30 April, 2024


ہمارے موضع میں چار ساڑھے چار ہزار مسلمانوں کی آبادی ہے اور تین مسجدیں ہیں لیکن ہمارے محلہ میں مسجد نہیں ہے۔ دوسرے محلہ کا فاصلہ تقریباً تین سو قدم ہے اور ہم لوگوں کو برسات کے موسم میں مسجد جانے میں سخت تکلیف ہوتی ہے، راستہ میں کیچڑ اور گندگی بے حد ہوتی ہے غرضےکہ راستہ بہت خراب ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں اور اسی لیے کچھ آدمی نماز کو جاتے ہیں اور کچھ نہیں جاتے، سردی کے موسم میں بھی یہی حالت ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اپنے محلے میں مسجد تعمیر کرنے کا خیال آیا۔ ان تینوں مسجدوں کے گرد و نواح میں کافی مسلمان ہیں یعنی اس مسجد کی تعمیر سے سابق مسجدوں کے ویران ہونے کا بھی خطرہ نہیں ہے۔ ایسی صورت میں اب چوتھی مسجد اس محلہ میں تعمیر کرائی جائے یا نہیں؟ بینوا و توجروا۔

#1242

بسم اللہ الرحمن الرحیم - الجواب: مسجدخانۂ خدا ہے، اس کی تعمیر میں بڑا اجر و ثواب ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: مَنْ بَنٰی لِلہِ مَسْجِداً بَنَی اللہُ لَہٗ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ. یعنی جس شخص نے رضاے الٰہی کے لیے مسجد بنائی ، اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں محل عطا فرمائے گا۔ مسجد میں ایک فرض نماز ستائیس نمازوں کا ثواب رکھتی ہے۔ یعنی اگر مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ نماز پڑھے گا تو ایک نماز کا ثواب ملے گا اور مسجد میں پڑھے گا تو ستائیس نمازوں کا ثواب پائے گا۔( حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ گھر میں بازار میں پڑھنے سے ستائیس درجے زائد ہے۔“ (بہارِ شریعت، ص:۶۳۸ حصہ سوم، بحوالہ صحیح بخاري و مسلم ص:۲۳۴، مجلس برکات۔ (مرتب)) مسجد کے نمازیوں کو یہ اجر و ثواب مسجد ہی کی بدولت حاصل ہوتا ہے۔ اگر مسجد نہ ہوتی تو وہ اس ثواب سے محروم رہتے۔ اس حصول خیر کا سبب مسجد ہے لہٰذا جب تک مسجد قائم رہے گی برابر بانیان مسجد کو ثوا ب ملتا رہے گا ۔ اسی لیے نبی کریم ﷺ نے ہر محلہ میں مسجدبنانے کا حکم دیا تاکہ ہر محلہ کے مسلمان مسجد میں نماز کے ثواب اور جماعت کے اجر کوبہ آسانی حاصل کرسکیں اور مسجد میں نماز کے اجر اور جماعت کے ثواب سے محروم نہ رہیں۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ کی حدیث ہے: عن عائشۃ قالت أمر النبي صلی اللہ علیہ وسلم ببناء المساجد في الدور و أن ینظف و یتطیب. یعنی نبی کریم ﷺنے ہر محلہ میں مسجد بنانے کا حکم دیا اور یہ حکم دیا کہ مسجدوں کو صاف ستھرا رکھا جائے۔ حضرت شیخ .محقق ﷫ نے لمعات شریف میں اس حدیث کی تفسیر میں فرمایا: إن المراد بہ ھٰھنا المحلات والقبائل وھذا في غیر صورۃ الضرار فإنہ یمنع ۔ یعنی الدور سے یہاں مراد محلے اور قبیلے ہیں، یعنی حدیث میں ہر محلہ اور قبیلہ میں مسجد بنانے کا حکم دیا اور یہ حکم ضرار کی صورت میں نہیں ہے کیوں کہ ضرارمنع ہے۔ یعنی اگر مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے مسجد بنائے یا دوسری مسجد کو ویران کرنے کی غرض سے مسجد بنائے تو جائز نہیں۔ وفي المرقات رأیت ابن حجر ذکر أن المراد بہ ھٰھنا المحلات وحکمۃ أمرہ لأھل کل محلۃ ببناء مسجد فیھا أانہ قد یتعذر أویشق علی أھل محلۃ الذھاب إلی الأخریٰ فیحرمون أجر المسجد وفضل إقامۃ الجماعۃ فأمروا بذلک لیتیسر لأھل کل محلۃ العبادۃ في مسجدھم من غیر مشقۃ یلحقھم۔ یعنی علامہ علی قاری ﷫ نے اپنی کتاب شرح مرقات شریف میں فرمایا کہ میں نے علامہ ابن حجر مکی ﷫ کو دیکھا کہ انھوں نے فرمایا کہ مراد اس سے یہاں محلے ہیں اور حضور ﷺنے جو ہر محلہ میں مسجد بنانے کا حکم دیا ہے، اس میں یہ حکمت ہے کہ کبھی دوسرے محلے کی مسجد میں جانا متعذر یا دشوار ہو جاتا ہے تو نمازی مسجد کے اجر و ثواب اور جماعت کی فضیلت سے محروم ہو جاتے ہیں، لہٰذا ہر محلہ میں مسجد بنانے کا حکم دیا تاکہ ہر محلہ والوں پر اپنی مسجد میں عبادت آسان ہو۔ صورت مسئولہ میں جب کہ اس محلہ میں مسجد نہیں ہے بل کہ دوسرے محلہ میں ہے جس کا کافی فاصلہ ہے اور موسمِ برسات و سرما میں نمازیوں کا اس مسجد میں پہنچنا مشکل ہے، نیز پہلی مسجدوں کے ویران ہونے کا بھی خدشہ نہیں ہے، کیوں کہ جب ان مسجدوں کے گرد و نواح میں کافی مسلمان آباد ہیں تو ان مسلمانوں پر ان مساجد کا آباد رکھنا فرض ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے دوسرے محلہ والوں پر یہ ضروری نہیں کہ وہ دور دور سے جا کر ان مسجدوں کو آباد کریں، حالاں کہ ان کو وہاں جانے میں دشواری ہوتی ہے۔ لہٰذا ایسی صورت میں اس محلہ کے مسلمانوں کو اپنے محلہ میں مسجد بنانے کا حق حاصل ہے بلکہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کا حکم ہے کہ وہ اپنے محلہ میں مسجد بنائیں۔ جیسا کہ اوپر حدیث سے ثابت ہوا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)