12 December, 2024


Book: The Monthly Ashrafia March 2023 Download:Click Here Views: 226784 Downloads: 4887

(15)-سلسلۂ تیغیہ کے عالمِ ربانی، جامع العلوم مولانا خطاب علي صديقي قادري

محمد ولی اللہ قادری

شیخ المشائخ حضرت شاہ تیغ علی قادری آبادانی قدس سرہ (۱۸۸۳۔۱۹۵۸ء) کی شخصیت سے منسوب سلسلۂ تیغیہ میں ہزاروں کی تعداد میں علما و فضلا پیدا ہوئے۔کیوں کہ شیخ المشائخ محض صوفی نہیں بلکہ ایک عالم گر بھی تھے۔ دارالعلوم علیمیہ انوار العلوم دامودر پور ضلع مظفر پور راقم الحروف کے دعویٰ پر شاہد عدل ہے۔ اس کے باوجود ایک طبقے کو یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی ہے کہ سلسلہ تیغیہ میں ان پڑھ صوفی کی تعداد زیادہ ہے۔یہ بات اس لیے بھی قابل مذمت ہے کہ شیخ المشائخ کے چھتیس خلفا میں نصف سے زائد خلفا باضابطہ علما و حفاظ ہیں۔باقی حضرات کی تعلیمی اسناد تحقیق طلب ہیں۔اس لیے ان حضرات کو ان پڑھ کے زمرے میں شامل کرنا اصول تحقیق کا منافی ہے۔شمالی بہار کے مسلمانوں کے دور پیغمبری میں شیخ المشائخ اور انکے خلفا و مریدین نے جو خدمات انجام دیں ان سے انکار کی بالکل گنجائش نہیں ہے۔ حضرت شیخ المشائخ کے فیض یافتہ اور جلیل القدر خلفا میں حضرت مولانا خطاب علی صدیقی قادری تیغی کی شخصیت نمایاں ہے۔ آپ شیخ المشائخ کے چھٹے خلیفہ ہیں۔مولانا موصوف سے سلسلہ تیغیہ کاجو فروغ ہوا وہ نا قابل انکار حقیقت ہے۔ شیخ المشائخ کی نظر میں مولا نا خطاب علی صدیقی قادری تیغی کی شخصیت بہت ممتاز اور محبوب تھی۔ اس بات کا اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین حضرت علامہ علی احمد جید القادری کے درج ذیل قول سے ہوجاتا ہے۔موصوف رقم طراز ہیں:

’’آپ (شاہ مولانا خطاب علی) اور خلیفہ اوّل حضرت شاہ محمد حنیف صاحب کے بارے میں حضرت شیخ المشائخ سرکار سرکانہی رحمۃ اللہ علیہ بارہا فرمایا کرتے تھے کہ حافظ شاہ محمد حنیف صاحب اور مولانا شاہ محمد خطاب علی صاحب یہ دونوں ہمارے سلسلہ کے عالم ہیں۔ ‘‘

[ انوار صوفیہ، صفحہ نمبر۲۸۴]

  حضرت مولانا شاہ خطاب علی نے پوری زندگی سلسلہ تیغیہ کے فروغ کے لیے وقف کردی تھی۔ ان کی خدمات یقینا ً جلی حروف سے لکھنے کے قابل ہیں۔ حضرت مولانا کی خدمات کا اجمالی خاکہ علامہ جید القادری فاضل دارالعلوم مظہر اسلام، بریلی شریف نے یوں کھینچا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’ آپ کا تعلق حضرت سرکار قبلہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کی خانقاہ و مدرسہ سے بے نہایت ہے۔ آپ برابر اپنے وطن سے جب یہ معلوم ہوجاتا کہ سلسلۂ رشدو ہدایت سے خانقاہ آبادانیہ پر تشریف لائے تو فوراً حاضر بارگاہ ہوتے۔ آپ بہت دنوں تک مدرسہ علیمیہ انوار العلوم ملحقہ خانقاہ آبادانیہ سرکانہی شریف میں مسند تدریس پر فائزرہے۔ آپ کو منزل طلب و عشق میں بڑی دشوار گزارمنزلوں سے گزرنا پڑالیکن ہر امتحان میں کامیاب ہوتے چلے گئے۔ آپ کو عرس قادری تیغی وخانقاہ آبادانیہ و مدرسہ علیمیہ کے انتظامات سے کافی دلچسپی ہے۔‘‘

[ انوار صوفیہ ، مولفہ علامہ جید القادری ، صفحہ۲۸۴۔ ۲۸۵]

پیش نظر اقتباس کی ہی اگر تشریح ہوجائے تو مولا نا خطاب صدیقی کی خدمات پر ایک طویل مضمون تیار ہوسکتا ہے۔ اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خانقاہ آبادانیہ تیغیہ اور دارالعلوم علیمیہ کی بے لوث خدمات کا نتیجہ ہے کہ حضرت شیخ المشائخ نے مولانا کو بہت نوازا۔ حضرت شیخ المشائخ کی کرم فرمائی اور ذرہ نوازی کی مثال حضرت شیخ المشائخ کے اس خط سے مل جاتی ہے جس کو آپ نے امیر شریعت دوم حضرت شاہ محی الدین قادری، پھلواری شریف کی خدمت میں ارسال فرمایا تھا۔ شیخ المشائخ کا خط اور امیر شریعت دوم کا جوابی خط دونوں خطوط کویہاں پیش کرنا اہمیت و افادیت سے خالی نہیں :

حضرت پرنور سیدی و مرشدی قبلہ مد ظلہ الاقدس

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

گزارش ایں کہ میری حالت عزیزی حافظ محمد حنیف سلمہ سے معلوم ہوگی۔ عرصہ چھ ماہ سے بستر علالت پر پڑا ہوں ، کمزوری دن بدن بڑھتی جاتی ہے۔ ڈاکٹر کا علاج ہورہا ہے لیکن ہنوز کوئی صورت افاقہ نظر نہیں آرہی ہے۔ واللہ اعلم کیا مشیت ہے دعا فرمائیں۔

ضروری عرض یہ ہے کہ اپنے علالت کی زیادتی کو مد نظر رکھتے ہوئے حافظ محمد حنیف و مولوی خطاب وغیرہ کو میں نے سلسلہ آبادانیہ و سلسلہ وارثیہ مجیبیہ دونوں کی اجازت و خلافت دے دی ہے چوں کہ ان لوگوں کو دونوں سلسلہ کی تعلیم دی گئی ہے ، چنانچہ یہ لوگ سلسلہ آبادانیہ میں مرید بھی کرتے ہیں۔ مجھے ایک خیال پیدا ہوگیا کہ حضور والا سے مشورہ نہیں لیا گیا۔ لہٰذا عرض ہے کہ سلسلہ وارثیہ مجیبیہ کی اجازت اس خادم تک ہی محدود رہے گی یا یہ لوگ آگے ترقی کی کوشش کرسکتے ہیں جیسا حضور والا تحریر فرمائیں ویسا ہی عمل میں لایا جاوے۔ ان لوگوں کو اجازت دے دینا حضور کو پسندہو تونور علی نور ورنہ منع کردیا جائے گا۔

اور زیادہ کیا عرض کرو ں امید کہ جواب سے سرفراز فرمایا جائے۔

فقط والسلام

نیاز عقیدت گزیں آستانہ ٔعالیہ

مورخہ ۲۲؍محرم الحرام ۱۳۶۵ھ

فقیرمحمد تیغ علی غفرلہ آبادانی مجیبی

مقام :سرکانہی ، کانٹی، ضلع مظفر پور

جواب                :

محبی و مخلصی شفاء اللہ !        السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ

دعا گو ہوں۔ اللہ پاک آپ کو جلد صحت و شفاے کلی اور عافیت دارین عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

سلسلہ مجیبیہ کی اجازت صرف آپ تک محدودنہیں ہے۔ بلکہ آپ جس کو چاہیں اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔ حافظ محمد حنیف صاحب اور مولوی خطاب صاحب کے لیے بھی اس اجازت کو میں پسند کرتا ہوں۔

اللہ پر بھروسہ رکھیں اور اسی کے تصور میں بسر کریں۔ جب طبیعت گھبرائے تو اسی کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ والسلام

محمد محی الدین قادری، پھلواروی

۵ ؍صفرالمظفر،پنجشنبہ۱۳۶۵ ھ

دونوں خطوط شیخ المشائخ کی سوانح حیات ( انوار قادری )سے ماخوذ ہیں۔ دونوں خطوط کے مطالعہ سے جہاں شیخ المشائخ کی دیانت داری کا ثبوت مل جاتا ہے وہیں حافظ شاہ محمد حنیف مولفہ انوار قادری اور مولانا شاہ محمد خطاب کی دونوں بزرگوں کی نظر میں ان کے محبوبیت کی سند فراہم ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ شاہ محی الدین قادری کی والد محترم حضرت مولانا سید شاہ محمد بدر الدین قادری پھلواروی سجادہ نشین خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے فیض سے مولانا خطاب علی کا خاندان خوب فیض یاب ہوا ہے۔ فردنامہ بیتاب صدیقی کے مولف ڈاکٹر نسیم اختر نے لکھا ہے کہ مولانا بیتاب صدیقی( برا در صغیر )مولانا خطاب علی کی باقاعدہ رسم مکتب خانقاہ مجیبیہ کے سجادہ نشین مولانا سید بدرالدین قادری کے ذریعہ ۱۹۲۳ء میں ادا ہوئی۔ حضرت سجادہ نشین کی آمد باعث خیر و برکت سمجھتے ہوئے بیتاب صدیقی کے پھوپھی زاد اور خالہ زاد بھائیوں کا مکاتب بھی ان کے ساتھ ہوا۔ ڈاکٹر نسیم اختر کی تحریر سے واضح ہو جاتا ہے کہ مولانا خطاب صدیقی کا پورا خاندان مولا نا سید بدرالدین قادری کا ارادت مند رہا۔

مولانا خطاب علی کی پیدائش کا سال تحقیق طلب ہے۔ البتہ قباس اغلب ہے کہ مولاناکی پیدائش گو پیا ڈمری ضلع مظفر پور (موجودہ شیوہر) میں ہوئی ہو گی۔ سال پیدائش۱۹۱۰ء کے آس پاس تسلیم کرنا چاہیے۔ یہ بات دو وجہ سے درست معلوم ہوتی ہے۔ اول یہ کہ مولانا خطاب کے چھوٹے بھائی اور بہار میں تحریک اردو کے روح رواں مولانا بیتاب صدیقی کی پیدائش کا سال ۱۹۱۶ء ہے۔ اور دونوں بھائیوں کے درمیان ایک بہن ہیں جو پھلواری شریف میں بستی تھیں۔دوسری وجہ یہ کہ مولا نا خطاب شاہ کے نواسے مولانا اسرار الحق منظر ی مظفر پوری کے بہ قول ان کے بڑے ماموں حافظ عبدالاحد تیغی نور اللہ مرقدہ اسّی سال کی عمر مکمل کرکے۲۰۰۸ء میں وصال فرمایا۔ دونوں دلائل کی بنیاد پر۱۹۱۰ء کے آس پاس سال پیدائش تسلیم کرنے میں کوئی ترددمعلوم نہیں ہوتا۔بہر کیف ! مولانا خطاب علی شاہ کا سلسلہ نسب یہ ہے۔

’’مولانا محمد خطاب علی بن عبد المجید بن عبد الغنی بن جعفر حسن بن طیب الل بن گوہر علی بن نعمت اللہ بن خضر حسین‘‘۔

مولا نا خطاب علی کا خاندان ہر دور میں باوقار رہا۔ اس خاندان کی علمی اور ملی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ تفصیل سے قطع نظر ان کے دادا عبد الغنی صاحب حیثیت اور نامور مجاہد آزادی تھے۔ انھوں نے بلا تفریق مذہب وملت سبھوں کی  خدمات انجام دیں۔ چنانچہ ڈاکٹر نسیم اختر رقم طراز ہیں:

’’عبدالغنی ہندؤں اور مسلمانوں کے درمیان آپسی خیر سگالی کی فضا کو پروان چڑھانے میں ہمیشہ کوشاں رہے۔ اس اعتبار سے بھی وہ اپنے علاقے میں مقبول اور ہر د ل عزیز تھے۔ وہ خلافت تحریک میں بھی بہت فعال تھے۔ جس کی وجہ سے بہت مصروف رہتے تھے۔ ملک کی ممتاز مذہبی و سیاسی شخصیتیں جب شمالی بہار کے دورہ پر آئیں تو عموماً ان کا قیام عبد الغنی کے یہاں ہی ہوتا تھا۔ مولانا محمد شوکت علی اور مولانا محمد علی انہیں کی دعوت پر۲۲۔۱۹۲۱ میں ان کے مہمان ہوئے۔ علی برادران کی آمد کے موقع پر علاقہ میں اور اس کے باہر بڑے جلسہ و اجتماع کا اہتمام انھوں نے ہی کیا۔ مظفر پور اور موتی ہاری کی ممتاز شخصیتوں کے ساتھ ایک بڑی تعداد میں خلافت تحریک میں شامل ہو گئے۔ ‘‘ [فردنامہ، بیتاب صدیقی، صفحہ ۱۶]

مولانا خطاب علی صدیقی کے والد عبدالمجید نے بھی سماجی وملی اور تعلیمی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مدارس و مکاتب کا قیام آپ کا محبوب مشغلہ تھا۔ جیسا کہ ڈاکٹر نسیم اختر لکھتے ہیں :

’’خاندانی وراثت میں کا شت کاری ملی تھی۔ علاوہ ازیں ہیرے جواہرات کی تجارت بھی کرتے تھے۔ وہ (عبد المجید والد مولانا خطاب) جنگ آزادی کی تحریک کو فروغ دینے میں پیش پیش رہے۔ ان کا انتقال ۶۴سال کی عمر میں غالباً ۱۹۳۰ء میں ہو گیا۔ ان کی بستی کی ایک مسجد کے علاوہ ڈمری کسٹری میں پرائمری اسکول، فاطمہ چک میں مدرسہ اصلاح المسلمین اور ہیر اماموضع میں ایک مدرسہ سمیت اودے چھپرہ ، رام پور کیشو، گوپیا ،نیا گاؤ ں کے چند قدیم مکاتب و مدارس ان کی ملی دینی و فلاحی خدمات کی یاد گار ہیں۔‘‘

[ فرد نامہ، بیتاب صدیقی : صفحہ ۱۸]

  مولانا خطاب صد یقی قادری کی تعلیمی تفصیلات کی تاریخ نہیں ملتی۔ لیکن قیاس اغلب ہے کہ ابتدائی تعلیم وطن میں ہوئی اور اعلیٰ تعلیم مدرسہ عالیہ کلکتہ میں۔ کیوں کہ ان کے خاندان کے ایک عالم مولانا وصی احمد مدرسہ عالیہ کے صدر المدرسین تھے۔ خود مولانا کے پیرو مرشد شیخ المشائخ حضرت تیغ علی قدس سرہ کا بھی مدرسہ عالیہ سے تعلیم حاصل کرنے کی ایک روایت ملتی ہے۔ علم ظاہر مولانا نے کہیں سے حاصل کی ہو لیکن باطنی اور تصوف کی تعلیم و تربیت شیخ المشائخ کے ذریعہ ہوئی۔ مولانا عالم شباب میں ہی سرکار سر کا نہی کے دامن فیض سے وابستہ ہوگئے۔ مضمون کے آغاز میں ہی مولانا جبد القادری کے حوالے سے اطلاع دی گئی ہے کہ سلسلہ تیغیہ کے دو عالم تھے۔ ایک مولانا خطاب علی کی شخصیت تو د و سری حافظ محمد حنیف قادری تیغی نور اللہ مرقدہ کی۔ دونوں درس و تدریس کے نباض تو تھے ہی لیکن دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مولا نا میدان خطابت کے شہسوار تھے جب کہ حافظ صاحب تالیف وتصنیف کے باب میں درنایاب گزرے ہیں۔ مولانا خطاب علی قادری سلسلہ تیغیہ کا مستندواعظ اور مقرر تھے تو حافظ محمد حنیف تیغی معتبر و مستند مصنف تھے۔ شیخ المشائخ مولانا خطاب صدیقی کی تقریر خود سماعت فرماتیاور اپنی دعاؤں سے خوب نوازتے تھے۔ مولانا خطاب شاہ کی تقریری صلا حیتوں کا اعتراف علامہ جیدالقادری نے یوں فرمایا ہے:

’’ آپ(شاہ مولانا خطاب) اسٹیج کے ممتاز ترین خطیب و واعظ و امام مسجد اور رات کے عابد وزاہد ہیں۔ سادگی آپ کا تمغہ امتیاز ہے۔ ان کو دیکھتے ہی بزرگان سلف کا عکس رو برو آجاتا ہے۔ انداز کلام ایسا کہ ایک ایک جملہ اور ہر ہر کلام بلکہ لفظوں تک شمار کرتے چلے جائیے۔ آپ کی تقریر دل پذیر حضرت شیخ المشائخ سر کارسرکانہی رحمۃ اللہ علیہ بھی بے حد پسند فرماتے تھے۔ آپ جب بھی تقریر کرتے تو حضرت شیخ المشائخ کی زبان فیض ترجمان سے ارشاد ہوتا کہ بابو مولوی شاہ محمد خطاب صاحب تقریر نہیں کرتے بلکہ سمندر سے موتی نکالتے ہیں۔ ‘‘

[ انوار صوفیہ، صفحہ۲۸۴]

  پیش نظر اقتباس سے جہاں مولانا شاہ خطاب کی طرز خطابت پر روشنی پڑتی ہے وہیں عہد حاضر کے خطبا و مقررین کے لیے ایک اہم پیغام بھی جس عالم کے خطاب کی داد وتحسین شیخ المشائخ جیسی شخصیت کی زبان سے ملے اس خطیب کا مقام خود بہ خود واضح ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علمائے کرام کی بالخصوص سلسلہ تیغیہ کے منبر سے مولانا خطاب کی طرز پر تقریر ہوتا کہ شیخ المشائخ کا فیض بھی تقریر کو متاثر کر سکے۔ حضرت مولانا شاہ خطاب کی خطابت کی ایک انفرادی خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ انگریزی الفاظ بھی بوقت ضرورت خطاب میں استعمال فرماتے تھے۔ شیخ المشائخ کے حکم سے انگریزی میں خطاب کرنے کا ایک واقعہ علامہ جید القادری نے یوں رقم فرمایاہے:

’’ ایک مرتبہ حضرت سرکار قبلہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے( ایک بار ایسے مجمع میں جہاں انگریزی طبقہ بھی موجود تھا) آپ (مولوی شاہ خطاب) سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ بابو یہ لوگ موجود ہیں جنھیں انگریزی سے دل چسپی ہے۔ ایسے انداز میں تقریر کرد یجیے جو ان لوگوں کے بھی سمجھ میں آسکے۔ آپ نے اپنے اس مخصوص انداز ہی میں مگر انگریزی الفاظ لئے ہوئے پرمغز تقریر فرمائی۔ حاضر ین بہت زیادہ دل چسپی سے آپ کی تقریر دل پزیر سنتے ر ہے۔ میں جب بھی انھیں دیکھتا ہوں تو خدا لگی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر اقبال کا یہ شعر فوراً سامنے آجاتا ہے کہ:

نرم دم گفتگو ،گرم دم جستجو

رزم ہو یا بزم ہو ،پاک دل و پاک باز

    [انوار صوفیہ ، ۲۸۴]

شیخ المشائخ کی پہلی سوانح حیات ’انوار قادری ‘مولفہ حضرت حافظ شاہ محمد حنیف قادری تیغی کے مطالعہ کے دوران مولانا شاہ خطاب علی قادری تیغی کی خدمات کی آگہی حاصل ہو جاتی ہے۔ ’ انوار قادری ‘ میں کرامات کے باب میں دو کرامتوں کی روایت مولانا سے ہے۔ دونوں روایات کو پیش کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے کیوں کہ ان میں ہمارے لیے بے شمار پیغامات ہیں۔ حافظ شاہ محمد حنیف قادری تیغی رقم طراز ہیں:

 ’ برادر طریقت جناب مولوی شاہ محمد خطاب صاحب ساکن گو پیاڈمری فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سرکار قبلہ دعوت میں پگہیاںجا رہے تھے۔ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ راستے میں ایک بہت بڑا میدان ملا۔جب ہم لوگ بیچ میدان میں پہنچے تو بڑے زور کی آندھی اور بارش شروع ہو گئی۔ مجھ کو تشویش ہوئی کہ ہم لوگ مع اسباب کے(کذا) بھیگ جائیں گے۔ کتابیں خراب ہو جائیں گی۔ مگر حضرت سرکا ر قبلہ بالکل مطمئن نظر آتے تھے۔ خدا کی شان دیکھیے کہ راستہ کے چاروں طرف کچھ دور کے فاصلہ پر بڑے زور کی بارش ہو رہی ہے مگر راستہ کے متصل دائیں بائیں اور سامنے ایک بوند بھی نہیں گرتی، ایک عجیب منظر تھا۔ بادل گھر گھر کے آتا تھا مگر سامنے سے چھٹ جاتا۔ میلوں دور جا کر ایک جھونپڑی نظر آئی۔ سرکار قبلہ نے فرمایا کہ اب گاڑی روکو۔ جب گاڑی روک کر اسباب اتارے گئے اور اس جھونپڑی میں ہم لوگوں نے پناہ لی۔تب موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ بہت دیر کے بعد جب پانی برسنا موقوف ہوا تو وہاں سے روانہ ہوکر پگہیاں پہنچے۔ ‘‘[ انوار قادری ، صفحہ۱۳۱]

پیش نظر اقتباس سے یہ بات خود بہ خود اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ شیخ المشائخ اور ان کے رفقا کا اسباب سفر کتابیں ہوتی تھیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کتابوں کو جان سے زیادہ عزیز رکھیں۔ صاحب انوار قادری ،مولانا شاہ محمد خطا ب سے روایت کردہ ایک اور کرامت کو یوں لکھتے ہیں:

’’مولوی (شاہ خطاب علی )صاحب موصوف ایک اور سفر کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت سرکار قبلہ ایک مرتبہ موضع چتربٹی علاقہ تھانہ پارو سے خانقاہ شریف واپس آ رہے تھے۔ میں بھی آپ کے ہمراہ تھا۔ راستے میں ایک میدان ملا جس میں چروا ہے لوگ مویشیاں چرا رہے تھے۔ ایک بہت شریر اور خطر ناک سانڈ جو لوہا کے تارسے نا تھا ہوا تھا۔ گاڑی دیکھ کردوڑا۔ ہم لوگ بہت خوف زدہ ہوئے اور اس کے حملہ کے دفعیہ کا سامان کرنا ہی چاہ رہے تھے کہ وہ ہماری گاڑی کے بالکل قریب آگیا اور بڑی مستی میں گاڑی کے پہیا میں سینگ لگا کر گاڑی کو الٹ دینا جاہا کہ معاً حضرت سرکار قبلہ کی زبان مبارک سے نکلا ’ہیہ ‘ اتنا کہنا تھا کہ اس سرکش سانڈ کا پاؤں زمین سے ایسا بندھ گیا کہ نہ آگے بڑھ سکتا ہے نہ پیچھے ہٹ سکتا۔سکتے کے عالم میں کھڑا تک رہا تھا۔ تمام لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے کہ آخر سانڈھ کو کیا ہو گیا کہ نہ آگے بڑھتا نہ پیچھے ہٹتا ہے۔ جب گاڑی بہت دور نکل گئی تو زمین نے سانڈھ کے پاؤں کو چھوڑا اور اس نے مویشیوں کے غول کی طرف رخ کیا۔

اسی سفر میں آگے چل کر یہ واقعہ پیش آیاکہ ایک بستی میں پہنچ کر ایک چوراہا ملا۔ اْس کے کونے پر بغل میں ایک بڑا گڑھا تھا۔ وہاں پہنچ کر گاڑی بان پر غنودگی طاری ہو گئی۔ گاڑی کے بیل یکایک بستی کی طرف مڑ گئے۔ اور گاڑی اس گڑھے کی نشیب کی طرف چلی گئی اور گاڑی کا جوا کھڑا ہو گیا کہ معاً حضرت سرکار قبلہ کی زبان مبارک سے نکلا ’تھم ‘ گاڑی رک گئی۔ خدا کی شان دیکھیے کہ باوجود یہ کہ گاڑی نشیب کی طرف جا رہی تھی مگر جونہی آپ نے فرمایا ’تھم ‘گاڑی رک گئی اور جلدی سے ہم لوگوںنے اتر کر گاڑی کو پکڑ لیا اور کندھے پر کھینچ کر باہر لائے۔ یہ کھائی ایسی تھی کہ ذرا اور گاڑی کھسک جاتی تو چاروں شانے چت الٹ جاتی اور سب لوگ مع اسباب کے اس گڑھے میں آجاتے اور خدا جانے کیا حشر ہوتا ۔‘‘  [انوار قادری ، صفحہ۱۳۲ اور ۱۳۳]

