مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
بیمار اور مسافر کو روزہ قضا کرنے کی رخصت:
مرض باعثِ تکلیف ہوتا ہے، سفر پُر مشقت ہوتا ہے، ایسی حالت میں روزہ یقیناً دشوار ہو سکتا ہے، اسی لیے قرآن کریم نے مریض اور مسافر کو روزے کے سلسلے میں خصوصی رعایت دی ہے، فرمایا:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۰۰۱۸۳ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ١ؕ وَ عَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ١ؕ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهٗ١ؕ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۸۴ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ١ؕ وَ مَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ١ؕ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَ لَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ١ٞ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۰۰۱۸۵ [سورۂ بقرہ: 183-185]
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض ہیں جیسے تم سے اگلوں پر فرض تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ گنتی کے چند دنوں کے روزے فرض ہیں، جو تم میں بیمار ہو یا سفر پر ہو (اور روزہ نہ رکھ سکے) تو دوسرے دنوں میں اتنے روزوں کی قضا کرے، اور جو روزہ نہیں رکھ سکتے وہ بطور فدیہ ایک مسکین کا کھانا دے، جو خوشی سے زیادہ دے وہ اس کے لیے بہتر ہے، اور جانو تو تمھارے لیے روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے۔ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، قرآن لوگوں کی راہ نمائی، ہدایت اور حق وباطل کے درمیان امتیاز کے واضح دلائل کےساتھ اتارا گیا، تم میں جو ماہ رمضان کوپائے وہ روزہ رکھے، جو تم میں بیمار ہو یا سفر پر ہو (اور روزہ نہ رکھ سکے) تو دوسرے دنوں میں اتنے روزوں کی قضا کرے، اللہ تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے، تمھارے ساتھ سختی نہیں چاہتا، تاکہ تم گنتی پوری کرو، اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی کبریائی بیان کرو، اور اس کا شکر ادا کرو۔
ان آیات مبارکہ میں روزے کے مختلف احکام بیان کیے گئے ہیں، اور وہ یہ ہیں:
1 – ہر عاقل وبالغ مسلمان پر پورے ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں۔
لیکن کوئی ان روزوں کو انتہائی مشکل اور بشری طاقت سے بالا تر نہ سمجھے، کیوں کہ سابقہ امتوں پر بھی روزے فرض تھے۔
مزید یہ کہ ہم پر پورے سال کے روزے فرض نہیں، بلکہ گنتی کے چند دن یعنی ایک مہینے کے روزے فرض ہیں۔
روزوں کی فرضیت کا مقصد تقوی اور پرہیزگاری ہے، تو اس نعمت عظمی کے حصول کے لیےروزے میں کوتاہی نہ کی جائے۔
2– کوئی مسافر ہو، اور سفر دشوار ہو تو اس کے لیے رخصت ہے کہ سفر میں روزہ نہ رکھے،اور سفر مکمل ہونے کے بعد قضا کرے۔
3 – کوئی بیمار ہو، اورروزے کی وجہ سے بیماری بڑھنے یا دیر میں اچھا ہونے کا اندیشہ ہو، اور یہ اندیشہ سابقہ تجربہ، غلبۂ ظن ، یاماہر اور معتبر طبیب کے بتانے سے ہو تو ایسے مریض کو اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے، اور صحت یاب ہونے کے بعد جتنے روزے رہ گئے ان کی قضا کرے۔
4 - جو کبر سنی کی وجہ سے اس قدر کمزور ہوچکا ہوکہ اس میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو، اور آئندہ قوت بحال ہونے اور روزہ پر قدرت پانے کی امید نہ ہو تو وہ ہر روزے کے بدلے ایک فدیہ دے، اور فدیہ کی مقدار ایک مسکین کو دو وقت پیٹ بھر کھانا کھلانا ہے۔
5 – فدیہ بڑھا کر دینا بہتر ہے، یوں ہی معمولی مشقت کے ساتھ روزہ رکھ لینا، روزہ قضا کرنے اور فدیہ دینے سے زیادہ بہتر ہے۔
6- مریض ومسافر کے لیے روزے میں رخصت، ماہ رمضان میں افطار اور بعد میں قضا کی اجازت، شیخ فانی اور معذور کے لیے فدیہ کی مشروعیت کی وجہ یہ ہے کہ اللہ بندوں کے ساتھ آسانی چاہتا ہے، مشقت نہیں چاہتا، اور اللہ کی منشا یہ ہے کہ بندے اس کی مقررہ مدت میں روزے پورے کریں، اور اللہ کی دی ہوئی ہدایت پر اس کا شکر ادا کریں اور اس کی کبریائی بیان کریں۔
ان آیات کے ترجمے اور خلاصے سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم نے بیان احکام میں مریضوں اور مسافروں کو بھر پور مراعات دی ہے، اور ان کے لیے بڑی قدر گنجائش اور سہولت رکھی ہے، یہ دلیل ہے اس بات پر کہ قرآن کلام ربانی ہے اور اسلام نظام الہٰی ہے، اور قرآن وسنت کی پاس داری ہی میں دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔
کھانے، پینے میں مریضوں کو رعایت:
اللہ وحدہ لا شریک نے کھانے پینے کے معاملے میں مریضوں اور معذوروں کے لیے خصوصی احکام بیان کیے ہیں، فرمایا:
لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ اَنْ تَاْكُلُوْا مِنْۢ بُيُوْتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اٰبَآىِٕكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اُمَّهٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اِخْوَانِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخَوٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَعْمَامِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ عَمّٰتِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ اَخْوَالِكُمْ اَوْ بُيُوْتِ خٰلٰتِكُمْ اَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوْ صَدِيْقِكُمْ١ؕ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْكُلُوْا جَمِيْعًا اَوْ اَشْتَاتًا١ؕ فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوْتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً١ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَؒ۰۰۶۱ [سورۂ نور: 61]
اندھے، لنگڑے، اور بیمار کے لیے کوئی حرج نہیں،اور تمھارے لیے بھی کائی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھاؤ، یا اپنےباپ دادا کے گھروں سے، یا اپنی ماؤں کے گھروں سے، یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے، یا اپنی بہنوں کے گھروں سے، یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے، یا اپنی پھوپیوں کے گھروں سے، یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے، یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے کھاؤ، یا ان گھروں سے کھاؤ جن کی کنجیاں تمھارے قبضے میں ہیں، یا اپنے دوستوں کے گھروں سے کھاؤ، تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم ایک ساتھ کھاؤ یا الگ الگ کھاؤ، جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں کو سلام کرو، یہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ پاکیزہ تحیت ہے، اللہ یوں ہی تم سے اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے، تاکہ تم سمجھو۔
اس آیت کریمہ کے سبب نزول کے سلسلے میں مختلف اقوال ملتے ہیں، علامہ ابن الجوزی نے اپنی تفسیر زاد المسیر میں اس آیت کے تحت پانچ اقوال ذکر کیے ہیں، اور وہ یہ ہیں:
4 –جب آیت کریمہ﴿لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ نازل ہوئی تو مسلمانوں نے مریضوں، معذوروں، اندھوں اور لنگڑوں کے ساتھ کھانے میں حرج محسوس کیا، اور کہا کہ کھانا بہترین مال ہے، اور اللہ نے باطل طریقے پر مال کھانے کو منع فرمایا تو ہم مذکورہ بالا افراد کے ساتھ نہیں کھا سکتے، کیوں کہ اندھا دیکھ نہیں سکتا کہ برتن میں بہتر کھانا کہاں ہے، اور مریض پورے طور پر کھا نہیں سکتا۔ اس طرح ہم ان کے ساتھ کھا کر باطل طور پر کھانے والے ہوجائیں گے تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔
2 – جب مسلمان جہاد کے لیے جاتے تو اپنی چابیاں نا بینا، معذور، بیمار یا کسی قرابت دار کے پاس چھوڑ جاتے، اور ان سے کہتے کہ اگر ضرورت محسوس ہو تو ہمارے گھر سے لے کر کھالو، لیکن وہ کنجی بردار افراد کھانے سے گریز کرتے، اور کہتے کہ ہمیں لگتا ہے کہ انھوں نے بطیب خاطر اس کی اجازت نہیں دی ہے، تو اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ حضرت سعید ابن مسیب رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔
3 – اندھے اورمعذور افراد صحت مند لوگوں کے ساتھ کھانے سے اجتناب کرتے ، کیوں کہ لوگ اس سے گھن محسوس کرتے تھے، تو اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ سعید ابن جبیر اور ضحاک کا قول ہے۔
4 – بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا حال یہ تھا کہ جب ان کے پاس کوئی مریض یا معذور آتا، اور ان کو کھلانے کے لیے کچھ نہ ہوتا تو وہ ان حاجت مندوں کو کھلانے کے لیےاپنے ماں باپ کے گھر لے جاتے، یا ان کے پاس لے جاتے جن کا اس آیت میں ذکر ہے تو کھانے والے افراد حرج محسوس کرتے کہ کھلانے والے مالک نہیں تو ہم کیسے کھائیں، اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی۔یہ مجاہد کا قول ہے۔
5 – اس آیت میں معذوروں سے جہاد ساقط ہونے کا ذکر ہے، یہ حسن اور ابن زید کا قول ہے۔
امام قرطبی کی وضاحت کے مطابق اس آیت کے ابتدائی حصے کے دو جز ہیں، ایک جز وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ پر ختم ہوجاتا ہے، جس میں مریضوں اور معذوروں کو مکلف نہ بناکر ان سے حرج دور کرنے کا ذکر ہے، اور دوسرا جز اس کے بعد سے شروع ہوتا ہے، جس میں کھانے پینے کا ذکر ہے۔ آپ اس آیت کے تحت مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وهذا معنى صحيح، وتفسير بين مفيد، ويعضده الشرع والعقل. (تفسیر متعلقہ آیت)
یہی صحیح مفہوم ہے، اور واضح تفسیر ہے، اور عقل ونقل اسی کی تائید کرتے ہیں۔
آیت کے سبب نزول اور تعیین مراد میں اختلاف کی گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن اس میں کوئی دو راے نہیں کہ قرآن کریم نے مریضوں اور معذوروں سے حرج کو دفع کیا ہے، اور ان کے ساتھ بلا تکلف کھانے پینے کی تعلیم دی ہے۔
معرکۂ حق وباطل میں مریضوں کی رعایت:
اسلامی قوانین کی حفاظت اور ملکی سرحدوں کی نگہ بانی کے لیے جہاد مشروع ہوا ، جہاد کے لیے صحت وتندرستی، جسمانی قوت وطاقت کے ساتھ ساتھ جنگی حکمت عملی ضروری ہے، ظاہر سی بات ہے کہ کوئی اندھا یا لنگڑا یہ کام انجام نہیں دے سکتا، کوئی بیمار یا معذور یہ مہم نہیں سر کرسکتا، اسی لیے دیگر عبادات ومعاملات کی طرح حرب وضرب کے معاملے میں بھی بیماروں اور معذوروں کو خصوصی رعایت دی گئی ہے، فرمایا:
لَيْسَ عَلَى الْاَعْمٰى حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّ لَا عَلَى الْمَرِيْضِ حَرَجٌ١ؕ وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ۚ وَ مَنْ يَّتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا اَلِيْمًاؒ۰۰۱۷ (سورۂ فتح: 17)
اندھے کے لیے کوئی حرج نہیں، لنگڑے کے لیے کوئی حرج نہیں، اور بیمار کے لیے کوئی حرج نہیں، اور جو اللہ ورسول کی اطاعت کرے اللہ اسے ایسی جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، اور جو رو گردانی کرے اللہ اسے دردناک عذاب دے گا۔
یعنی اندھے، لنگڑے اور بیمار کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ میدان جنگ میں نہ جائے، کیوں کہ وہ معذور ہے، اور بر بنائے مجبوری جنگ میں شریک نہ ہونے پر کوئی وعید اور مواخذہ نہیں۔ اسی کے مثل ایک دوسری جگہ فرمایا:
لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَآءِ وَ لَا عَلَى الْمَرْضٰى وَ لَا عَلَى الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ مَا يُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ؕ مَا عَلَى الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌۙ۰۰۹۱ (سورۂ توبہ: 91)
ضعیفوں او بیماروں اور ان ناداروں پر کوئی گناہ نہیں جو خرچ کے لیے مال نہیں پاتے، جب کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے مخلص ہوں، نیکی کرنے والوں پر مواخذہ کی کوئی راہ نہیں، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس آیت میں بیماروں کے ساتھ ان افراد کو بھی رعایت دی گئی ہے جو پیدائشی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں، یا کبر سنی کے باعث کسی جنگ میں شرکت کی طاقت نہیں رکھتے، ساتھ ہی ایسے غریب اور مفلس افراد کو بھی رعایت دی گئی ہے جو آلات حرب کی خریداری پر قدرت نہیں رکھتے۔
خلاصہ:
مذکورہ بالا تمام آیات واحادیث سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن حقوق انسانی کا سب سے بڑا محافظ ہے، قرآن کریم نے بیماروں اور معذوروں کو ہر معاملے میں بھر پور رعایت دی ہے، ان کے لیے شرعی امور میں خصوصی رخصت دی ہے، جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بیماروں کے ساتھ نرمی اور ہم دردی بہر صورت لازم اور ضروری ہے، بلکہ جلد صحت یابی کے لیے از بس ضروری ہے۔یقیناً جو لوگ بیماریوں میں اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں، اس سے نیک امید رکھتے ہیں، اس کے فیصلوں پر راضی رہتے ہیں، اس کے حکم کے مطابق علاج ومعالجہ کی تدبیر کرتے ہیں، اور شریعت مطہرہ کے عطا کردہ سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں وہ جلد صحت یاب ہوجاتے ہیں اور حسن نیت پر ان شاء اللہ اجر وثواب کے بھی حق دار ہوں گے، واللہ تعالیٰ اعلم
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org