21 May, 2024


ایک دوکان مبلغ پانچ سو روپیہ پر دس برس کے لیے لیا ہے، اس شرط پر کہ یہ دس برس میں روپیہ واپس کر دیں گے، اگر روپیہ نہ واپس کیا تو بیع سمجھی جائے، اور جب تک روپیہ واپس نہ ملے مرمت وغیرہ ذمہ ہندو کے ہے ، اور اقرار اس بات کا ہے کہ وہ دُکان چاہے خود رکھو یا کرایہ پر دو ، کرایہ دوکان مالک یا ہندو کو نہیں دیا جائے گا ، اس کرایہ کا حق دار روپیہ دینے والا ہوگا،دستاویز رجسٹری شدہ ہے۔

#1229

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: یہ رہن کی صورت ہے یعنی شے مرہون سے نفع حاصل کرنا ، اگر یہ عقد مسلمان سے ہوتا تو جائز نہ تھا، لیکن چوں کہ غیر مسلم سے ہے اس لیے جائز ہے، سود نہیں ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔(فتاوی حافظ ملت)