29 April, 2024


(۱).ایک خالص مسلم گاؤں کے اندر ایک غیر مسلم ہندو آباد ہے۔ اتفاقاً اس کے مکان میں شب میں آگ لگ گئی، سواے مسلمانوں کے اور کوئی آگ بجھانے والا نہیں تھا۔ مسلمانوں نے آگ بجھا دی جس سے اس کے جان و مال کو بہت فائدہ پہنچا، آیا شریعت کی رو سے وہ مسلمان گنہ گار ہوئے یا نہیں ؟ (۲).مسلمان زمیں دار ہندو مزدور سے کام کراتا ہے اور اس کی شرکت میں کھیتی ہے اور ہندو کی لگان سے پرورش کرتا ہے اور ہر قسم کے مذہبی و دنیوی کام کرتا ہے ، آیا جائز ہے یا نہیں ؟ (۳).مسلمان ہندو مہاجنوں سے کاروبار کرتے ہیں ، ان کو بابو بابو کہتے ہیں ، ان کی شادی بیاہ میں شرکت کرتے ہیں اور کراتے ہیں ، جائز ہے یا نہیں ؟

#1196

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم- الجواب: بعون الملک الوہاب بسم اللہ الرحمن الرحیم، نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔ (حاشیہ: یہاں کی تمام اقوام باہم ایک دوسرے کی جان مال کی حفاظت کے لیے دستورِ ہند کی پابندِ عہد ہیں، اس لحاظ سے غیر مسلم کے گھر میں لگی آگ بجھائی جائے گی، پھر یہ اپنے اوپر سے دفعِ ضرر بھی ہے کہ تیز ہوا وہ آگ مسلم گھروں میں بھی آگ لگا سکتی ہے۔ (مرتب))جب خالص مسلم گاؤں میں ایک ہندو ہے تو ظاہر ہے کہ وہ اپنے اوقات زندگی کو نہایت ہی امن و سلامت روی کے ساتھ گزارتا ہوگا، مسلمانوں سے دب کر رہتا ہوگا، ان کی ایذا رسانی کی تیاری نہ کرتا ہوگا، مساجد کے سامنے شرکی، کفری باجے بجا بجا کر مسجدوں اور مسلمانوں کی بے حرمتی ہرگز نہ کرتا ہوگا، گاے ذبیحہ بند کرنے اور مسلمانوں کو مذہبی فرائض سے روکنے کی بے جا کوشش نہ کرتا ہوگا، مسلمانوں کو گاؤں سے نکالنے کی بے جا دھمکیاں نہ دیتا ہوگا، بلکہ اپنی سلامتی کے لیے مسلمانوں سے عاجزانہ برتاؤ کرتا ہوگا، مسکین طبع بن کر رہتا ہوگا، لہذا ایسی صورت میں مسلمان اس کے گھر کی آگ بجھا کر ، اس کے جان و مال کو بچا کر گنہ گار نہ ہوں گے،مگر اس سے یہ توہم نہ کیا جائے کہ ہندوستان کے موجودہ عام ہندو سے اتحاد و داد بھی جائز ہوگیا۔ کیوں کہ ہندوستان کے ہنود اپنی کثرت پر نازاں ، اپنی دولت پر مغرور، مسلمانوں کی جان و مال، دین و مذہب، عزت و آبرو کے دشمن، مسلمانوں کی ایذا رسانی کے خواہاں ، ظلم و ستم کے لیے موقع کے جویاں ، جہاں قابو پایا مسلمانوں کو دبایا، لوٹا مارا خوب ستایا، یہ ان کا مشغلہ بن گیا ہے ، اور کیوں نہ ہو۔قرآن مجید کا ارشاد ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا١ؕ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ١ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ۖۚ وَ مَا تُخْفِيْ صُدُوْرُهُمْ اَكْبَرُ١ؕ اے ایمان والو! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری ایذا رسانی میں کمی نہ کریں گے، ان کی آرزو ہے جو تمھیں تکلیف پہنچے، عداوت ان کے منہ سے ظاہر ہو گئی اور جو ان کے سینوں میں ہے بہت زیادہ ہے۔ اسی لیے ہنود کی منظم جماعتیں اور بڑی بڑی طاقتیں دن رات اسی کوشش میں سرگرداں ہیں کہ مسلمانوں پر اپنا تسلط قائم کریں ، ان کے مذہبی کاموں میں رکاوٹیں پیدا کریں ، گاے کا ذبیحہ بند کریں ، مساجد کے سامنے خوب دھوم سے شرکی کفری باجے بجا بجا کر مسجدوں اور مسلمانوں کی بے حرمتی کریں ، البتہ جو گروہ ان میں تعلیم یافتہ کہلاتا ہے ، وہ ذرا ترکیب سے کام کرتا ہے ، مگر مقصد ایک ہی ہے۔ ہنود نے اس کارکردگی کے لیے بعض نام نہاد مسلمانوں کو بھی ملا لیا ہے ، جو اس فساد کا الزام مسلمانوں ہی کے سر تھوپتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مسجد کے سامنے باجا بجانے سے مسجد کی توہین نہیں ہوتی، نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ مصلحتا ہندو بھائیوں کی خوش نودی کے لیے قربانی گاہ میں گاے کے بجاے بکرے وغیرہ پر ہی اکتفا کیا جائے، یہی لکچر دیتے پھرتے ہیں اور اسی پر زور دیتے ہیں ، غرضے کہ ہندو ان مسلمانوں سے اپنا کام کراتے ہیں ، جس کے نظائر بکثرت موجود ہیں ۔ بارہ بارہ سال سے علی گڑھ و الٰہ آباد وغیرہ میں رام لیلا نہیں اٹھ سکا تھا، انھیں مسلمانوں نے وہاں رام لیلا کے شاندار جلوس نکلوائے، جلوس کے مجمعِ عام میں مورتیوں پر پھول چڑھائے، مساجد کے سامنے شرکی باجے بجوائے، جہاں کبھی شنکھ نہ بجتا تھا، بجوایا، اور قانوناً کسی طرح اجازت نہ ہو سکتی تھی، انھیں مسلمانوں نے وہاں شنکھ بجوایا۔ مگر یاد رہے کفار کے ساتھ اتحاد موالات سم قاتل اور زہر ہلاہل سے کم نہیں ، اس لیے قرآن مجید میں سخت ممانعت فرمائی۔ ارشاد فرمایا: وَ مَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ١ؕ جس نے ان سے دوستی کی وہ انھیں میں سے ہے۔ اور فرمایا: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْكٰفِرِيْنَ اَوْلِيَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِيْنَ١ؕ اے ایمان والو! مومنوں کے سوا کافروں کو دوست نہ بناؤ۔ کیا ۲۰؍۲۱ء کے اتحاد میں کچھ کمی چھوڑ دی تھی اپنے کو مسلمان کہلانے والوں نے؟ گاندھی کی جے پکاری، ماتھے پر قشقہ لگا کر ارتھیاں اٹھائیں ، مسجدوں میں منبروں پر مشرکین کو چڑھایا، جمعہ کے خطبہ میں مشرکین کی تعریفیں کیں ۔ اس اتحاد سے ہنود کو وہ قوت پہنچی جس کے زہریلے نتائج و ثمرات مسلمانوں پر ایسی بلاے بے درماں کی طرح ٹوٹے کہ ہندوستان کی فضا مکدر ہو گئی، آئے دن امن عامہ خطرے میں رہنے لگا۔ بلیا، گورکھ پور، خود اعظم گڑھ کے تازہ واقعات اس سلسلے کی ایک کڑی ہیں ۔ ان تلخ تجربوں کے بعد مسلمان ہندوؤں کے ساتھ مودت و موالات پر اعتماد و وثوق کر کے صلاح و فلاح کے امیدوار ہوں تو اس کے یہ صاف معنی ہیں کہ وہ اپنی مذہبی قومی سیاسی زندگی کو اپنے ہاتھوں فنا کر دینا چاہتے ہیں ۔ مولا تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق خیر دے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۲).ہندوؤں سے زمین جتوانے، مزدوری کرانے میں نہ ان کا اعزاز ہے نہ اکرام، نہ برابری نہ مساوات ، لہذا یہ موالات و اتحاد کے تحت نہیں آتا، اس لیے جائز ہے۔ جب کہ زمیں دار زمین کا مالک اور لگان وصول کرنے کا حق دار ہے تو اس کو زمین جوتنے والوں سے لگان وصول کرنا اپنا حق وصول کرنا ہے ، لہٰذا اس کو اپنی پرورش و دینی کام میں صرف کرنا جائز ہے۔مسلمان زمیں دار کا ہندو کی شرکت میں کھیتی کرنے کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ ہندو زمین جوتیں بوئیں ، تیار ہونے پر حسب قرار داد غلہ تقسیم کر لیا جائے۔ اس میں نہ ہندو کاشت کار کو مسلمان پر فوقیت و عزت ہے نہ دوستی و رواداری، لہٰذا جائز ہے مگر اس کے جائز ہونے سے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ کسی ایسی کمیٹی میں بھی شرکت جائز ہوگئی جس کے صدر و سکریٹری ہندو ہوں ، جس میں ان کے اعزاز و احترام کا لحاظ کرنا پڑے، انھیں کی اکثریت ہو، انھیں کی بات بالا ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (۳).مسلمان ہندو مہاجنوں سے اگر سودی قرض لے کر کاروبار کرتے ہیں تو قطعاً حرام اور اگر بلا سود کے مال ادھار لے کر کاروبار کرتے ہیں تو جائز ہے۔ قال اللہ تعالیٰ: وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا١ؕ اللہ تعالیٰ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا۔ مگر مسلمانوں کو حتی الامکان مسلمانوں سے ہی لین دین اور کاروبار کرنا چاہیے، اسی میں بہتری ہے۔ لفظ بابو کا استعمال تعظیم میں ہی مخصوص نہیں بچوں کو بھی بابو کہا جاتا ہے ۔ اگر بابو کہنے سے ہندو مہاجنوں کی تعظیم مقصود ہے تو ناجائز ہے۔ شادی بیاہ کی شرکت اگر اس طرح کی ہے کہ ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کو عزت و احترام کے ساتھ بلانا بٹھانا ہوتا ہے تو جائز نہیں اور یہی حکم ہر بے دین کا ہے۔ حدیث میں ہے: ولا تجالسوا ھم ولا تواکلوھم ولا تشاربوھھم۔واللہ تعالیٰ اعلم(فتاوی حافظ ملت)