19 May, 2024


مزارات پر چادر چڑھانا جائز ہے کہ نہیں، حضور سرکار علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: إنّ اللہ لم یامرنا أن نکسوا الحجارۃ والطین ۔) ( ربِّ عزیز نے ہمیں حکم نہ دیا کہ پتھر اور مٹی کوکپڑے پہنائیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قبروں پر چادر یا غلاف چڑھانا حرام ہے کہ وہاں پتھر اور مٹی ہی ہے اور اگر جائز ہے تو قرآن و حدیث کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ بیان فرمائیں۔ بینوا توجروا۔

#997

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب ـــــــــــــــــــــــــــ: بزرگانِ دین کی قبروں پر اس لیے چادر چڑھائی کہ عوام کے دل میں صاحب قبر کی عظمت پیدا ہو، تو یہ جائز ،بلکہ ایک امرِ مستحسن ہے۔ شامی میں ہے: کرہ بعض الفقہاء وضع الستور والعمائم والثیاب علیٰ قبور الصالحین والأولیاء قال في فتاویٰ الحجۃ: و تکرہ الستور علی القبور۔ ولکن نحن نقول الآن إذا قصدبہ التعظیم في عیون العامۃ حتی لا یحتقروا صاحب القبر ویجلب الخشوع والأدب للغافلین الزائرین فھو جائز لأن الأعمال بالنیات و إن کان بدعۃ۔ فھو کقولھم بعد طواف الوداع یرجع القہقریٰ حتی یخرج من المسجد إجلالاً للبیت حتی قال فی منھاج السالکین : إنہ لیس فیہ سنۃ مرویۃ ولا أثر محکی و قد فعلہ أصحابنا ۔ الخ ، کذا في کشف النور عن أصحاب القبور ۔) ( بعض فقہا نے پردے، عمامے اور کپڑے صالحین اور اولیا کی قبروں پر ڈالنے کو مکروہ کہا ہے۔ فتاوی الحجہ میں ہے کہ قبروں پر چادر ڈالنی مکروہ ہے، انتہی۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ اگر آج کل اس سے مقصود عام لوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیدا کرنی ہے کہ لوگ صاحبِ قبر کو حقیر نہ سمجھیں اور یہ نیت ہو کہ غافلین زائرین کے دلوں میں خشوع اور ادب حاصل ہو تو جائز ہے اس لیے اعمال کی اچھائی برائی نیتوں سے ہوتی ہے، اگرچہ یہ ایک نئی بات ہے یہ مسئلہ فقہا کے ایک قول سے ملتا جلتا ہے، وہ یہ ہے کہ حاجی کو چاہیے کہ جب طواف وداع سے فارغ ہو تو الٹے قدم چلے، یہاں تک کہ مسجد سے باہر ہو جائے۔ یہ فعل بیت اللہ شریف کی تعظیم کے لیے ہے۔ منہاج السالکین میں ہے کہ (الٹے قدم لوٹنے کے متعلق) کوئی حدیث و اثر منقول نہیں ہے۔ مگر بایں ہمہ ہمارے اصحاب نے اسے کیا ہے ۔ ایسا ہی’’کشف النور عن أصحاب القبور‘‘ میں ہے۔ مستفتی کا دعویٰ کہ پتھروں پر چادر چڑھانی حرام ہے اور حدیث : إنّ اللہ لم یامرنا أن نکسوا الحجارۃ والطین۔سے استدلال صحیح نہیں کہ اس میں امر کی نفی ہے۔امر کے معنی وجوب ہیں تو” نفی ِامر “سے نفی وجوب ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ فعل واجب نہیں ہے۔ وجوب کی نفی سے حرمت ثابت نہیں ہوتی، پھر نفی وجوب ہمارے دعواے استحسان کے منافی بھی نہیں ہے۔ ”نفیِ امر“ کا لفظ حدیث شریف میں ایک دوسرے موقع پر بھی استعمال ہوا ہے :ما أمرت بتشیید المساجد (مجھ کو مسجدوں کو چونا اور گچ سے پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔)مگر اس کے باوجود مسجد کی تعظیم کے لیے اس کو پختہ بنانا، نقوش اور دیگر تکلفات سے اس کو سجانا علما نے جائز رکھا ، کسی عالم دین نے اس کو حرام نہیں کہا۔ حالاں کہ سائل کے طریقۂ استدلال ”نفیِ امر “سے یہ نتیجہ نکلنا چاہیے تھا۔ تو معلوم ہوا کہ مستفتی نے اپنی پیش کردہ حدیث کا مطلب غلط سمجھا، سائل کی حدیث مستدل ذیل میں درج کی جاتی ہے تا کہ اس کا صحیح مطلب واضح ہو جائے: و عنہا [عائشۃ] أن النبي ﷺ خرج في غزاۃ فأخذت نمطاً فسترتہ علی الباب فلما قدم فرأی النمط فجذبہ حتی ہتکہ ثم قال: إن اللہ تعالیٰ لم یامرنا أن نکسوا الحجارۃ والطین ۔) ( حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کسی غزوہ میں تشریف لے گئے تو میں نے نمط(ایک قسم کا باریک کپڑا) لیا اور اس کو دروازہ پر لٹکا دیا۔ آپ نے واپسی پر اس کو کھینچا حتی کہ پھاڑ دیا، پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو حکم نہیں دیا کہ پتھر اور مٹی کو کپڑا پہنائیں۔ اشعۃ اللمعات میں ہے: نمط بفتح نون و میم از بساے لطیف است کہ ریشہاے باریک دارد ۔) ( نمط بفتحتین ایک قسم کا باریک کپڑاہے جو باریک سوت سے تیار ہوتا ہے ۔ اس کے معنی معلوم ہو جانے کے بعد یہ ظاہرہو گیا کہ باریک شان دار کپڑے، رئیسانہ ٹھاٹھ اہلِ بیت نبی ﷺ کے تقویٰ و پرہیز گاری کے مناسب نہ تھے، اس لیے حضور ﷺ نے اسے کھینچ کر پھاڑا ،اسے ناجائز و حرام نہیں فرمایا، بلکہ ’’لم یامرنا‘‘ فرمایا کہ خداے تعالیٰ نے ایسے پردے آویزاں کرنے ہم پر فرض نہیں کیے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل بیت کے لیے یہ فعل خلافِ اولیٰ تھا نہ کہ حرام۔ اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کی شرح میں ہے: طیبی گفتہ کہ کراہت تنزیہی است نہ تحریمی چہ عدم امر الٰہی بداں دلالت بر نہی کند باوجود آں تغییر داد و غضب نمود۔) ( طیبی نے کہا(ایسے کپڑے کا استعمال) مکروہِ تنزیہی(خلاف اولیٰ) ہے نہ کہ مکروہ تحریمی ۔ اس لیے خداے تعالیٰ کا اس کے بارے میں حکم نہ فرمانا اس کے حرام ہونے کو ثابت نہیں کرتا، مگر اس کے باوجود حضور نے اس کو ہٹایا اور پھاڑ دیا اور ناراض ہوئے۔ یہ محض اہل بیت کے تقویٰ اور پرہیز گاری کے لیے ہے۔ مستفتی کو چاہیے کہ بغرضِ انصاف اشعۃ اللمعات کی اس عبارت کو دیکھے کہ شارحین حدیث تصریح فرماتے ہیں’’لم یأمرنا‘‘ کا لفظ نہی پر دال نہیں پھر اس نے کہاں سے نتیجہ نکالا کہ قبروں پر چادر ڈالنا حرام ہے۔(فتاوی حافظ ملت)