30 April, 2024


(۱). عید گاہ میں سقف پختہ کے متعلق زید کہتا ہے کہ اگر عید گاہ پر سقف ڈلوائی گئی تو وہ مسجد ہو جائے گی اور پھر اس میں صلوات خمسہ پڑھنا اور روشنی کرنا ضروری ہو جائے گا، کیوں کہ چھت پڑنے سے مسجد کا حکم ہو جاتا ہے۔ زید کا یہ کہنا صحیح ہے یا غلط؟ جواب مع حوالۂ کتب مرحمت فرمائیں۔ (۲). مسجد کی صحیح تعریف کیا ہے اور کیا بناے مسجد کے لیے نیت ہونا ضروری ہے، یا بغیر نیت کے بھی کسی مکان کو قبلہ رخ مثل مسجد کے بنایا تو وہ مسجد ہو جائے گا؟ (۳). عید گاہ میں اور مسجد میں کیا فرق ہے؟ بینوا توجروا۔

#1232

بسم اللہ الرحمن الرحیم - الجواب: (۱). عید گاہ کی اگر چھت بنوا دی گئی تو وہ »مسجد مطلق «نہیں ہوگئی، جیسے اگر کسی مسجد کی چھت گر جائے اور کنارے کنارے کی دیواریں رہ جائیں تو وہ عید گاہ نہیں ہو جائے گی۔ مختصر یہ کہ چھت کے رہنے نہ رہنے سے حکم مسجد نہیں بدلتا ہے بلکہ واقف کے وقف پر ہے ۔ اگر کسی نے نماز پنج گانہ کے لیے وقف کیا تو وہ مسجد ہے اور عیدین کے لیے تو عید گاہ۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲). مسجد وہ زمین مع عمارت یا صرف زمین ہے جس کے متعلق اس کے واقف یا واقفین نے کوئی ایسی بات کہی یا ایسا فعل کیا جس سے معلوم ہوتا ہو کہ اس نے ہمیشہ کے لیے اس میں نماز پنج گانہ کے لیے لوگوں کو اذن عام دے دیا ہے اور اپنا حق ملکیت بالکل ختم کر دیا ہے۔ مثلاً اس نے کہا کہ میں نے اس مکان کو مسجد کر دیا۔ یا مسجد بنائی اور اس میں اذان و اقامت سے با جماعت نماز پڑھوادی، یا اپنی کسی خالی زمین کے متعلق کہا کہ تم لوگ اس جگہ پر ہمیشہ نماز پڑھا کرو۔ ان صورتوں میں(وہ مکان، عمارت، زمین۔ مرتب) مسجد ہو گئی اس کی نیت ہو یا نہ ہو۔ ہاں اگر کسی خالی زمین کے متعلق کہا کہ تم لوگ یہاں نماز پڑھا کرو اور ہمیشہ کا لفظ نہیں کہا مگر نیت یہی ہے تو (وہ زمین بھی۔ مرتب)مسجد ہو جائے گی۔ در مختار میں ہے : ’’ویزول ملکہ عن المسجد و المصلیٰ بالفعل و بقولہ : جعلتہ مسجدا۔‘‘ شامی میں ہے : ’’قولہ (بالفعل) أي بالصلاۃ فیہ ففي شرح الملتقي أنہ یصیر مسجدا بلا خلاف ۔‘‘ نیز اسی میں ہے : ’’جعل وسط دارہ مسجدا وأذن للناس بالدخول والصلاۃ فیہ إن شرط معہ الطریق صار مسجدا۔‘‘ عالمگیری میں ہے : ’’رجل لہ ساحۃ لا بناء فیھا أمر قوما أن یصلوا فیھا بجماعۃ فہذا علی ثلثۃ أوجہ أحدھا إما أمرہم بالصلاۃ فیھا أبدا نصا، بأن قال : صلوا فیھا أبدا. أو أمرہم بالصلاۃ مطلقا و نوی الأبد، ففي ہذین الوجہین صارت الساحۃ مسجدا۔‘‘ کسی مکان کو قبلہ رخ بنایا یا مسجد کی سی کوئی عمارت بنا دی ، صرف اس سے وہ مسجد نہیں ہوئی۔ عالمگیری میں ہے : ’’من بنی مسجدا لم یزل ملکہ عنہ حتی یفرزہ عن ملکہ بطریقہ و یأاذن بالصلوٰۃ فیہ۔‘‘ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳). عید گاہ» مسجد مطلق«نہیں ہے ، ہاں اقتدا کے مسائل میں مسجد کے حکم میں ہے ، یعنی امام و مقتدی کے درمیان اگرچہ کتنی صفوں کا فاصلہ ہواقتدا صحیح ہے ۔ اس کے علاوہ اور احکام میں عید گاہ مسجد کے حکم میں نہیں ، مثلاً مسجد میں کچی پیاز اور لہسن کھا کر آنا جب کہ بو باقی ہو یا اپنے لیے سوال کرنا، ماے مستعمل کی چھینٹیں فرش پر گرانا سخت منع ہے۔ مگر عید گاہ میں یہ امور احتیاطاً. منع ہیں ۔ شامی میں ہے : ’’أما مصلَّی العید لا یکون مسجدا مطلقا و إنما یعطي لہ حکم المسجد في صحۃ الإقتداء بالإمام، و إن کان منفصلا عن الصفوف و فیما سوی ذلک فلیس لہ حکم المسجد(إلی قولہ) و یجنب ہذا المکان عما تجنب عنہ المساجد احتیاطاً۔‘‘ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)