیق بہت عمدہ ہے۔

شام میں آکر اہل سنت کے جن علما کو یہاں کے علمی طبقہ میں متعارف پایا ان سب میں قدرِ مشترک ان کا تحریری کام ہے، لہٰذا میں یہ بات کہنا چاہوں گا کہ بلا شک و شبہ تدریس اور تقریر کے شعبے اہم ترین حیثیت کے حامل ہیں، تاہم بین الاقوامی سطح پر اہل سنت و جماعت کے نظریات کی ترویج کے لیے تحریری کام اور وہ بھی عربی میں بے حد ضروری ہے ۔ شام میں جن علما سے بکثرت علما وطلبہ کو متعارف پایا ان میں سے نمایاں ترین اشخاص تین ہیں ممکن ہے وقت کی قلت کی وجہ سے میرے مشاہدہ میں وسعت نہ آسکی ہو۔

فاضل بریلوی نور اللہ مرقده:فاضل بریلوی نور اللہ مرقدہ کے حسن نیت اور اخلاص وللہیت کی برکت ہے کہ رب ذوالجلال نے ان کے معطر ذ کر کی خوشبو پوری دنیا میں بکھیر دی ہے ۔ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا ملک ہو جس میں فاضل بریلوی کا نام اور ان کا کام نہ پہنچا ہو ، درجنوں اسکالزر ان کی انوکھی تحقیقات پر ایم فل اور ڈاکٹریٹ کر رہے ہیں ، شام کی صورتِ حال بھی کچھ ایسی ہی ہے یہاں آکر جس انصاف پسند عالم دین یا طالب علم دین سے سوال کیا{ہل تعرف الشيخ احمد رضا الہندي؟ } ( کیا آپ شیخ احمد رضا ہندی سے متعارف ہیں؟) تو اس نے اثبات میں جواب بھی دیا اور آپ کے بارے میں توصیفی کلمات بھی کہے ۔ اس میں بلا شک وشبہ ادارہ تحقیقات امام احمد رضا اور ان دیگر مخلص اداروں اور افراد کی کاوشوں کا دخل بھی ہے جو مشن اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت کے لیے دن رات سرگرم عمل ہیں۔

 فاضل بریلوی کی عربی تصانیف کی مقبولیت :شام میں کسی کتاب کی طباعت آسان کام نہیں ہے اس کے لیے بہت سے قانونی اور حکومتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، اور اوقاف کی اجازت کے بغیر کوئی کتاب طباعت کے مراحل سے نہیں گزرسکتی اس لیے فاضل بریلوی کی کتب ابھی تک یہاں سے چھپ تو نہیں سکیں تاہم اکثر علما کےپاس اعلیٰ حضرت کے عربی یا معرب رسائل فوٹوسٹیٹ کی شکل میں موجود ہیں۔ شام میں فوٹوسٹیٹ کا معیار اتنا اچھا ہے کہ پاکستان کی پریس کی معمول کی پرنٹنگ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ آپ فوٹوسٹیٹ والے کو کتاب دیں وہ بہترین فوٹو کاپی کر کے جلد بنا کر آپ کو دے دے گا ۔ دوسرے ملکوں کی کتابیں جن کی مانگ زیادہ ہوتی ہے یہاں کے تاجران کتب ان کی کئی کئی سو فوٹو کا پیاں بنوا کر رکھ لیتے ہیں اس طرح طباعت کے بغیر شائقین علم کی پیاس بجھتی رہتی ہے ۔ دمشق میں کتابوں کی تجارت کا بڑا مرکز ”الحلبونی“ ہے ۔ کراچی کے مولا نا عمران قادری مجھے وہاں لے گئے ۔ وہاں ایک بہت بڑا مکتبہ ”دار البیروتی“ ہے اس میں ایک زاویہ اعلیٰ حضرت کی کتب کے لیے خاص ہے ۔ مکتبہ کے سیلز مین نے بتایا کہ ہم شیخ احمد رضا کی کتا بیں کئی کئی سو کی تعداد میں فوٹو اسٹیٹ کر کے رکھتے ہیں لیکن قلیل عرصے میں وہ شائقین علم کی لائبریریوں کی زینت بن جاتی ہیں۔ اور شیلف خالی ہو جاتے ہیں۔

شام کے اسکالرز اور محققین کی نگاہ میں فاضل بریلوی کی قدر و منزلت :جامعات کے اساتذہ اعلیٰ حضرت کی تحقیقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور کسی مسئلے پر ریسرچ کرتے ہوئے اس بات کی تلاش میں رہتے ہیں کہ اس موضوع پر شیخ احمد رضا خان کی کوئی کتاب ملے ۔ کچھ عرصہ پہلے وہاں کےبعض علما کو قادیانیت کے خلاف مواد کی طلب ہوئی تو انہوں نے وہاں موجود پاکستانی طلبہ سے پوچھا کہ اس موضوع پرشیخ کا کیا کام ہے؟ مولانا عامر اخلاق صدیقی ،مولانا محمدعمران قادری اور مولانا فرقان وغیرہ علما نے انہیں ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی کی شائع شدہ {محمد خاتم النبیین} اور {القاديانية } کتابیں پیش کیں جو اعلیٰ حضرت کے اس موضوع پر لکھے گئے رسائل کی تعریب ہیں۔

 بعض علما جو روحانیت سے بہرہ ور ہیں اور تصوف سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں ان کے نزدیک اعلیٰ حضرت کا تصور ایک عالم دین سے بڑھ کر ایک مرشد روحانی اور منبع فیوض الٰہی کا ہے ۔ مولانا عمران قادری نے راقم کو بتایا کہ ایک دفعہ میرے ایک شامی استاذ نے مجھے فرمایا کہ فتاویٰ رضویہ کی تمام جلدیں مجھے دو، میں اپنے لیے فوٹوسٹیٹ کروانا چاہتا ہوں، میں نے عرض کیا کہ وہ تو اردو میں ہے آپ اس کو کس طرح پڑھ سکیں گے؟ اس پر شیخ نے فرمایا کہ میں اسے بطور تبرک گھر میں رکھنا چاہتا ہوں ۔ جو بعض مباحث عربی میں ہیں انہیں ہی پڑھ لیا کروں گا ۔

کچھ عرصہ قبل شام کے ایک ادارے نے علما کی ایک کمیٹی تشکیل دی جو ” حاشیۃ الامام ابن عابدین الشامی على الدر المختار“ کو از سرنو مدون کرے گی ، اور اس پر اب تک پوری دنیا میں جو کام ہوا ہے اس کو ترتیب دے گی ۔ اس میں فاضل بریلوی کا جلیل القدر حاشیہ {جد الممتار } بھی شامل کیا گیا ہے ۔ اور آپ کے تفصیلی سوانح بھی شامل اشاعت ہوں گے۔

شام میں کتب اعلیٰ حضرت کی ترسیل میں ”برکاتی فاؤنڈیشن“  کے اراکین نے بھی عظیم خدمات سر انجام دی ہیں، مولانا عمران قادری کے بقول مذکورہ فاؤنڈیشن نے لاکھوں کی کتابیں یہاں مفت تقسیم کی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ عرب ممالک میں شام وہ ملک ہے جہاں کم و بیش تیس ممالک کے طلبا تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ اس لیے یہاں کتب اعلیٰ حضرت کی ترویج گویا ان تیں ممالک کے طلبہ و علما کو افکار اعلیٰ حضرت سے روشناس کرائے گی۔

دمشق کے قابل ذکر دینی تعلیمی اداروں میں سے ایک” معبد الفتح الاسلامی“ ہے۔ اس کی بنیاد شام کے عظیم محقق ، عالم ربانی شیخ صالح فرفور نے رکھی تھی اب ان کے بیٹے اس ادارے کو چلا رہا ہے ہیں ، ان میں سے شیخ شہاب الدین فرفور اور شیخ ولی الدین فرفور بار ہا پاکستان آچکے ہیں اور افکار و تعلیمات اعلیٰ حضرت سے اچھی طرح روشناس ہیں۔ شیخ شہاب الدین فرفور امام احمد رضا کانفرنس میں بھی شرکت کر چکے ہیں اسی طرح مفتی دمشق فضیلۃ الشیخ الدکتور عبد الفتاح البزم اور معبد الفتح الاسلامی کے استاذ ، درویش صفت عالم شیخ عدنان درویش حفظہ اللہ تعالیٰ بھی ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کراچی کی دعوت پر سالانہ کا نفرنس میں تشریف لا چکے ہیں ، ان سے تقریباً ہر روز ملاقات ہوتی رہی۔ انتہائی ملنسار، شفیق اور مہمان نواز ہیں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی شخصیت سے خصوصی شغف رکھتے ہیں۔

ان حضرات گرامی کے مقالات معارف رضا (عربی) سالنامہ میں شائع ہو چکے ہیں ۔

تصانیف فاضلِ بریلوی کی درس و تدریس:

کسی عالم کی نظر میں کسی کتاب کی پسندیدگی کی انتہا یہ ہے کہ وہ اس کتاب کو شاملِ نصاب کرے اور اس کو با قاعدہ طور پر شامل درس کرے ۔ الحمد للہ فاضل بریلوی کی عربی تصانیف کو عرب کے علما کے ہاں اتنی پذیرائی ملی ہے کہ شام کے علما نے انہیں شامل درس کیا ہے۔ چنانچہ شام کے مقتدر عالم دین ،فضيلة الشيخ عبد الہادى الخرسا حفظہ اللہ تعالی نے { الدولة المكية بالمادة الغيبية } اور {المعتقد المنتقد{ سبقاً سبقاً طلبہ کو پڑھائیں اور درجنوں طلبہ نے ان کتب میں پھیلے ہوئے ” معارف رضا“ کو سمیٹا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

فاضل بریلوی کی تصانیف پر علماے شام کی تقاریظ :

جوں جوں فاضل بریلوی کی تصانیف عالیہ شام پہنچ رہی ہیں علماے متقین اور اسکالرز کے ان سے استفادہ کادائرہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ ان میں سے بہت سے علما ایسے ہیں کہ انہوں نے جب اعلیٰ حضرت کی تصانیف پڑھیں تو تقریظ کی صورت میں اعلیٰ حضرت کی بارگاہ علم میں خراج عقیدت پیش کیا ۔ شیخ عبدالہادی الخرسا حفظہ اللہ تعالیٰ جن کا ابھی ذکر گزرا انہوں نے اعلیٰ حضرت کے رسالہ مبارکہ ”شمول الاسلام “ پر جو ایمان ابوین مصطفی صلی اللہ علیہ وعلیہما و بارک وسلم کے موضوع پر ہے، تقریظ لکھی اور اس کی تحقیق وتخریج بھی کی۔ شام کے عالم دین شیخ سلیمان حفظہ اللہ تعالی نے ”الفضل الموہبی “کے دو تہائی حصے کی تحقیق و تخریج کی، اس پر تقریظ بھی لکھی اور اس کی طباعت کا اہتمام بھی فرمایا ،شام میں مقیم پاکستانی طلبا نے کویت کے عالم دین دکتور احمد حجی الکردی سے { جدالممتار } پرلکھی جانے والی ان کی تقریظ بھی حاصل کی ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے علما تحریری صورت میں اعلیٰ حضرت کی تحقیقات کو سلام عقیدت پیش کر رہے ہیں ۔

علامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری نور اللہ مرقدہ:

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے بعد علماے پاک و ہند (اہل سنت) میں سے جس شخصیت کا ادب و احترام اور علمی رعب و وقار شام کے علما وطلبہ کے دلوں میں جاگزیں پایا وہ شرف ملت کی ذات گرامی ہے ۔ آپ نے جس خلوص و للہیت کے ساتھ خدمت دین اور مسلک حقہ مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت کا فریضہ سرانجام دیا اس پر آپ کی یہ خداد مقبولیت ایک شاہد ناطق ہے ۔ آپ کے وہاں متعارف ہونے کی ایک بڑی وجہ آپ کی لازوال تحریر {من عقائد اھل السنة) ہے ۔ وہاں کے علما نے نہ صرف اسے شرف قبول سے نوازا بلکہ فضیلۃ الشیخ عبد الہادی الخرسا حفظہ اللہ تعالیٰ اس کا درس دے رہے ہیں، اس درس میں شامل ترکی کے ایک نوجوان طالب علم سے مولانا عمران قادری نے ملاقات کروائی انہوں نے بتایا کہ ترکی میں ان کے والد گرامی کا مدرسہ ہے، اور وہ { من عقائد اھل السنة } کا ترکی زبان میں ترجمہ کروارہے ہیں تا کہ اس مدرسہ میں اسے شامل نصاب کیا جائے ۔

شرف ملت نور اللہ مرقدہ کی دوسری وجہِ شہرت آپ کا وہ تقویٰ ہے جس کی جھلک وہاں کے بعض علما نے ادارہ تحقیقات امام احمد رضا کی سالانہ کانفرنسوں میں پاکستان میں آکر دیکھی ۔ وہاں کے علما آپ کی سادگی ، متانت اور طہارت قلبی سے اس قدر متاثر ہیں کہ جنہوں نے دیکھا وہ تو ثنا گو ہیں ہی جنہوں نے نہیں دیکھا وہ بھی متأسف ہیں کہ ہم اتنے بڑے عالم ربانی کی زیارت سے محروم رہ گئے ۔ وہاں کے علما کی شدید خواہش تھی کہ آپ وہاں جلوہ افروز ہوں لیکن آپ کی علالت طبع کی بنا پر ایسا ممکن نہ ہوسکا جب آپ کے وصال کی جانکاہ خبر وہاں پہنچی تو ” معبد الفتح الاسلامی“ کے اساتذہ اور طلبہ نے اسباق کا سلسلہ روک کر آپ کی بلندی درجات کے لیے دعا کی ۔ ہندو پاک کے علماے اہلِ سنت میں سے اعلیٰ حضرت کے بعد آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ آپ کے صاحب زادے جناب ڈاکٹر ممتاز احمد سدیدی مدظلہ سے گزارش ہے کہ وہ وقت نکال کر شام کا دورہ فرمائیں اپنے والد گرامی کی اسناد وہاں لے کر جائیں اور وہاں کے علما سے اسناد کا تبادلہ کریں، شرف ملت کی دیگر تصانیف کی تعریب فرما کر انہیں اور آپ کے ترجمۃ القرآن کو وہاں متعارف کروائیں بالخصوص احسان الٰہی ظہیر کی البریلویہ کے رد میں لکھی ہوئی علامہ شرف قادری صاحب کی کتاب کا وہ حصہ جس میں اعلیٰ حضرت پر اعتراضات کاجواب ہے

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved