30 April, 2024


دارالاِفتاء


مدرسہ میں پڑھنے والے نابالغ بچوں سے مدرسین کام لے سکتے ہیں کہ نہیں جیسے کہ وضو کے لیے پانی منگانے میں کیا قباحت ہے۔ حوالے سے جواب عنایت فرمائیں۔

فتاویٰ #1322

بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: نابالغ بچوں سے ان کی طاقت کے مناسب کام لینے میں حرج نہیں جب کہ باپ یا ولی کو اعتراض نہیں جیسا کہ معروف ومعتاد ہے، پانی منگانے میں تفصیل ہے جس کی سترہ(حاشیہ: یہ تمام صورتیں فتاوی رضویہ جلداول ، باب المیاہ، رسالہ: ’’عطاء النبی‘‘ میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں، ملاحظہ ہو، ص: ۴۲۱ تا ص: ۴۴۰۔ اس رسالے میں اعلی حضرت امام احمد رضا علیہ الرحمۃ والرضوان نے ایک ضابطہ کلیہ وضع فرمایا ہے، پھر نابالغ کے بھرے ہوئے پانی کی سترہ صورتیں اور ان کے احکام بیان فرمائے ہیں ۔ محمد نظام الدین رضوی) صورتیں ہیں جن سب کا حاصل یہ ہے کہ اگر بچے نے پانی کنویں سے بھرا، یا ہاتھ والے نل سے بھر کر اپنے برتن میں جمع کیا تو یہ اس کی ملک ہے، اس پانی سے معلمین کو وضو کرنا جائز نہیں؛ اس لیے کہ نابالغ اپنی کوئی بھی چیز بلا عوض ہبہ نہیں کر سکتا ۔ ہاں! بیچ سکتا ہے جب کہ ماذون بالبیع ہو۔ اور اگر صورت یہ ہو کہ پانی کسی برتن یا گھڑے میں رکھا تھا تو اس گھڑے یا برتن سے پانی منگا سکتا ہے۔ اسی طرح آج کل میونسپلٹیوں کی جانب سے بذریعہ پائپ بازاروں میں، گھروں میں پانی پہنچایا جاتا ہے۔ ایسا نل اگر کسی کے گھر میں لگا ہو کہ وہ اس کا معاوضہ ادا کرتا ہو جیسا کہ عام دستور ہے، ایسے نل سے بھی پانی نابالغ کے ذریعہ منگا یا جا سکتا ہے؛ اس لیے کہ یہ پانی جتنا بھی آئے گا نل لگانے والے کی ملک ہے نابالغ اگر لےگا تو اس کی ملک نہ ہوگی۔ سڑکوں اور بازاوں میں جو نل لگے ہوں ان سے اگر نابالغ پانی لے گا تو وہ نابالغ کی ملک ہو جائے گا ایسے نل سے بھی لائے ہوئے پانی کو معلمین استعمال نہیں کر سکتے۔واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved