27 July, 2024


Book: The Monthly Ashrafia May2023 Download:Click Here Views: 19181 Downloads: 692

(1)-رئیس التحریر اور جامعہ اشرفیہ، مبارک پور دین و سنیت کے فروغ کے چند یادگار گوشے

مبارک حسین مصباحی

۸ مئی 2023 ءکی وہ ایک غم انگیز شام تھی،موضع خالص پور متصل قصبہ ادری میں حسرت و یاس کے سائے بڑھ  رہے تھے ،ہر طرف غم و اندوہ کے بادل چھائے ہوئے تھے ۷مئی رات ۹ بج کر ۵۰ منٹ پر رئیس التحریر حضرت علامہ یٰسٓ اختر مصباحی نے ایمس ہاسپیٹل دہلی میں آخری سانس لی،فیس بک سے وصال کی الم ناک خبر پڑھ کر کلمات استر جاع پڑھے اور اضطرابی کیفیت میں حضرت کی روح کو ایصال ثواب کیا ۔ آپ کی الم ناک  رحلت اہل سنت کے لیے افسوس ناک حادثہ ہے اور خاص طور پر جامعہ اشرفیہ مبارک پور  کے لیے ناقابلِ تلافی نقصان بھی۔ خالص پور آپ کا جنازہ لایا گیا ، علما اور طلبا کا جم غفیر تھا، مقامی اور بیرونی عقیدت مندوں کا بھی ہجوم تھا ، مئو، ادری روڈ پر آپ کی وسیع زمین ہے، وہیں آپ کا مدفن بنایا گیا ، جنازے کی نماز کے فرائض عزیز ملت حضرت علامہ شاه عبد الحفیط عزیزی سربراہ اعلیٰ جامعہ اشرفیہ مبار ک پور نے انجام دیے اور بصد حسرت و غم آپ کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ یہی حال دنیا کے ہر مسلمان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے ارباب کمال اور دین و دانش کے تاجدار جب اپنی سانسیں پوری کر لیتے ہیں تو انہیں اپنے ہاتھوں سے مٹی کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے ۔ موت ایک اٹل حقیقت ہے ،دنیا کی کوئی طاقت اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتی، بڑے بڑے سلاطین ہوں یا اربابِ حکومت جن کے اشاروں پر ہزاروں اور لاکھوں  افراد گردش کرتے ہیں۔ فرشتۂ اجل سے وہ افراد بھی اپنے حاکم اور شہنشاہ کو بچا نہیں سکتے ۔ اسی لیے ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ”مِنۡہَا خَلۡقۡنٰکُمۡ وَفِیۡہَا نُعِیۡدُکُمۡ وَمِنۡہَا نُخۡرِجُکُمۡ تَارَۃً اُخۡرٰی.“ تین حصوں میں پڑھ کر تین بار یکے بعد دیگرے مٹی ڈال دینی چاہیے ،یہی اسلامی طریقہ  آپ کے ساتھ بھی بہ حزن و غم انجام دیا گیا ۔ علم و حکمت کے اس سرخیل اور دین و دانش کے اس  میر کارواں کو ہزاروں افراد نے اپنے کانپتے ہاتھوں سے مٹی کے نیچے دفن کر دیا ۔آہ!صد آہ!

جزذاتِ خدا وند کہ ہے دائم و باقی                     دنیا میں صدا کوئی رہا ہے کہ رہے گا

ہم اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل کی گہرائیوں سے دعا کرتے ہیں مولا تو ان کی قبر و حشر کی منزلیں آسان فرما اور اپنے خصوصی فضل و کرم سے جنت الفردوس میں بلند ترین مقام عطا فرما، آمین ۔

مختصر احوال :

آپ کی ولادت با سعادت موضع خالص پر متصل ادری ضلع مئو یوپی ۱۲ فروری  1953 ء میں ہوئی،مدرسہ بیت العلوم خالص پور میں ناظرہ قرآن اور اردو کتابیں پڑ ھیں ، مدرسہ ضیاء العلوم قصبه ادری ضلع مئومیں درس نظامی کا آغاز کیا، اس کے بعد مدرسہ ضیاء العلوم خیر آباد ضلع مئو میں مزید کتابیں پڑھیں آخر میں دار العلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم   مبارک پورمیں اعلیٰ کتابیں پڑھنے کا شرف حاصل کیا ۔۱۳۹۰ھ/ 1970 ء میں درس نظامی کی تکمیل کی ،سند فضیلت اور دستار بندی سے سرفراز کیے گئے ۔ آپ کے اساتذہ میں معروف شخصیات حسب ذیل ہیں:

(۱)-جلالة العلم حافظ ملت حضرت علامہ شاه عبد العزيز محدث مراد آبادی بانی جامعہ اشرفیہ مبارک پور ۔

(۲) -مرتب فتاوائے رضویہ حضرت علامہ حافظ عبد الرؤف بلیاوی نائب شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔

(۳)- قاضی شرع حضرت مولانا محمد شفیع مبارک پوری سابق استاذ و ناظم جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔

(۴)-بحر العلوم حضرت مفتی  عبد المنان اعظمی سابق صدر المدرسين جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔

1971 ء میں دار العلوم غریب نواز الہٰ آباد میں تدریسی خدمات انجام دیں، اس کے بعد آپ عربی ادب میں مہارت حاصل کرنے کے لیے لکھنؤ تشریف لے گئے ،وہاں ”الاختصاص فی الادب العربی“ دو سالہ کورس کی تکمیل ۱۹۷۳ء میں کی۔جنوری ۱۹۷۴ ء سے اپریل  ۱۹۸۲ء تک آپ جامعہ اشرفیہ   مبارک پور بحیثیت صدر شعبۂ عربی ادب قیام پزیر رہے۔ عربی ادب اور دیگر علوم و فنون میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ فرمایا، کثیر تعداد میں آپ کے تلامذہ ملک اور بیرون ملک اہم دینی، علمی اور تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء میں  آپ نے اپنے تین احباب صدر العلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی دام ظلہ العالی ،مبلغ اہل سنت حضرت مولانا محمد عبد المبین نعمانی قادری دام ظلہ العالی اور حضرت مولانا افتخاراحمد قادری کی رفاقت میں تصنیفی اور اشاعتی اداره المجمع الاسلامی کا سنگ بنیاد رکھا، بفضلہ تعالیٰ اس ادارے سے دین و سنیت اور فکرو تحقیق پر تاریخی کارنامے انجام پزیرہوئے ، آپ جامعہ اشرفیہ مبا رک پور میں عربی ادب کے نام ور استاذ تھے ”المدیح النبوی“عربی نعتوں کا مجموعہ مرتب فرمایا، اسی طرح جامعہ کے دوسرے استاذ حضرت مولانا افتخار احمد قادری نے ”الادب الجميل“ کے نام سےاکابر کی عربی تحریروں کا مجموعہ مرتب فرمایا ، بفضلہ تعالیٰ نظم اور نثر کے یہ دونوں مجموعے جامعہ اشرفیه مبارک پور اور دیگر مدارس میں داخل درس ہیں ۔

ریاض سعودی عرب ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۴ء تک کمپیوٹر سروس اور اس کے متعلقات سے وابستہ رہے اور اس کے بعد سے زندگی کی آخری سانس تک دہلی میں  رہ کر دین و سنیت کی خدمات انجام دیتے رہے۔

اوصاف و خصائل:

اپنے اساتذۂ کرام کا ادب واحترام کرتے ۔ آپ درس گاہ میں محنت سے کتابیں پڑھتے اس سے زیادہ اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے اکتسابِ فیض کرتے۔ آپ خارجی مطالعے کے بھی شوقین تھے ، آپ نےاسسے بہت کچھ حاصل کیا ، آپ کی فکر صرف درسی کتابوں تک محدود نہیں تھی ،بلکہ آپ ملکی اور عالمی حالات پر نگاہ رکھتے تھے ، اپنے ملک کے سیاسی احوال اور ہندو تو قیادتوں پر تجز یا نہ ذمہ داریوں کو بڑی حد تک نبھاتے ، اہل سنت کے نرم وگرم مدوجزر کو بہ خوبی پہچا نتے تھے ۔ مسلم قیاد ت و سیاست کا حیرت انگیز مطالعہ رکھتے تھے ۔ ماضی اور حال کی روشنی میں امت مسلمہ کے لیے عملی شاہراہیں طے کرتے تھے۔ آپ بڑے مفکر اور مذہبی صحافی تھے۔ تاریخ سنیت اور علماے اہل سنت پر بصیرت افروز تجزیے کرتے ، نوجوان علما اور بعض جدید فکر کے حامل افراد آپ سے مشورے طلب کرتے، آپ اپنے تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں عملی را ہیں طے فرماتے اور مشوروں کے خواہش  مند حضرات اپنی وسعت کے مطابق عمل کرنے کی  کو شش کرتے ۔ مشورے دینے میں آپ سامعین کی باتیں بھی سنتے ،بحث و مشاورت کے بعداہل مجلس کو مطمئن فرماتے، ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ کی فکر ہمیشہ صد فیصد درست ہوتی تھی مگر عام طور پرنتائج درست ہوتے ، یہ بھی ایک سچائی ہے کہ دنیا بھر میں منصوبے بہت بنتے ہیں،مشورے بھی پیش کیے جاتے ہیں،مگر زمینی طور پر ان کو عملی جامہ کس قدر پہنایا جاتا ہے یہ ہم اور آپ سب جانتے ہیں۔ بلاشبہ آپ ایک قلم کار، دور رس منصوبہ ساز، مفکر اہل سنت، اردو اور عربی زبانوں پر نگاہ رکھنے والے قلم کار تھے ۔سج دھج ، تملق بازی اور ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ،د کھانے  کے  اور ،سے بڑی حد تک محفوظ تھے ۔ رہن سہن، کھانے پینے اور ملنے ملانے میں بے تکلف تھے ۔ اگر موجود ہیں تو آپ کی بارگاہ میں کوئی بھی آسکتا تھامگر گفتگو میں ہمیشہ آپ بھاری رہتے تھے اور دومنٹ میں سمجھ لیتے تھے کہ آنے والا کس مزاج و فکر کا  فردہے۔ ہم مزاج نہ ہونے کی صورت میں آپ گفتگو کارخ تبدیل فرما دیتے تھے ۔ آپ خانقاہوں سے محبت رکھتے تھے مگر عقیدت میں غلوسے ہمیشہ پرہیز فرماتے ، جامعہ اشرفیہ مبارک پور سے انھیں عقیدت و محبت تھی، اپنے استاذ گرامی حضور حافظ ملت نور اللہ مرقدہ سے بے لوث محبت فرماتے تھے ۔آپ نے حضور حافظ ملت کی شخصیت پر وقیع تحریریں لکھی ہیں اور جامعہ اشرفیہ مبارک پور کو ایک علمی ، ادبی اور فقہی تحریک سمجھتے تھے۔آپ نے جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا مختلف جہتوں سے تعارف بھی کرایا ہے اور عربی اور اردو میں مستقل تعارف بھی رقم فرما ئے ہیں ۔

 دار العلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا رجسٹرڈ نام ہے ۔ بقول ڈاکٹر شررؔ مصباحی مبارک پوری : عہدِ طالب علمی میں طلبہ کے درمیان غور ہوا کہ فارغین اشرفیہ اپنے ناموں کے ساتھ کیا نسبت لگائیں، لفظ ”اشرفی“ خانقاہ اشرفیہ  کچھوچھہ مقدسہ کے خلفا اور مریدین لگاتے ہیں، دار العلوم اشرفیہ کے نام کا ایک جز ”مصباح العلوم“ بھی ہے، اس مناسبت سے باتفاق راے یہ طے ہوا کہ فرزندان اشرفیہ اپنے ناموں کے ساتھ لفظ ”مصباحی“لگائیں ۔ اپنے عہد طالب علمی میں سب سے پیشتر شیخ الاسلام سید محمد مدنی اشرف اشرفی  کچھو چھوی نے ” مصباحی“ نسبت اپنے نام کے ساتھ استعمال فرمائی، بعد میں اپنے ناموں کے ساتھ دیگر بعض فرزندان اشرفیہ بھی لگانے لگے، ہاں پابندی سے لفظ ”مصباحی“، صدر العلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی مد ظلہ العالی نے استعمال فرمایا ۔جامعہ اشرفیہ مبارک پور  اور قرب وجوار میں ”مصباحی صاحب“ سے آپ ہی کی ذات مراد ہوتی ہے اور دہلی اور دیگر علاقوں میں ”مصباحی صاحب“ سے رئیس التحریر علامہ یٰسٓ اختر مصباحی علیہ الرحمہ کی ذات مراد ہوتی ہے۔ جب مٹیا محل دہلی سے ماہ نامہ  ”حجاز جدید“ نکالنا شروع فرمایا  تو آپ نے اپنے طے شدہ فرزندانِ اشرفیہ کو اپنی ادارتی اور مشاورتی مجالس میں  شامل فرمایا تو ان کے ناموں کے ساتھ لفظ ”مصباحی“ پابندی سے شائع فرماتے رہے۔ اور اب تو ماشاء اللہ تعالیٰ جامعہ اشرفیہ میں جماعت ثامنہ کے ہر طالب علم کو ”مصباحی صاحب“ کہا جاتا ہے۔ یہ آپ کی تحریک کی بر کت ہے کہ آج ملک اور بیرون ملک ہزاروں فرزندانِ اشرفیہ اپنے ناموں کے ساتھ مصباحی کی نسبت لگانے میں فخر محسوس کرتے  ہیں۔

حافظ ملت سے عشق و عقیدت:

1398 ھ/ 1978 ءکی بات ہے ،جہان سنیت کا معروف ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور نے 76 5 صفحات پر مشتمل وقیع” حافظ ملت نمبر“ شائع کرنے کا اعزاز حاصل کیا، اس نمبر کی ترتیب و اشاعت اور نظر ثانی میں حضرت رئیس التحریر نے بھی اپنی کاوشیں شامل کی تھیں ، اب اس نمبر کی دوسری اشاعت 2022 میں ہو چکی ہے ۔ اس نمبر کے لیے رئیس التحریر حضرت علامہ یٰسٓ اختر مصباحی علیہ الرحمہ نے بھی اپنی گراں قدر تحریر عطا فرمائی تھی۔ عنوان ہے ” حافظ ملت ایک انقلاب  آفریں شخصیت“۔ہر اچھی تحریر کے کچھ عناصر ہوتے ہیں اور قلم کا راگر وسیع النظر اور تجربات و مشاہدات رکھتا ہے تو اس میں حیرت انگیز نکات آفرینی اور دل و دماغ کو متاثر کرنے والا اسلوب بھی ہوتا ہے۔ اس تحریر کو بھی حضرت رئیس التحریر نے جی لگا کر لکھا ہے ، اب ہم ذیل میں اس مرقعِ جمیل کے چند دلکش عناصر اپنے انداز میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

اپنی تحریر کی ابتدا حضرت نے اس بنیاد پر اٹھائی ہے کہ  عام طور پرہر بڑی شخصیت کے کچھ اسباب ہوتے ہیں مگر حضور حافظ ملت کے پاس نہ بہ ظاہر خاندانی وجاہتیں تھیں اور دولت و اقتدار کا کوئی سہارا تھا ،مگر اس کے ساتھ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آپ کے پاس خاندانی علمی اور روحانی  قدریں تھیں ، نالۂ نیم شبی کی جاں گسل اثر آفرینیاں اور خاندانی دعاؤں کی رازداریاں تھیں ، مالی تنگی کی وجہ سے اپنے والد گرامی استاذ الحفاظ حافظ غلام  نور محمد علیہ الرحمہ  سے حفظ مکمل کرنے کے بعد تحفیظ قرآن اور امامت و خطابت کی ذمہ داریاں سنبھال لیں،  ظاہری اسباب کے فقدان کی وجہ سے ایک باعمل حافظِ قرآن دل مسوس کر رہ جاتا ہے مگر دعاؤں کی اثر آفرینی رنگ لاتی ہے، آپ نے پہلے جامعہ نعیمیہ مراد آباد میں تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد صدر الشریعہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی قدس سرہ کی بارگاہ میں اجمیر معلیٰ میں ۹ برس علمی فیضان حاصل کیا ، خواجۂ خواجگاں سلطان الہند کی عظیم خانقاہ کے روحانی فیضان سے بھی بھر پور استفادہ فرمایا۔

علمی اور روحانی فیوض و برکات سے سرشار ہو کر آپ مبارک پور بحیثیت صدر مدرس تشریف لائے ، تعمیر و دفاع کے مراحل سے گزرتے ہوئے آپ نے مدرسہ اشرفیہ مصباح العلوم کو ایک برس کی قلیل مدت میں دار العلوم اشرفیہ  مصباح العلوم بنا دیا، جس کا تاریخی نام ”باغ فردوس“ ہے، آپ نے محنت ولگن سے تعمیری اور تدریسی خدمات انجام دیں ،دنیا کے دینی ،علمی ، تصنیفی اور تبلیغی گوشوں میں آپ کے تلامذہ دین و سنیت کے فروغ کے لیے تاریخی کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ حضرت رئیس التحریر نے بر وقت یہ شعر نقل فرمایا ہے؂

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو

شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا

اس کے بعد حضرت رئیس التحریر نے آپ کی سادگی اور خود داری اور خود اعتمادی کا بڑے جذباتی اندازسے بیان کیا ہے ۔آپ کے یہاں ہر مخالفت کا جواب کام تھا ،بقول آپ کے :مخالفتوں کی پیہم یلغار میں بھی صبر و شکیب اور  ضبط  وتحمل کا دامن نہ چھوڑا ۔آپ مزید لکھتے ہیں : موٹا جھوٹا کھاتے اور پہنتے ، تکلف و تصنع اور ظاہری شان و شوکت ، رکھ رکھاؤ اور خود نمائی کا کبھی تصور بھی نہ آنے دیا ، اس کے باوجود اس سادگی پر ہزاروں رعنائیاں قربان تھیں اور دل بے ساختہ کھنچ آتے تھے، جو بات کہتے دل سے کہتے اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ انھیں آنکھوں سے لگایا جاتا اور دلوں میں جگہ دی جاتی ۔

مزید فرماتے ہیں : اپنے عالمانہ وقار پر حرف نہ آنے دیتے ، سفر وحضر میں شلوار ، شیروانی ، عمامہ اور عصا کا برابر استعمال فرماتے “۔ آپ مجلس میں گفتگو شگفتہ بعض اوقات ظریفانہ مگر سنجیدہ  فرماتے۔“(ماہ نامہ اشرفیہ، حافظ ملت نمبر، اشاعت ثانی، ص:۴۸۳)

خادم نے حضرت رئیس التحریر کو بہت قریب سے دیکھا ہے حضور حافظ ملت کے عرس میں تقریباً ہر برس مبارک پور تشریف لاتے تھے ، مہمان خانے میں آپ کا قیام رہتا ،جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے نائب ناظم حضرت مولانا محمد ادریس بستوی کا قیام بھی آپ کے ساتھ رہتا تھا، اس دوران متعدد نشستوں میں آپ کے پاس بیٹھنے اور علمی اور فکری استفادہ کرنے کے مواقع میسر آتے ۔

جامعہ اشرفیہ سے متعلق چند  اہم کارنامے:

خلیج کا بحران:عراق کے صدرصدام حسین کے خلاف جنگ جاری تھی، دنیا بھر میں اس کی گونج سنائی دے رہی تھی، ۱۹۹۰ء میں ۱۱۴ صفحات پر مشتمل ایک کتاب ”خلیج کا بحران“ مرتب ہوئی، اس کے مرتب یٰسٓ اختر مصباحی اور مبارک حسین مصباحی  ہیں۔ ناشر المجمع الاسلامی مبارک پور ہے۔ اردو دنیا میں کتاب کے بڑے اچھے اثرات مرتب ہوئے۔

رئیس التحریر نے ہماری خواہش پر ”افتراق بین المسلین کے اسباب “ پر گراں قدر  تقدیم رقم فرمائی ۔ جس کے لیے ہم ایک بار پھر ہدیۂ تشکر پیش کرتے ہیں۔

 آپ مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے سیمیناروں میں پابندی سے شرکت فرماتے، عام طور پر کسی  ایک نشست کی صدارت بھی فرماتے اور سیمینار کے آخر میں گراں قدر تاثرات عطا فرماتے۔ آپ کے وقیع تاثرات کی تلخیصات ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پورمیں شائع ہوتی رہیں ۔

آپ چند برس قبل جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی مجلسِ شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے، سالانہ پابندی سے اس کی میٹنگ میں شرکت فرماتے۔

آپ ماہنامہ اشرفیہ مبار ک پور کو بھی قدر کی نگاہوں سے دیکھتے۔ آپ کے مضامین بھی شائع ہوتے ، مجاہد آزادی استاذ مطلق علامہ فضل حق خیر آبادی بھی آپ کے فکر و قلم کا اہم موضوع رہا ،آپ نے خود بھی بہت لکھا اور دیگر اہل قلم سے بھی لکھوانے کی ترغیب دیتے ، آپ ہی کی ترغیب پر ہم نے ماہنامہ اشرفیہ مبار ک پور”انقلاب 1857 نمبر “اگست ستمبر ۲۰۰۸ءنشرکیا ،یہ نمبر ہند وپاک سے شائع ہوا۔

ایک بار آپ ذمہ داروں سے گفتگو کر کے جامعہ اشرفیہ مبار ک پور تشریف لائے ، آپ نے حضرت مولانا محمدادریس بستوی کو بھی مدعو کیا، جامعہ اشرفیہ کے سر براہ اعلیٰ حضرت علامہ شاہ عبد الحفیظ، حضرت علامہ محمد احمد مصباحی، سراج الفقہا حضرت مفتی محمد نظام الدین  رضوی ، راقم سطور مبارک حسین مصباحی اور دیگر چند اساتذہ شارح بخاری دار الافتا جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں جمع ہوئے، تلاوت سے مجلس کا آغاز ہوا اور آپ نے حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی کی علمی اور مجاہدانہ شخصیت پر روشنی ڈالی اور مشاورت کے بعد یہ طے پایا کہ ماہنامہ اشرفیہ مبارک پور کی جانب سے ایک ضخیم علامہ فضل حق خیر آبادی  نمبر شائع ہو، مضامین کے جمع کرنے اور ادارتی ذمہ داری احقرمبارک حسین مصباحی کو سونپی گئی ، اور رقم جمع کرنے کی ذمہ داری حضرت مولانا محمد ادریس بستوی کو عطا کی گئی۔ تقریباً ۵00 صفحات کا نمبر تو تیار ہو گیا کمپوزنگ بھی فائنل ہے مگر باقی ذرائع کے فقدان کی وجہ سے منتظرطباعت ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ غیب سے مدد فرمائے اور اگر ہند و پاک میں کوئی ادارہ اشاعتی ذمہ داری قبول فرمائےتو ہم کمپوز شدہ نمبر دے سکتے ہیں۔

تنظیم ابناے اشرفیہ مبارک پور کا مجھے (احقر مبارک حسین مصباحی) جنرل سکریٹری منتخب کیا گیا ۔ بفضلہٖ تعالیٰ اس تنظیم سے اپنے مقاصد کے پیشِ نظر بہت سے کام ہوئےاسی کےزیر اہتمام” بین الاقوامی میڈ یا سیمینار“۱۸، ۱۹ مئی ۲۰۰۶ء  امام احمد رضا لائبریری کے سیمینار ہال میں منعقد ہوا ، اس میں میڈیا کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ تنظیم ابنائے اشرفیہ کے منصب صدارت پر جامعہ اشرفیہ مبار ک پور  کے سربراہِ اعلیٰ علامہ شاہ عبد الحفیظ عزیزی دامت بر کا تہم القدسیہ فائز ہیں ۔ اس سیمینار میں ملک کے اکابر علما، یونیورسٹیز کے دانش ور اور نام ور صحافیوں کو مدعو کیا گیا،خصوصی طور پر رئیس التحرير علامہ یٰسٓ اختر مصباحی علیہ الرحمہ نائب صدر تنظیم ابناے اشرفیہ  ایک ذمہ دار کی حیثیت سے جلوہ گر تھے ۔

امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات آپ کی معروف کتاب ہے، رضا اکیڈمی ممبئی نے بطور تبریک امام احمد رضا ایوارڈ جولائی ۱۹۹۱ء میں آپ کو پیش کیا ، اس موقع پر مبلغ گیارہ ہزار روپے اور توصیف نامہ پیش کیا، حضرت رئیس التحریر نے یہ رقم اپنے مادر علمی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کو نذر کر دی۔

ہم جب دہلی حاضر ہوتے تو گا ہے بہ گا ہے آپ سے شرف نیاز حاصل کرنے کے لیےآپ کے ادارہ دار القلم  ذاکر نگردہلی بھی حاضری کا شرف حاصل کرتے ، ایک بار ہم دارالقلم کے ذیلی ادارہ جامعہ قادریہ کے سالانہ اجلاس میں مدعو تھے ۔ متعدد بار ہم نے اپنے مصباحی برادران کے ساتھ تنظیم ابناے اشرفیہ مبارک پور کی نشستیں بھی کیں جن کی رپورٹیں اخبارات اور رسائل میں شائع ہوئیں ،متعدد مواقع پر ہم نے دار القلم دہلی میں قیام کرنے کا شرف حاصل کیا۔ہم اکثر حضرت سے رابطے میں رہتے، آپ اکثر بذریعہ موبائل گفتگو فرماتے اور دیر دیر تک نوازتے۔

(۱)- ہم پندرہ برس سے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان دہلی کے ممبر ہیں، ایک بار حضرت رئیس التحریر  بھی منتخب ہوئے،اس دوران ہم دار القلم نئی دہلی پہنچ جاتے ، ایک بار حضرت  کےحکم پر جامعہ ملیہ اسلامیہ پرو فیسراختر الواسع کے آفس حاضر ہوئے اور ہم تینوں  ایک ساتھ میٹنگ میں شریک ہوئے ۔

آپ کی موجودگی میں ہم نے ملک کے مختلف سیمیناروں اور کانفرنسوں میں شرکت کی، بروقت چند مقامات یاد آرے ہیں۔

(۲)-حضرت صدر الافاضل سیمینار و کانفرنس ، تلسی پور گونڈہ ۔

(۳)-علامہ  فضل حق خیر آبادی سیمینار ، دہلی ۔

(۴)-جشن شارح بخاری [چاندی سے وزن کیا گیا] حج ہاؤس ممبئی۔

(۵)-شعیب الاولیا سیمینار براؤں شریف ضلع سدھارتھ نگر ۔

(۶)-علامہ فضل حق خیر آبادی سیمینار اور ایک کنونشن  میں لکھنؤ۔

(۷)-علامہ فضل حق خیر آبا دی سیمینار ، ممبئی۔

(۸)-کر نیل گنج، گونڈہ متعد سیمیناروں اور کانفرنسوں میں ۔

(۹)-صد سالہ جشن مفتی اعظم را جستھان علامہ مفتی  محمد اشفاق حسین نعیمی قدس سره ۔

(۱۰)- اجمل العلما سیمینار، زیر اہتمام مدرسہ اجمل العلوم، سنبھل۔

بروقت جو ذہن میں آیا نوٹ کر دیا ورنہ تفصیلات بہت ہیں۔

اکابر سے بے لوث محبتیں:

آپ اپنے اکابر سے بھی خوب محبت فرماتے تھے، ان میں چند کے اسماے گرامی اس طرح ہیں:

(۱)- ان میں ایک بزرگ حضور حافظ ملت کے ہم درس سابق شیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ مبارک پور، شمس العلما حضرت علامہ قاضی شمس الدین احمد جعفری رضوی جون پوری قدس سره ۔ موصوف معقولات و منقولات کے جامع اور میدان تدریس کے یگانۂ روز گار تھے ۔ آپ کی مجلسیں بڑی پر بہار اور معلومات افزا ہوتی تھیں۔ آپ کا وصال یکم محرم الحرام : ۱۴۰۱ھ/۹ نومبر ۱۹۸۰ء میں  ہوا،مزار اقدس جون پور یوپی میں ہے ۔

(۲)-3 نومبر 1994ء میں ”شارح بخاری سمینار“ اداره تحقیقات حافظ ملت کے زیر اہتمام سینٹرل بلڈنگ جامعہ اشرفیہ کے وسیع ہال میں منعقد ہوا۔ دراصل ادارہ تحقیقات کا بنیادی نشانہ جلالۃ العلم حضور حافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مراد آبادی کی عظیم شخصیت وفکر ہے، آپ کی وسیع خدمات میں تدریس اور شخصیت سازی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ دبستان حضور حافظ ملت کے تلامذہ اور فیض یافتگان کی فہرست انتہائی طویل ہے، جو جہان سنیت میں اپنے اپنے شعبوں میں یکتاے روزگار ہوئے ۔ بر وقت ارباب حل و عقد نے یہ طے کیا کہ امسال شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی کی عظیم علمی اور دینی شخصیت پر سیمینار کیا جائے ، بفضلہٖ تعالیٰ اس موقع پر طالبان علوم نبویہ کے درمیان مسابقاتی مضمون نگاری کے پروگرام کے نتائج بھی پیش کیے گئے ۔ اس پروگرام میں حضرت شارح بخاری قدس سرہ کی شخصیت اور وسیع خدمات پر اہل علم و فضل نے اپنے گراں قدر تاثرات کا اظہار فرمایا۔ سردست ہم اکا بر شرکا کی فہرست پیش کرتے ہیں۔

میرِ مجلس شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ۔

عزیز ملت حضرت علامہ شاہ عبد الحفیظ سربراہِ اعلیٰ جامعہ اشرفیہ مبارک پور۔

محدث کبیر حضرات علامہ ضیاء المصطفیٰ قادری سابق صدر المدرسین جامعه اشرفیہ مبارک پور۔

مفتی اعظم مہاراشٹر حضرت مفتی مجیب اشرف رضوی علیہ الرحمہ (م:۶ اگست ۲۰۲۰ء)

صدر العلما حضرت علامہ محمد احمد مصباحی ،ناظم تعلیمات جامعہ اشرفیہ مبار ک پور۔

رئیس التحریر حضرت علامہ یٰسٓ اختر مصباحی، بانی و مہتمم دار القلم دہلی(م:۷ مئی ۲۰۲۳ء)

مبلغ اہل سنت حضرت مولانا محمد عبد المبین نعمانی ، مہتمم دار العلوم قادریہ چر یا کوٹ۔

حضرت مولانا رضوان احمد رضوی مصباحی، سابق شیخ الادب شمس العلوم، قصبہ گھو سی۔

حضرت مولانا الحاج شفیق احمد علیہ الرحمہ ،سابق استاذ شمس العلوم، قصبہ گھوسی۔

 شہزادۂ  صدر الشریعہ حضرت مولانا فداء المصطفیٰ قادری ، سابق استاذ شمس العلوم، قصبہ گھوسی۔

مورخ  اسلام حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عاصم قادری، شیخ الحدیث مدرسہ  شمس العلوم، قصبہ گھوسی۔

حضرت مولانا نصر اللہ مصباحی علیه الرحمه ،سابق استاذ مدرسہ فیض العلوم ،قصبہ محمد آباد گوہنہ۔

 حضرت مولانا عارف اللہ مصباحی، سابق استاذ مدرسہ فیض العلوم ،محمد آبادگوہنہ ۔

معروف ادیب حضرت مولانا محمد شہاب الدین رضوی، سابق مدیر اعلیٰ ماہنامہ سنی دنیا بریلی شریف۔

 محترم المقام حضرت مولانا ڈاکٹر شکیل احمد مصباحی علیہ الرحمہ قصبہ گھوسی۔

 شہزاده شارح بخاری عالی جناب ڈائر محب الحق قادرى عليه الرحمہ۔

نظامت کے فرائض سراج الفقہا حضرت مفتی محمد نظام الدین رضوی صدرشعبہ افتا جامعہ اشرفیہ نے انجام دیے۔ اس اجلاس میں ۱۸۵ طلبہ کے ذریعہ تحریر کردہ مضامین کے نتائج پیش کیے گئے اور انھیں بزرگوں کے ہاتھوں انعامات سے سرفراز کیا گیا۔

اس وقت شارح بخاری سیمینار کو لگ بھگ انتیس برس ہو رہے ہیں۔ اس طویل عرصے میں چند شرکا دنیا کو دائمی الوداع کہہ گئے، اللہ تعالیٰ ان تمام کی مغفرت فرمائے اور جو باقی ہیں انھیں عمر خضر عطا فرمائے۔ بہر حال یہ ایک سچائی ہے کہ رئیس التحرير سیمیناروں اور علمی مجالس میں بڑے کام کی باتیں ارشاد فرماتے تھے ۔

رئیس التحریر علامہ یٰسٓ اختر مصباحی نےبہ عنوان ” شارح بخاری“ ایک گراں قدر کتاب مرتب فرمائی جو دائرة البرکات قصہ گھوسی سے شائع ہوئی ۔ اس میں فقیہ اعظم ہند مفتی محمد شریف الحق امجدی کے احوال اور مختلف علوم و فنون میں آپ کی وسیع خدمات کا جائزہ بڑے فکر انگیر انداز میں لیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی ضرورت ”معارف شارح بخاری “کے لیے قلم کاروں کو مواد اور مرکزی گوشوں کو پیش کرنا تھا ۔

 معارف شارح بخاری : یہ دستاویزی مجموعۂ مضامین بڑے سائز کے گیارہ سو صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس کے مرتب چار حضرات ہیں: محمد احمد مصباحی، یٰسٓ اختر مصباحی، عبد الحق رضوی اور مبارک حسین مصباحی۔ اس ضخیم  مرقع جمیل پر شرف آغاز بعنوان ” نقوش شارح بخاری“ چودہ صفحات پر مشتمل آپ کے زرنگار قلم نے سپردِ قرطاس  فرمایا ہے۔

شارح بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ سے گہرے روابط تھے ، باہمی معاملات گہرے اور رازدارانہ تھے ، ۶ صفر ۱۴۲۱ھ/۱۱ مئی ۲۰۰۰ء کو حضرت شارح بخاری  کا وصال پر ملال ہو گیا۔ بر صغیر میں غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی ، جرائد و اخبارات نے اپنے اپنے انداز سے مرثیے لکھے، اس موقع پر حضرت علامہ یٰسٓ اختر مصباحی علیہ الر حمہ ماہ نامہ کنز الایمان دہلی کے مدیر اعلیٰ تھے ،آپ نے ”و ہی چراغ بجھا جس کی لوقیامت تھی“کے عنوان سے لکھنے کا حق ادافرمادیا اور ہمہ گیر علمی اور فقہی شخصیت کا بڑی حد تک احاطہ کر لیا ۔اسی اداریے میں آپ نے لکھا ہے:

”اشرفیہ مبارک پور کے صدر گیٹ سے اس کی مرکزی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے دائیں بائیں جانب شمال و جنوب میں جہاں آج خوبصورت سبزہ زار ہے، اسی شمالی سبزہ زار کے اندر ۱۹۸۰ء میں ایک بار شارح بخاری نے طلبہ کو جمع کر کے انھیں نصیحت و ہدایت دیتے ہوئے ہم دونوں [مولانا یٰسٓ اختر مصباحی اور مولانا افتخار احمد قادری مصباحی]کے بارے میں جس مشفقانہ خوردنوازی کا اظہار فرمایا اس کے سامع و گواہ اس وقت کے سیکڑوں طلباے اشرفیہ ہیں۔ شارح بخاری نے فرمایا: ان کا کہا ہوا میرا کہا ہوا ہے ۔ یہ دونوں میری آنکھیں ہیں۔ اگر مجھے استطاعت ہوتی تو میں ان دونوں کو سونے سے تو لتا ۔“ (نقوشِ فکر، ص:515-16 تا۱۷)

اہل سنت کی ایک بلند قامت ہستی جسے ہند و پاک میں اس وقت نہایت ممتاز اور نمایاں حیثیت حاصل تھی ۔ اس کے داغ مفارقت سے نہ جانے کتنے دل زخمی ہو چکے ہیں۔ نہ جانے کتنوں کے حوصلے ٹوٹ چکے ہیں  اور سب سے بڑا سانحہ تو یہ ہے کہ مادر علمی الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور کا دار الافتاسونا ہو گیا، جس کے درو دیوار سے یہ گھٹی گھٹی سی پر سوز آواز سنائی دے رہی ہے کہ؂

ویراں ہے میکدہ خم و ساغر اداس ہیں                تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے

(۳)-حضرت علامہ ارشد القادری بلا شبہ قائد اہل سنت تھے ،آپ نے عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ اور تحریک و ارشاد کے جو فرائض انجام دیے خاک ہند میں ان کی ایک مثال ہے۔ حضرت علامہ یٰسٓ اختر مصباحی نے ان کی رحلت پر ماہنامہ کنزالایمان دہلی ربیع الآخر و جمادی الاولى 1۴23 ہ/ جولائی 2002ء میں معلومات افزا اداریہ تحریر فرمایا تھا ؛عنوان ہے” مرقدِ ارشد ہو تجھ پر رحمت حق کا نزول“ آپ تحریر فرماتے ہیں:

”کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے جن کو                  ہم ڈھونڈھنے  نکلیں گے مگر پا نہ سکیں گے

وہ قلوب اہل سنت پر اپنی عظیم الشان خدمات اور کارناموں کے ایسے نقوش ثبت کر کے اس جہان سے رخصت ہوئے کہ صدیوں کا سفر اور گردش لیل و نہار مدتوں بعد بھی انھیں محو کرنے میں شاید کامیاب نہ ہو سکے۔ انھیں دیکھنے والے لاکھوں افراد جب ان کی بےقرار زندگی اور ملت اسلامیہ کے لیے ان کے سوز دروں کا ذکر کریں گے تو آنے والی نسلیں انھیں حیرت و استعجاب سے سنیں گی ۔ اور خود ان کی داستان حیات و خدمات سنانے والے افراد اپنے اوپر فخر کریں گے کہ ہم نے دین و دانش ، فکر وفن ، لوح و قلم اور تنظیم و تحریک کے اس سیماب صفت پیکر جمیل کو اپنی ان آنکھوں سے دیکھا ہے  اور اس کی سحر طر از شخصیت کا مشاہدہ کر کے اپنے لیے اعزاز و افتخار کا سامان جمع کر لیا ہے ۔ گویا زبانِ حال سے علامہ ارشد القادری کا نقارہ ٔرحیل اس سوز و ساز کے ساتھ اب خاموش ہو چکا ہے کہ؂

آنے والی نسلیں تم پر فخر کریں گی ہم عصرو              تم جب ان سے یہ کہو گے ہم نے فراق کو دیکھا ہے

 آپ مزید لکھتے ہیں:

”راقم سطور لگ بھگ تیس سال سے حضرت علامہ ارشد القادری کے افکار و خیالات، احوال و معاملات اور بہت ساری دینی علمی وتبلیغی و جماعتی سرگرمیوں سے نہ صرف واقف بلکہ کئی اہم مراحل میں آپ کا معاون اور شریک سفر بھی رہا ہے۔ جس کا کچھ اندازہ میرے نام علامہ کے لکھے ہوئے ان خطوط سے اچھی طرح ہو سکتا ہے جو میرے ماہنامہ ”حجاز جدید دہلی“ میں آج سے تقریبا گیارہ سال پہلے شائع ہو چکے ہیں۔“

حضرت علامہ ارشد القادری نے امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات پرتقدیم  کتاب اور مصنف کا تعارف کے عنوان سے ایک گل ریز اور فکر انگیز طویل تحریر سپردِ قلم فرمائی ہے، ذیل کے دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیے، آپ لکھتے ہیں:

” حضرت مولانا موصوف اردو اور جدید عربی پر یکساں قدرت رکھتے ہیں ۔ اردو تو ان کی مادری زبان ہے، لیکن عہد طالب علمی ہی سے عربی ادب کے ساتھ جو ان کا شغف رہا ہے اس نے رفتہ رفتہ انہیں عربی زبان کا بہترین ادیب بنا دیا۔ اس کے علاوہ انہیں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں بھی تقریباً ڈھائی سال تک رہنے کا موقع ملا، جہاں انہوں نے جدید عربی ادب کا گہرا مطالعہ کیا  اور شب و روز کی محنت شاقہ سے اتنی مہارت حاصل کر لی کہ اب وہ اہل زبان کی طرح جدید عربی میں تحریر و تقریر کی بے محابا قدرت رکھتے ہیں۔“(امام احمد رضا اور رد بدعات و منکرات، ص:۱۵)

آپ کی تحریکی صلاحیتوں کا مشاہداتی جائزہ رقم فرماتے ہیں:

”ورلڈ اسلامک مشن کے ایک مؤقر وفد نے جمعیۃ الدعوۃ الاسلامیۃ العالمیہ کی دعوت پر اس کی تیسری بین الا قوامی اسلامی کانفرنس منعقده ۱۵ تا ۲۰ ستمبر ۱۹۸۶ء طرابلس ، لیبیا میں شرکت کی، دہلی سے لندن اور وہاں سے طرابلس پہونچ کر وفد نے کانفرنس کی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ اور لندن ہوتے ہوئے ہماری واپسی ہوئی، لیبیا اور برطانیہ میں تین ہفتہ تک مولانا موصوف اور راقم سطور کا ساتھ رہا۔ اس سفر میں بہت قریب سے ان کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کا موقع ملا متعدد و فود و شخصیات سے ملاقات، بین الاقوامی مسائل پر گفتگو، اور دعوت و تبلیغ اسلام کے لیے نئی نئی راہیں نکالنے کے لیے ان کا ذہن جس تیزی و روانی اور وسعت و جامعیت کے ساتھ کام کرتارہا اس کا اعتراف سارے شر کاے وفد نے کیا اور تحسین و آفرین کی نظروں سے دیکھا۔(امام احمد رضا ، رد بدعات و منکرات، تقدیم، ص:۱۷)

(۴)-”اہلِ سنت کے پیامی ! اے نظامی! الوداع

اس عنوان سے آپ نے ماہ نامہ ”حجاز جدید دہلی“ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۱ھ/نومبر ۱۹۹۰ء کا غم انگیز اداریہ تحریر فرمایا تھا۔ در اصل ۲۹ اکتوبر ۱۹۹۰ء کو صبح گیارہ بج کر چایس منٹ پر حضرت علامہ مشتاق احمد نظامی انتقال فرما گئے تھے۔

داغِ فراق صحبتِ شب کی جلی ہوئی              اک شمع رہ گئی تھی سو وہ بھی خموش ہے

آپ اپنے اداریے میں یادوں کے نقوش ابھارت ہوئے لکھتے ہیں:

” دار العلوم اشرفیہ مبارک پور ضلع اعظم گڑھ ، یوپی سے فراغت کے بعد ۱۳۹۱ھ/ 19۷1ء میں علامہ مشتاق احمد نظامی کے قائم کردہ دارالعلوم غریب نواز الٰہ آباد میں مجھے ایک سال رہنے کا اتفاق ہوا۔ اس وقت میں نے آپ کو بہت قریب سے دیکھا۔ اور آپ کے علم و فضل ، اخلاص و اخلاق ، اور ذہانت و طباعی کا مشاہدہ کیا۔ ضیافت و میزبانی تعظیم و توقیر اور شفقت و خورد نوازی کے بہت سے مناظر میں نے دیکھے ،کسی کا بھی ذکر آپ کے سامنے آجائے تو تعریف یا خاموشی کے سوا آپ کی زبان سے کسی کی غیبت میں نے کبھی سنی ہی نہیں ۔

آپ آگے رقم طراز ہیں:

ہاں ! وہ شیر نیستانِ اہل سنت تھا۔ وہ میدان خطابت کا شہسوار تھا۔ وہ بولتا تھا تو مرد مجاہد کا گرم خون اس کی رگوں میں برق تپاں بن جایا کرتا تھا۔ اس کے چہرے پر فاروقی عظمت و جلال کی لکیریں ہویدا ہو جاتی تھیں۔ اس کے ہاتھ ہوا میں اس طرح لہراتے کہ ضربت ید اللہی کا نقشہ چشم تصور کے سامنے پھر جاتا۔ اور اس کے لہجے کی کاٹ ایسی تھی کہ ذوالفقار حیدری کا گمان ہونے لگتا۔

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں

فکر و قلم کا رخ بھی ملاحظہ فرمائیے:

 پاسبانِ ملت : وہ زبان کے ساتھ قلم کے بھی دھنی تھے۔ انھیں خطابت کے ساتھ صحافت کا بھی اعلیٰ ترین ذوق تھا۔ جس کا مظاہرہ انھوں نے ماہنامہ پاسبان الٰہ آباد کے ذریعہ کیا اور ہفت روزہ تاجدار بمبئی کو بھی وسیلہ بنایا۔ وہ ان دونوں جریدوں کے بانی بھی تھے اور مدیر اعلیٰ بھی۔ اسی لیے انھیں پاسبان ملت بھی کہا جاتا ہے اور تاجدار ملت بھی ۔ انھوں نے عصری تقاضوں کو لبیک کہا اور بالغ نظری کا ثبوت بھی دیا۔ ماہنامہ پاسبان کے شذرات آج بھی ہماری جماعتی زندگی کی گراں قدر تاریخی متاع ہیں۔ آپ کی بیش قیمت تحریروں کو یکجا کر کے شائع کر دیا جائے تو آج کی نئی نسل بھی ان سے مستفید ہوسکتی ہے اور ان تحریروں کے آئینہ میں اپنے ماضی کا مطالعہ کر سکتی ہے۔ خون کے آنسو ، ہند کے راجہ ، شیش محل، نسیم رحمت، فردوس ادب اور کئی ایک کتا بیں بھی آپ کی شہرت و مقبولیت میں چار چاند لگا چکی ہیں۔ ماہنامہ پاسبان کا مجدد اعظم نمبر ، محدث اعظم نمبر ، عقائد اہل سنت نمبر کا ہماری سنی لائبریریوں کی زینت ہیں۔ انھیں از سر نو شائع کیا جائے تو ان کی افادیت اور بڑھ جائے۔ آخری عمر میں تذکرہ کے نام سے اپنی یاد داشتوں کا مجموعہ مرتب کر رہے تھے۔ معلوم نہیں اس کی تکمیل ہوئی یا نہیں۔

چند آخری باتیں:

یہ ایک سچائی ہے کہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے نام ور فضلا میں حضرت رئیس التحریر کا اسمِ گرامی کافی بلندی پر ہے ۔  اس طویل عرصے میں آپ نے تصنیف و تالیف اور قیادت و صحافت کی گراں قدر خدمات انجام دیں، اب تک مختلف موضوعات پر پچاس سے زائد گراں قدر کتا بیں مرتب فرما چکے ہیں ۔  سر دست آپ کی تین ضخیم کتابیں  : (۱) سلسلہ شاہ ولی اللہی-علمی اور دینی احوال و آثار۔(دو ضخیم جلدیں) (۲) علماے فرنگی محل (۳) حیات صدر الافاضل اور دیگر تحریریں  بھی ترتیب و اشاعت کی منتظر ہیں۔

بفضلہٖ تعالی آپ کے تین فرزند ہیں ، اہلیہ  محترمہ اور دیگر اعزہ  واقارب ہیں۔  اللہ تعالیٰ سب پر اپنے خصوصی فضل و کرم کی بارش فرمائے۔ آمین۔