بسم اللہ الرحمن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: احکام کی علت جاننا ضروری نہیں، یہ بہت اہم کام ہے ۔ علما اس میں سرگرداں رہتے ہیں پھر بعض علتیں اتنی دقیق ہوتی ہیں کہ عوام کے سمجھ میں نہیں آتیں۔ ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اللہ عز وجل اور رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا یہ حکم ہے۔ سب سے قوی علت یہی ہے۔ حاکم کو اختیار ہے اپنے محکوم کو جو چاہے حکم دے۔ اور جب حاکم حکیم (حکمت والا ) ہو تو کوئی لغو حکم نہیں دےگا۔ مریض اگر طبیب سے بحث شروع کرے کہ جناب آپ نے یہ دوا کیوں دی، یہ پرہیز کیوں بتایا، تو اچھا ہوچکا۔ اس کی علت یہ ہے کہ عورتوں کو حیض ہر مہینہ آتا ہے اور نمازیں پانچ ہیں اور عموماً حیض پانچ دن ضرور آتا ہے اور بعض عورتوں کو دس دن آتا ہے۔ تو گویا ہر مہینہ کم از کم پانچ دن کی پچیس نمازیں ہوئیں۔ہر مہینے پچیس وقت کی قضا پڑھنا دشوار ہوگا اور دس دن کی پچاس اور دشوار۔ بخلاف روزے کے کہ وہ سال میں صرف پانچ دن یا دس دن کے قضا ہوں گے ان کا ادا کرنا آسان ہے۔ نفاس میں یہ ہے کہ بعض عورتوں کو چالیس دن آتا ہے چالیس دن کی نمازیں دوسو ہوئیں ان کی قضا کتنی دشوار ہے وہ بھی بچوں کی پرورش کے ساتھ ساتھ بخلاف روزوں کے ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نفاس رمضان میں آئے ہی نہیں اور اگر آئے تو سال دو سال میں ایک مہینے کا روزہ رمضان میں نہیں رکھا کبھی رکھ لے۔ نہ طہارت کی ضرورت نہ وضو کی، بخلاف نماز کے کہ بچے کی پرورش کرنے والی عورت کو پاک رہنا کتنا دشوار ہوتا ہے، اور فرصت کتنی کم ہوتی ہے۔ عورت کو آسانی کے لیے حیض ونفاس کی حالت میں نمازیں مطلقاً معاف کردیں اور روزوں کی قضا رکھی۔ واللہ تعالی اعلم (فتاوی جامعہ اشرفیہ، جلد ۵،(فتاوی شارح بخاری))
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org