27 July, 2024


Book: The Monthly Ashrafia March 2023 Download:Click Here Views: 82430 Downloads: 3368

(7)-عصر حاضر میں تصوف کا فقدان۔اسباب وحل

مفتی محمد کمال الدین اشرفی مصباحی

 

حَامِداً وَّمصلِّیاً وَّمُسلِماً

تاریخ تصوف :

جب تصوف اور صوفیاے کرام کے عنوان پر لکھا اور بولا جاتا ہے تو تصوف سے مراد وہ اسلامی نظام ہوتا ہے جسے حدیث پاک میں احسان کے نام سے موسوم کیاگیا ہے اور صوفیہ سے وہ جماعت ہم مراد لیتے ہیں جو کسی مرشدِ کامل کی نگرانی میں اپنے نفوس کا تزکیہ اور اپنے قلوب کا تصفیہ کر کے رشدوہدایت کے ایسے اعلیٰ مقام و منصب پر فائز ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے قلوب و اذہان کو اپنے روحانی و باطنی کمالات سے منور و مجلّٰی کر سکے، بندگان ِ خدا کاتعلق اور رشتہ اپنے مالک حقیقی سے جوڑ کر بہتر اور مضبوط بناسکے ۔ اسلام کا یہ نظام تصوف و احسان بہت ہی قدیم ہے ، اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اسلام کی۔ ابتدامیں اگرچہ لفظ تصوف کی اصطلاح موجود نہیں تھی لیکن تصوف اپنے تمام اوصاف اور خصوصیات کے ساتھ احسان کی شکل میں موجود تھا۔ صوفیاے کرام کی یہ مقدس جماعت ہر دور میں موجود تھی اور نظام احسان وتصوف کے ذریعہ ہمیشہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو سوئے حرم لے جانے کا فریضہ انجام دیتے رہے۔

ہر لمحہ اپنے خالق سے ڈرنا، دین کے کام کو بغیر کسی دنیاوی لالچ کے سر انجام دینا، ہر انسان کو اپنے سے بہتر سمجھنا، اپنی ذات کی نفی کرنا ، روپے پیسے سے محبت اور نہ ہی اسے جمع کرنا، شہرت و ناموری سے بچنا، طبیعت میں نرمی اور مزاج میں عاجزی پیداکرنا حقیقت میں یہی وہ بنیادی اوصاف و کمالات ہیں تصوف جن کا مجموعہ ہے اور اسی سے مل کر تصوف کا ابتدائی خاکہ تیار ہوا ہے،صوفیاے کرام کی زندگی انہیں تعلیمات کا مظہر تھی ۔

 عہد صحابہ و تابعین میں تصوف کے وجود کے سلسلے میں علامہ ابن خلدون تصوف کی وضاحت کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔

’’تصوف کا معنیٰ عبادت میں ہمیشہ پابندی کرنا، اللہ تعالیٰ کی طرف ہمہ تن متوجہ رہنا، دنیا کی زیب و زینت کی طرف سے روگردانی کرنا، لذت مال و جاہ جس کی طرف عام لوگ متوجہ ہیں اس سے کنارہ کش ہونا ، یہ طریقہ صحابہ کرام اور سلف صالحین میں مروج تھا۔‘‘

(کشف القلوب ۔ص ۱۱۔شیخ سید علی ہجویری)

تصوف کے ادوار:

مورخین نے تصوف کی ابتدا اور اس کے عروج وزوال کے پس منظر میں اس کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

دوراول: تصوف کا پہلا دور عہد نبوی اور صحابہ وتابعین کا دور ہے ، اس عہد میں تصوف بہ کمال وتمام موجود تھا مگر اسے تصوف نہیں کہاجاتا تھا اسے زہد و تقویٰ اور احسان کے نام سے تعبیر کیاجاتا تھا۔

دوسرادور: تصوف کا دوسرا دور اس وقت سے شروع ہوتا ہے جب مسلمانوں میں طلب دنیا اور حب جاہ عام ہوگئی، نئے نئے افکار و خیالات اور ضلالت و گمراہی مسلمانوں میں داخل ہوئی، وہ حقیقی مسلمان جو اسلام کے مثالی زہد و تقویٰ سے مزین تھے اور لذت ایمان سے آشنا تھے ،ان گمراہیوں سے اپنے کو محفوظ و مامون رکھا تو نشان امتیاز کے طور پر وہ صوفی کہلائے جانے لگے اور ان کی مخصوص ایمانی و احسانی روش اور زہد و تقویٰ کو تصوف کہاجانے لگا ۔

تیسرادور: تصوف کا تیسرا دور وہ ہے جس میں تصوف کو حصول دنیا کا ذریعہ بنالیاگیا ، پیری مریدی کے نام پر تصوف کو ذریعہ معاش سمجھا جانے لگا، وہ آستانے جہاں سے لاکھوں زندگیو ں میں انقلاب بپا ہواکرتاتھا ، مجاورین اور فقیروں کی بھیس میں بیٹھ کر لوٹ کھسوٹ کیاجانے لگا۔ وہ خانقاہیں جہاں تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب ہوا کرتا   تھا وہاں میلوں ،ٹھیلوں ،چادروں، گاگروں اور رقص وسرور کا مرکز ان کوتصور کیاجانے لگا، یہ تصوف کا سب سے بدترین دور ہے جس میں اس وقت ہم لوگ سانس لے رہے ہیں اور ان چیزوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ بھی کررہے ہیں، تصوف کے نام نہاد علم برداروں کی طرف سے تصوف کے نام پر اتنا بڑاظلم ہورہا ہے جس کی نظیرمخالفین تصوف بھی نہیں پیش کرسکتے، صوفیانہ لباس اور خرقہ ولایت کی آڑ میں جس طرح تصوف کا مذاق اڑایاجارہا ہے اس کی مثال شاید کہ کہیں مل سکے۔

تصوف کے منازل:

تصوف کی چارمنزلیں ہیں ، شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ شریعت ایک راستہ ہے ، راستے پر چلنے کا نام طریقت ہے اور اس راستے پر چل کر جس منزل مقصود تک رسائی حاصل ہوتی ہے اس کا نام حقیقت ہے اور منزل مقصود پر جو اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں ان کا نام معرفت ہے ، مناز ل تصوف کی یہ ایسی اصطلاحات ہیں جن کی تصدیق و تائید رسول اکرم ﷺ کی حدیث سے ہوتی ہے ، چنانچہ آپ ارشاد فرماتے ہیں:

’’الشریعۃ اقوالی والطریقۃ افعالی والحقیقۃ احوالی والمعرفۃ سری. ‘‘

  شریعت میرے اقوال کا نام ہے اور طریقت میرے اعمال کا ، حقیقت میرے باطنی احوال ہیں اور معرفت میرا راز ۔

علم فقہ کی مشہور و معتمد کتاب رد المحتار میں ہے :

’’ الطریقۃ والشریعۃ متلازمان لان الطریقۃ الی اللہ ظاہرھا وباطنھافظاہرہاالشریعۃ والطریقۃ وباطنہا الحقیقۃ.‘‘

شریعت و طریقت ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف جانے والے راستے کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے ، ظاہر شریعت و طریقت اور باطن حقیقت ہے ۔

ائمہ تصوف نے اپنے تمام معتقدات ،تصورات اور معمولات کی بنیاد قرآن و سنت کو ٹھہرایا ہے ،چنانچہ حضرت جنید بغدادی ﷫ فرماتے ہیں :

’’تصوف صرف وہی پاسکتا ہے جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن کریم اور بائیں ہاتھ میں سنت رسول اللہ ﷺ ہو اور وہ ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راستہ طے کرے، تاکہ نہ شک وشبہ کے گڑہوں میں گرے اور نہ ہی بدعت کے اندھیروں میں پھنسے ۔‘‘

(تذکرۃ الاولیا:ص ۹:فرید الدین عطار)

صوفیاکے اقسام:

عصر حاضر کے صوفیاے کرام کا اگر جائزہ لیاجائے تو تین قسموں پر مشتمل ہیں۔

پہلی قسم: پہلی قسم ان صوفیاے کرام کی ہے جوصاحب علم ہونے کے ساتھ اہل تصوف بھی ہیں۔

دوسر ی قسم: دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو مدعی اہل علم اور مدعی تصوف ہیں ،مگر حقیقت میں اہل تصوف نہیں ۔

تیسری قسم: تیسری قسم ان کی ہے جو مدعی تصوف توہیں مگر اہل علم نہیں۔

ان تینوں میں اول گروہ سب سے زیادہ قابل تعریف ہے، دوسرے گروہ کے بارے میں اتنا ہی کہاجاسکتا ہے کہ انہیں علم کے ساتھ تصوف سے بھی ہم کنار ہونا چاہیے ، اس سے دنیا و آخرت میں کامیابی مل سکتی ہے، صلاح وفلاح اور سعادت و فروز مندی علم و عمل دونوں سے وابستہ ہے، اسلام کے عہد زریں میں تعلیم و تصوف دونوں ساتھ ساتھ رہے ہیں جس سے اسلام اور مسلمانوں کو کافی عروج ملا، تیسرا گروہ خود اہل صوفیہ کے نزدیک خطا پر ہے کہ بغیر علم کے تصوف خطرناک ہو سکتا ہے اور اس کے نتائج بھی مضر ہوتے ہیں ، حضرت مالک بن انس ﷟ حاملین تصوف کے طبقہ اولیٰ کی فضیلت اور طبقہ ثانیہ و ثالثہ کی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے یوں ارشاد فرماتے ہیں :

من تفقہ ولم یتصوف فقد تفسق ومن تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق ومن جمع بینہما فقد تحقق ۔

(مرقاۃ المفاتیح کتاب العلم : حدیث ۲۷)

جو فقہ سیکھے اور تصوف حاصل نہ کرے وہ فاسق ہے ، جوتصوف حاصل کرے فقہ نہ سیکھے وہ زندیق ہے اور جو تصوف اور فقہ دونوں حاصل کرے وہ حق کو پانے والا ہے۔

عصر حاضر میں تصوف کا مفہوم:

عصر حاضر چونکہ تصوف کا دور زوال ہے ، تصوف کے نام پر بہت سارے خرافات انجام دیے جارہے ہیں اور بہت ساری خرابیاں اس کے اندر داخل ہو چکی ہیں عہد زوال کے پیش نظر تصوف کو جس معنیٰ اور مفہوم میں پیش کیاجارہا ہے اور اس کی جو شبیہ پیش کی جارہی ہے وہ اسلام اور مسلمانوں کے حق میں انتہائی مضر ہے ، موجودہ دور میں تصوف کو جہالت، لادینیت، مخالف شریعت، اتحاد مذاہب اور رقص و سرور کے مفہوم میں متعارف کرایاجارہا ہے جو کہ اسلامی نقطہ نظر کے سراسر مخالف ہے ، اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ احیاے تصوف کے ساتھ تصوف کے مفاہیم کی بھی اصلاح ہو اور تصوف کا اصلی رنگ جو کتاب وسنت کی روشنی میں ہے اس کو لوگوں کے سامنے پیش کیاجائے تاکہ تصوف کے تعلق سے جو بھی غلط فہمیاں لوگوں کے ذہن ودماغ میں پیدا ہوچکی ہیں ان سب کا ازالہ ہو او ر حقیقی تصوف متعارف ہو سکے۔

تصوف کا صحیح مفہوم:

تصوف اسلام سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ تصوف کی اساس قرآن وحدیث ہی ہے، اصل تصوف اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کانام ہے ، ایمان وعقائد کی درستی اور اصلاح قلب کی ایک صورت کا نام تصوف ہے، شرع کی پابندی کے ساتھ تزکیہ نفس اور تصفیہ قلب کا نام تصوف ہے، شرعی احکام جن کا تعلق آدمی کے ظاہری اعمال سے ہے اور اخلاقی تعلیمات جن کا تعلق انسان کے باطن کو درست کرنا ہے ان دونوں کے مجموعہ کا نام تصوف ہے،شریعت و طریقت کے حسین سنگم کا نام تصوف ہے اور جو دین اسلام کی صحیح دعوت لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور عوام الناس کو راہ راست پر لاکر خدا کی بندگی کا کام انجام دیتے ہیں انہیں صوفیا کہاجاتا ہے ۔

تصوف صرف الفاظ و تعبیرات کا نام نہیں ہے بلکہ احوال وکوائف کانام ہے ، تصوف کو کتنی ہی میٹھی اور جامع عبارات سے بیان کیاجائے اس کی حقیقی مٹھاس اور شیرینی محسوس نہیں کی جاسکتی، جب تک کہ عملی طور پر اسے اختیار نہ کیاجائے ،اتباع شریعت تصوف کا اوڑھنا بچھونافرائض و واجبات کی پابندی اور محرمات سے مکمل اجتناب تصوف کی بنیادی شرط ہے، شریعت کو ترک کر کے تصوف کا دعویٰ ہرگز نہیں کیاجاسکتا،فرائض کو چھوڑ کر کوئی شخص روحانی پرواز قطعاً نہیں کر سکتا ، کیوں کہ اسلام پر مکمل طور پر عامل صوفیاے کرام ہی ہوتے ہیں اور  جو لوگ شریعت سے دور فرائض سے ناآشنا اور جہالت و بے دینی کے اندھیروں میں سرگرداں ہیں انہیں تصوف کا نام لینے کا کوئی حق نہیں،اتباع شریعت کے بغیر عرفان و روحانیت تصور محض ایک دھوکہ ہے۔

تصوف میں ترک دنیا کا تصور:

تصوف زندگی کے تقاضوں سے چشم پوشی یاسماجی ذمہ داریوں سے فرارکانام نہیں، صوفیاے کرام کے نزدیک عیال داری ،مال وزر،املاک،ساز وسامان اور ان سے بھرپور فائدہ اٹھانا اور ان کے حصول میں جدو جہد کرنافقر کے منافی ہے اور نہ ہی دین داری کے خلاف، دین اورفقر رہبانیت اور ترک لذائذ میں نہیں ،جائز طریقے سے مال و دولت حاصل کرنا اور اپنے اہل و عیال کی کفالت و پرورش کرنا ان کے لیے راحت و سکون کا سامان فراہم کرنا یہ سب دنیاداری نہیں ہے ، دینی تقاضوں سے غفلت برتنے کا نام دنیاداری ہے،شریعت پر عمل کرنا اور شریعت کے مطابق ملازمت کر کے اہل وعیال کی پرورش کرنا بھی عبادت ہے۔

حضرت خواجہ بندہ نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کبھی بھی اپنے مریدوں کو ترک دنیا کی تعلیم نہیں دیتے تھے، آپ اپنے گورمنٹی ملازم مریدوں سے اکثر یہ فرمایا کرتے تھے:

’’بدستور ملازمت کرتے رہو کیوں کہ اگر تم نیک اور شریف النفس لوگ ملازمت چھوڑ دوگے تو تمہاری جگہ عیار اور مکار لو گ آجائیں گے جوکہ عوام کو پریشان کریں گے،تمہاری سب سے بڑی عبادت یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ انصاف کرو، مال و زر کی ہوس نہ کرو،اس ملازمت کو اللہ کا کام سمجھو ، رات کو خدا کی عبادت کرنااور دن کو خدمت خلق کرنا اس طرح بادشاہ کی نوکری میں کوئی حرج نہیں اور تمام دنیاوی کام ضروری ہیں بشرط کہ شریعت کے خلاف نہ ہوں ۔‘‘

صوفیاے کرام کے حالات زندگی کے مطالعہ سے جن لوگوں کو بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ دنیا سے کنارہ کشی کا نام تصوف ہے ان کا یہ نظریہ تعلیمات تصوف کے خلاف ہے ، تصوف دنیا سے بیزاری کانام نہیں بلکہ دنیا سے بے رغبتی کا نام تصوف ہے ، دنیا میں رہ کر دنیا کی آلائشوں سے محفوظ رہنے کانام تصوف ہے، اس لیے اہل تصوف حب الٰہی، اطاعت رسول، رضائے حق ، صفائی قلب، خدمت خلق، صبر وشکر،توکل و قناعت جیسے اخلاق حمیدہ اور عبادت وریاضت جیسی چیزوں پر ہمیشہ زور دیتے ہیں تاکہ حرص وہوس کی اس دنیا میں اللہ کی قائم کی ہوئی حدود کی پامالی نہ ہو ،مختصر یہ کہ دنیا کے ہنگاموں میں رہ کر روحانیت کی تلاش اور حقیقت ازل کا قرب حاصل کرنے کے لیے جہد مسلسل کرنا تصوف ہے اور یہی شریعت و طریقت کا ماحصل ہے ، حضرت محبوب الٰہی نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تصوف میں ترک دنیا کے تعلق سے یوں ارشاد فرماتے ہیں:

’’ ترک دنیا کے یہ معنیٰ نہیں ہے کہ کوئی اپنے آپ کو ننگا رکھے اور لنگوٹی باندھ کر بیٹھ جائے ،بلکہ ترک دنیا یہ ہے کہ لباس بھی پہنے اور کھائے بھی اور جائز شے کوروابھی رکھے لیکن اس کے جمع کرنے کی خواہش نہ کرے اور دل کو اس سے نہ لگائے ‘‘  (فوائد الفواد: ج۱:مجلس ہشتم)

مکتوبات دوصدی میں ترک دنیا کا ایک معنیٰ یہ بیان کیاگیا ہے :

’’جس قدر ضروری ہے اگرچہ صورتاً وہ دنیا ہے مگر معناً آخرت ہے ،جتنا ضروری ہے اس کا ترک جائز نہیں ، اور اگر یہ پوچھو کہ دنیا ہے کیا؟بزرگوں نے کہا کل قیامت کے دن جو کام نہ آئے وہ سب دنیا ہے اگر چہ نماز ، روزہ، علم، تلاوت قرآن ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

(مکتوبات دوصدی:مکتوب۵۵ بنام جمال الدین)

عصر حاضر میں تصوف کی ضرورت:

تصوف ہی ایک ایسی ہدایت و رہنمائی کا راستہ ہے جس سے انسان کے دل و دماغ اور فکر وخیال میں انسانیت و خیر خواہی کاذوق و جذبہ پیدا ہوتا ہے، جب تک لوگ تعلیمات تصوف کے دامن سے وابستہ رہے ساراعالم امن وسکون کا گہوارہ بنارہا،چین وراحت کے ماحول میں سب زندگی گزارتے رہے لیکن جوں ہی اس سے کنارہ کشی اختیار کی گئی ہرطرف بے چینی و اضطراب کا ماحول پیداہوگیا ، مادہ پرستی ، بے ضمیری ، بے دینی اور خواہشات نفسی عام ہوگئی، اخلاقی وتہذیبی زوال نے انسانی اقدار کو پامال کردیا، معاشرہ لوٹ کھسوٹ، دہشت گردی،استحصال پسندی کا مرتکب ہوگیا، باپ بیٹا۔ماں بیٹی، ساس بہو، شاگرد استاد اور بھائی بھائی کے مقدس رشتے اپنا وقار کھوچکے ،دنیا سودی کاروباری کے لپیٹ میں آگئی، ہمدردی کے بجائے بے حیائی عام ہوگئی ، حرص دولت میں انسانیت کا وجود خطرے میں پڑگئی، ہرطر ف قتل وغارت گری ،مذہب کے نام پر دنگافساد، خون خرابہ، ذات پات کے نام پر عناد و دشمنی ، فرقہ وارانہ منافرت جیسے حالات و واردات نے ہر ایک کو بے چین و بے قرار کردیا جس کی وجہ سے ہرشخص امن وعافیت اور چین و سکون کامتلاشی ہے ایسے حالات میں تصوف اور تعلیمات تصوف کی ضرورت واہمیت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے ، کیوں کہ عصر حاضر میں اگر امن و امان اور سکون وچین کہیں مل سکتا ہے تو صرف اور صرف تصوف اور تعلیمات تصوف میں موجود ہے ، تعلیمات تصوف پر عمل پیراہوکر اس سلگتے ہوئے معاشرہ کو عصر حاضر کے خوفناک ماحول اور گناہوں کے دلدل سے بچایاجاسکتا ہے ،تصوف کی تعلیمات کی بدولت سماجی برائیاں حرص ، لالچ ،بغض، کینہ، غیبت، نفاق اور ریا کاری کاسد باب کرتے ہوئے معاشرہ میں صلہ رحمی ، خلوص  ،ہمدردی ، میل جول اور رواداری کی فضا قائم کی جاسکتی ہے، تشدد اور فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکا جاسکتا ہے ، عبادتوں میں خشوع وخضوع پیداکیاجاسکتا ہے، تقویٰ و پرہیز گاری کے ساتھ رواداری کے جذبے کو امت مسلمہ کے دلوں میں ابھاراجاسکتا ہے ، نیز تعلیمات تصوف کو عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے نئی نسل کے لیے مذہب اسلام کے سمجھنے کی راہ ہموار کی جاسکتی ہے اور عالمی سطح پر ایک پرامن اور صالح معاشرہ کی تشکیل عمل میں لاکر ساری دنیا کو امن وسکون کا گہوارہ بنایاجاسکتا ہے۔

تعلیمات تصوف:

 ذیل میں تصوف اور صوفیاے کرام کی کچھ خاص تعلیمات نقل کی جاتی ہیں جن سے تصوف کی اصلیت و حقیقت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

(۱)وسیلہ: تعلیمات تصوف کی پہلی منزل وسیلہ تلاش کرنا ہے ، جس طرح دنیا میں علوم ظواہر سکھانے کے لیے استاد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح مرشد مرید کی باطنی تربیت کرتا ہے ، اس کو بارگاہ الٰہی کے آداب اور عشق و محبت سے آراستہ کر کے اس کے نفس کے عیوب کی اصلاح کرتا ہے جس کے نتیجے میں مرید بھی شیخ سے اس قدر عشق ومحبت کرتا ہے کہ آخرکار فنافی الشیخ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے، شیخ شہاب الدین سہروردی عوارف المعارف میں فرماتے ہیں ’’شیخ وہ ہستی ہے جس سے مطالب الٰہیہ حاصل کیے جائیں‘‘۔

(۲)تزکیہ نفس:صوفیاے کرام اور مشائخ طریقت تزکیہ نفس کو تصوف کی اولین شرط قرار دیتے ہیں، تصوف کا مرکزی عنوان تزکیہ نفس ہی ہے ، اس لیے اصلاح تصوف کے ذیل میں سب سے زیادہ تزکیہ نفس پر ہی زور دیاجاتا ہے ۔حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ  کے نزدیک نفس کی متابعت در حقیقت حق کی مخالفت ہے، نفس کی سب سے زیادہ ظاہر صفت شہوت ہے ،نفس امارہ اور نفس لوامہ اسی شہوت پرستی سے عبارت ہے ، اس لیے صوفیا معرفت نفس کو افضل سمجھتے ہیں ، جب تک نفس کا مکمل تزکیہ نہیں ہوتا اس وقت تک قلب میں نورانی کیفیت پیدا نہیں ہوتی اس لیے قرآن کریم میں فرمایا گیا’’قد افلح من زکاھا‘‘(اس نے فلاح پائی جس نے نفس کاتزکیہ کیا)حضرت ابو الحسن ﷫ فرماتے ہیں’التصوف ترک کل حظ نفس‘‘ (تصوف تمام لذات نفسانی کو ترک کر دینے کا نام ہے)

(۳)تزکیہ قلب: اہل طریقت کے نزدیک تزکیہ نفس کے ساتھ تزکیہ قلب بھی لازمی جزو ہے ،اس لیے راہ تصوف میں اصلاح قلب کو بڑی اہمیت حاصل ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا آدمی کے جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہوگا اور اگر وہ خراب ہو تو ساراجسم خراب ہوگا اس لیے قلب کی صفائی بھی لازمی ہے ، تزکیہ قلب کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ انسان ہمیشہ نیک خیالات کو اپنے دل میں لائے اور اللہ کی نوازشوں ، نعمتوں اور عجائبات پر غوروفکرکرے۔

(۴)توبہ و استغفار: توبہ و استغفار تعلیمات تصوف کا ایک اہم عنصر ہے ، حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی ﷫ نے ارشاد فرمایا:

’’جب کسی چیز سے توبہ کرو تو نیت بھی خالص رکھو، گناہ سے ایک بار توبہ کی جاتی ہے مگر اطاعت سے ہزار بار ، جس اطاعت میں ریاکی آمیزش ہو وہ گناہ سے بھی بدتر ہے ۔‘‘

   توبہ کرنے والے کی تین قسمیں ہیں(۱)عذاب کے ڈرسے جو توبہ کی جاتی ہے وہ بندوں کے لیے مخصوص ہے(۲) ثواب کی خواہش سے جو توبہ کی جاتی ہے وہ اولیا اللہ کے لیے مخصوص ہے(۳) حصول عرفان کے لیے جوتوبہ کی جاتی ہے وہ انبیاومرسلین کا حصہ ہے۔

(۵)صبرورضا: صبرورضا اہل طریق کی مخصوص پہچان ہے اور راہ سلوک کی آخری منزل بھی، اخلاص و یقین سے مقام رضا حاصل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بہت عزیز رکھتا ہے ، حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے:

’’ رضا قسمت کے فیصلے پر قلب کے خوش ہونے کا نام ہے ،اس لیے راضی برضا رہنے والا اپنی بساط سے زیادہ کسی اور چیز کی تمنا نہیں کرتا ۔‘‘

حضرات صوفیا کو مقام رضا میں اس قدر لذت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اکثر رنج و مصیبت کی آرزوکرتے ہیں ، جس قدر مصائب جھیلتے ہیں اسی قدر قوت برداشت بڑھتی ہے اور اس میں ان کو مزاملتا ہے ۔

(۶)عشق و محبت: راہ تصوف میں تزکیہ نفس و تطہیر قلب کے بعد عشق ومحبت کو خاص اہمیت حاصل ہے ،کیوں کہ عشق مرید کے اندر دلیرانہ جذبات کو فروغ دیتا ہے اور اسے ایثار نفس پر مائل کرتے ہوئے جان و مال اورنام و نمود سب کچھ قربان کردینے کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے، اسی طرح عاشق میں ایسی استعداد پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کے تما م اخلاق ذمیمہ ، اخلاق شریفہ میں بدل جاتے ہیں ،عداوت محبت کا رخ دھار لیتی ہے ،بخل فیاضی میں بدل جاتا ہے، غرور نیاز کی صورت اختیار کر لیتا ہے ، عشق و ہ اکسیر ہے جس سے خاک سوناہوجاتی ہے، عشق و محبت سے میلان نفس اچھی چیزوں کی طرف زیادہ ہوتا ہے ،اس لیے اہل ایمان سب سے پہلے اللہ اور اللہ کے رسول سے عشق و محبت کا رشتہ استوار کرتے ہیں۔

عہد قدیم میں خانقاہوں کا کردار:

بزرگان دین اور صوفیاے کرام کے ملفوظات کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ عہد قدیم میں بندگان خدا کو تربیت دینے کے لیے خانقاہی نظام اس دور کی عظیم تربیت گاہ تھی جہاں انسانوں کو حسن سلوک، رواداری، بھائی چارگی ، ہمدردی، قربانی، آپسی محبت ، دوستوں اور پڑوسیوں کا لحاظ، ماں باپ کی قدروقیمت ، خطائوں کو درگزرکرنا، سزادینے کی بجائے معاف کرنا، برائیوں سے دور رہنا اور نیکیوں سے قریب رہنے کی تعلیم دی جاتی تھی، صوفیاے کرام خانقاہوں میں تربیت کے لیے پیغمبروں کے واقعات، ولیوں کے حالات، صوفیہ کاصبرو استقامت اوران کی عبادت وریاضت کی خصوصیات بیان کرتے تاکہ ان کی کوششوں کے دور رس اثرات مرتب ہوں،مختصر یہ کہ احدقدیم میں خانقاہی نظام ایک ایسا ادارہ ہوتا تھا جہاں انسان کو مخلص ، متقی،خداترس اور مخلوق خدا کا حقیقی اور سچا خیرخواہ بنانے کی تربیت دی جاتی تھی ۔

یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ بزرگان دین اور صوفیا ے کرام نے خدا کے ان بندوں کو جن تک تہذیب ، آداب اور اخلاق کا کوئی گوشہ نہیں پہنچا تھا ان کو مسجدوں میں بلانے کے بجائے خانقاہوں میں تربیت دے کر انہیں سب سے پہلے اچھے اور سچے انسان بنانے کا کارنامہ انجام دیتے ، اس طرح خانقاہی نظام اپنے آغاز سے ہی دنیا کے جن جن خطوں میں پھیلایاگیا وہاں کے ہزارہا باشندے تیز رفتاری کے ساتھ اسلام سے متاثر ہوئے اور تعلیمات تصوف کو فطری تعلیمات کا درجہ دیتے ہوئے مذہب اسلام کی جھرمٹ میں داخل ہوگئے اور آگے چل کر بہترین صوفی وبزرگ دین کی حیثیت سے شہرت کے بام عروج تک پہنچے ۔

 اس طرح خانقاہی نظام نے اپنے تربیتی مشن کے ذریعے اچھے اثرات مرتب کیے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے، ایک عرصہ تک خانقاہی نظام اپنے قدیمی معیار پر استوار رہا لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا حالات بدلتے رہے، تعلیم و تربیت کا یہ معیاری نظا م بھی تنزلی کا شکار ہوتاگیا، شریعت و طریقت کے مابین تفریق شطحیات و انحرافات ،حب دنیا اور مجاز پرستی کے ذریعے بہت ساری خرافات اور خلاف سنت امور روحانیت کے نام پر اس میں شامل ہوئے جس کی وجہ سے اس میں پہلے جیسا اخلاص ، تقویٰ ،اطاعت خدا اور خوف خدا کی روایت برقرار نہ رہی،معروف اسکالر ونقاد مولانا سید اسید الحق محمد عاصم قادری شہید بغداد رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ نے کیا ہی خوب لکھا ہے:

’’اس تلخ حقیقت کا بہرحال اعتراف کرنا چاہیے کہ خانقاہی نظام کو جن دعوتی اور اصلاحی مقاصد کے لیے ہمارے اصلاف نے متعارف کرایاتھا ان مقاصد اور احداف سے ہم بہت دور جاپڑے ہیں ، اس نظام کی اصل روح ختم ہوگئی ہے اب صرف ایک رسم رہ گئی ہے جس کو نسل بعد نسلِ نبھایا جارہا ہے، افسوس کہ جن خانقاہوں سے کبھی ’’انا الحق‘‘ کانعرۂ مستانہ سنائی دیاکرتاتھا وہاں سے حق کی تجلیات رخصت ہوئیں اب صرف ’انا‘ باقی رہ گئی ہے ‘‘(تحقیق و تفہیم:ص ۲۵۳)

عصر حاضر میں تصو ف کا فقدان خانقاہی نظام کے تناظر میں:

تصوف وسلوک جوایک روحانی نظام تربیت کا نام ہے عصر حاضر میں وہ محض چند رسومات کی حد تک محدود ہوکر رہ گیا ہے اور ا س میں بھی بہت ساری خرابیاں جنم لے چکی ہیں، تصوف کی حالیہ صور ت حال سخت تکلیف دہ ہے ،اصلاح وتزکیہ کی مسند پر جلوہ افروز حضرات شریعت سے بے اعتنائی علم و عمل سے کنارہ کشی اور دنیا کے حریص نظر آرہے ہیں ، فرائض و واجبات سے غافل اور منکرات شرعیہ کے دلدادہ ہوتے چلے جارہے ہیں، خانقاہیت درگاہیت میں تبدیل ہو چکی ہے ، تصوف کو ایک سود مند تجارت کے طور پر دیکھا جارہا ہے ، بے عمل مجاورین نے ان مقدس آستانوں پر قبضہ جمارکھا ہے ، مستقل طور پر حاجت مندوں کی مرادوں کی جھولیاں بھرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس کے عوض میں زائرین سے نقدی بھی وصول کررہے ہیں ، جن کا طریقت سے کوئی واسطہ ہے اور نہ صاحب مزار سے کوئی نسبت ، آنے والے زائرین کے ساتھ اس قدر برتائو اور ناروا سلوک کرتے ہیں کہ وہ رنجیدہ خاطر ہوجاتے ہیں اور مزارات کے اس ذلت آمیز نطام سے متنفر ونالاں بھی ،نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خانقاہوں کی حاضری اور ملنے والے فیض سے محروم ہو جاتے ہیں،اعراس مشائخ کا حال یہ ہے کہ قل شریف اور فاتحہ کا خوب اہتمام کیاجاتا ہے لیکن نماز جو فرض ہے اس کا کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا۔

ذیل کے سطور میں ہم تصوف کی اہمیت و افادیت، مشائخ طریقت کے معمولات اور قدیم خانقاہی نظام کو پیش کریں گے، نیز موجودہ خانقاہی نظام کا قدیم خانقاہی نظام کے تناظر میں تجزیہ پیش کرکے اس کی اصلاح اور احیاکے لیے چند تجاویز پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔

شیخ طریقت:

 تمام اکابر اولیا و مشائخ کے نزدیک شیخ طریقت ایسا ہونا چاہیے جو شریعت و طریقت اور حقیقت کے احکام و آداب و شرائط کا عالم ہو ،اگر وہ عالم ہوں گے توخود بھی حلال و حرام کی تمیز کریں گے اور اپنے مریدین کو بھی اس کی ترغیب دیں گے، سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ شیخ کے اوصاف کے تعلق سے یوں ارشاد فرماتے ہیں:

’’اس شخص کو اپنا پیر شیخ یا مرشد بنائو جس میں تین اوصاف یکجاں پاؤ،ایک علم دوسراعقل اور تیسرا عشق۔جب علم ہوگا تو وہ جہالت کا سبق نہیں پڑھائے گا ،عقل ہوگی توبدعقلی کا حکم نہیں دے گا اور جب صاحب عشق ہو گا تو اللہ و رسول کے ہر حکم کا خود بھی تابع ہوگا اور تمہیں بھی اسی راہ پر چلائے گا‘‘۔

بیعت و ارادت:

اہل اللہ کے دست حق پرست پر بیعت کرنا مسنو ن و مستحب ہے لیکن اسی پر اکتفاکرلینا اور اوامر و نواہی کی پابندی نہ کرنا قطعاً درست نہیں، اصلاح باطن کے لیے بیعت کرنا مسنون ہے لیکن فرائض و واجبات اور سنن پر عمل کرنا دین کی بنیادی ضرورت ہے۔بیعت کا اصل مقصد دین پر استقلال کے ساتھ کاربند رہنے کا عہد ہے ، بیعت اللہ کے کسی محبوب بندے کے ہاتھ پر توبہ صادق کر کے ترک معاصی اور طاعات پر عمل کرنے کے ایک پختہ عہد و پیمان کا نام ہے ۔

 بیعت کے بعد مرید کی اصلاح و تربیت کرنا شیخ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے ، مرید کے اعمال کا جائزہ لینا اور برے اعمال پر اس کا مواخذہ کرنا شیخ کا اہم فریضہ ہواکرتا ہے، مریدین کی اصلاح و تربیت کے حوالے سے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مایہ ناز تصنیف ’’القول الجمیل ‘‘میں یوں ذکر ملتا ہے:

’’شیخ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مرید کے عقائد کو درست کرے، توحید کا صحیح تصور اس کے دماغ میں بٹھائے، نبوت کے متعلق صحیح اعتقادات قائم کرائے، گناہوں کی تفصیل بتائے، کبائر و صغائر سے اجتناب کی تاکید کرے پھر ارکان اسلام کی پابندی کی ہدایت کرے اور ضرورت معاش سے آگاہ کرے۔(القول الجمیل:ص۲۵)

  مشائخ طریقت کا یہ معمول تھا کہ بیعت کے بعد اپنے مریدین کو نصیحتیں کیاکرتے تھے جن پر عمل کرنا مریدین کے لیے لازم ہواکرتا تھا ، مشائخ چشت عام طور پر یہ چار نصیحتیں اپنے مریدین سے کیا کرتے تھے(۱)نماز باجماعت پڑھنا(۲)جمع ترک نہ کرنا(۳)ایام بیض کے روزے رکھنا(۴) جو کام اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہو اسے نہ کرنا۔

مشائخ کی یہ چار نصیحتیں صرف رسمی نہیں ہواکرتی تھیں بلکہ شیخ کے یہ قیمتی ارشادات مریدین کے لیے اصول زندگی قرار پاتے ، جس سے ان کی زندگی میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہوتا، صرف یہ نہیں کہ بیعت کے وقت نصیحت کر کے مرید کو چھوڑ دیتے بلکہ اس کے بعد بھی شیخ طریقت اپنے مرید کی مسلسل نگرانی فرماتے ، اس کے شب و روز کے معمولات کی دریافت کرتے، بیعت و ارادت کے سلسلے میں اس بات پر بھی خاص توجہ دی جاتی کہ مرید کے اندر گناہوں کا شدید احساس پیدا کر کے مستقبل میں ان کے اندر گناہوں سے پرہیز اور معاصی سے اجتناب کا جذبہ پیدا کردیا جائے اور ان کے ذہن و فکر میں یہ بات راسخ کردی جائے کہ ہمیشہ محسوس کرے کہ وہ ہرقدم اور مقام پر شیخ کے احتساب اور نگرانی میں ہے۔

عہد قدیم میں تقریباً تمام مشائخ کی خانقاہوں میں اصلاح و تربیت کے ان روشن اور تابناک اصولوں پر ہمیشہ عمل ہوتارہا، مریدین کی اجتماعی و انفرادی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی رہی جس کا اثر یہ ہوتا کہ بیعت وارادت کے بعد اکثر لوگ معاصی سے پرہیز کرتے، فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کے عامل بن جاتے، اپنے شیخ کی عزت و عظمت کا احترام اور نسبت کے لحاظ میں وہ بہت ساری ظاہری اور باطنی برائیوں سے محفوظ رہتے، نیک اور صالح انسان بن کر قرب خداوندی کی دولت سے ہم کنار ہوتے۔

بیعت و ارادت کے مقاصد اور اس تناظر میں اگر آپ عصر حاضر کے پیری مریدی کا جائزہ لیں تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آج بیعت کی حیثیت ایک رسم محض بن کر رہ گئی ہے جن عظیم مقاصد کے تحت ہمارے اسلاف نے بیعت و ارادت کا سلسلہ قائم کیا تھا آج انہیں یکسرفراموش کردیاگیا ہے،صورت حال یہ ہے کہ اب مشائخ طریقت کو اپنے مریدین و متوسلین کی اصلاح کی فکر ہے اور نہ ہی ان کی خانقاہوں میں ایسا کوئی نظام اور بندوبست ہے،بیعت کے بعد نہ شیخ کو خبر رہتی ہے کہ ان کا مرید کس حال میں ہے اور نہ مرید کو خبر ہوتی ہے کہ شیخ کا کیا حال ہے؟ہاں اتنا ضرور ہے کہ پیر صاحب کا اپنے مریدین کے علاقوں میں سالانہ ایک دورہ ضرور ہوتا ہے اور نذر و نیاز وصول کر کے واپس چلے جاتے ہیں اور مریدین بھی پیر صاحب کی خانقاہ میں سالانہ عرس کے نام پر ایک بار حاضر ہوجاتے ہیں، پہلے لوگ اس نیت سے مشائخ کرام سے مرید ہوتے تھے کہ ان کی بافیض صحبت نگاہ کیمیا اثر اور ان کے توسل سے وہ گناہوں سے تائب ہوکر قرب خداوندی تک پہنچیں گے اور آج داخل سلسلہ ہونے والے کی نیتوں میں عموماً یہ چیزیں مفقود نظر آتی ہیں، مرید اپنی اصلاح اور شیخ طریقت سے کسب فیض کی زحمت گوارہ نہیں کرتا ، ہاں اتنا ضرور ہے کہ وہ دنیا کا طلب گار ہوتا ہے اور اس کے لیے بار بار اپنے شیخ سے دعا ئوں کی درخواستیں کرتے رہتا ہے۔

بیعت وارادت کے سلسلے کو بامقصد بنانے اور ہدایت وارشاد کے عمل کو فروغ دینے کے لیے ماضی میں ہمارے مشائخ طریقت نے بیعت وارادت کا جوطریقہ اپنایاتھا اور اس کے ذریعے اصلاح و تربیت کا جومثالی نمونہ قائم کیاتھا ان پر عمل کرنا ہوگا اور ان کو زندہ کرنا ہوگا، پیری مریدی کی جو حقیقی صورت ہے اس کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہوگا، شیخ کو اپنے فرائض منصبی کی مکمل عدائیگی اور مرید کو اپنے شیخ کامل کی اطاعت و پیروی کرنا لازم ہوگا۔

خلافت و اجازت:

عہد قدیم میں مشائخ طریقت تقسیم خلافت کے معاملے میں حد درجہ محتاط تھے جس کو اس منصب جلیل کی اہلیت دیکھتے صرف اسی کو خلافت و اجازت سے نوازتے مریدین کی طرح خلفاکی بھی مکمل تربیت فرماتے، ان کی شخصیت سازی کی ہر ممکنہ کوشش کرتے ،جب تک نظام ارشاد و ہدایت کو سنبھالنے کی صلاحیت ان کے اندر پیدا نہیں ہوجاتی ا س وقت تک انہیں خانقاہ کی تربیت کی بھٹی میں پکاتے ، ان کے اندر ذاتی کمالات اور دوسروں کو دعوت و ارشاد کے ذریعے متاثر کرنے کی صلاحیت پیدا کرتے ، خلافت و اجازت کا سلسلہ اس لیے جاری کرتے کی دعوت و تبلیغ اور ارشاد و ہدایت کا کام مشائخ کے ساتھ خلفا کے ذریعے بھی انجام دیاجاسکتا ہے ،جواپنے شیوخ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رشد و ہدایت اور وعظ ونصیحت کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور مخلوق خدا کو فیض پہنچاتے ہیں۔

تصوف کے موجودہ نظام میں خلافت اور خلفا کے تعلق سے جو بے اعتدالیاں برتی جارہی ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہے ،تقسیم خلافت کے سلسلے میں مشائخ کے اصولوں کو نظر انداز کرتے ہوئے نااہلوں کو اس بارگراں کامتحمل بنایاجارہا ہے جن کے علم وعمل کا کوئی ٹھکانہ نہیں وہ بھی دوچارخانقاہوں سے خلافت لیے بیٹھے ہیں اور بغیر کسی جھجھک کے بھولے بھالے مسلمانوں کو مرید کر کے ان کو ذریعہ معاش بنائے ہوئے ہیں ، جدھر بھی نظر دوڑائیے ہر کوئی کسی نہ کسی شیخ کا خلیفہ بننے کے خواہاں ہیں، اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے باضابطہ مشائخ کے پاس خلافت کے لیے تحریری اور تقریری مطالبہ کررہے ہیں، تقسیم خلافت کی ہوڑ لگی ہے،ہرشیخ اپنے خلفاکی تعداد بڑھانے میں مصروف ہیں اور اپنے معاصرین میں سبقت لے جانے کی کوشش میں ہیں ، تقسیم خلافت کی اس بے راہ روی اور بے اعتدالی کے بھیانک نتائج ہمارے سامنے ہیں ، خلافت اور خلیفہ کے نام پر آج عوام الناس اور بھولے بھالے مسلمانوں کا جو استحصال ہورہا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔

مشائخ کی عظمت و وقار کے تحفظ اور خانقاہوں کے تقدس کو محفوظ رکھنے کے لیے اکابر مشائخ نے تقسیم خلافت کے جو رہنما اصول مقرر کیے ہیں ان پر عمل کرنا لازم وضروری ہے ،تاکہ بیعت و ارادت جو ذریعہ ہدایت ہے وہ ذریعہ تجارت بننے سے محفوظ رہے اور اس کا استعما ل اپنے مقصد اصلی میں ہو ۔

مراقبات:

قدیم خانقاہوں میں ارادت مندوں کے تزکیہ نفس و تصفیہ قلب کے لیے مجالس ذکر و مراقبے کا خاص اہتمام ہوتا تھا ، مریدین و متوسلین اور خلفا ذوق وشوق سے ان مجالس ومحافل میں شریک ہوتے تھے اور روحانیت حاصل کرتے تھے ، خلفا اور مریدین کو اورادووظائف اور ذکر واذکار کے طور طریقے بتائے جاتے تھے اور شب وروز کے معمولات میں اسے شامل کرنے کی تعلیم دی جاتی تھی ،صوفیاے کرام کے یہاں ذکر واذکار ،اورادووظائف، چلہ کشی اور مراقبات کو ترقی درجات کے ذرائع تصور کیے جاتے تھے ، اس لیے طالبان معرفت اس کے لیے کوشاں بھی رہتے تھے اور کافی محنت و لگن ودل جمعی کے ساتھ اس میں حصہ لیتے تھے۔

عصر حاضر کی خانقاہوں میں اس طرح کے مجالس ذکر و مراقبہ اور چلہ کشی کا سلسلہ اب تقریباً بند ہوچکا ہے، مریدین بے راہ روی کے شکار ہوتے چلے جارہے ہیں، انہیں اپنے سلسلہ کے خاص معمولات اور مخصوص وظائف کا پتاہے اور نہ ہی اپنے شیخ کے شجرئہ تعلیمات کا علم ،حال تو یہ ہے کہ ان کے باطن تو باطن ہیں ظاہر کو سنوارنا بھی بہت مشکل نظر آتا ہے۔

آج کی خانقاہوں میں بھی اس طرح کے مجالس ذکر ومراقبہ کا خاص اہتمام ضرور ہونا چاہیے جہاں مریدین اور عقیدت مند حاضر ہوکر ذکر و چلہ کشی کی روحانی غذاحاصل کرسکے، اپنے قلوب واذہان کو پاکیزہ کرسکے اور نفس کی غلامی سے نجات پاسکے۔

خدمت خلق:

تصوف کے بنیادی مقاصد میں ایک خدمت خلق بھی ہے جس کی مثالیں بغداد سے لیکر اجمیر معلی تک ہمیں ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں، مشائخ کی قدیم خانقاہیں جہاں روحانی تربیت کا سرچشمہ ہوتی تھیں وہیں خدمت خلق کا بھی مرکز ہوتی تھیں،تاریخ شاہد ہے کہ مشائخ کی خانقاہوں میں جو نذر و نیاز اور فتوحات آتے تھے انہیں جمع کر کے نہیں رکھا جاتا بلکہ خلق خدا کی ضروریات میں صرف کردیاجاتا تھا ،مسافروں کے لیے سرائے بنوائے جاتے ،عبادت کے لیے مسجدوں کی تعمیر کی جاتی ،مسکینوں ،محتاجوں اور ضرورت مندوں کی خانقاہوں سے کفالت کی جاتی، طالب علموں کی کھانے پینے کا انتظام بھی ہوتا تھا اور علما کے لیے وظائف بھی جاری کیے جاتے تھے، مختصر یہ کہ ان خانقاہوں سے بندگان خدا کی ضرورتیں پوری کی جاتی تھیں اور ان کے دکھ درد کو دفع کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی۔

سلطان المشائخ حضرت محبوب الٰہی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خانقاہ کا عالم یہ تھا کہ آپ کی خانقاہ غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی پناہ گاہ تھی، ہزاروں افراد آپ کے لنگر سے روزانہ کھاناکھایا کرتے تھے اور خود آپ کا عالم یہ تھا کہ آپ اکثر روزہ رکھا کرتے تھے ، سحری بھی بہت کم کھاتے تھے ، افطار کے وقت معمولی غزالیتے تھے ، خادم جب عرض کرتا کہ تھوڑاکھانا تناول فرمالیں تاکہ ضعیفی میں اضافہ نہ ہوجائے تو آپ رونے لگتے اور فرماتے :

’’چنداں مسکیناں ودرویشاں درکنج ہائے مسجد ودکانہاگرسنہ وفاقہ زدہ افتادہ اند ایں طعام در حلق من چہ گونہ فرورود۔

(سیرالاولیا:ص ۱۲۸)

  بہت سے مساکین اور درویش مسجد وں کے کونوں اور دکانوں میں بھوکے اور فاقہ زدہ پڑے ہوئے ہیں، بھلا یہ کھانا میرے حلق میں کس طرح اتر سکتا ہے؟

سلطان الہندحضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خانقاہ بھی غریبوں کی امید کا مرکز تھی، روزانہ آپ کے لنگر خانے میں اتنا کھانا پکتا تھا کہ پورے شہر کے ضرورت مندوں کے لیے کافی ہوتا۔

حضرت مخدوم سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد گرامی مخدوم سلطان سید ابراہیم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خانقاہ سکاکیہ سمنان میں خدمت خلق کے لیے بہت مشہور تھی، لطائف اشرفی کے مطالعہ سے پتاچلتا ہے کہ ضرورت مند دوردراز علاقوں سے سفر کر کے آتے تھے اور خوب خوب سیراب ہوکرجاتے تھے، اس خانقاہ سے وابستہ علما کے لیے باضابطہ دربار شاہی کی طرف سے وظائف مقرر کیے گئے تھے ۔

عصر حاضر کی خانقاہوں کا اگر آپ جائزہ لیں تو خدمت خلق اور ملی و فلاحی کاموں سے دور حاضر کا خانقاہی نظام الگ تھلگ ہے ، اکثر خانقاہوں میں خدمت خلق اور فلاحی کاموں کے لیے لائحہ عمل نہیں ہے اور نہ ہی اس طرف مشائخ کرام کی کوئی خاص توجہ ہے، مریدوں اور عقیدت مندوں کے ذریعے حاصل ہونے والے نذرانوں کو دینی و فلاحی کاموں میں صرف کرنے کی بجائے اپنے آرام و آسائش اور عیش و عشرت کا سامان فراہم کرتے ہیں اور اس میں کچھ بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے ، ضرورت مندوں کے لیے روزانہ لنگر کا اہتمام تو بہت دور غریب اور محتاج زائرین کو ایک وقت کا کھانا بھی ان خانقاہوں سے نصیب نہیں ہوتا ، جاڑوں میں انہیں اوڑھنے کے لیے ایک کمبل میسر نہیں ہوتا، اکثر پریشان حال لوگ در بدر بھٹکتے اور کسی مسیحاکے متلاشی نظر آتے ہیں، خانقاہ کے نام پر مالدار مریدوں کے لیے گیسٹ ہائو س کی اونچی اونچی عمارتیں کھڑی نظر آتی ہیں جہاں ان سے کرایہ وصول کیاجاتا ہے اور اس کو ذاتی مصارف میں خرچ کیاجاتا ہے ، عصر حاضر میں اپنے اکابر کے قدیم خانقاہی نظام کو مشعل راہ بناکر خدمت خلق کا جذبہ پیداکرنے کی اشد ضرورت ہے ، مریدین اور عقیدت مندوں سے خدمت لینے کے ساتھ ان کی خدمت کرنے کا مجاز بھی اپنے اندر پیداکرنا لازمی ہے، ان کے دکھ درد مصیبت و پریشانی اور علاج و معالجہ میں حصہ داری بھی ضروری ہے ، آج تقریباً پوری دنیا میں خانقاہیں پائی جاتی ہیں، ہر صوبہ وضلع اور شہر میں کوئی نہ کوئی خانقاہ ضرور موجود ہے،اگر ان تمام خانقاہوں سے خدمت خلق کا کام خاطر خواہ انجام دیاجائے تو اس سے جہاں دعوت دین کے لیے خوش گوار حالات پیدا ہوں گے وہیں ضرور ت مندوں کے لیے سرچھپانے کی جگہ اور آشیانے بھی دستیاب ہوں گے اور اس سے معاشرہ میں خیر خواہی او ر صلہ رحمی کا جذبہ بھی فروغ پائے گا۔

دعوت وتبلیغ:

قدیم خانقاہوں میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیاجاتا تھا ، مشائخ طریقت نے خلوص و للہیت کا پیکر بن کر خلق خدا کی اصلاح کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیاتھا، خانقاہوں میں ہر قسم کے لوگ حاضر ہوتے تھے، مشائخ طریقت ان کے فہم وبصیرت کے مطابق انہیں تلقین فرمایا کرتے تھے، ان کی ذہنی صلاحیتوں کے مطابق ان سے گفتگو فرماتے تھے، مجرمین جرم کا دفترلے کر حاضر ہوتے اور وہ انہیں جھڑکنے اور برابھلا کہنے کی بجائے توبہ کی تاکید فرماتے ، ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ، صوفیاے کرام کی دعوت وتبلیغ کے اس شاندار رویے کا اثر یہ ہوتا کہ ان کی بارگاہ میں حاضر ہونے والے ہمیشہ ان کے غلام بن جاتے اور دائمی طور پر گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے جن سے ان کی زندگی کا دھارابد ل جاتا۔

دعوت وتبلیغ کے معاملے میں صوفیاے کرام کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے وہ خود دین کی دعوتوں پر عمل کرتے تھے ، پھر دوسروں کو اس پر عمل کی ترغیب دیتے تھے ، جس کا نتیجہ یہ ہوتاتھا کہ ان کی دعوت موثر ہوتی تھی، ’’سیرالاولیا‘‘ میں حضرت نظام الدین اولیا علیہ الرحمۃ والرضوان کا یہ ارشاد نقل کیاگیا ہے، آپ نے فرمایا:

’’پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم  کا کمال دیکھو جس کا م کی اوروں سے درخواست کی پہلے خود عمل میں لائے تاکہ دوسرے لوگ عملی طور پر اس کا اظہار کریں اور اس میں آپ کی فرماں برداری کریں، ایسے شخص سے یہ بات کیوں کر متصور ہوسکتی ہے کہ خود نہ کرے اور غیر کوکرنے کا حکم دے ‘‘۔

دعوت وتبلیغ کے معاملے میں صوفیاے کرام نے ہمارے سامنے جو اصول پیش کیے ہیں ہم نے ان تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اسی لیے ہماری باتو ں میں نہ اثر ہوتا ہے اور نہ ہی سوزوگداز ،آج ہم اپنی داعیانہ ذمہ داریوں کا کبھی احساس و احتساب نہیں کرتے، آج نہ تو ہمارے اعمال درست ہیں اور نہ ہی حکمت و موعظت کے لیے ہمارے پاس اخلاص للہیت کا جذبہ ہے، آج حال یہ ہے کہ جن امور اور معاملات کی انجام دہی کے لیے ہم خود کو کمربستہ نہیں ہوتے ان تمام امور کو اپنے سامنے والے سے انجام دلوانے کے خواہاں ضروررہتے ہیں، مریدین و متوسلین اور عوام سے ہم یہ توقع ضرور رکھتے  ہیں کہ حضور اکرم ﷺ ، صحابہ کرام اور تابعین عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مقدس اور پاکیزہ زندگی کو وہ اپنے لیے نمونہ عمل اور حرز جاں ضرور بنائیں ،اس کے برعکس خاص کی خامیوں اور خود اپنی ذات کی آلائشوں سے ہم مسکراکر گزر جاتے ہیں، دعوت وتبلیغ کے نام پر حصول دنیا ہمارا مطمح نظر ہوتا ہے۔

عصر حاضر میں دعوت وتبلیغ کی جو تعلیمات کتاب و سنت اور اقوال صحابہ وصالحین میں ملتی ہیں ان کی روشنی میں یہ فریضہ انجام دینا ہوگا، قدیم خانقاہی نظام میں دعوت وتبلیغ اور اصلاح امت کے جو طریقے ہمیں ملتے ہیں ان پر عمل کرنا ہوگااور ان اصولوں پر عمل کر کے ہمیں اس کو مضبو ط و مستحکم کرنا ہوگا،دعاۃ ومبلغین کے محاسن و اوصاف سے پہلے خود کو مالامال کر کے تبلیغ دین متین کے میدان میں قدم رکھنا ہوگا ، اسی وقت اس کے اچھے نتائج اور مفید ثمرات کی توقع کی جاسکتی ہے اور تصوف کی تاثیر کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

علم دین:

سلوک و معرفت کی راہیں بغیر علم دین کے طے نہیں کی جاسکتیں اس لیے مشائخ کرام نے خود علم دین حاصل کیے اور اپنے عقیدت مندوں کو بھی اس کی اہمیت و افادیت سے آگاہ کیا، علم دین حاصل کرنے کی ترغیب دی،عہد قدیم میں خانقاہوں میں جہاں ریاضت و مجاہدہ کا رواج تھا وہیں درس و تدریس کی محفلیں بھی گرم ہوا کرتی تھیں، قرآن ،تفسیر، حدیث، حصول حدیث، عقائد و کلام اور فقہ و تصوف کی کتابوں کا دور چلتا تھا ، مریدین و معتقدین ان محفلوں میں شریک ہوکر اکتساب علم و فیض کیاکرتے تھے اور اس کی نشر واشاعت میں اہم رول اداکیاکرتے تھے۔

خانقاہو ں میں علم دین اور اس کے فروغ کے حوالے سے موجودہ خانقاہی نظام کا آپ اگر جائزہ لیں تو آپ کو بخوبی اندازہ ہوگا کہ تصوف کے دور زوال سے ہی خانقاہوں کی نظر میں تعلیم کی اہمیت بھی ختم ہو گئی ہے، چونکہ ان خانقاہوں کے مشائخ طریقت کے آبا و اجداد کے علمی و فکری کارنامے اتنے مشہور ہوئے کہ ان کے وارثین نے ان کی علمی عظمت و سطوت کو اپنے لیے بھی کافی سمجھا، تعلیم کے ساتھ اس قدر بے اعتنائی برتی گئی کہ خانقاہوں سے قابل قدر تعلیم دینے والے مدارس بھی تقریباً ختم ہوتے جارہے ہیں،آئے دن علم سے خانقاہوں کا تعلق کمزور ہوتاجارہا ہے، خانقاہیں جو کبھی علما کی سرپرستی کیاکرتی تھیں اب اپنے کو ان سے دور رکھنا پسند کرتی ہیں اور اپنے کردار و وعمل سے یہ پیغام دیتی ہیں کہ علم دین سیکھنا سکھانا یہ مولویوں کا کام ہے ، علوم شرعیہ کے حصول اور ان کے فروغ سے اس طرح غفلت برتی جارہی ہے کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ طریقت، معرفت، حقیقت ،ولایت اور روحانیت ان سب کا علم دین اور شریعت کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ہے ، اب حال تو یہ ہے کہ شیخ بننے اور خلافت لینے کے لیے بھی نہ علم کی ضرورت ہے اور نہ عمل کی حاجت ، جس کا نتیجہ یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ علما کا مشائخ سے اور مشائخ کا علما سے باہمی روابط و تعلقات دن بہ دن کمزور ہوتے چلے جارہے ہیں۔

ادھر مدارس کا حال یہ ہے کہ تعلیم پر تو بھرپور توجہ دی جاتی ہے لیکن تربیت کا کوئی نظام نہیں ہے، جبکہ دینی ادارے کی حیثیت جہاں دانش گاہ کی ہوتی ہے وہیں تربیت گاہ کی بھی ، ایک زمانہ تھا جب مدارس سے فارغ ہونے والے طلبا بیک وقت صوفی بھی ہوتے تھے ، حکیم بھی ، مفکر ومدبر بھی ،محدث و فقیہ اور داعی و مبلغ بھی ،جبکہ آج کا حال یہ ہے کہ ماہرین علوم وفنون تو خوب پیداہورہے ہیں لیکن عمل و کردار کے غازی بہت کم یاب ہیں ، اس لیے خانقاہوں کے فیضان کو عام و تام کرنے اور تصوف کی احیا وبقاکے لیے خانقاہوں کا رشتہ علم و علما کے ساتھ مضبوط ومستحکم کرنا بے حد ضروری ہے ، ہر خانقاہ کے زیر اہتمام ایسے معیاری اداروں کا ہونا لازمی ہے جہاں دینی و عصری تعلیم کا باضابطہ انتظام ہو تاکہ خانقاہی اداروں کے فارغین عالم دین کے ساتھ شریعت وطریقت کے عامل بھی ہوں ، علم دین کی خوشبوئوں سے اسلامی معاشرہ میں باغ وبہار قائم ہو اور خانقاہوں کی عظمت رفتابحال ہو۔

مقدس خانقاہیں اور کاملانِ شیوخ طریقت:

میری ان تمام گفتگو سے وہ ساری خانقاہیں اور مشائخ طریقت مستثنیٰ ہیں جو حقیقت میں ان باتوں کے مصداق نہیں ہیں، عصر حاضر میں عالم اسلام بالخصوص بر صغیر ہندو پاک میں کثیر تعداد میں ایسے شیوخ پائے جاتے ہیں جو شریعت و طریقت کے جامع اور شیخیت کی مکمل اہلیت رکھتے ہیں اور اپنی روحانی تعلیمات سے خلق خدا کو فیض پہنچارہے ہیں،نظام خانقاہی کی اصلاح کے داعی اور اس کے منکرات کی شدید مذمت کے ساتھ اس کی تعمیری اور تنقیدی مزاج بھی رکھتے ہیں، اس حقیقت کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہت ساری خانقاہوں کے اکابراورشیوخ طریقت نے اپنی اپنی خانقاہوں میں پائے جانے والے خرافات پر قدغن لگانے کی کوششیں کی ، بہت سارے اصلاحات کیے اور خانقاہوں کی تجدید واحیا کی ،معیاری ادارے قائم کیے اور فروغ علم میں نمایاں خدمات انجام دیں، خلاف شرع امور کی کسی بھی خانقاہ اور شیخ سے تائید وتحسین حاصل نہیں ہوئی ، اس لیے تمام خانقاہوں کے نظام کو باطل قراردینااور سارے مشائخ طریقت کو ایک معیار پر رکھنا بالکل نامناسب ہوگااور نہ ہی میری اس تحریرکے دائرے میں وہ آتے ہیں۔

احیاے تصوف کے لیے چند تجاویز:

آج کے دورزوال میں تصوف وروحانیت کی احیامندرجہ ذیل باتوں پر عمل کر کے اور ان اقدامات کو بروئے کار لاکر انجام دیاجاسکتا ہے،اصلاحات و اقدامات مشکل ضرور ہیں لیکن ناممکن نہیں۔

(۱)تعلیمات تصوف کو زیادہ سے زیادہ عام کیاجائے تاکہ تصوف کے تعلق سے لوگوں کے ذہن و دماغ میں جو فاسد نظریات اور باطل خیالات قائم ہوچکے ہیں ان سب کا ازالہ ہواور حقیقت تصوف سے سب مطلع ہوں ۔

(۲)ملکی سطح پر صوفی سنٹر کا قیام ہواور اس کی شاخیں ہر شہر وقصبہ میں کھولی جائیں جہاں خواص وعوام اور خاص کر کے نوجوان نسل صوفیا کی تعلیمات سے بہرہ ورہوسکیں۔

(۳)تعلیمات صوفیا کو فروغ دینے کے لیے عالمی سطح پر کام کریں ،اسکول وکالج کے نصاب کا حصہ بنائیں۔

(۴)تصوف کی کتابوں کو زیادہ سے زیادہ عام کریں اور عصری تقاضو ں کو سامنے رکھ کر جدید اسلوب اورحقائق و معارف کی روشنی میں تصوف کی جدیدلٹریچر مرتب کیاجائے۔

(۵)درگاہیت کو خانقاہیت میں تبدیل کرنے کے لیے حتی المقدور کوششیں کی جائیں،قدیم خانقاہی نظام کا احیاہواورعہد جدید کو عصری تقاضوں کے مطابق خانقاہوں سے دعوت وتبلیغ کا کام انجام دیاجائے۔

(۶) تصوف کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد ہو، اصحاب قلم سے خوب مقالے لکھوائے جائیں،اس عنوان پر جلسے اور کانفرنسیں منعقد ہوں اور تصوف کے مختلف عناوین پر مقررین کی تقریریں ہوں۔

(۷)خانقاہوں میں تعلیمی ادارے قائم ہوں جس میں مروجہ تعلیم کے ساتھ تصوف وسلوک کا بھی تربیتی کورس ہو۔

(۸)تمام مدارس عربیہ میں تصوف کو فروغ دیا جائے، تصوف کی تدریس کا آغاز کیاجائے، تصوف کو باقاعدہ نصاب میں شامل کیاجائے اور اسے بطور نصاب پڑھایاجائے۔

(۹)بیعت و ارادت کو نفع بخش بنایاجائے، مشائخ اور مریدین کی اصلاحات کے لیے مناسب تدابیر اختیار کیے جائیں۔

(۱۰)مزارات پر زائرین کے ذریعے جوغیر شرعی امور انجام دیے جاتے ہیں علما اپنے اپنے حلقوں میں وعظ و نصیحت کی محفلوں میں بھرپور ان سب کا سدباب کرنے کی کوششیں کریںاور پیار ومحبت سے عوام الناس کو سمجھانے کا فریضہ انجام دیں۔

(۱۱)مشائخ طریقت بیعت وارادت کو ذریعہ معاش نہ بنائیں، خدمت خلق سمجھ کر رشد و ہدایت کا یہ کام انجام دیں۔

(۱۲)مریدین و متوسلین سے نذر انے و تحائف جوموصول ہوتے ہیں ان کا کچھ حصہ دینی اور ملی کاموں میں ضرور لگائیں،نیز غریبوں اور محتاجوں کے لیے امدادی فنڈ قائم کریں،مسلمانوں کے لیے اسپتال اور رفاہی ادارے کھولے جائیں۔

(۱۳)خانقاہو ں میں مراقبہ اور مجالس ذکر کا اہتمام ہو جہاں مریدین کی خصوصی تربیت ہواور انہیں آداب تصوف سکھایاجائے ۔

(۱۴) اعراس مشائخ میں ارکان اسلام پربھرپور توجہ دی جائے اور نماز باجماعت کا خصوصی اہتمام کیاجائے۔

(۱۵)مدارس میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اعلیٰ تربیت کابھی خصوصی انتظام کریں تاکہ طلباجب فارغ ہوں توعلم کے ساتھ عمل کی دولت سے بھی مالامال ہوں اور وہ جب قوم کے رہبر و رہنما کی حیثیت سے میدان عمل میں اتریں تو معاشرہ میں علم و عمل کی روشنی پھیلائیں۔