علمی اور روحانی معلومات کا ایک عظیم خزانہ
عرض نگار:مبارک حسین مصباحی
اس وقت ہمارے پیش نظر حضرت مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری[م:782 ھ] کے نادر ملفوظات کا پہلا اردو ترجمہ ”مخ المعانی“ ہے ۔ اس کے جامع حضرت زین بدرعربی ہیں۔ابتدئی ۱۸ مجالس کا اردو ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے حضرت حافظ سید شاہ محمد شفیع فردوسی نے اور حضرت مولانا محمد عابد چشتی نے مکمل ترجمہ کیا، مگر ابتدائی مجالس کا ترجمہ مل گیا جس کی وجہ سے اٹھارہ مجالس شامل نہیں۔ باقی ۳۵ مجالس کا ترجمہ شامل ہے، یہ بجاے خود اہمیت کا حامل ہے۔تصحیح اور نظر ثانی فرمائی ہے حضرت مولانا محب اللہ مصباحی اور محمد آصف احمد منعمی نے ۔ تقدیم و تدوین کا کارنامہ انجام دیا ہے جدید و قدیم علوم کے سنگم حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی سجادہ نشین خانقاه منعمیہ متین گھاٹ، پٹنہ سٹی نے۔
صاحب مخ المعانی علمی اور روحانی دنیا کے تاجدار تھے ۔ بہار کی سرزمین پر آپ کا وجودناز اللہ تعالیٰ کا خصوصی انعام ہے ۔ آپ علم و عمل ، عشق و تقویٰ ، فکر وفن اور ظاہری اور باطنی علوم و معارف کے بحر نا پیدا کنار تھے ۔ آپ صرف قال و حال کے مرد میدان نہیں تھے بلکہ قرطاس و قلم کی زریں خدمات میں بھی اپنی مثال آپ تھے ۔ آپ کا روحانی اور قلمی فیض ہندوبیرون ہند صدیوں سے جاری ہے ، یہ تو بہت مشہور ہے کہ آپ کی ڈھائی ہزار کتابیں ہیں ۔ہم جیسے لوگوں کا اس علمی سرمائے کامطالعہ کرنا تو دور کی بات ہے سوچ کر ہی دل و دماغ میں فرحت و مسرت کی خوشبو پھوٹنے لگتی ہے ۔ آپ کی متعدد تصانیف، مکتوبات اور ملفوظات طبع ہو چکے ہیں۔ چند کتابیں احقر کے زیر مطالعہ رہی ہیں۔ مکتوبات صدی اور مکتوبات دو صدی علوم و معارف کے بحر ذخار ہیں۔ زبان و بیان فصیح اور عام فہم ہے۔ تصوف و معرفت کی دقیق بحثوں کو بھی اپنے لہجے کی لطافت اور پیرایۂ بیان کی دلکشی سے دماغوں میں اتار دیتے ہیں۔ خدائے بزرگ وارثین اور محبین کو توفیق دے کہ زیادہ سے زیادہ آپ کے علمی ذخائر کو منظر عام پر لے آئیں ۔
آپ کی ولادت 681 ھ میں ہوئی اور وصال پر ملال 782ء میں ہوا۔ آپ نے ایک صدی اور ایک برس کی عمر پائی، آپ نے وصال سے قبل وصیت فرمائی تھی کہ میری نماز جنازہ ایک عارف باللہ صحیح النسب سید زادہ پڑھائے گا، رحلت کے بعد حاضرین ومحبین منتظر تھے کہ وہ کون عارف باللہ سیدزادہ ہے۔ وابستگان قرب و جوار میں تلاش میں نکلے۔دیر کے بعد تارک سلطنت مخدوم سید اشرف جہاں گیر سمنا نی قدس سرہ سے شرفِ نیاز حاصل ہوا ۔ آپ در اصل مملکت سمنان کو چھوڑ کر قطب بنگال حضرت شیخ سید علاؤ الحق پنڈوی [م:۷۸۰ھ یا ۸۰۰ھ] کی ڈیوڑھی پر اکتسابِ فیض کے لیے جا رہے تھے۔ خیر آپ نے نماز جنازہ پڑھائی تدفین کے تھوڑی دیر بعد حضرت شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کا دست مبارک قبر سے باہر نکل آیا ۔ حاضرین ومریدین حیرت زدہ ہو گئے ، غور کرنے کے بعد بھی کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ، بعض حضرات اب مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ، آپ قبر شریف پر آئے مراقبہ کے بعد فرمایا : مردانِ غیب نے ایک کلاہ دی تھی اور شیخ نے آپ حضرات کو وصیت کی تھی کہ وہ کلاہ میرے ساتھ قبر میں رکھی جائے مگر آپ نے نہیں رکھی ، اب سب کویاد آگیا وہ کلاہ لائی گی اور آپ کے دست مبارک پر رکھی پھر وہ کلاہ کو لے کر اندر چلا گیا۔
حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی نے تدفین کے بعد رات میں اسی خانقاہ میں قیام فرمایا، رات کو خواب میں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری کی زیارت ہوئی، انہوں نے اپنے مکتوبات پڑھنے کی دعوت پیش کی اور اپنا خرقہ عنایت فرمایا۔ آپ نے ہندوستان کی دو کتابوں کا بڑی توجہ اور دلچسپی سے مطالعہ فرمایا (۱)مکتوبات شیخ شرف
الدین یحییٰ منیری اور دوسری کتاب فوائد الفواد ملفوظات محبوب الٰہی شیخ نظام الدین اولیا بدایونی ثم دہلوی[م:۷۲۵ھ] ۔ رخصت ہوتے وقت بشارت کے مطابق آپ نے شیخ شرف الدین قدس سرہ کا خرقہ طلب فرمایا، اصحاب نے پس و پیش کیا، آپ نے فرمایا اس میں غور کرنے کی کوئی بات نہیں خرقہ مبارکہ قبر شریف پر رکھ دیا جائے آپ جس کو عطا فرمانا چاہیں گے فرما دیں گے ،سب نے اس رائے کو تسلیم کر لیا۔خرقہ قبر شریف پر رکھ دیا گیا ۔ اب سب نے یکے بعد دیگرے اٹھانا چاہا مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوا، اب حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی نے ہاتھ لگایا تو پھول کی طرح آپ کے پاس آگیا ، آپ نے اسی وقت زیب تن فرمایا اور اپنے شیخ کی بارگاہ پنڈوہ شریف کی جانب روانہ ہو گئے ۔
کتاب کا مقدمہ بڑا معلومات افزا اور ملفوظات کےمخفی گوشوں کو محیط ہے۔ آپ نے ملفوظات کے جمع کرنے اور اس کے انداز پر بھی مختصر اور جامع گفتگو فرمائی ہے۔ صنف ملفوظات پر بھی روشنی ڈالی ہے اور ملفوظ کے اولین استعمال کی بھی وضاحت کی ہے ۔ آپ نے مقدمے کا آغاز اپنے ان الفاظ سے کیا ہے :
”ملفوظات کا وجود میں آنا سنت الہیہ ہے، کیوں کہ اپنے نزول کے اعتبار سے وحی کی دوقسم ہے: (1) ملفوظی (2) مکتوبی۔
مکتوبی وحی کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَلَقَدْ ڪَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّڪْرِ اَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِیَ الصلِحُونَ.
یہی آیت ملفوظی وحی کی بھی مثال ہے کہ جو چیز زبور میں مکتوب کی گئی اس سے ملفوظی طور پر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مطلع فرمایا گیا۔ ملفوظی وحی کا تیور تکرار قل سے بھی خوب خوب ظاہر ہے۔ کتب آسمانی اور صحائف در اصل ملفوظات الٰہیہ ہیں ، پھر یہی سنت الٰہیہ احادیث شریفہ کی شکل میں سنت نبویہ بنتی ہیں۔ یہاں بھی سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قولی، فعلی اور تقریری شہادتوں کو یکجا کیا جاتا ہے۔ اولیاء اللہ کے ملفوظات بھی اسی سنت کا احیا و اتباع ہیں۔ جب کسی اللہ کے ولی کے قولی و فعلی و تقریری شہادتوں اور آثار کو جمع کیا جاتا ہے تو اسے ملفوظات کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔“(ص:۱)
ان اقتباسات کی روشنی میں پورے طور پر واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ملفوظی اور مکتوبی ہے آسمانی کتب و صحائف در اصل ملفوظات الٰہیہ ہیں، اسی طرح رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے افادات قولی ، فعلی اور تقریری ہیں، اسی طرح اولیاء اللہ کے ملفوظات بھی قولی، فعلی اور تقریری شہادتوں پر مبنی ہوتے ہیں۔
اس کے بعد آپ نے مخدوم جہاں کے ملفوظات کو بیان کیا ہے، اس کے بعد ”مخ المعانی“ کی ترتیب اور زبان وبیان پر اپنی فکر رسا کے گلدستے پیش کیے ہیں اس کے بعد ”مخ المعانی “کے خواص اور امتیا زات پر روشنی ڈالی ہے۔ ذیلی عنوانات قائم فرماکر بڑے بصیرت افروز نوادرات جمع فرمائے ہیں موصوف بجاے خود قدیم اور عصری تعلیمات سے آراستہ صوفی باصفا ہیں، آپ کے علم وفن بر تصوف کا غلبہ ہے اور ایک صوفی کی نگاہ حقائق کے ساتھ رموز و اسرار پر بھی ہوتی ہے۔ آپ نے ”مخ المعانی“ کےمرتب حضرت زین بدر عربی کے اندازبیان پر بڑی معلوماتی گفتگو فرمائی ہے :
”حضرت زین بدر عربی ملفوظات کی دنیا میں بحیثیت جامع اپنا ایک بلند مقام اور وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ اس صف کے دھنی ہیں جہاں شیخ حسن علاجزی، حمید قلندر، قاضی شرف ابن رکن اور نظام یمنی ان کے دائیں اور بائیں ہیں۔ ملفوظات میں جامع کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، جہاں اس پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ صاحب ملفوظ کے الفاظ اور جملوں کو بعینہ مین وعن نقل کرلے اور اگر مفہوماً یا معنیً بیان کرے تو وہ معنی سے دور بھی نہ ہو اور گنجلک و غیر فصیح بھی نہ ہو، اس کے علاوہ جامع جہاں کسی مجلس کا آغاز کرتا ہے تو وہ پس منظر بیان کرتا ہے، اگر اس کی انشاء پردازی میں تنوع نہ ہو تو ساری مجلسیں ایک سانچے میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہیں اور آغاز میں ہی اپنی کشش کھو دیتی ہیں۔ چنانچہ ان کا انداز بیان بھی ملفوظات کی مجالس کے خارجی حسن کو نکھارتارہتا ہے۔ “(ص:۳۹)
اس کے بعد آپ نے ”مخ المعانی کے مطبوعہ اور قلمی نسخے“ کے عنوان پر بڑی تحقیقی سطور رقم فرمائی ہیں۔ اس کے بعد آپ نے اردو ترجمہ پر گفتگو فرمائی ہے ۔ آپ نے حضرت حافظ سید شاہ محمد شفیع فردوسی علیہ الرحمہ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے :
”مخ المعانی کا ترجمہ بھی آپ نے شروع فرمایا اور 18 مجالس تک مکمل کیا اور 19 ویں مجلس نامکمل رہ گئی ۔ مخ المعانی کے اردو ترجمہ کی یہ اشاعت جو آپ کے پیش نظر ہے اس میں آپ ہی کی ترجمہ کردہ 18 مجالس شامل ہیں اور بقیہ کے مترجم مولاناعابد چشتی ہیں۔ “ (ص:۴۷)
اس کے بعد آپ نے محب گرامی وقار معروف استاذ اور نثر نگار حضرت مولانا محمد عابد چشتی استاذ جامعه صمدیہ پھپھوند شریف ضلع اوریا یو پی کا مختصر تعارف پیش کیا ہے ۔ مولانا محمد عابد چشتی نے عرض مترجم کے عنوان سے چار صفحات سیر د قلم کیے ہیں۔ آپ نے شہزادہ اکبر المشائخ حضرت علامہ سید شاہ انور میاں دامت برکاتہم القدسیہ کے حوالے سے لکھا ہے:
”جب آپ پھپھوند شریف اور اس گردو نواح میں گمراہیت کے خلاف اپنے مدلل خطابات کے ذریعہ پر زور تحریک چلا رہے تھے، اس وقت زیر نظر کتاب مخ المعانی کی وہ عبارت آپ کی نظر سے گذری جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جانب سے لنگر عام کا اہتمام کیا گیا اور لوگوں نے اس لنگر عام کی وجہ پوچھی تو صحابۂ کرام کی جانب سے یہ جواب مذکور تھا : الیوم عرس رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔
آپ نے نہ صرف ببانگ دہل اس حدیث پاک کو سامنے رکھ کر دینی اعر اس کے جواز پر فرقہ ستوں کو دعوت فکر پیش کی بلکہ کتاب کے دیگر مندرجات کو پڑھنے کے بعد اس کتاب کےترجمہ کو منظر عام پر لانے کا پختہ ارادہ بھی فرمالیا اور پھر مشائخ چشت کے روحانی فیضان سے ترجمہ کرنے کی سعادت و برکت کی یہ سوغات میرے دامن میں آئی۔“(ص:۶۵، ۶۶)
ترجمہ کا آغاز کر دیا تھا اسی دوران حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی سے رابطہ ہوا، حضرت مولانا محمد عابد چشتی لکھتے ہیں:
” اخیر میں خصوصیت کے ساتھ میں سراپا سپاس ہوں ادیب شہیر، پیر طریقت، رہبر شریعت حضرت علامہ سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی صاحب قبلہ دام ظلہ العالی کا جنہوں نے ترجمہ نگاری کے تمام مراحل میں زبر دست حوصلہ افزائی فرمائی ،مخ المعانی کا صحیح ترین نسخہ عنایت فرمایا اور تکمیل کے بعد پورے ترجمہ کا غائرانہ مطالعہ فرما کر گراں قدر اصلاحات سے نوازا۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ترجمہ کرتے وقت کئی مقامات ایسے آئے جہاں ترجمہ نہ ہو سکا، اگرچہ اس کی وجوہات مختلف تھیں، جس کا ذکر میں نے منعمی صاحب قبلہ سے بھی کیا، مگر ایک مشفق استاد کی طرح وہ مسلسل مجھے مہمیز کرتے رہے اور امید دلاتے رہے کہ آپ ترجمہ کیجیے باقی ہم پر چھوڑ دیجیے۔ حضرت کے ان جملوں نے میری ڈھارس بندھائے رکھی اور انہیں مشفقانہ کلمات کی پشت پناہی میں یہ کام بحسن و خوبی مکمل ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اس عمل خیر کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر قیامت کے دن ہم سب کو اس کا اجر عطا فرمائے آمین ! “(ص:۶۶)
محب گرامی مولانا محمد عابد چشتی نوجوان عالمِ دین ہیں، معتمد استاذ اور فکر انگیز قلم کار ہیں۔ ماہ نامہ اشرفیہ مبارک پور کی ”بزمِ دانش“ کے لیے مسلسل لکھتے رہتے ہیں اور دیگر موضوعات پر بھی خاصی تحریریں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ سنجیدہ، سادہ مزاج اور تحقیق و مطالعہ کا پاکیزہ مزاج رکھتے ہیں۔ لکھتے ہیں اور ماشاء اللہ تعالیٰ بڑی حد تک اطمینان بخش لکھتے ہی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کی خدمات کو ترقیاں عطا فرمائے اور نظرِ بد سے محفوظ و مامون رکھے۔ آمین۔
اب ہم ذیل میں چند ملفوظات نقل کرتے ہیں، ابھی محرم الحرام ہے، اس لیے عاشورا کے معمولات نقل کرتے ہیں:
معمولات عاشورا:
عشرہ عاشورا میں بعض معمولات کا تذکرہ چل رہا تھا کہ ان کا ثبوت کہاں سے ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ ان دس معمولات میں سے ہر ایک کا ثبوت علاحدہ دلیل سے ثابت ہے۔ ہاں دسوں چیزوں کا ثبوت ایک ہی مقام پر ایک ہی دلیل سے میری نظر سے نہیں گذرا ہے۔ متفرق طور پر ایک ایک کے ثبوت کی علاحدہ ایک دلیل ہے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ یہ دس چیزیں شہداے کربلا کے لیے کرتے ہیں بلکہ ایک ایک چیز ہر پیغمبر کی خصلت ہے کہ ہر پیغمبر کو اس دن کوئی کام کرنے کا اتفاق ہوا اور خدا کا کرنا ایسا کہ وہ عاشورا کا دن تھا جیسا كـ روضة الأحباب، روضة العلما میں ہے کہ عاشورا کے دن سرمہ لگانا حضرت نوح علیہ السلام کی سنت ہے اور اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی چھ ماہ اور دس روز کے بعد جودی پہاڑی سے آکر لگی اور آپ نیچے تشریف لائے تو آپ کی پیشانی مبارک پانی کے بخارات کی وجہ سے خیرہ ہوگئی تھیں جس کی وجہ سے کچھ خرابی آنکھوں میں در آئی۔ اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور خدائے تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچا دیا کہ اے نوح! آنکھوں میں سرمہ لگاؤ اور وہ عاشورا کا دن تھا، اسی وجہ سے عاشورا کے دن سرمہ لگانا حضرت نوح علیہ السلام کی سنت ہے۔
اسی طرح اس دن روزہ رکھنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت ہے ۔ جس کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون لعین پر اسی دن کامیابی پائی تو نصرت خداوندی اور کامیابی کے شکرانے میں آپ نے اس دن روزہ رکھا۔ پھر آپ نے یہ روایت بیان فرمائی کہ عاشورا کے روز صحابۂ کرام نے سرکارمدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ اسرائیلی یعنی یہود و نصاریٰ آج کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ نے پوچھا کہ آج کے دن ان لوگوں کے روزہ رکھنے کی وجہ کیا ہے؟ آپ نے اس دن روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو یہودیوں نے جواب دیا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آج کے روز فرعون پر کامیابی پائی تھی اور اس نعمت کے شکریہ میں انہوں نے روزہ رکھا تھا، لہذا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:نحن احق بموسیٰ۔
ہم حضرت موسیٰ کی خوشی میں تم سے زیادہ حق دار ہیں اور اس کے بعد تمام مسلمانوں کو اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔ اس دن عاشورا کا روزہ رکھنا مسلمانوں پر فرض ہو گیا۔ اس کے بعد ایام بیض(مہینہ کی ۱۳؍۱۴؍۱۵ تاریخ) میں روزوں کی فرضیت کی وجہ سے صوم عاشورا کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور ایام بیض کی فرضیت ماہ رمضان کے روزہ کے سبب منسوخ ہوگئی، لہذا عاشورا کے دن روزہ رکھنا حضرت موسی علیہ السلام کی سنت ہے ۔ ہاں، عاشورا کے دن ہفت دانہ ( کھچڑا) پکانے کی روایت کسی جگہ مجھے نظر نہیں آئی۔
ہاں، ایک عزیز سے میں نے سنا تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی سنت ہے۔ جب آپ کشتی سے نیچے تشریف لائے تو کشتی میں سوار ہر فرد سے آپ نے فرمایا کہ جس کے پاس کھانے کی جو چیز باقی بچی ہے وہ لے آئے ۔ ہر شخص کے پاس کھانے کی ایک جنس موجود تھی، اتفاق ہوا کہ کل ملا کر کھانے کی سات جنس ہوئیں، جنھیں ایک ساتھ ملا کر پکایا گیا۔ یہیں سے کھچڑا پکانے کا رواج چل گیا۔ واللہ اعلم۔
یہاں پہنچ کر حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ایسا خیال پڑتا ہے کہ جب آج کے دن کھچڑا پکانا امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کی روح پر ایصال ثواب کی خاطر مشہور ہو گیا ہے ۔ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا اور آپ کے جاں نثار اور اہل بیت سب قیدی بن گئے، اس وقت اسیرانِ کربلا نے ارادہ کیا کہ ان شہیدانِ کربلا کی پاک روحوں کو کھانے کا نذرانہ بصورت ایصال ثواب بھیجیں تو اپنے درمیان تلاش کیا ہوگا کہ آخر کسی کے پاس کھانے کی کیا چیز باقی ہے۔ اس کے بعد جس کے پاس جو کھانا تھا وہ لے آیا اسے جمع کیا اور شہیدانِ کربلا کی روح کے نام پر پکایا۔ اور وہ کھانے اتفاق سے سات قسم کے ہوں گے، یہاں سے لگتا ہے کہ مخلوق خدا کے درمیان آج تک من وعن یہ روایت پہنچتی رہی ہے کہ اسیرانِ کربلا نے اسی طرح سے شہیدانِ کربلا اور ان کے جاں نثاروں کی روح کے ایصال ثواب کی خاطر کھانا نذر کیا ہے، لہذا مخلوق خدا بھی ان کی موافقت میں شہیدانِ کربلا کی روح پر ایصال ثواب کے لیے کھچڑا پکاتے ہیں ۔
اسی طرح ہر ایک امر کے سلسلے میں علاحدہ حدیث آئی ہے کہ ایک ساتھ نظر سے نہیں گذری ہے کہ ایک جگہ بھی (ایسی ہو جہاں) ایک دلیل سے دو چیزوں کا ثبوت ہوا ہو ۔
شب عاشورا کی چار رکعت نماز:
پھر فرمایا، حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ حضرت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص عاشورا کی رات چار رکعت نماز پڑھتا ہے جس میں دورکعت نماز آخری شب میں صبح صادق کے قریب ادا کرے، اس طور پر کہ ہر رکعت میں ایک بار سورۃ فاتحہ اور آیت الکرسی تین مرتبہ، سورۃ اخلاص دس مرتبہ اور جب سلام پھیرے تو سو مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھے،انشاء اللہ تعالیٰ ، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں سوہزار شہر بسا دیتا ہے، ہر شہر میں سو ہزار محل ہیں اور ہر محل میں سو ہزار کمرے، ہر کمرے میں تین سو تخت اور ہر تخت پر سو ہزار بستر، ہر بستر پر حور العین سے ایک بیوی ہوگی۔ نیز ہر کمرے میں سو ہزار خوان ہوں گے اور ہر خوان پر سو ہزار پیالے، ہر پیالے میں سو ہزار رنگ کے کھانے اور خدمت گاروں میں ہر بیوی پر سو ہزار غلام اور سو ہزار کنیز ہوں گی۔ ان میں سے ہر ایک کے کاندھے پر ایک رومال ہوگا! حضرت وہب بن منبہ فرماتے ہیں کہ میرے کان خراب ہو جائیں اگر میں نے یہ حدیث پیغمبر سے نہ سنی ہو ۔ واللہ اعلم ۔(ص:۲۱۰ تا ۲۱۲)
شراب (خمر) کا بیچنا اور پینا:
ایک ذکر شراب بیچنے کے متعلق ہوا۔ بندگی مخدوم عظمہ اللہ نے فرمایا کہ کتب فقہ میں روایتیں لکھی ہیں کہ مسلمانوں کے شہر میں جب یہ دو چیزیں کھلے عام فروخت ہوں، ایک شراب، دوسرے سؤر تو وہ شہر دارالحرب ہو جاتا ہے، کیونکہ یہ دونوں دار الکفر کا خاصہ ہیں اور دوسرے اس لیے دارالحرب ہو جاتا ہے کہ یہ کفر کا کام ہے ۔ پھر فرمایا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ؛ الخمرجامع الاثم ۔یعنی شراب برائیوں کو جمع کرنے والی ہے اور دوسری حدیث میں ہے که شارب الخمر كعابد الوثن یعنی شراب کا پینے والا بت پوجنے والے کی مانند ہے۔اور دوسری حدیث میں ہے :
الا من مات سكران عاينه ملك الموت وهو سكران وادخل قبره وهو سكران وعاين منكراً ونكير وهو سكران ويبعثه الله يوم القيمة سكران ويوقف بين يدى الله سكران ويصرف من الموقف الى جهنم سكران و فی وسط جهنم جبل فیہ تجرى دماء لا يكون طعامه ولا شرا به الا منه ويل للشقى نصاب الأخبار لتذكير عن النبي المختار لعلى بن عثمان الأوشى الباب الخامس والأربعون ماجاء في الزجر عن الشرب، ص:42، مكتبة الاستاذ الدكتور محمد بن ترکی) اس کے بعد فارسی زبان میں حدیث کو بیان فرمایا:
جان لو اور خبردار رہو! جو شخص بحالت نشہ مر گیاوہ ملک الموت کو اپنے نشہ کے حال میں دیکھے گا اور قبر میں لایا جائے گا، جب بھی نشہ میں ہوگا اور منکر نکیر کو بھی اپنے نشہ کے عالم میں دیکھے گا۔ خداوند پاک جب اس کو قیامت میں زندہ فرمائے گا تب بھی وہ نشہ میں ہی رہے گا حتی کہ جب محشر میں دوزخ کی طرف کھڑا کیا جائے گا تو مخمور ہی رہے گا۔ دوزخ میں ایک پہاڑ ہے جس سے خون کی نہریں جاری ہیں ، اسی سے ایسے آدمی کا کھانا پینا ہوگا، دوسری کوئی چیز نہیں ملے گی اور ویل ( بر بادی ) تو بد بختوں کے لیے مخصوص ہے۔
بیچارہ نے عرض کیا کہ ویل کون سا کلمہ ہے تو فرمایا کہ ویل عرب میں ایک ایسا کلمہ ہے جو محل مذمت اور محل مدح دونوں میں بولا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویل دوزخ میں ایک وادی کا نام ہے۔ (ص:۷۵، ۷۶)
قرآن مجید کی فضیلت:
ایسے عالم میں زمیں بوسی کی سعادت نصیب ہوئی کہ خاص مصحف پاک اپنی گود میں لیے ملاحظہ فرمارہے تھے اور اس کے خط کی خوبی اور کتابت کی پاکیزگی دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد فرمایا کہ کیسا عمدہ لکھا ہوا ہے کہ لکھنے والے نے ایک قلم اور ایک خط سے شروع سے آخر تک لکھاہے۔
سکندر نامی خاص خادم نے سرجھکا کر عرض کیا کہ جس طرح قرآن مجید کا پڑھنا عبادت ہے، کیا قرآن پاک میں نظر کرنا عبادت ہوگی یا نہیں؟
بندگی مخدوم عظمہ اللہ نے فرمایا کہ ہاں، قرآن مجید میں صرف دیکھنا بھی عبادت ہے ۔ اب اس مسئلہ میں یہ بات کہ زبانی پڑھنا افضل ہے یا دیکھ کر تو لوگوں نے کہا ہے کہ دیکھ کر پڑھنا افضل ہے، اس لیے کہ دیکھ کر پڑھنے میں کئی طرح سے عبادت ہوتی ہے ۔ ایک تلاوت، دوسرے دیکھنا، پھر ورق گردانی اور مصحف پاک کا اٹھانا، ان میں سے ہر ایک عبادت ہے، لیکن زبانی پڑھنے میں صرف ایک عبادت پڑھنے کی ہی ہے، اور بس۔ پھر فرمایا کہ ایک حدیث میں لکھا ہے کہ جو آدمی قرآن میں نظر کرے گا اس کی آنکھ نا بینا نہیں ہوگی اور یہ سبب ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم جس دن مصحف پاک کو نہ دیکھتے اس دن کو مبارک نہیں خیال کرتے تھے۔ کتابوں میں نقل ہے کہ چار چیزیں ایسی ہیں جن کا عبادت میں شمار ہوتا ہے:
پہلی چیز مصحف ( قرآن ) پاک میں دیکھنا۔دوسری چیز عالم کے چہرہ کو دیکھنا۔ تیسری چیز خانہ کعبہ کو دیکھنا۔چوتھی چیز والدین کے چہرے کو دیکھنا۔
حدیث میں یہاں تک آیا ہے کہ جو شخص والدین کے چہرہ کومحبت اور دوستی کی نگاہ سے دیکھتا ہے، ہر نظر کے بدلے ایک مقبول حج اس بندہ کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا ہے ۔ اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جوشخص ماں کے قدموں پر سر رکھے اور بوسہ دے تو ہزار سال کی عبادت اس بندہ کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے۔ اسی وقت فرمایا کہ قرآن شریف پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ جو شخص تلاوت میں مشغول ہوتا ہے خداوند پاک اس پر بہشت کے دروازے کھول دیتا ہے، ہر حرف کے بدلے جو وہ پڑھتا ہے خداوند تعالیٰ ایک فرشتہ کی تخلیق فرماتا ہے جو قیامت تک اس کی پاکی بیان کرتا ہے۔ کوئی صاحب علم قرآن پڑھنے والے سے زیادہ اللہ کے نزدیک نہیں ہے ۔ اسی دم فرمایا کہ حضرت رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں شب و روز اپنی امت پر عذاب نازل ہونے سے ڈرتا تھا لیکن جب جبرئیل علیہ السلام سورہ اخلاص لائے تو مطمئن ہو گیا کہ اس سورہ میں خدائے پاک کی صفت مذکور ہے، اب جو آدمی اس سورہ کو پڑھتا ہے تو پکار نے والا عرش بریں سے پکارتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے تمام گناہ بخش دیے اور تیری جو حاجت ہے مانگ کہ عنایت کرے۔
تفسیر میں لکھا ہے کہ جو شخص سورہ فاتحہ کو، جس کی سات آیتیں ہیں، پڑھے گا تو حق تعالی اس بندہ کے ہر سات اجسام کو آتش دوزخ پر حرام کر دےگا۔ پھر فرمایا کہ جو کوئی سورہ یٰسٓ دن میں ایک بار پڑھے گا وہ ایسا ہوگا گویا اس نے دس بارختم قرآن کیا ۔ اور جو آدمی رات میں ایک بار پڑھے گا گویا اس نے شب قدر پالی۔
پھر فرمایا کہ نقل ہے کہ کسی وقت ایک مرد نے پوچھا کہ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کا جو اپنے لڑکے کو قرآن کی تعلیم دے، اجر کیا ہے؟ پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا: القرآن کلام الله لا غاية له قرآن خدا کا کلام ہے، اس کی کوئی حد نہیں ہے ۔ جبرئیل علیہ السلام وحی لائے کہ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم حق تعالیٰ سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ جس نے اپنے لڑکوں کو قرآن سکھایا یاخود پڑھا گویا اس نے دس ہزار حج کیے ہیں اور دس ہزار عمرہ کیا ہے، دس ہزار غزوات کیے ہیں، دس ہزار بھو کے مسلمانوں کو کھانا کھلایا ہے، دس ہزار نگوں کو کپڑا پہنایا ہے، حضرت اسمعیل پیغمبر اسلام کے فرزندوں میں سے دس ہزار غلاموں کو آزاد کیا ہے اور ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں اس کے اعمال نامہ میں لکھی جائیں گی اور دس گناہ اس کے اعمال نامہ سے مٹائے جائیں گے ۔ آخر حدیث تک یاد نہیں آتا ہے، اسی وقت فرمایا، حدیث ہے کہ جب بچہ استاد کے سامنے بیٹھ کر بسم الله الرحمن الرحیم کہتا ہے ، حق تعالی تین آدمیوں کو بخش دیتا ہے ۔ اس میں سے ایک تو استاد ہے دوسرے ماں اور باپ ہیں ۔ واللہ اعلم ۔ (ص:۷۷ تا ۷۹)
قرآن حادث نہیں قدیم ہے:
نویں مجلس میں آپ فرماتے ہیں:
”بیچارے نے عرض کیا کہ آیت:وَمَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذِكرٍ مِنَ الرَّحْمٰنِ مُحْدَثٍ. اور جو آتا ہے ان کے پاس کوئی نئی نصیحت ان کے رب کی طرف سے، میں کیا تاویل ہے۔
بندگی مخدوم عظمہ اللہ نے فرمایا کہ معتزلہ قرآن کے حادث ہونے پر اسی آیت کو دلیل میں پیش کرتے ہیں۔ ہمارے علما کہتے ہیں کہ اس آیت میں ذکر سے مراد قراءت ہے اور قراءت قاری کی صفت ہے اور یہ قاری کی صفت نو پید اور حادث ہے اس لیے یہ آیت قرآن پاک کے حدوث پر دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔“(ص:۱۰۱)
علم کسبی وغیر کسبی:
ایسے وقت میں زمیں بوسی کی سعادت ملی کہ علم کا تذکرہ ہورہا تھا۔ کسی غریب نے عرض کیا کہ مخدوم عظمہ اللہ کے مکتوبات میں مذکور ہے کہ علم کی دو قسم ہے، کسبی اور غیر کسبی علم غیر کسبی وہ علم ہے جو انبیا کے سینوں میں بذریعہ وحی اور اولیا کے سینوں میں الہام کے ذریعہ اور مریدوں کے سینوں میں پیروں کے سینہ سے آتا ہے۔ اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ پیروں کے سینہ سے مریدوں کے سینہ میں جو علم آتا ہے وہ بواسطه زبان آتا ہے یا بلا واسطہ زبان؟
بندگی مخدوم عظمہ اللہ نے فرمایا کہ پیروں کی زبان کے واسطہ سے علم ان کے سینوں سے مریدوں کے سینہ میں آتا ہے لیکن پیروں کے سینوں میں جو کچھ بھی آتا ہے وہ بذریعہ الہام آتا ہے۔ یہیں سے یہ فرق معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ بیان نفس کے علاوہ جو کچھ بھی اپنے الہام کے واسطہ سے کہتے اور بتاتے ہیں اس کو علماے ظاہر تسلیم نہیں کرتے، اس لیے کہ ان کے پاس و ہی علم کسبی اور درسی ہے۔ لیکن علم وراثت کا معاملہ کچھ دوسرا ہے ۔ اگر علم وراثت سے کچھ سنتے ہیں تو اپنے قصور کی وجہ سے اس کو تسلیم نہیں کرتے، کیونکہ یہ لوگ اس علم سے محجوب ومحروم ہیں، یہ لوگ صرف نقل اور روایت ہی کو مانتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ اولیاے کرام کے قلوب میں بذریعہ الہام جو کچھ بھی آتا ہے وہ خود ان کے ان معتقدین اور ان کے مریدین کے لیے حجت ہے لیکن دوسروں کے لیے حجت نہیں ہے۔
پھر فرمایا کہ زبانی بیان کے بغیر بھی سینہ بہ سینہ اسی طرح لوگوں نے باتیں بتائی ہیں کہ زبان کو خبر تک نہ ہوئی جیسا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حق میں فرمایا ہے :
ما صبب الله فی صدری الا وقد صببت في صدر ابي بكر ۔( کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے خداوند کریم نے میرے سینے میں ڈالا ہو اور میں نے اس کو ابو بکر کے سینے میں نہ ڈال دیا ہو ۔ (
اسی کو سینہ بسینہ کہتے ہیں کہ درمیان میں زبان کا کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن اس کے لیے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا مرید چاہیے اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا پیر چاہیے، سلسلۂ پیری میں نبوت میں نہیں۔
یہاں حضرت مخدوم جہاں نے بڑی سنجیدگی سے علم ظاہر اور علم باطن کی توضیح فرما دی ہے، بس عاقلاں را اشارہ کافیست۔
عالم کی فضیلت و مرتبہ :
پھر فرمایا کہ مشائخ رضی اللہ عنہم علمائے آخرت بیں اور دونوں علم کے مالک ہیں اور یہ بات جو حدیث میں آئی ہے کہ علما پیغمبروں کی میراث والے ہیں اور یہ حدیث کہ میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیا کی مانند ہیں، یہ سب انہی کے حق میں ہے ۔
پھر بتایا کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو آدمی کسی عالم کی سات روز خدمت کرے وہ ایسا ہو جائے گا گویا اس نے سات ہزار سال خدا کی عبادت کی ہو اور خداوند کریم اس کو ہر روز شہیدوں کا ثواب مرحمت فرمائے گا۔ اور ایک حدیث میں ہے کہ جو آدمی علما میں سے کسی عالم کے پیچھے نماز ادا کرے تو گویا اس نے پیغمبر کے پیچھے نماز پڑھی، اور جو آدمی کسی پیغمبر کے پیچھے نماز پڑھ لے گاوہ بخشا جائے گا اور خاص کر اس کے سارے گناہ جس کا وہ مرتکب ہوا ہے۔ اسی کی طرح اور بھی بہت سی حدیثیں علما کی فضلیت میں آئی ہیں لیکن یہ سب علمائے آخرت کے حق میں ہے نہ کہ علمائے دنیا کے حق میں، کیونکہ یہ تو ڈا کو ہیں اور بادشاہوں اور شیاطین کے تابع ہیں۔
