21 May, 2024


ہمارے قصبہ میں ایک مسجد زمین دارو ں کی ہے جس کے متولی زمیں دار ہی ہیں ۔ کچھ غریب انصاری بھی اس میں نماز پڑھتے تھے جنھوں نے زمین داروں کے ظلم سے تنگ آکر اپنی مسجد علاحدہ بنا لی ۔ اس نئی مسجد کے متعلق سوال ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ مومن انصار زمیں داروں کے بازار میں کپڑے کی تجارت کرتے تھے ۔ کچھ عرصہ سے اس پر زمیں داروں نے ان پر بے جا سختیاں شروع کر دی تھیں اور ناقابلِ برداشت بازاری ٹیکس نافذ کیا تھا ، جس سے تنگ آکرانصاریوں نے زمیں داروں کا بازار چھوڑ دیا اور اپنا بازار علاحدہ قائم کر لیا ۔ اس سے زمین داروں کی آتشِ عناد بھڑک اٹھی۔ چناں چہ زمین داروں نے مع اپنے گروہ کے بندوق ، تلوار اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کر انصاریوں کے بازار پر چڑھائی کی اور ان کو بندوقوں کا نشانہ بنایا اور تلواروں سے گھائل کیا ، جس سے پانچ انصاری شہید اور چودہ سخت مجروح ہوئے ۔ ایک زمین دار بھی مارا گیا ۔ خون کا بدلہ خون ہی ہوتا ہے ، اس لیے قانوناً اور انصافاً ان قاتلوں کو مراد آباد ججی سے سزاے موت ہوئی مگر الٰہ آباد اپیل میں اس انصاف کا خون کر دیا گیا اور ان قاتلوں کو بالکل آزاد چھوڑ دیا گیا ۔ قصبہ کے جن جن مسلمانوں نے مقتولین و مجروحین کی اعانت میں حصہ لیا تھا اور مقدمات کی پیروی کی تھی ان سے زمین داروں نے عداوت ٹھان لی اور ان کے درپئے آزار ہو گئے ۔ اسی زد میں امام مسجد زمین داران بھی آگئے ۔ ان پر سختیاں شروع کر دیں اور بلا وجہ شرعی امامت سے معزول کر دیا اور کہا کہ تمہارے پیچھے نماز جائز نہیں اور کہا کہ ہماری مسجد میں آؤگے تو خطرہ پاؤگے۔ ہم غربا زمیں داروں کا ظلم دیکھ ہی چکے تھے اور اب انھوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔ لہٰذا یہ خوف ہوا کہ اگر ان ظالموں نے مسجد ہی میں فتنہ برپا کیا تو خانۂ خدا کی بے حرمتی ہوگی اور ہماری جانیں بھی جائیں گی کیوں کہ زمین داروں کی مسجد کا ماحول بھی ایسا ہے کہ ہر طرف قرب و جوار میں زمین داروں ہی کے مکانات ہیں۔ ہمارے مکانات بہت فاصلے پر ہیں، لہٰذا ہم غریب مسلمانوں نے زمیں داروں کے اس ظلم کو دیکھ کر مجبوراً ان کی مسجد چھوڑ دی اور اپنے محلہ میں نماز با جماعت ادا کرنے لگے ۔ کئی مہینہ اسی طرح نماز ادا کرتے رہے ۔ اس کے بعد دو مسلمانوں نے اپنے ذاتی دو مکان خام جن کے وہ مع ان کی زمین کی تحتی کے قابض تھے مسجد کے لیے وقف کر دیا اور ان کو ہموار کرا کر نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت دے دی۔ مسلمانوں نے جاے موقوفہ پر پختہ فرش لگایا ،اوپر چھپر رکھا ، غسل خانہ و استنجا خانہ وغیرہ بنا لیا اور تقریباً دو سال سے اس مسجد میں مع اذان نماز با جماعت ادا ہوتی ہے ۔ اس مسجد کا زمین داروں کی مسجد سے کافی فاصلہ ہے ، نیز اس مسجد سے زمین داروں کی مسجد کے ویران ہونے کا کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ اس سے متعلق اب بھی کافی مسلمان ہیں کہ اگر وہ سب نماز پڑھیں تو اس مسجد میں گنجائش بھی نہ رہے ۔ نیز اس مسجد پر کافی جائداد وقف ہے ، امام و موذن تنخواہ دار مقرر ہیں ، پنج گانہ اذان و نماز با جماعت ادا ہوتی ہے ۔ اس جدید مسجد میں بھی پانچوں وقت نماز با جماعت ادا ہوتی ہے اس سے متعلق بھی کافی مسلمان ہیں ، لہٰذا ایسی صورت میں امور ذیل دریافت طلب ہیں: (۱). یہ نئی مسجد غریب مسلمانوں کی جس کا فرش پختہ اور اوپر پھونس کا چھپر ہے ، جائز ہے یا نہیں اور اس میں نماز درست ہے یا نہیں؟ (۲). یہ نئی مسجد اپنی موجودہ تشکیل میں مسجد ہی کا حکم رکھتی ہے یا نہیں ؟ اس کا احترام واجب ہے یا نہیں؟ خدا نخواستہ اگر کوئی اس کی بے حرمتی کرے یا اس کو منہدم کرے تو مسلمانوں پر اس کی حفاظت ضروری ہے یا نہیں؟ (۳). مسلمانوں نے اپنے وہ خام مکان جن کے عملے اور زمین تحتی کے وہ پورے طور پر مالک و قابض تھے اس مسجد کے لیے وقف کر کے نماز با جماعت کی اجازت دے دی اور تقریباً دو سال سے برابر نماز با جماعت اور اذان ہو رہی ہے ۔ ان مسلمانوں کا یہ وقف صحیح اور تام ہے یا ناجائز اور ناقص ہے؟بینوا توجروا۔

#1241

بسم اللہ الرحمن الرحیم - الجواب: اگر زمین دار مومن انصار کے بازار پر چڑھ گئے اور انصاریوں کے بازار میں ان کو قتل کیا اور مجروح کیا تو شدید ظلم کیا ۔ اس میں جو انصاری قتل ہوئے وہ شہید ہوئے ۔ حدیث میں ارشاد فرمایا: من قتل دون مالہ فھو شہید۔ جو شخص اپنے مال کی حفاظت میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے ۔ حدیث میں ارشاد فرمایا: من قتل دون عرضہ فھو شہید۔ جو شخص اپنی عزت کی حفاظت میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے۔ اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو زمین دار سخت ظالم ہیں اور مقتولین و مجروحین مظلوم ہیں اور ان کی امداد و اعانت باعث اجر و ثواب ہے ۔ یہ زمین داروں کا ظلم بالاے ظلم ہے کہ جن لوگوں نے مظلوموں کی امداد و اعانت کی ان کے دشمن ہو گئے ۔ امام مسجد کو بلا وجہ شرعی امامت سے معزول کرنا بھی امام پر ظلم ہے ، پھر یہ کہنا کہ ہماری مسجد میں آؤگے تو خطرہ پاؤگے، مسجد سے روک دینا ہے ۔ واقعات ما سبق اگر صحیح ہیں تو اس قول کے بعد مسجد چھوڑنا مجبوری ہی سے ہے اور جن لوگوں نے مسجد چھوڑی وہ معذور ہیں کیوں کہ اس میں تفریق زمین داروں کی طرف سے ہے ۔ نئی مسجد چوں کہ اس تفریق کے بعد بنائی گئی ہے اس لیے یہ مسجد باعث تفریق ہر گز نہیں ہو سکتی ۔ مسجد شرعی مسجد ہے ، اس میں نماز درست ہے، اس میں نماز کا اجر و ثواب مسجد ہی کا اجر و ثواب ہے ، اس کی حفاظت مسلمانوں پر فرض ہے۔ (۱). یہ مسجد اپنی جدید صورت میں مسجد ہے ، مسجد کے لیے پختہ ہونا شرط نہیں اور مسجد کی کوئی خاص شکل شریعت نے مقرر نہیں کی ہے۔ یہ مسجد جائز اور اس میں نماز درست ۔ اس صورت میں اس مسجد کے لیے مسجد ضرار کا حکم نہیں۔ تفسیر کبیر میں ہے: لأن المسجد عبارۃ عن الموضع الذي یعبد اللہ فیہ۔ ہدایہ میں ہے: من اتخذ أرضہ مسجدا لم یکن لہ أن یرجع فیہ ولا یبیعہ ولایورث عنہ لأنہ یحرز عن حق العباد وصار خالصا للہ وہذا لأن الأشیاء کلھا للہ تعالیٰ وإذا أسقط العبد ماثبت من الحق رجع إلی أصلہ فانقطع تصرفہ عنہ کما في الإعتاق۔ خود مسجد نبوی ابتدا میں چھپر ہی کی طرح تھی ۔ بخاری شریف میں ہے: اِنَّ الْمَسْجِدَ کَانَ عَلَیٰ عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَنِیًّا بِاللَّبِنِ وَسَقَفُہٗ الْجَرِیْدُ وَعُمْدُہٗ خشب النَّخْلِ۔ مسجد نبوی زمانِ رسول ﷺ میں کچی اینٹوں سے بنی تھی اور اس کی چھت شاخ خرما کی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑیاں تھیں۔ (۲). یہ مسجد اپنی موجودہ صورت میں مسجد ہی ہے اور اس کا احترام مسلمانوں پر فرض ہے ۔ اگر کوئی اس کی بے حرمتی کرے یا اس کو منہدم کرنے کی کوشش کرے وہ ظالم ہے ، اس کا روکنا مسلمانوں پر ضروری ہے ۔ یہی نہیں بلکہ اس مسجد میں نماز پڑھنا اس محلہ والوں کے لیے افضل ہے ۔ در مختار میں ہے: ومسجد حیہ أفضل من الجامع۔ (۳). جب کہ مالکان مکان نے اپنا مکان مسجد کے لیے وقف کر دیا اور اس میں نماز با جماعت ہو گئی تو اس کے لیے حکمِ مسجد ثابت ہو گیا اور یہ زمین واقفین کی ملک سے نکل کر اللہ تبارک و تعالیٰ کی ملک ہو گئی۔ رد المحتار میں ہے: اعلم أن وقف المسجد یخالف سائر الأوقاف في عدم اشتراط التسلیم إلی المتولی فیہ عند محمد و في منع الشیوع عند أبي یوسف و في خروجہ عن ملک الواقف عند الإمام وإن لم یحکم بہ حاکم۔ در مختار میں ہے: ویزول ملکہ عن المسجد و المصلی بالفعل و بقولہ جعلتہ مسجدا عند الثاني و شرط محمد و الإمام الصلاۃ فیہ بجماعۃ ۔ نیز اسی میں ہے: وبالصلاۃ بجماعۃ یقع التسلیم بلا خلاف حتی أنہ إذا بنی مسجدا و أذن للناس بالصلاۃ فیہ جماعۃ فانہ یصیر مسجدا ۔ واللہ تعالیٰ اعلم (فتاوی حافظ ملت)