27 July, 2024


Book: The Monthly Ashrafia August 2023 Download:Click Here Views: 14671 Downloads: 791

(16)-علامہ ارشد القادری کی شعر گوئی

محمد ولی اللہ قادری

مذہبی و علمی دنیا میں علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ آپ بیک وقت متبحر عالم دین، نامور خطیب، مستند ادیب اور صاحب طرز نثرنگار کے ساتھ ایک شاعر بھی تھے۔ آپ کا شعری سرمایہ، نثری سرمایہ کے مقابل کم سہی، پھر بھی کیفیت، کمیت پر غالب ہے اور اسی سرمائے کے ذریعہ آپ کا شعری اختصاصات واضح کیا جاسکتا ہے۔ علامہ کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر کرامت علی کرامتؔ رقم طراز ہیں:

’’علامہ ارشد القادری کے نعتیہ کلام کی وہ خصوصیت جو مجھے سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں تصنع زدہ رنگ آمیزی کا شائبہ تک نہیں گزرتا۔ اس میں وہ عشق نہیں جو محض دکھاوے کا ہو، وہ تڑپ نہیں جو دل کی گہرائیوں سے نہ نکلی ہو۔ موصوف کی نعتوں کا سرمایہ کمیت و مقدار کے اعتبار سے کم سہی ، لیکن کیفیت و اثرآفرینی کے لحاظ سے کئی بھاری بھرکم دیوانوں پر بھاری ہے۔‘‘

یہ اقتباس ظاہراً مبالغہ آمیز معلوم ہوتا ہے، مگر علامہ کے نعتیہ سرمایہ کا بہ غور مطالعہ و تجزیہ کیا جائے تو اس قتباس سے ایک حدتک اتفاق کیاجاسکتا ہے۔

   میرے پیش نظر علامہ کا شعری مجموعہ ’’اظہار عقیدت‘‘ ہے  اور میں اپنی گفتگو اسی مجموعہ تک محدود رکھوں گا۔ یہ مجموعہ علامہ کے صاحب زادے ڈاکٹر غلام زرقانی کی تدوین و ترتیب کے ساتھ ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا، جو ۸۸ صفحات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں علامہ کی نو نعتیں، سات قطعات، پانچ مناقب، ایک ساقی نامہ اور ایک سہرا شامل کیاگیا ہے۔ اس سے قبل مرتب کی تحریر ’’پیشوائی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ بعدہٗ پروفیسر کرامت علی کرامتؔ کا پیش لفظ ہے۔ یہ پیش لفظ طویل ہے جس میں علامہ ارشد القادری کی حیات و شاعری پر بھرپور گفتگو کی گئی ہے۔ پیش لفظ کے بعد ڈاکٹر شکیل احمد مصباحی کے اس مضمون کو شامل کیاگیاہے جو ماہ نامہ ’’جام نور‘‘ کے ’’رئیس القلم نمبر‘‘ میں اشاعت پزیر ہے۔ اس کو شامل کرکے مرتب نے اچھا کیاہے۔ مجموعے میں بیکلؔ اتساہی کی بھی ایک مختصر تحریر شامل ہے۔ یہ تمام کی تمام تحریریں علامہ کی شاعری کوسمجھنے میں ممدو معاون ہیں۔ البتہ کمپوزنگ پر خاص توجہ نہیں دی گئی ہے بایں وجہ اکثر مقامات پر غلطیاں راہ پاگئی ہیں جو قاری  کے لیے پریشانی کا باعث ہیں۔’’اظہار عقیدت‘‘  میں اس نعت کو اولیت دی گئی ہے، جسے    علامہ نے مدینہ منورہ میں مزار اقدس کے سامنے کہی تھی، اس کا مطلع ہے             ؎

یا نبی یاد تری دل سے مرے کیوں جائے

بخت بیدار مرا جاگ کے کیوں سوجائے

مطلع کے بعد کے چار اشعار عشق رسول سے سرشار ہوکر کہے گئے ہیں اور مقطع میں حسرت بھرے لہجے میں اُس آرزو کا اظہار کیاگیا ہے جو ہر مومن صادق کے قلوب و اذہان میںپیوستہ ہے کہ کاش مدینے میں موت آئے بلکہ یہ تو عشاق نبی کا وظیفہ ہے۔ کہتے ہیں کہ حضرت امام مالک رضی اللّٰہ عنہ نے ایک دفعہ حج کرنے کے سوا کبھی مکہ کاسفر اس وجہ سے نہیں کیا کہ کہیں موت مدینہ میں نہ ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے جذبے کو سلامت رکھا اور آپ کا انتقال مدینہ میں ہوا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ علامہ نے مدینے میں موت کی آرزو کا انوکھے انداز اور نرالی شان سے اظہار کیاہے، فرمایا    ؎

آگئے والیٔ بطحا کی اماں میں ارشدؔ

کہہ دو آنا ہے تو اب پیک اجل آجائے

واقعہ معراج ایسا موضوع ہے جس پر اکثر شعرا نے اشعار کہے ہیں۔ علامہ کی شعری کا ئنات میں بھی اس موضوع پر اچھے اچھے اشعار موجود ہیں۔ علامہ نے ایک ہی شعر میں پورے واقعہ کا نقشہ کھینچ دیاہے اور واقعۂ معراج کا حوالہ پیش کرکے اپنی قسمت جگانے کا سرکار دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عریضہ پیش کیا ہے۔ یہ عریضہ سنجیدہ اور پروقار لفظوں میں پیش کیا گیاہے ، یہ صرف عریضہ نہیں بلکہ ایک عقیدہ کی ترجمانی بھی ہے ۔ شعر ملاحظہ کریں    ؂

سدرۃ المنتہیٰ ، عرش و باغ ارم ہر جگہ پڑ چکے ہیں نشان قدم

اب تو اک بار اپنے غلاموں کے گھر دونوں عالم کے سرکار آجائیے

حضور صلی اللّٰہ علیہ سلم کا نور ہونا مسلم ہے کہ خود قرآن فرماتا ہے :

قدجاء کم من اﷲ نوروکتاب مبین (پ ۶ ع ۷)  بیشک تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیااور روشن کتاب۔ مگر یہ عظیم المیہ ہے کہ اس متفقہ عقیدہ کو مومنوں کے قلوب سے نکالنے کی ایک منصوبہ بند سازش رچی جاتی رہی ہے۔ چوں کہ علامہ مناظر بھی تھے اس لیے انہوں نے اپنے اشعار میں عقیدہ کے اظہار کا جہاں بہ بانگ دہل اعلان کیا ہے وہیں گستاخ رسول پر لطیف طنز بھی کیا ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ علامہ نے یہاں ردّ اعتقاد یہ کی روش اپنائی ہے توغیر مناسب نہ ہوگا    ؂

سامنے جلوہ گر پیکر نور ہو ، منکروں کا بھی سرکار شک دور ہو

کرکے تبدیل اک دن لباس بشر، دونوں عالم کے سرکار آجائیے

بشر کی تشہیر کرنے والو! نہ اُٹھ سکا تم سے بارِ احسان

کہ خاکیوں کی اس انجمن میں وہ عرش کے تاج دار آئے

علامہ کی نعتوں میں ایک نعت ’’صل علٰی محمد‘‘ کی ردیف میں ہے ۔اس کا ہر شعر ایمان افروز اور عشق نبی کا مخزن ہے اور اس میں تغزل کی جھلک بھی ہے    ؎

شاخ نہال آرزو ، پھولے پھلے گی چار سو

دل سے نکلتی ہے صدا صل علٰی محمد

اتنا جنون کا جوش ہو تن کا نہ اپنے ہوش ہو

کہتا پھروں میں برملا صل علٰی محمد

مناقب کے باب میں علامہ نے حضرت غوث پاک، حضرت خواجہ اجمیری، حضور مفتی اعظم ہند اور حضور تیغ علی کی شان میں اشعار کہے ہیں۔ یوں تو تمام کے تمام مناقب قابل توجہ ہیں، مگر حضرت غوث پاک رضی اللّٰہ عنہ کی شان میں کہے گئے دو مناقب میں سے ایک غالباً گیارہویں شریف کی نسبت سے گیارہ اشعارپر مشتمل ہے۔ اس منقبت کا ہر شعرجہاں غوث پاک سے عقیدت ظاہر کررہا ہے وہیں بزرگوں کے سلسلے میں اہل سنت کے عقائد کا اظہار بھی۔ چنداشعاردیکھئے     ؎

دل سے اترے نہ کبھی تیرے تصور کا خمار

ایسا اک جام حضوری پلانا یا غوث

تیرے نانا کی سخاوت کی قسم ہے تجھ کو

اپنے در سے ہمیں خالی نہ پھرانا یا غوث

تیرے جلوؤں سے ہیں کتنے شبستان روشن

میرے دل میں بھی کوئی شمع جلانا یا غوث

جہاں تک علامہ کی قطعہ نگاری کی بات ہے تو اس صنف سخن کے جملہ اصول و ضوابط کو برتتے ہوئے علامہ نے ایک سے بڑھ کر ایک قطعہ لکھاہے ان کے سرمایۂ قطعات میں جہاں نعتیہ قطعات ہیں وہیں مناقب پر مشتمل قطعات بھی ہیں۔ علامہ نے اپنے ایک نعتیہ قطعہ میں ’’استعانت بالغیر‘‘ یعنی نبی اور ولی سے مدد طلب کرنے کے عقیدہ کو اجاگر کیا ہے     ؎

علامت عشق کی آخر کو ظاہر ہوکے رہتی ہے

جبیں سے ، رنگ سے ، پژمردگی سے ، چشم گریاں سے

کرم کی ، رحم کی ، امداد کی ہے آس ارشدؔ کو

خدا سے ، مصطفیٰ سے ، غوث سے ، احمد رضا خاں سے

علامہ نے ایک قطعہ حضرت شبیر کی شان میں بھی کہا ہے، اس قطعہ کے ذریعہ انہوںنے مسلمانوںکو ایک غیر معمولی سبق اور کامیابی کا عظیم نسخہ فراہم کیاہے کہ   ؎

تیرے قدموں میں شجاعت نے قسم کھائی ہے

یاد آئے گی تری یاد کی محفل میں

عزم و ہمت کے مریضوں سے یہ کہہ دے کوئی

جان آجائے گی شبیر کو رکھ لو دل میں

ساقی نامہ لکھنا اردو شاعری کی قدیم روایت ہے، اس روایت کو بحال رکھتے ہوئے علامہ نے بھی ایک ’’ساقی نامہ‘‘ لکھاہے یہ ’’ساقی نامہ‘‘ بقول مرتب اگرچہ نامکمل ہے پھر بھی اس کی جو ہیئت ہے وہ قابل داد ہے۔ عموماً ساقی نامہ مثنوی کی ہیئت میں ملتا ہے، مگر علامہ نے انفرادیت کا ثبوت پیش کرتے ہوئے اپنے ساقی نامے کو نظم کی شکل میں پیش کیا ہے۔ یہاں ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ’’ساقی‘‘ سے مراد شعرا کے ہاں مصنوعی محبوب ہوتا ہے مگر علامہ نے ساقی سے مراد سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ذات کو لیا ہے۔ یہ نظم مسدس کی شکل میں ہے اس کا ایک بند ملاحظہ کریں    ؎

اب تو جنت بھی ، سرکار کی قربت بھی ہے

ترے مولا کی ترے حال پر رحمت بھی ہے

زیب سر تاج شہ ملک ولایت بھی ہے

ہاتھ میں عالم جاوید کی دولت بھی ہے

جب سبھی کچھ ہے خیرات لٹا دے ساقی

چشم مخمور سے پھر جام پلا دے ساقی

علامہ کی شعری کائنات کے مطالعے سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے صنائع و بدائع کا بیش از بیش استعمال کیاہے ذیل میں چند کی نشان دہی کی جارہی ہے۔

تنسیق صفات

 شاعری کی مشہور صنعت ہے، اچھی یا بری صفت کو سلسلہ وار بیان کرنے کو ’’تنسیق صفات‘‘ کہاجاتا ہے، اس صنعت کی مثال امام احمد رضا اور علامہ اقبالؔ کے اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے۔ امام احمد رضا خاں فرماتے ہیں    ؎

اصالت کل ، امانت کل ، سیادت کل ، امارت کل

حکومت کل ، ولایت کل خدا کے یہاں تمہارے لئے

فرشتے خدم ، رسول حشم ، تمام امم غلام کرم

وجود و عدم ، حدوث و قدم جہاں میں عیاں تمہارے لیے

علامہ اقبالؔ کے یہاں بھی یہ صنعت دیکھیں    ؂

وہ دانائے سبل ، ختم رسل ، مولائے کل جس نے

غبارِ راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا

علامہ نے بھی اس صنعت کو خوب نبھایا ہے اوراس کے ساتھ ’’ردصدرعلی الابتدا‘‘ بھی لایا ہے اور وہ بھی کنایہ یعنی لفظ ’’وہ‘‘ کے ساتھ   ؎

وہ نورِ اول ، سراپا رحمت ، عطا کے پیکر ، خدا کی نعمت

وہ مونس و غم گسار بن کر دکھی دلوں کے قرار آئے

یہ ’’تنسیق صفات بہ مدح‘‘ کی مثال ہے،پھر علامہ ارشد القادری کے سرمایہ سخن میں اس کی دوسری صورت یعنی ’’تنسیق صفات بہ ذم‘‘ کی مثال بھی موجود ہے    ؎

جہانِ خاکی کے تیرہ بختو ، تباہ کارو ، خطا شعارو

کچھ اس طرح جاؤ آب دیدہ کہ ان کی رحمت کو پیار آئے

یہاں اگر شاعری پر مناظرہ بازی کی جھلک نظر آرہی ہے تو اس کا دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ اس طرح ’’تنسیق صفات بہ ذم‘‘ کی مثال اور وہ بھی مع خطاب ہماری اردو شاعری میں کم کم ہی ملتی ہے۔

تجنیس مکرر-

    تجنیس مکرربھی شاعری کی ایک عمدہ صنعت ہے اس کی مثال حافظؔ کے اس شعر میں دیکھی جاسکتی ہے              ؎

اگر آں ترک شیرازی بہ دست آرد دلِ مارا

بہ خال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را

اس شعر کے دوسرے مصرعے کا آخری ٹکڑا یعنی ’’بخارا را‘‘ تجنیس مکرر کی مثال ہے۔ علامہ نے بھی اس صنعت کو بہت فنکاری سے لایا ہے اور ایسی ردیف لی ہے اور قافیہ ایسا رکھا ہے کہ قافیہ سے مل کر ردیف کا ٹکڑا’’ تجنیس مکرر‘‘ کی، شان لاتا ہے    ؎

جمال نور کی محفل سے پروانہ نہ جائے گا

مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا

صنعت تضاد –

صنعت تضاد شاعری کی مشہور صنعت ہے اس صنعت کو بھی علامہ نے بہ خوبی اپنی شاعری میں برتا ہے              ؎

فراز عرش سے اب کون اترے فرش گیتی پر

مدینہ چھوڑ کر اب ان کا دیوانہ نہ جائے گا

مل گئی ہے سر بالیں جو قدم کی آہٹ

روح جاتی ہوئی شرما کے پلٹ آتی ہے

حضرت علامہ ارشد القادری کی شاعری کابہ غور تجزیہ کیاجائے تو مزید علمی و فنی نکات سامنے آسکتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ناقدین فن علامہ کے شعری سرمایہ کی جانب توجہ دیں اور ان کا شعری مقام واضح کریں۔ (۲۰۱۱ء)