لوگ ایسا کہتے ہیں کہ جب تک علماے دنیا کا وجود رہے گا شیطان اطمینان سے بیٹھا ر ہے گا ۔ اس کے بعد فرمایا کہ اولیاء اہل باطن کے گروہ سے ہیں اور عوام الناس اہل ظاہر کی جماعت سے ہیں۔ جس طرح اہل ظاہر کے حق میں امرظاہر کے اعتبار سے احکام واجب ہوتے ہیں اسی طرح اہل باطن کے حق میں بھی امر باطن کے اعتبار سے کام کرنا فرض ہوتا ہے اور حکم حال کے اعتبار سے اس کو فرض حالی کہتے ہیں۔ اس بحث کے متعلق آگے آئے گا۔
تھوڑی سی شیرینی سامنے رکھ کر بندگی مخدوم عظمہ اللہ نے حاضرین مجلس کو تقسیم کرنے کے لیے فرمایا اور خود بھی حاضرین کی موافقت کے مطابق دہن مبارک میں رکھا۔ “(ص:۱۱۶ تا ۱۱۸)
الیوم عرس رسول اللہ ﷺ:
لہذا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دو دن ( تو ) دفن کے سلسلے میں اختلاف میں گذر گئے اور نو دن اختلاف خلافت میں گذر گئے، مجموعی طور پر گیارہ دن گذر گئے، بارہویں دن خلافت کا اختلاف اٹھ جانے کے بعد اور حضرت ابوبکر کے ( خلافت کے لیے ) متعین ہو جانے کے بعد، حضرت ابو بکر نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی روح پاک کے ثواب کے لیے کھانا تیار کیا اور اس قدر کھانا بنوایا کہ پورے مدینہ والوں کے لیے کافی ہو گیا ، مدینہ منورہ میں شور برپا ہوا کہ آج کیا ہے؟ صحابہ نے بتایا کہ :
الْيَوْمَ عُرُسُ رَسُولِ اللهِ الْيَوْمَ عُرَسُ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم (آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عرس ہے، آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عرس ہے ۔ ) اور اس طرح بارہویں تاریخ میں عرس مشہور ہو گیا۔(ص:۲۷۵)
اس سے واضح ہو گیا کہ لفظ عرس یہ الواں کی ایجاد نہیں بلکہ رسول کریم ﷺ کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں معاندین اعراس کو اپنے عقیدہ و مذہب پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔
ملفوظات کے یہ چند اقتبات ہم نے پیش کیے ہیں ،مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری قدس سرہ ایک فاضل محقق بھی تھے اور عشق ربانی اور تصوف و معرفت کے تاجدار بھی، آپ کی نگاہ بیک وقت شریعت ، طریقت اور عرفان و حقیقت سب پر رہتی تھی، آپ کی نگاہ علماے ظاہر اور علماے باطن سب کو دیکھتی تھی۔ ان ملفوظات کی خصوصیت یہ ہے کہ صاحب ملفوظ کی نظر قرآن، حدیث ، فقہ، کلام ،اسرار تصوف، تاریخ وسیر، حالات کے تناظر ، احکام کے تقاضوں پر رہتی تھی ، خاص یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ بیان فرمایا ہے اس میں ظاہری اور باطنی علوم ومعارف کا بحر ذخارہے اس کے مطالعے سے معلومات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ بعض باتیں عوام و خواص میں متعارف بھی ہیں اور ان کے معمولات میں بھی شامل ہیں مگر حقیقی توضیح کرنے سے علما قاصر نظر آتے ہیں۔
کسی فن پارے کا ترجمہ کرنا بھی ایک علمی اور دقیق فن ہے ایک رجل عظیم اور بارگا ہِ الٰہی کے مقبول ترین بزرگ کے اقوال اور ارشادات کو دوسری زبان میں منتقل کرنا بجائے خود ایک علمی اور فنی کارگزاری ہے۔ ترجمہ کرنے کے لیے دونوں زبانوں پر کامل دسترس ہونا چاہئے اور وہ بھی ایک صوفی کامل اور عارف باللہ کے ملفوظات کو دوسری زبان میں پیش کرنا ، جس میں تصوف کے رموز واسرار ہوں، تفسیری، حدیثی اور فقہی نکات ہوں ، کردار و عمل کی ترغیب ہو، فکر و فن کے خزانے ہوں ،کب کون سی بات کس لہجے میں اور کس پس منظر میں پیش کی گئی ہے اس کی معرفت ہو ، حاصل یہ کہ حضرت سید شاه محمد شفیع فردوسی اور حضرت مولانا محمد عابد چشمی نے اپنے فن کا مظاہرہ بڑے سلیقے سے کیا ہے۔ اور ان پر نظرثانی ،تصحیح اور تقدیم کے ذمہ داری معروف خطیب اور محقق حضرت سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی نے بڑیخوبی سے نبھائی۔ بس ایک بات عرض کرنا ہے کہ دونوں کے ترجمہ کا ذکر مقدمہ میں کیا گیا ہے اگر سرورق پر ہو جاتا تو شاید زیادہ اچھا ہوتا ۔
کتاب کا کاغذ اعلیٰ، طباعت عمدہ، صفحات:۴۰۸ اور قیمت صرف ۴۰۰ روپے ہء / ناشر خانقاہ منعمیہ متین گھاٹ پٹنہ سٹی بہار۔
مولا تعالیٰ تو اپنے خاص فضل و کرم سے مخ المعانی کو دوامی مقبولیت سے سرفراز فرما اور جن حضرات کی محنت سے یہ علمی ذخیرہ منظرِ عام پر آیا ہے انھیں جزاؤں سے مالا مال فرما۔ آمین۔