30 April, 2024


دارالاِفتاء


کنواں میں ایک استعمال شدہ جوتا (چمڑا یا پلاسٹک کا) گر کر ڈوب گیا ہمارے یہاں کے مولوی صاحب نے صرف چالیس پچاس بالٹی پانی نکلوادیا اور جوتا نہیں نکلوایا، کہتے ہیں کہ پانی پینے کے قابل اور پاک ہے، تو کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر نہیں تو کتنا بالٹی پانی نکالا جائے اور جوتا نکالنے کی حاجت ہے کہ نہیں، اور مولوی صاحب کا مسئلہ غلط ہونے کی صورت میں ان کے لیے کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا

فتاویٰ #1335

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: اگر یہ یقینی طور پر معلوم ہے کہ جوتے میں کوئی نجاست لگی ہوئی تھی تو یہ فرض ہے کہ پہلے جوتا نکالا جائے پھر کنویں کا کل پانی نکالا جائے کہ اگر جوتا نہیں نکالا گیا تو اگر چہ کل پانی نکال دیا جائے کنواں ناپاک ہی رہے گا، اور اگر یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہو کہ جوتے میں نجاست لگی ہوئی تھی تو کنویں کے ناپاک ہونے کا حکم نہیں دیا جائے گا، احتیاطا بیس ڈول پانی نکال دیا جائے گا۔ فتاوی رضویہ جلد۱، ص۵۷۱ پر ہے : جب کہ اس (جوتے) کی نجاست معلوم نہیں پانی ناپاک نہ ہوا ’’فإن الیقین لا یزول بالشک‘‘۔ تاتارخانیہ وطریقہ محمدیہ و حدیقہ وغیرہا کتب معتمدہ میں ہے :’’سُئِلَ الْإمَامُ الْخُجَنْدِيُّ رَحِمَهُ اللهُ تعالی عَنْ رَكِيَّةٍ وھي البِئْر وُجِدَ فِيهَا خُفٌّ أو نعل تلبس ویمشي بہا صاحبہا في الطرقات لَا يَدْرِي مَتَى وَقَعَ فِيهَا وَلَيْسَ عَلَيْهِ أَثَرُ النَّجَاسَة هَلْ يُحْكَمُ بِنَجَاسَةِ الْمَاءِ؟ قَالَ: لَا ‘‘۔ ہاں تسکین قلب کے لیے بیس ڈول نکال لینا مستحب ہے۔ جب جوتا میں نجاست کا لگا ہوا ہونا تحقیقی طور پر معلوم نہ ہو جب بھی بہتر یہی ہے کہ جوتے کو ضرور نکال دیا جائے، عوام کو تشویش میں ڈالنے سے بچنا لازم ہے۔واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved