30 April, 2024


دارالاِفتاء


ہمارے شہر میں ایک مسجد کے احاطے میں ایک کنواں ہے اس کی گولائی ۳۵ ہاتھ نہیں ہے اس کنویں کا پانی بذریعہ بجلی ایک چھوٹے حوض میں پہنچاتے ہیں اور وضو کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ محلہ کے لوگ اس کنویں کے پانی کو رسی سے کھینچ کر لے جاتے ہیں۔ اب کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کنویں کا پانی باہر سے لوگوں کے لے جانے سے پانی اب وضو کے قابل نہ رہا ۔دریا فت طلب امر یہ ہے کہ کنویں کی گولائی کی حد شرع میں کیا ہے؟ باہر کے لوگوں کے کنویں کے پانی کو رسی سے کھینچ کر لے جانے سے پانی وضو کے قابل رہا یا نہیں؟ کنویں کے پانی کو بجلی کے ذریعہ کھینچ کر باہر کے لوگوں کو دینا کیسا ہے؟ کنویں کا پانی کب نجس ہوتا ہے، ۳۵ ہاتھ سے کم جس کی گولائی ہو اس کنویں کا پانی کوئی بے وضو آدمی رسی سے کھینچ رہا ہے اس کے ہاتھ سے پانی کے قطرے کنویں میں گر گئے کیا وہ پانی وضو کے قابل رہا ، ایسے وقت میں کتنے ڈول پانی نکالا جائے گا؟

فتاویٰ #1326

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: وہ کنواں جس کا دور ساڑھے پینتیں ہاتھ ہو وہ کنواں دہ در دہ ہے اس کنویں کا حکم ماے جاری کا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس میں نجاست گرنے سے پانی ناپاک نہ ہوگا جب تک کہ پانی میں نجاست کا رنگ، یا بو، یا مزہ نہ ظاہر ہو۔ تنویر الابصار اور در مختار میں ہے: ویجوز بجار وقعت فیہ نجاسۃ إن لم یر یعلم أثرہ فلو فیہ جیفۃ أو بال فیہ رجال فتوضأ آخر من أسفلہ جاز ما لم یر في الجریۃ أثرہ وہو إما طعم أو لون أو ریح۔ اسی میں ہے: وأنت خبیر بأن اعتبار العشر أضبط لا سیما في حق من لا رأي لہ من العوام فلذا أفتی بہ المتاخرون الأعلام أي في المربع بأربعین وفي المدور بستۃ وثلاثین۔ أقول: لکن حقق الإمام أحمد رضا قدس سرہ أنہ خمسۃ وثلاثون ذراعا ونصف تقریبا۔ نجاست کے اثر سے مراد اس کا رنگ یا بو یا مزہ ہے۔ اور اگر کنواں ۳۵ (ساڑھے پینتیس)ہاتھ سے کم گولائی میں ہے تو اس میں اگر کوئی نجاست گر جائے گی تو وہ ناپاک ہو جائے گا جس کی پوری تفصیل بہار شریعت حصہ دوم میں موجود ہے، پانی کھینچنے میں بھیگی ہوئی رسی سے جو قطرے، یا فرض کر لیجیے پانی کنویں میں گرتا ہے اس سے کنواں ناپاک نہ ہوگا؛ اگر چہ پانی کھینچنے والا بے وضو ہو یہی نہیں بلکہ وضو کا پانی کنویں میں کوئی قصدا ڈال بھی دے تو کنواں ناپاک نہ ہوگا؛ اس لیے کہ ماے مستعمل پاک ہے جیسا کہ تمام فقہ کی کتابوں میں تصریح ہے، اس لیے مسجد کے اس کنویں سے لوگوں کو پانی لےجانے سے منع نہ کیا جائے اور نہ اس پانی سے وضو کرنے میں کوئی حرج ہے ۔ کنویں میں اگر ماے مستعمل ڈال بھی دیا جائے جب بھی کنویں کا پانی مستعمل نہ ہوگا جب تک کہ ماے مستعمل جو ڈالا گیا ہے کنویں میں موجود پانی سے زیادہ نہ ہو اور ظاہر ہے کہ پانی کھینچتے وقت بے وضو شخص کے ہاتھ سے جو پانی کنویں میں گرے گا وہ کسی حال میں بھی کنویں کے اندر موجود پانی سے زیادہ نہیں ہو سکتا یہ پانی بہت زیادہ ہوگاتو آدھا یا ایک چلو ہوگا اس لیے اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ اس کنویں سے وضو کیا جائے۔واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved