30 April, 2024


محمد حسن نے چند لوگوں کو جمع کر کے اپنے حقیقی چچاولی اللہ کو وصیت کیا کہ میرے بعد میرے مکانات کے مالک آپ ہیں ، میری بیوی اور بچوں کو مکانات سے کوئی تعلق نہیں، لیکن میری بیوی اور بچوں کی پرورش آپ کے ذمہ ہے ۔ چنانچہ محمد حسن کے انتقال کے بعد بموجب وصیت محمد حسن حاجی ولی اللہ مکانات پر قابض رہے اور محمد حسن کی بیوی اور بچوں کی پرورش کرتے رہے ، اور حاجی ولی اللہ کی ہی پرورش میں محمد حسن کی بیوی، دو لڑکے اور دو لڑکی کا انتقال ہوا،ایک لڑکی اب تک زندہ ہے جس کی شادی بھی حاجی ولی اللہ نے اپنے خرچ سے کردی ۔ لہذا اس صورت میں محمد حسن کی وصیت صحیح ہے اور مالک مکانات حاجی ولی اللہ ہیں یا وصیت صحیح نہیں اور مکانات محمد حسن کے ورثہ پر تقسیم کئے جائیں گے ۔ بینوا توجروا۔

#1230

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: محمد حسن کا اپنے چچا ولی اللہ کے لیے وصیت کرنا صحیح ہے کیونکہ محمد حسن کے لڑکوں کے ہوتے ہوئے ولی اللہ محمد حسن کے وارث نہیں اور غیر وارث کے لیے وصیت جائز ہے ۔ لہذا ولی اللہ کے لیے وصیت جائز ہوئی مگروصیت صرف ثلث مال میں جاری ہوتی ہے ۔ ثلث سے زاید میں نہیں۔ ہدایہ میں ہے : و لاتجوز بمازاد علی الثلث۔ ولی اللہ کا محمد حسن کی بیوی اور بچوں کی پرورش کرنا یہ تبرع اور احسان ہے اس سے وہ تمام مکانات کے مالک نہیں ہوسکتے البتہ مکانات کے علاوہ محمد حسن نے اتنا ترکہ چھوڑا ہو جو مکانات سے دو گنی قیمت کا تھا تو مکانات وصیت میں ملیں گے ورنہ تمام مکانات کا صرف ثلث ولی اللہ کو وصیت میں ملے گا اور دو ثلث ورثہ پر تقسیم کیا جائے گا ورنہ تو یہ ترکہ کی تقسیم قرض اور وصیت کے بعد ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں ہے : مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْ بِهَاۤ اَوْ دَيْنٍ١ؕ ۔ بعد ازاں ولی اللہ کو محمد حسن کے مکانات کا ثلث فرضیت میں دیا جائے بعدہ بقیہ دو ثلث محمد حسن کے ورثہ پر تقسیم کیا جائے گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم(فتاوی حافظ ملت)