27 July, 2024


Book: The Monthly Ashrafia March 2023 Download:Click Here Views: 82350 Downloads: 3367

(9)-فرائض ذمہ باقی رہتے ہوئے نوافل کی ادئیگی کا حکم

خلیل احمد فیضانی

عوام کی جہالت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ویسے پورے سال کبھی مسجد کا رخ نہیں کرتےہیں اور جب مبارک راتیں جیسےشب معراج ،شب براءت یا رمضان المقدس کا بابرکت مہینہ جلوہ فگن ہوتا ہے تو کچھ حد تک مسجدوں سے قریب تو ہوجاتے ہیں مگر اپنی جہالت کی وجہ سے ان مبارک ساعتوں سے بھی کما حقه مستفید نہیں ہوپاتے ۔

بعض لوگوں کے ذمہ گذشتہ دس سال،پندرہ سال حتی کہ بیس سال تک کی قضا نمازیں سر  ہوتی ہیں مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ وہ لوگ بجاے ان قضا نمازوں کو پڑھنے کی نوافل پڑھ رہے ہوتے ہیں۔

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے فتاوی رضویہ مترجم جلد: 10،صفحہ: 179 رسالہ مبارکہ ”اعز الاکتناہ فی رد صدقة مانع الزکاة“  میں یہ ضابطہ لکھا ہے کہ:کوئی نفل قبول نہیں ہوتا جب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے۔

یہ ضابطہ ایک حدیث شریف سے مستنبط و ماخوذ  ہے۔حدیث پاک کے کلمات مبارکہ یہ ہیں:لما حضر ابابکر نالموت دعا عمر فقال:اتق اللہ یا عمر واعلم ان له عملا بالنھار لایقبله با للیل وعملاً باللیل لایقبله بالنھار واعلم انه لايقبل نافلة حتي تؤدی الفریضة ۔

ترجمہ:حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی نزع کا وقت ہوا تو آپ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کو بلواکر ارشاد فرمایا: اے عمر!اللہ تعالی سے ڈرنا،اور جان لو کہ اللہ کے کچھ کام دن میں ہیں کہ انہیں اگر رات میں کرو تو قبول نہیں فرمائے گا اورکچھ کام دن میں ہیں کہ انہیں اگر دن میں کرو تو قبول نہیں فرمائے گا اور خبردار رہو کہ کوئی نفل قبول نہیں ہوتا جب تک فرض ادا نہ کرلیا جائے۔

(حلیة الاولیاء،جلد:1،صفحہ:36،باب ذکر المھاجرین)

 امام ابو نعیم کے علاوہ دیگر محدثین کرام نے بھی اس حدیث کو اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے جیسے عثمان بن ابی شیبہ نے اپنی سنن میں،امام حناد نے فوائد میں،امام ابن جریر نے تہذیب الآثار میں روایت کیا ہے۔

اور بھی احادیث ہیں جن کو ہمارے علما نے اس ضابطہ کی اصل بتایا ہے ۔آقاﷺ نے ارشاد فرمایا: اربع فرضھن اللہ فی الاسلام فمن جاء بثلاث لم یغنین عنه شیٔا حتی یاتی بھن جمعیا: الصلوۃ، والزکوة وصيام رمضان وحج البیت۔

ترجمہ: چار چیزیں اللہ تعالی نے اسلام میں فرض کی ہیں تو جو ان میں سے تین ادا کرے وہ اسے کچھ کام نہ دیں جب تک وہ پوری چاروں نہ بجا لاے۔ وہ چار چیزیں یہ ہیں:نماز،زکوة،روزه  رمضان اور حج کعبہ۔(مسند احمد بن حنبل،جلد:4،صفحہ:201)

حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:  ”امرنا  باقام الصلوة وایتاء الزکوٰۃ ومن لم یزک فلا صلوة له“۔

ترجمہ:ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم نماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں اور زکوة نہ دیں اس کی نماز بھی مقبول نہیں ہے۔ (مجمع الزوائد ،ج:3،ص:62)

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فتوح الغیب میں ارشاد فرماتے ہیں: فان اشتغل بالسنن والنوافل قبل الفرائض لم یقبل منه واھین۔

ترجمہ: یعنی جو کوئی فرض چھوڑ کر سنت و نفل میں مشغول ہوگا تو یہ سنت و نفل قبول نہیں ہوں گے اور وہ خوار کیا جائے گا۔

(فتوح الغیب،صفحہ:273)

شیخ محقق علامہ شاہ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے اسی فتوح الغیب کی مذکورہ عبارت کی تشریح میں ارشاد فرمایا کہ: ترک آں چہ لازم و ضروری است واہتمام با آں چہ نہ ضروری است از فائدہ در عقل و خرد دور است چہ دفع ضرر اہم است بر عاقل از جلب نفع بلکہ بحقیقت نفع دریں صورت منتفی است

ترجمہ:لازم و ضروری چیز کا ترک اور جو ضروری نہیں ہے اس کا اہتمام عقل و خرد میں فائدہ سے کوسوں دور ہے کیوں کہ ایک عاقل کے یہاں حصول نفع سے دفع ضرر اہم ہے بلکہ اس صورت میں تو نفع ہی منتفی ہے ۔

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمہ اللہ تعالی علیہ عوارف المعارف شریف میں لکھتے ہیں:کہ حضرت خواص رضی اللہ تعالی نے فرمایا : بلغنا ان اللہ لایقبل نافلة حتی یؤدی فریضة،یقول اللہ تعالی مثلکم کمثل العبد السوء بداء بالھدایة قبل قضاء الدین۔

ترجمہ:یعنی ہمیں یہ خبر پہنچی کہ اللہ عزوجل کوئی نفل قبول نہیں فرماتا یہاں تک کہ فرض ادا کیا جائے۔اللہ تعالی ایسے لوگوں سے ارشاد فرماتا ہے:کہ تمہاری مثال اس برے بندے کی طرح ہےجو قرض ادا کرنے سےپہلے تحفہ پیش کرے۔ (عوارف المعارف شریف،صفحہ:168)

سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے بارے میں چند مثالیں بھی پیش فرمائی ہیں جو فرائض کو ترک کرکے نوافل کا اہتمام کرتا ہے۔فرماتے ہیں: کہ جس آدمی کو سلطان طلب کرے وہ وہاں نہ جاۓ اس کے غلاموں کے پاس جاۓ اس کی مثال ایسی ہے،،۔

حضرت علی مشکل کشا رضی اللہ تعالی عنہ کے حوالہ سے آپ فتوح الغیب میں نقل فرماتے ہیں کہ جس عورت کا حمل عین وقت پر ساقط ہوجاے تو اس کا نقصان گویا دگنا ہے کہ تکلیف بھی جھیلی اور بچہ بھی گیا۔یہ  مثال اس نفل خیرات کرنے والے کی ہے جو فرض ادا نہیں کرتا۔ (فتوح الغیب،صفحہ: 273)

اہمیت فرائض کو بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں:اے عزیز!فرض خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ ونذرانہ ۔ قرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار تحفے بھیجیے وہ قابل قبول ہوں گے؟

خصوصا اس شہنشاہ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان و جہانیات سے بے نیاز ہے۔ یوں یقین نہ آئے تو دنیا کے جھوٹے حاکموں ہی کو آزمالے کوئی زمین دار مال گزاری تو بند کرلے اور تحفے میں ڈالیاں بھیجا کرے دیکھو تو سرکاری مجرم ٹھہرتا ہے یا اس کی ڈالیاں کچھ بہبود کا پھل لاتی ہیں ۔ذرا آدمی اپنے ہی گریبان میں منہ ڈالے فرض کیجیے آسامیوں سے کسی کھنڈ ساری کا رس بندھا ہوا ہے جب دینے کا وقت آۓ وہ رس تو ہرگز نہ دیں مگر تحفے میں آم،خربوزے بھیجیں کیا یہ شخص ان سے راضی ہوگا؟ یا آتے ہوے اس کی نادہندگی پر جو آزار انہیں پہنچا سکتا ہے ان آم، خربوزے کے بدلے اس سے باز آئے گا۔ سبحان اللہ! جب کھنڈ ساری کے مطالبات کا یہ حال ہے تو ملک الملوک احکم الحاکمین جلا وعلا کے قرض کا کیا پوچھنا۔ (فتاوی رضویہ ،رسالہ مبارکہ:اعز الاکتناہ)

ہم اپنے مضمون کو اعلی حضرت علیہ الرحمۃ کے  اسی سوالیہ جملے پر ختم کرتے ہیں کہ:قرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار تحفے بھیجیے وہ قابل قبول ہوں گے۔