حافظ افتخار احمد قادری برکاتی
ماہ محرم الحرام زمانہ قدیم سے ہی قابلِ احترام سمجھا جاتا رہا ہے- عربوں کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بات بات پر ایک دوسرے کی گردن اڑا دینے والے جاہل، قدم قدم پر خون کی ندیاں بہانے والے بیوقوف، معمولی معمولی باتوں پر پشتہا پشت سے لڑنے والی قوم ماہ محرم الحرام کا چاند دیکھتے ہی اپنی تلواروں کو جھکا لیتی تھیں- جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو اس ماہ مبارک کے فضائل میں چار چاند لگ گئے- تاریخی اعتبار سے ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جو اس ماہ مبارک کی فضیلت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں- کہتے ہیں کہ عاشورا کے دن کی فضیلت و اہمیت بیان کرتے ہوئے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ رب العزت نے آسمانوں، زمینوں، پہاڑوں، دریاؤں، لوح وقلم کو اور حضرتِ آدم و حوا کو عاشورا ہی کے دن پیدا فرمایا- اور اسی دن حضرتِ آدم علیہ السلام جنت میں داخل ہویے، اور اسی دن حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔ خاص طور سے اس ماہ مبارک کی دسویں تاریخ کو جسے یومِ عاشورا کہتے ہیں اس دن بہت سارے حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے، جیسے حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش اسی دن ہوئی، اور اسی دن حضرتِ ابراہیم علیہ السلام پر نار نمرود گلزار ہوئی، اور اسی دن حضرتِ ایوب علیہ السلام نے مرض سے شفا پائی، اسی دن حضرتِ یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس آئی، اور اسی مبارک دن میں حضرتِ سیدنا یوسف علیہ السلام کنویں سے نکلے، اسی دن حضرتِ سلیمان علیہ السلام کو بادشاہی ملی، اور اسی دن حضرتِ موسیٰ علیہ السلام جادوگروں پر غالب آئے۔ ( عجائب المخلوقات، صفحہ نمبر/ 44)
اسی دن حضرتِ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مرتبہ شہادت حاصل کیا، اور قیامت بھی اسی روز آئے گی،اسی دن اللہ رب العزت نے عرش پر اپنی شان کے مناسب استواء فرمایا، اور اسی دن پہلی بارش اور پہلی رحمت نازل ہوئی۔(غنیتہ الطالبین، جلد/دوم/ صفحہ نمبر/ 53 )
اسی دن اللہ رب العزت نے کرسی کو قلم و آسمان کو پیدا فرمایا، اور اسی دن حضرتِ سیدنا ادریس علیہ السلام کو جنت کی طرف اٹھایا گیا، اور اسی دن اللہ رب العزت نے پہاڑوں کو اور سمندروں کو پیدا فرمایا۔ ( غنیتہ الطالبین، جلد نمبر/دوم، صفحہ نمبر 53)
اور عاشورا ہی کے دن اصحابِ کہف کروٹیں بدلتے ہیں-
(غنیتہ الطالبین، جلد اول/ صفحہ نمبر 145)
مسلمانانِ اہلسنت وجماعت کو چاہیے کہ اس مقدس ماہ کے بابرکت دن کو لغویات میں نہ گزار دیں، بلکہ عبادت وریاضت صدقات وخیرات و نوافل میں زیادہ اپنے قیمتی اوقات کو صرف کریں، کیونکہ عاشورا ایک بزرگ دن ہے اس میں ہر ایک نیک کام بڑے اجر وثواب کا موجب ہے، جیسے اس دن کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنا بڑے ثواب ملے کام ہے۔
حضرتِ سیدنا عبد اللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص عاشورا کے دن یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو اللہ رب العزت اس کے لیے یتیم کے سر پر ہر بال کے عوض ایک ایک درجہ جنت میں بلند فرمائے گا- ( غنیتہ الطالبین، جلد دوم، صفحہ نمبر/53)
ویسے بھی کسی یتیم کے ساتھ محبت و الفت کرنا باعثِ اجر عظیم ہے، خواہ عاشورا کا دن ہو یا کوئی اور دن ہو- حضرتِ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ جو شخص محض اللہ رب العزت کی رضا کے لیے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے گا تو اسے ہر بال کے عوض نیکیاں ملیں گی، جن پر ہاتھ پھیرے گا اور جو یتیم بچی یا یتیم بچے جو اس کے پاس ہے اس کے ساتھ احسان کرے گا تو میں اور وہ جنت میں دو انگلیوں کی طرح اکھٹے ہوں گے اور آپ نے دونوں انگلیوں کو ملا دیا- ( رواہ احمد ترمذی، مشکوٰۃ شریف/ صفحہ نمبر، 423)
حضرتِ امام عالی مقام کی شہادت نے اس ماہِ مبارک کو اتنا مشہور کردیا کہ جتنا کبھی نہ تھا۔ آج پوری دنیا میں ماہ محرم الحرام کا چاند دیکھتے ہی ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے- حضرتِ امام حسین رضی اللہ عنہ کی یاد مسلمانوں کو تڑپا دیتی ہے- یہ الگ بات ہے کہ بعض احمق غلط طریقے سے یاد مناتے ہیں، اور ایسے غیر اسلامی کام کرتے ہیں کہ جس سے خود حضرتِ امام عالی مقام کی روح کو تکلیف پہنچتی ہوگی، اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ایسے لوگوں کو عقل سلیم عطا فرمائے اور وہ کام کرنے کی توفیق بخشے جس سے سرکارِ امام عالی مقام رضی اللہ عنہ اور ان کے جانثار ساتھیوں کی روحیں خوش ہوں-
سچ پوچھیے تو ماہ محرم الحرام ہم کو یاد دلاتا ہے حسینی عزم و ہمت کی، دشمنوں کے مقابلے میں بیباکی، اور جوانمردی کی عظیم الشان مثال دیکھنا ہو تو کربلا کے میدان میں دیکھو تاریخ اپنے اندر تمام جلوؤں کو سمیٹے ہوئے ہے ۔یہ ہماری بہت بڑی کم نصیبی ہے کہ یہ ماہ مبارک ہمارے اندر عزم وہمت کی روح پھونکنے آتا ہے مگر ہم ہیں کہ ان مقدس ترین ایام میں کھیل کود میں مست رہتے ہیں، ہم آپسی دشمنی اور بیجا خرافات میں مست رہ کر ان بابرکت لمحات کو گزار دیتے ہیں، کھیل تماشوں میں مست رہنے والو! اپنے حال پر رحم کرو، کاش ہم یہ سوچتے کہ یہ ماہ مبارک ہم کو کن باتوں کی یاد دلاتا ہوں؟ کس طرح ہماری مردہ رنگوں میں زندگی کی نئی تڑپ پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے؟ نماز و روزہ سے غافل رہ کر یاد حسین منانے والو! اپنے حالوں پر رحم کرو- اپنے گھر والوں پر رحم کرو، پورے معاشرے پر رحم کرو، ذرا سوچیے جب ہماری ہی زندگی غیر اسلامی ہوگی تو ہمارے بچے اسلامی کردار کو کس طرح اپنا سکیں گے، اس لیے ضروری ہے کہ ماہ مبارک بالخصوص یوم عاشورا کو اپنے اہل و عیال کے ساتھ عبادت و ریاضت میں گزارے اور اچھے کام کرے لغویات سے بچے خاص طور سے عاشورا کے دن یہ کام ضرور انجام دے-
(۱)-عاشورا کے روز غسل کرنا مرض و بیماری سے بچاؤ کا سبب ہے- حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو شخص عاشورا کے روز غسل کر لے تو کسی مرض میں مبتلاء نہ ہوگا سوائے مرض موت کے- ( غنیتہ الطالبین، جلد دوم ، صفحہ نمبر/53)
(۲)-عاشورا کے روز گناہوں اور معاصی سے توبہ کرنی چاہیے، اللہ رب العزت اس کی توبہ قبول فرماتا ہے- حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی اور حکم ہوا:
اپنی قوم کو حکم دو کہ وہ دسویں محرم کو میری بارگاہ میں توبہ کریں اور جب دسویں محرم کا دن ہو تو میری طرف نکلیں یعنی توبہ کریں میں ان کی مغفرت فرماؤں گا- (فیض القدیر شرحِ جامع صغیر، ج:۳، ص:34)
(۳)-عاشورا کے روز آنکھوں میں سرمہ لگانا آنکھوں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے- حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جو شخص عاشورا کے روز اثمد کا سرمہ آنکھوں میں لگائے تو اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گی- (رواہ البیہقی عن ابنِ عباس)
حضرتِ ملا علی قاری رحمۃ الباری اپنی کتاب”موضوعات الکبیر“میں تحریر فرماتے ہیں کہ عاشورا کے روز آنکھوں میں سرمہ لگانا خوشی کے اظہار کے لیے نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ یہ خارجی لوگوں کا فعل ہے کہ وہ اس میں خوشی کا اظہار کرتے ہیں- بلکہ حدیثِ پاک پر عمل کرنے کے لیے آنکھیں میں سرمہ لگانا چاہیے- (الموضوعات الکبیر)
(۴)-عاشورا کے روز اپنے اہل و عیال کے واسطے گھر میں وسیع پیمانے پر کھانے پینے کا انتظام کرنا چاہیے، تاکہ اللہ رب العزت اس گھر میں سارا سال وسعت فرمائے۔
حضرتِ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی عاشورا کے دن اپنے اہل و عیال پر نفقہ پر وسعت کرے گا تو اللہ رب العزت اس پر سارا سال وسعت فرمائے گا- حضرتِ سفیان ثوری نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو ایسا ہی پایا- ( رواہ البیہقی فی شعب الایمان، مشکوٰۃ شریف، صفحہ نمبر/170)
حضرتِ محبوبِ سبحانی، قطب ربانی، سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب غنیتہ الطالبین، جلد دوم، صفحہ نمبر 54/ پر تحریر فرماتے ہیں کہ حضرتِ سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ ہم نے پچاس سال اس کاتجربہ کیا تو وسعت ہی دیکھی۔
اسی طرح حضرتِ علامہ مناوی فیض القدیر، جلد نمبر6 ، صفحہ نمبر/ 234/ پر تحریر فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا تو صحیح پایا- اور حضرتِ سیدنا ابنِ عینہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے پچاس یا ساڑھ سال اس کا تجربہ کیا تو وسعت ہی پائی- لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اس دن وسیع پیمانے پر اپنے اہل و عیال کے لیے کھانے کا انتظام و انصرام کریں۔
(۵)-عاشورا کے دن کا روزہ رکھنا بڑا ثواب ہے۔ حضورِ اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود بھی اس دن روزہ رکھا اور اپنے غلاموں کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کہ عاشورا کا روزہ رکھو اس دن انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام روزہ رکھتے تھے- ( جامع صغیر، جلد نمبر چار/ صفحہ نمبر/ 215)
اس حدیث پاک کے تحت علامہ مناوی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ عاشورا کی فضیلت بہت بڑی ہے اور اس کی حرمت قدیم زمانہ سے چلی آتی ہے، ابنِ رجب نے فرمایا کہ اس دن نوح اور موسی اور دیگر انبیاے کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے روزہ رکھا اور اہل کتاب بھی اس روز روزہ رکھتے تھے-
حضرتِ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ اللہ رب العزت نے مہینہ محرم ( عاشورا ) کا روزہ ہے- اور فرض کے بعد افضل نماز رات کی نماز ہے- (مشکوٰۃ شریف/ صفحہ نمبر، 171)
حضرتِ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو یہودیوں کو عاشورا کے دن روزہ دار پایا، آپ نے فرمایا کہ یہ کیا دن ہے؟ جس میں تم روزہ رکھتے ہو، انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی، اور فرعون اور اس کی قوم کو ڈبو دیا، لہذا حضرتِ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بطور شکریہ اس دن کا روزہ رکھا تو ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں، پس رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تم سے ہم زیادہ حق دار اور زیادہ قریب ہیں تو آپ نے روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی اس کا حکم دیا- ( مشکوٰۃ شریف، صفحہ نمبر/ 189)
حضرتِ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ رب العزت پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دے گا-
( رواہ مسلم، مشکوٰۃ شریف)
عاشورا کے دن یہ کام ممنوع ہیں:
عاشورا کے روز سیاہ لباس پہننا، سینہ کوبی کرنا، کپڑے پھاڑنا، بال نوچنا، نوجہ کرنا، پیٹنا، چھری چاقو سے بدن زخمی کرنا، جیسا کہ رافضیوں کا طریقہ ہے ایسے افراد تشیع سے اجتناب کلی کرنا چاہیے- حضرتِ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ہمارے طریقہ پر وہ نہیں ہے جو رخساروں کو مارے اور گریباں پھاڑے اور پکارے جاہلیت کا پکارنا-
( رواہ البخاری و مسلم، مشکوٰۃ شریف، صفحہ نمبر/ 140)
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org