بلال احمد نظامی مند سوری
گذشتہ چنددہائیوں سے بھارتی مسلمانوں میں تنظیمی اورتحریکی شعور بیدارہوا ہے،اورملک کےکونےکونےمیں مختلف تنظیمیں اور تحریکیں وجودپذیرہوئی ہیں۔ان کی خوبیاں بھی ہیں اور کچھ خامیاں بھی۔ ظاہرسی بات ہے حضرت انسان جب خوبیوں اور خامیوں کا پتلا ہے تو اس کی تشکیل کردہ تنظیمیں اس سےمستثنیٰ نہیں رہ سکتیں۔خوبیوں اور خامیوں سےقطع نظران کی ترجیحات کی بات کریں تو ترجیحات کےغلط تعین میں تحریکات نےبھی کچھ نہ کچھ اپناحصہ ڈالاہے۔ساتھ میں ”بھیڑ چال“پربھی عمل کرنےمیں کسی سےپیچھےرہناگوارہ نہیں کیا ہے۔
تنظیم وتحریک کی ناکامیوں کاتجزیہ کرنےپربہت سےاسباب سامنےآئیں گے۔یہاں سب کااحاطہ کرنامقصدنہیں بل کہ صرف ترجیحات اور اس سےمتعلقہ معاملات کوسپردقرطاس کرنے کی کوشش کی ہے۔
علاقائی سطح پر جذبات کی رو میں چندتنظیمیں وجودپذیرہوتی ہیں،جوش،امنگ اورجذبات کےزیراثر تنظیمی اغراض ومقاصدکاایک پمفلٹ تیار ہوتاہے،تخلیقی کاوش سےزیادہ دیگرتنظیموں کی تقلید اور ان کےاغراض ومقاصدکواپنےایجنڈےاور پمفلٹ میں شامل کیا جاتا ہے۔
جس کانتیجہ یہ ہوتاہےکہ دوسروں کےنقل کردہ اغراض و مقاصد محض کاغذ کے ٹکڑوں پر سجے سنورے منہ چڑھاتے رہتے ہیں۔
ایک ہی علاقےمیں چند تنظیمیں ہیں چندہی کےاغراض و مقاصد مشترک ہیں۔نہ کوئی ترجیحی مقصداورنہ کوئی منصوبہ سازی۔ بعد ازاں ہوتایہ ہےکہ 10۔12 مقاصدمیں سےکسی ایک پربھی عمل درآمدنہیں ہوتا،صرف سال میں چندمیٹنگیں کرتےہیں اورایک سالانہ جلسہ کرکےخوش فہمی کی دنیامیں بسیرا ڈال کرسمجھتےہیں کہ نصف دنیاکوفتح کرلیا۔
دوسری جانب توجہ کرتےہیں تونظرآتاہےکہ ایک تنظیم غربا کےلیےراشن کٹ کااہتمام کررہی ہےتودوسری اورتیسری تنظیم بھی اسی کام میں لگ جائےگی۔نیشنل تنظیموں کے مقصدی ایجنڈےمیں 25۔30 اغراض ومقاصد ہوتےہیں۔لیکن کام شایدچندایک پرہی بہ مشکل ہوتا ہے۔ کسی ایک تنظیم نےاپنےلیے اگرکسی میدان عمل کاانتخاب کرکے جدوجہد اورکاوشیں کرکےکچھ نہ کچھ کامیابی سےہم کنارہوئی ہے تودیگرتنظیمیں بھی اسی جانب پیش رفت کرےگی تاکہ وہ بھی جلد از جلد کامیاب ہوجائے۔
لیکن کامیابی ملےیانہ ملےالبتہ تضیع وقت اورتضیع مال کا تمغہ ضرورملےگاجس کےلیےجواب دہ ہونالازمی ہے۔
بہت سی تنظیمیں ایسی بھی ہیں جن کاکسی گلی یاکاغذ کے ٹکڑے کےسواکہیں وجودنہیں ہوتالیکن ان کےنام ”آل انڈیا اورانٹرنیشنل“ ہوتے ہیں۔گویاانھیں ملی درداوربقاےملت کےلیےکوشاں رہنے سے زیادہ اپنےنام کےساتھ ”آل انڈیا“ یا”انٹرنیشنل“. تنظیم کے لاحقے لگانے کاعجیب وغریب شوق چڑھ آیاہے جس کی تکمیل گلی محلےکی ”آل انڈیا“تنظیموں سےہوتی ہے۔
اس کاایک نقصان یہ ہےکہ ایسےافراد دیگرتحریکوں وتنظیموں کے کاموں میں بھی رکاوٹ کاسبب بنتےہیں نیزملی وجماعتی انتشار کا سبب بن کر لاشعوری طورپرملت کو زَک ونقصان پہنچانےکاکام کرتے ہیں۔
تنظیموں کی ناکامی کاایک سبب یہ بھی ہےکہ ان کے مقاصد وعزائم ترجیحی بنیادوں پرنہیں ہوتےہیں اور نہ عوام کو دینے کے لیے ان کےپاس کوئی واضح مقصدہوتاہے۔
قائد اہل سنت علامہ ارشدالقادری ناکامیِ تنظیم کے سبب کا ذکر کرتےہوئےلکھتےہیں:”ماضی میں اہل سنت کی بہت سی تنظیمیں صرف اس لیے بے اثر ہوکررہ گئیں کہ ہمارےپاس عوام کومصروف رکھنے کے لیےکوئی آسان،مختصراور پرکشش لائحہ عمل نہیں تھا“۔(شعوروآگہی، ص 234)
مسلمانان ناگپور کی طرف سےبنام اہل سنت ایک اپیل نامہ رقم کرتےہوئےقائداہل سنت لکھتےہیں:
”ہم صرف اس لیے پامال ہوتے رہے کہ نہ ہمارا کوئی جماعتی نظام ہے اور نہ کوئی تنظیمی مرکز۔ہم جہاں بھی ہیں ، بکھرے ہوئے ہیں، الگ الگ اکائیوں میں ہیں ، ہمارے ہرذی اثر شخصیت کی خود اپنی ایک آل انڈیا جماعت ہے،جو چند افراد کے ایک گروپ میں محدود ہوکر رہ گئی ہے۔نہ ملک میں اس کی ضلعی اور ریاستی شاخیں ہیں اور نہ ملک گیر پیمانے کا کوئی مرکزی دفتر۔ ان حالات میں ہم سنی عوام کے لیے سب سے پیچیدہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اہل سنت کی نام نہاد آل انڈیا تنظیموں میں سے کس تنظیم کو اپنی نمائندہ تنظیم قرار دیں اور کسے اپنا حریف سمجھیں ، کیونکہ ان تنظیموں کے پیچھے جتنے بھی قائدین ہیں،وہ سارے کے سارے ہمارے مذہبی رہنماؤں کی صف میں ہیں“۔(شعوروآگہی،168)
قائداہل سنت کےزمانےمیں تنظیمی حالات اس قدر ناگفتہ بہ تھےتویقین جانیےآج کےحالات اس سےبھی کہیں زیادہ خراب ہیں۔
اہل سنت وجماعت نےتنظیمی وتحریکی سطح پرایک سنہرادور ”جماعت رضائےمصطفی“ کی شکل میں دیکھاجس نےضلعی وریاستی سطح پراپنی شاخیں قائم کرکے جماعتی،ملی،دینی اور سیاسی سطح پرقابل فخر اور نمایاں کارنامےانجام دیے۔
اس وقت دیگرتنظیمیں بھی اپناوجودرکھتی تھیں لیکن وہ سب ”جماعت رضائےمصطفی“کےبینرتلےکام کرتی تھیں۔علامہ سید اسرار الحق صاحب،حضور مجاہددوراں علامہ سیدمظفرحسین کچھوچھوی اور قائداہل سنت علامہ ارشدالقادری علیہم الرحمہ کی ” آل انڈیامسلم متحدہ محاذ“ (جس نےدینی،ملی اورسیاسی محاذ پرکارہاےنمایاں انجام دیے)یہ تنظیم بھی ”جماعت رضاےمصطفی“ کےبینرتلےکام کرتی تھی۔حضور سیدالعلما ودیگرعلماےممبئی کی تنظیم” آل انڈیاسنی جمیعۃ العلما“نےبھی جماعت رضاےمصطفی کےاشتراک اور بینر تلے کارہاے نمایاں انجام دیے۔
اسی طرح دیگرجملہ اکابرین واصاغرین اہل سنت جماعت رضاےمصطفی کےبینرتلےخوش دلی سےکام کرتےتھے۔لیکن جب سےجماعتی مفاد کوبالاےطاق رکھ کر ذاتی اور گروہی مفادات پیش نظررہنےلگے،جماعتی ترجیحات سے زیادہ اپنی ذات کوترجیح دی جانےلگی تب سےہماری جماعت انتشار در انتشار اور ناکامی کاشکارہوتی گئی۔
درج ذیل نکات پرعمل کرکےتحریک وتنظیم کوکارآمداور کامیاب بنایاجاسکتاہے۔
1۔علاقائی تنظیم وتحریک کےذمہ داران کوچاہیےکہ علاقائی ضرورتوں کوپیش نظررکھتےہوئےچندایک مقاصدکوترجیحی بنیادوں پراپنےلائحہ عمل میں شامل کریں اور پھراس پرکام کریں۔
اگرعلاقےمیں پہلےسےکوئی تنظیم کسی میدان میں سرگرم عمل ہےتواس میدان کی طرف توجہ کرنےکی بجاےاسی تنظیم کاتعاون کریں، اپنی تنظیم کےلیےکسی دوسرےمیدان عمل کاانتخاب کریں۔
2۔تمام تنظیمیں اپنااپنادائرہ کارایک دوسرےسےمختلف رکھیں اور باہم تعاون کرکےملی امورمیں مؤثرکردار اداکریں۔
3۔نیشنل لیول کی تنظیمیں بھی مذکورہ فارمولےپر عمل کر کے تضیع اوقات اورتضیع مال سےبچ سکتی ہیں۔
4۔ملکی،ریاستی،ضلعی سطح کی ایک ایک تنظیمیں ہونا چاہیے جو باہم مربوط ہوکرکام کریں۔
5۔اگریہ مشکل ہوتوتمام تنظیمیں ایک جگہ جمع ہوکرذہنی اور فکری ہم آہنگی کےساتھ صلاح ومشورہ کریں اور اپنےلیےالگ الگ میدان عمل کاانتخاب کریں۔یقینااس سےایک صالح انقلاب کی توقع کی جاسکتی ہے۔
6۔ ایک مرکزی تنظیم ہوجوتمام تنظیموں کی نگرانی کرے اور ان کی رہنمائی ورہبری کرسکے،بہ وقت ضرورت تمام تنظیمیں مرکزی تنظیم کی آوازپرلبیک کہتے ہوئے میدان عمل میں نکل آئیں۔
7۔ذاتی،گروہی مفادات اوررشتےناطےسےبالاترہوکرمحض جماعتی استحکام اور مفادات کےپیش نظرکام کیاجائےاورباصلاحیت افرادکوتنظیم کی باگ ڈور دی جائے۔
قائداہل سنت علامہ ارشدالقادری تنظیمی سطح پر مستقبل کی منصوبہ بندی اورقائدین سےاپیل کرتےہوئےلکھتےہیں:
اس لیے اپنے مذہبی اور سیاسی مستقبل کے تحفظ کے لیے اب ہمارے سامنے سوا اس کے اور کوئی صورت نہیں رہ گئی ہےکہ ہم اہل سنت کی ساری تنظیموں کے قائدین سے مودبانہ درخواست کریں کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں اوراپنے گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف اہل سنت کے جماعتی مفاد کو سامنے رکھیں اور اپنی نام نہادساری آل انڈیا تنظیموں کو توڑ کر کسی بھی ایک پرانی یانئی تنظیم پر متحد ہو جائیں۔ اور اس کے بعد کشمیر کی وادی سے لے کر مدراس کےساحل تک اور کاٹھیاواڑ کے سمندر سے لے کر برما کی سرحد تک ہندوستان کے دس کروڑسنی بریلوی مسلمانوں کو ایک پرچم کے نیچے جمع کردیں۔علاقائی ضلعی، ریاستی اور ملکی سطح پر ہر جگہ صرف ایک ہی تنظیم کا دفتر قائم کیا جائے ، ایک ہی تنظیم کا پرچم لہرایا جائے اور ملک کے سارےسنی عوام کو ایک ہی تنظیم کا نعرہ دیا جائے۔
اگرایسانہیں کیاگیاتوہندوستان جیسےجمہوری ملک میں ہماری مسجدوں، ہماری درس گاہوں اور ہمارےاداروں کوغیریقینی مستقبل کاسامنہ کرنےسےکوئی مصنوعی تدبیرنہیں بچاسکتی۔ (شعوروآگہی،168)
یقیناقائد اہل سنت کی دوراندیش نگاہیں حالات کودیکھ رہی تھیں،بایں وجہ آپ نےدرددل کو سپرد قرطاس کرتے ہوئے مستقبل کی بارہا منصوبہ بندی کی،حالات ونتائج سےآگاہ کیا،لیکن گروہی مفادات اور مشربی عصبیت نےاپنے ذاتی اور مشربی مفادکوملی وجماعتی مفادات پرترجیح دی جس کےنتائج آج خطرناک صورت میں ہمارے سامنے ہے۔