19 May, 2024


(۱) مردہ کو ثواب پہنچانے کے لیے جو کھانا کھلایا جاتا ہے وہ کھانا مال دار صاحبِ نصاب کو کھلایا جائے تو مردہ کو ثواب پہنچے گا یا نہیں؟ (۲) مردہ کو ثواب پہنچانے کے لیے صرف ان لوگوں کو کھانا کھلانا ، جنھوں نے قرآن مجید پڑھا ہے ، حالاں کہ وہ قرآن پڑھنے والے مال دار صاحبِ نصاب ہیں، باعثِ ثواب ہے یا نہیں؟ (۳).جناب رسولِ کریم احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ نے کھانے کی دعوت قبول فرمائی ہے اور دعوت قبول کرنا سنت ہے تو کیا سود خور، ناچنے گانے والوں کے یہاں بھی آں حضرت ﷺ نے کھانا کھایا ہے اور سود خور ناچنے گانے والوں کی دعوت قبول کرنا بھی سنت ہے؟ اور اگر سود خوروں، ناچنے گانے والوں کی دعوت قبول فرمائی ہے تو واقعہ مع حوالۂ کتاب تحریر کیا جائے۔ (۴).کسی مجمع میں بلند آواز سے زیادہ آدمیوں کا قرآن مجید پڑھنا جائز اور باعثِ ثواب ہے یا نہیں؟ (۵).کتاب بہارِ شریعت مصنفہ مولانا امجد علی صاحب کے مسئلے صحیح ہیں یا نہیں، اور وہ وہابی تھے یا سنی جماعت، حنفی تھے اور ان کے مسائل پر عمل کیا جائے یا نہیں؟ (۶).اگر میت کے وارثان اپنی خوشی سے قرآن خوانوں کو دعوت دیں جس میں اکثر مال دار صاحبِ نصاب ہوتے ہیں تو اس روز ان کی دعوت منظور کرے یا نہیں؟ اگر منظور کرے تو جائز ہے یا نہیں؟ (۷).اگر قرآن خوانی کے دن اپنے عزیزوں کو بھی دعوت دیں تو ان کو کھانا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔

#994

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم الجوابــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ میت مسلمان کے لیے ایصالِ ثواب جائز اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔ ہر عمل خیر کا ثواب میت کو پہنچتا ہے ۔ عبادت خواہ بدنی ہو یا مالی، منفرداً و مجتمعاً ہر طرح ایصالِ ثواب جائز ہے۔تلاوتِ قرآن مجید ہو یا کھانا، دونوں ایک ساتھ ہوں، یا علاحدہ علاحدہ ہر طرح ثواب پہنچتا ہے اور بلا شبہہ جائز و درست ہے ۔ احادیثِ کریمہ و اقوالِ ائمہ سے ثابت ہے ، یہی صراطِ مستقیم ہے۔ افراط و تفریط دونوں ناجائز ہیں، تیجہ، دسویں وغیرہ کی مجالس ، ایصالِ ثواب یا قرآن خوانی یا ذکرِ الٰہی، کلمۂ طیبہ وغیرہ پڑھنا ،یا ان ایام میں میت کے ایصال ثواب کے لیے کھانا کھلانا جائز و مستحسن ہے ۔ منکرین اس کو مطلقاً منع کرتے ہیں، حرام و ناجائز بتاتے ہیں۔ یہ گم راہی، دین کے اندر خود درائی ہے ۔ بعض جگہ عوام ان مجالس و امورِ خیر میں ریا و نمودِ دنیوی شامل کر لیتے ہیں۔ مثلاً شادی کی طرح اغنیا کو دعوت دینا اور مال داروں کو کھلانا اور غربا و فقرا کو روکنا ، یہ ناجائز ہے۔ ایک مجلس میں چند آدمیوں کا بلند آواز سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا یہ ناجائز ہے اور جہالت پر مبنی ہے، اس کی اصلاح کرنی چاہیے ، یہ بتانا چاہیے کہ کھانا فقرا کو کھلائیں اور قرآن مجید کی تلاوت آہستہ کریں، یہ نہیں کہ ان مجالسِ خیر اور ان امورِ خیر ہی کو شرک و بدعت کی تہمت لگا کر یک قلم روک دیا جائے۔ سوالات کے جوابات تو اسی میں آگئے مگر تسہیلاً نمبر وار بھی ذکر کیے جاتے ہیں۔ (۱) میت کے ایصالِ ثواب کا کھانا فقرا و مساکین کو کھلانا چاہیے، مال دار اس سے پرہیز کریں (تو اَولیٰ و بہتر ہے۔ مرتب)۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲).جن لوگوں نے ایصالِ ثواب کے لیے قرآن مجید یا کلمۂ طیبہ پڑھا ہے، ان کو بطور اجرت کھانا کھلانا منع ہے اور اگر وہ مال دار ہیں تو ان کو خود ہی پرہیز کرنا چاہیے اور اگر وہ قرآن خواں غربا ہیں اور اجرتِ معاوضہ مقصود نہیں تو ان کو کھلا سکتے ہیں، کیوں کہ قرآن خوانی کوئی جرم تو ہے نہیں کہ قرآن خوانی کے بعد وہ شخص اس قابل بھی نہیں رہتا کہ اس کو کھانا کھلا سکیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳).دعوت قبول کرنا بلا شبہہ سنت ہے، البتہ اگر دعوت میں ممنوعاتِ شرعیہ شامل ہوں تو اس سے پرہیز و گریز ضروری ہے ، اس میں سود خور اور ناچنے گانے والے ہی کی کیا تخصیص ہے، اس سے زیادہ سخت حکم تو وہابی ، دیوبندی، غیر مقلد، ہر بد مذہب، بد دین کا ہے کہ ان سے پرہیز و گریز لازمی و ضروری ہے ۔ حدیث میں فرمایا کہ: إیاکم و إیاھم لا یضلونکم ولا یفتنونکم۔) ( تم ان سے دور رہو، ان کو اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمھیں گم راہ نہ کر دیں، کہیں وہ تمھیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۴).جب ایک مجلس میں بیک وقت چند آدمی قرآن مجید کی تلاوت کریں تو ان پر آہستہ پڑھنا لازم ہے ، زور سے پڑھنا منع ہے، مگر اس حیلہ سے مجلسِ قرآن خوانی ہی کو ناجائز کہنا گم راہی ہے ، جو خرابی ہے صرف اسے دور کیا جائے، نفسِ فعل جو حسن و مندوب ہے اس کو حرام و ناجائز ہر گز نہیں کہا جا سکتا ، جیسے اگر اکیلا ہی شخص قرآن مجید غلط پڑھے تو اس غلطی کو دور کیا جائے گا، یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن مجید پڑھنا حرام ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۵).کتاب بہارِ شریعت مصنفہ علامۂ زمن ،خاتم الفقہا، حضرت صدر الشریعہ دامت برکاتہم کے سبھی مسئلے صحیح ہیں، ضرور قابلِ عمل ہیں۔ حضرت ممدوح سنی حنفی بلکہ مقتداے اہلِ سنت ، عمادِ ملت اور قاطعِ شرِ نجدیت ہیں۔ بہارِ شریعت کے پہلے حصے میں قادیانی، وہابی، دیوبندی، غیر مقلد سب کے کفریات بیان کیے ہیں اور ان پر یہ حکمِ شرع بیان فرمایا ہے کہ یہ گم راہ فرقے اپنےکفریات کی بنا پر کافر و مرتد ہیں، لہذا مسلمانوں کو ان بد دینوں سے اجتناب و انقطاع اور پرہیز و گریز لازم ہے۔ بہارِ شریعت کے پہلے حصے کو ماننا پہلے ضروری ہے تاکہ پہلے عقیدہ درست ہو جائے ، اس کے بعد پوری بہارِ شریعت اس کے لیے مشعلِ راہ ہے ۔ حضرت ممدوح نے بہارِ شریعت میں تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں سب کو جائز و باعثِ اجر و ثواب لکھا ہے اور ان امورِ خیر سے منع کرنے والے کو وہابی لکھا ہے، البتہ ان امورِ خیر کا طریقہ وہی بیان فرمایا ہے جو اوپر مذکور ہوا۔واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۶).اغنیا کو میت کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے، فقرا کو کھلانا چاہیے(کہ فقرا کو کھلانے میں ثواب زیادہ ہے اور جس کام پر ثواب زیادہ ملے وہی اولیٰ ہوتا ہے۔ مرتب)۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۷).یہ قرآن خوانی اگر تیجہ، دسویں کی ہے تو وہی تفصیل ہے جو اوپر گزری یعنی اگر وہ عزیز غربا ہیں تو جائز ہے اور اگر مال دار ہیں تو(اچھا۔مرتب) نہیں اور قرآن خوانی علاوہ تیجہ، دسویں وغیرہ کے ہے اور اجرت و معاوضہ مقصود نہیں تو مال داروں کو بھی کھانا جائز ہے، ان کو دعوت بھی دے سکتے ہیں۔ و ھو تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)