30 April, 2024


دارالاِفتاء


وضو میں پیر دھونا فرض ہے یا پیر کا مسح کرنا فرض ہے۔ قرآن سے اس کی سند بیان فرمائیں اور اگر ان مسائل میں چاروں ائمہ کے مسلکوں میں اختلاف ہو تو چاروں مسلک کے رو سے الگ الگ جوابات تحریر فرمائیں ۔

فتاویٰ #1285

بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ اس پر چاروں ائمہ کا اتفاق ہے کہ وضو میں پاؤں دھونا فرض ہے، پاؤں پر صرف مسح کافی نہیں۔ ہاں! اگر موزے پہنے ہوئے ہو اور وہ موزہ وضو پر پہنا ہو تو بجاے پاؤں دھونے کے موزوں پر مسح کافی ہے۔قرآن مجید میں ہے : ’’ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا قُمْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَ اَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَ اَرْجُلَكُمْ اِلَى الْكَعْبَيْنِ١ؕ ‘‘۔ اے ایمان والو! جب نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو اپنے چہروں کو دھوؤ اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوؤ اور سروں کا مسح کرو اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھوؤ ۔ ’’أرجلکم‘‘ کا عطف ’’رُؤوس‘‘ پر درست نہیں ہو سکتا۔ اس کا عطف ’’وُجُوہَکم‘‘ پر ہے اس لیے چہرے کی طرح پاؤں کا دھونا بھی فرض ہے مگر چوں کہ احادیث کثیرہ مشہورہ میں وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے موزوں پر مسح فرمایا اس لیے موزوں پر بھی مسح درست ہے۔ آپ نے دلیل صرف قرآن سے مانگی ہے اس سے شبہہ ہوتا ہے کہ شاید آپ حدیث کے منکر ہیں، خدا نخواستہ اگر ایسی بات ہے تو آپ اپنے ایمان کی خبر لیجیے۔ اس بارے میں رافضی یہ کہتے ہیں کہ وضو میں پاؤں دھونا فرض نہیں، مسح کرلینا کافی ہے۔ واللہ تعالی اعلم جن موزوں پر مسح جائز ہے وہ آج کل کے اونی سوتی کے موزے نہیں، نائیلن بلکہ چمڑے کے یا کرمچ وغیرہ ایسی دبیز چیز کے ہوں کہ بغیر بندش کے پاؤں میں رکے رہیں چلنے میں نکل نہ پڑیں اور اتنے دبیز ہوں کہ اگر اس پر پانی گرے تو چھن کر پاؤں تک نہ چلا جائے۔ واللہ تعالی اعلم ۔ (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved