30 April, 2024


زید کی معیشت کے چند تجارتی شعبہ ہیں جس میں کچھ دُکانیں افیون اور شراب کی ہیں جس کسب کو شریعتِ مطہرہ نے حرام فرمایا ہے اور کچھ دوسری دُکانیں اور تیل کی مِل وغیرہ ہیں جس کسب کو شریعتِ مطہرہ نے حلال فرمایا ہے۔ زید یہ چاہتا ہے کہ مسجد کا حوض یاکنواں اُس پیسے سے تعمیر کرائے جس کو شریعتِ مطہرہ نے حلال فرمایا ہے، اس سے اس کارِ خیر میں خرچ کرے ۔ بعض لوگ معترض ہیں کہ کسبِ حلال بھی ہے، حرام بھی ہے ۔ نہ معلوم وہ پیسہ جس سے حوض یا کنواں وغیرہ تعمیر کرانا چاہتا ہے ، وہ مخلوط ہے یا مخلوط نہیں تو ہو سکتا ہے کہ کسبِ حلال کی صورتیں بعد میں کسب حرام کی پونجی سے پیدا ہوئی ہوں اور دوسری دُکانیں یا مِل کھولا ہو، لہٰذا وہ روپے مشکوک ہیں۔ زید کی دلی خواہش ہے کہ کسبِ حلال سے یہ کارِ خیر اسی پیسے سے انجام دے تو اس کی کیا صورت ہو گی؟بینوا تو جروا۔

#1235

بسم اللہ الرحمن الرحیم - الجواب: کسبِ حرام، حرام ہے، شراب کی تجارت قطعاً حرام و اشد حرام ہے، شریعتِ مطہرہ میں اس پر بڑی سخت سخت وعیدیں آئی ہیں۔ زید کو چاہیے کہ اس تجارت سے باز آئے اور فوراً توبہ کرے۔ دنیا بالکل بے ثبات ہے ، اس کی ہر چیز ناپائیدار ہے ، مدتِ عمر کا پتہ نہیں ، موت کا وقت معلوم نہیں، وقت پر جانا ضروری ہے ۔ مسجد یا حوض وغیرہ کارِ خیر میں مالِ حرام صرف کرنا جائز نہیں، بارگاہِ خداد وندی میں حرام مردود ہے اور حلال ہی مقبول ہے ۔ حدیث میں ارشاد فرمایا: ’’إن اللہ طیّب لا یقبل إلا طیّبا۔‘‘ زید کی جو تجارت حلال ہے ، اگر اس کا حساب علاحدہ ہی رہتا ہے اور دوسری تجارتِ حرام سے روپیہ پیسہ مخلوط نہیں ہوتا تو وہ مال حلال و پاک ہے ، اور محض اس شبہہ سے کہ ہو سکتا ہے کہ کسبِ حلال کی صورتیں بعد میں کسبِ حرام کی پونجی سے پیدا ہوئی ہوں، یہ تجارت حرام نہ ہوگی اور ہر مال حرام نہ ہوگا۔ (خاص کر اس صورت میں کہ خرید و فروخت میں عموماً عقد و نقد جمع نہیں ہوتے۔ مرتب) اس مال سے تعمیرِ مسجد وغیرہ جائز ہے ، تاہم احتیاط یہ ہے کہ زید کسی شخص سے مالِ حلال قرضِ حسن لے کر تعمیرِ مسجد میں صرف کرے اور اس قرض کو اپنے کسبِ حلال سے ادا کر دے۔واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاوی حافظ ملت)