مذکورہ بالا اقتباس سے جہاں شیخ المشائخ کی کرامات پر روشنی پڑتی ہے وہیں ان کے مریدصادق اورخلیفہ مولانا شاہ محمد خطاب کی کسر نفسی بھی کہ ایک معتبر عالم ہونے کے باوجود بیل گاڑی کو اپنے کندھے سے باہرنکالتے ہیں۔ مولا نا موصوف کی حد درجہ خانقاہ سے وابستگی کا نتیجہ ہے کہ شیخ المشائخ نے محض مولانا پر ہی لطف و کرم کی بارش نہیں فرمائی بلکہ ان کے خاندان پر بھی۔ اس سلسلے میں ’انوار قادری ‘ میں در ج اس واقعہ سے ہمیں رہنمائی ملتی ہے۔ مولف انوار قادری لکھتے ہیں کہ :

’’ برادر طریقت جناب مولوی شاہ محمد خطاب صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت سرکار قبلہ کے ہمراہ سفر میں تھا۔ آپ شام کے وقت خانقاہ شریف میں واپس آئے۔ علی الصبح آپ نے فرمایا۔ مولوی صاحب آپ مکان جائیے۔ میں نے کچھ جواب نہیں دیا۔ آپ نے دوبارہ یہی فرمایا۔ میں پھر بھی خاموش رہا۔ کیوں کہ اپنی طبیعت کس مند تھی۔ جانے کو جی نہیں چاہتاتھا۔ آپ نے سہ بار فرمایا کہ جائیے۔ بلی بھائی کے یہاں گھسوت کھانا کھا لیجیے گا اور چلے جائیے گا۔ تیسری بار جب آپ نے جانے کو فرمایا تو میں جانے کو تیار ہو گیا اور خانقاہ شریف سے چل کر بمقام گھسوت برا در طریقت بلی میاں صاحب کے یہاں پہنچا۔ وہاں کوئی تقریب تھی۔ جس میں مہمان آئے ہوئے تھے۔ کھانا تیار تھا۔ ابھی مہمانوں نے کھانا نہیں کھایا تھا۔ میرے جانے کے بعد دستر خوان بچھا اور مہمانوں کے شامل ہو میں نے بھی کھانا کھایا اور فوراً وہاں سے روانہ ہوا۔ قریب چار بچے مکان پہنچ گیا۔ وہاں جا کر میں نے دیکھا کہ میری خوش دامن صاحبہ قریب المرگ ہیں اور پہلے سے مجھے بار بار یاد کر رہی ہیں۔ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آپ سے بھی ملاقات ہوگئی۔ خطاکی معافی کرائی۔ کچھ دیر ان سے گفتگو کرتا رہا۔ اور بعدہ ان کی زبان بند ہو گئی اور کل ہو کر ان کا انتقال ہو گیا۔ اب مجھ پر یہ راز کھلا کہ سرکار قبلہ کے بار بار اصرار کرنےکا کہ گھر جاؤیہی مطلب تھا۔

 [ انوار قادری ،صفحہ۱۵۸ ۔۱۵۹ ]

شیخ المشائخ جب تک باحیات رہے مولانا خطاب علی ان کی خدمت میں رہے۔شیخ المشائخ کے وصال کے بعد آپ نے سلسلہ تیغیہ کو اپنی بساط کے مطابق خوب فروغ دیا۔آپ کے مریدین بلیا اتر پردیش ، چھپرہ ،مظفر پور اور موتی ہاری مشرقی چمپارن میں کثیر تعداد میں ہیں۔مریدین میں موتی ہاری والے مریدین خوش قسمت رہے کہ حضرت کی آخری آرام گاہ شہر موتی ہاری بنی۔ ۵؍ صفر المظفر ۱۴۰۱ ھ مطابق دسمبر۱۹۸۰ء کو آپ کا وصال ہوااور تدفین جان پل ، رحمت نگر شہر موتی ہاری میں ہوئی۔ جہاں آپ کا مزار مرجع خلائق ہے۔

حاصل کلام یہ ہے مولانا خطاب علی صدیقی تیغی کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی