عرفان محمود برق
مرزا قادیانی کی تضاد بیانیاں:
1-رسول آنا بند :
مرزا قادیانی ختم نبوت کے عقیدے کے بارے میں لکھتا ہے : قرآن کریم بعد خاتم النبین کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔
(ازالۂ اوہام، ص: 761 ،مصنفہ: مرزا قادیانی )
2-”رسول کی حقیقت اور ماہیت میں یہ امر داخل ہے کہ دینی علوم کو بذریعہ جبرئیل حاصل کرئے۔ اور ابھی ثابت ہو چکا ہے کہ اب وحی رسالت تا قیامت منقطع ہے ۔ “ ( ایضاً ،ص: 614 )
3-خدا وعدہ کر چکا ہے کہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی رسول نہیں بھیجا جائے گا۔“(کتاب مذکور، ص: 140، جلد: 2، مصنفہ مرزا قادیانی )
اس کے خلاف قادیان میں رسول:
1-لیکن پھر مرزا قادیانی خودنوازی کرتے ہوئے قلا بازی کھا کر کہتا ہے:
”سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا۔“(دافع البلاء، ص 11 ،مطبوعہ 1902 ،مصنفہ :مرزا قادیانی)
2-غیر تشریعی نبوت کا دعویٰ:
مرزا قادیانی ایک جگہ لکھتا ہے:
” جس جس جگہ میں نے نبوت یا رسالت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں۔ اور نہ میں مستقل طور پر نبی ہوں، مگر ان معنوں سے کہ میں نے اپنے رسول مقتدا سے باطنی فیوض حاصل کر کے اور اپنے لیے اس کا نام پا کر اُسی واسطہ سے خدا کی طرف سے علم غیب پایا ہے، رسول اور نبی ہوں، مگر بغیر کسی جدید شریعت۔ اس طور کا نبی اور رسول کہلانے سے میں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ بلکہ انہی معنوں سے خدا نے مجھے نبی اور رسول کر کے پکارا ،سواب بھی میں انہی معنوں سے نبی اور رسول ہونے سے انکار نہیں کرتا۔“(اشتہار- ایک غلطی کا ازالہ، ص: 4 ،مصنفہ :مرزا قادیانی )
”اب بجز محمد کی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو، پس اس بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی ۔“(تجلیات الٰہیہ، ص: 25، از :مرزا قادیانی)
تشریعی نبوت کا ادعاء:
”اگر کہو کہ صاحب الشریعۃ افترا کر کے ہلاک ہوتا ہے۔ نہ ہر ایک مفتری تو اول یہ دعویٰ بے دلیل ہے، خدا نے افترا کے ساتھ شریعت کی کوئی قید نہیں لگائی ۔ ماسو اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے، جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند امر اور نہی بیان کیے اور اپنی اُمت کے لیے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب الشریعۃ ہو گیا۔ پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیوں کہ میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی۔“( رسالہ اربعین ،نمبر :4، ص: 706 مصنفہ :مرزا قادیانی)
تناقض کے پیچھے تعارض کا شور
تعارض کی دم میں تناقض کی ڈور
3-احادیث میں عیسیٰ کے نزول الی السماء کا ذکر موجود نہیں:
”بعض احادیث میں عیسیٰ ابن مریم کے نزول کا لفظ پایا جاتا ہے۔ لیکن کسی حدیث میں یہ نہیں پاؤ گے کہ اس کا نزول آسمان سے ہوگا۔“(حمامتہ البشریٰ، مطبوعہ 1894 ،مصنفہ:مرزا قادیانی)
احادیث میں ذکر موجود ہے:
”صحیح مسلم کی حدیث میں یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہو گا ۔“(ازالۂ اوہام ص 927 - 81 ،مطبوعہ 1891 ،مصنفہ :مرزا قادیانی)
4-عیسیٰ کی قبر بلدہ قدس میں ہے:
”حضرت عیسی علیہ السلام کی قبر بلدہ قدس میں ہے اور اب تک موجود ہے اور اس پر ایک گرجا بنا ہوا ہے اور وہ گر جا تمام گر جاؤں سے بڑا ہے اور اس کے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور دونوں قبریں علیحدہ ہیں۔“(اتمام الحجۃ، مصنفہ: مرزا قادیانی ش،ہادت محمد سعید طرابلس ، ص: 20)
عیسیٰ کی قبر کشمیر میں ہے:
”خدا کا کلام قرآن شریف گواہی دیتا ہے وہ مر گیا اور اس کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
یعنی ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو اور اس کی ماں کو یہودیوں کے ہاتھ سے بچا کر ایک ایسے پہاڑمیں پہنچادیا جو آرام اور خوش حالی کی جگہ تھی اور مصفیٰ پانی کے چشمے تھے۔ سو وہی کشمیر ہے اس وجہ سے حضرت مریم کی قبر زمین شام میں کسی کو معلوم نہیں ۔“(حقیقۃ الوحی ، ص 101 ،مصنفہ :مرزا قادیانی)
5-چاروں انجیلیں محرف و مبدل ہیں:
”عیسائیوں اور یہودیوں نے اپنے دجل سے خدا کی کتابوں کو بدل دیا ۔“(نور القرآن ،جلداول نمبر:6، مصنفہ :مرزا قادیانی )
”انجیل اور تورات ناقص اور محرف اور مبدل کتا بیں ہیں ۔“(دافع البلاء، ص 19 ،مصنفہ :مرزا قادیانی)
چاروں انجیلیں نہ اپنی صحت پر قائم ہیں اور نہ یہ سب اپنے بیان کی رو سے الہامی ہیں اوراس طرح انجیلوں کے واقعات میں طرح طرح کی غلطیاں پڑ گئیں اور کچھ کا کچھ لکھا گیا ۔“(براہین احمدیہ، حصہ چہارم، ص 331، طبع قدیم، مصنفہ :مرزا قادیانی)
انجیلیں محرف و مبدل نہیں :
”یہ کہنا کہ وہ کتابیں محرف و مبدل ہیں ان کا بیان قابل اعتبار نہیں ،ایسی بات وہی کرے گاجو خود قرآن شریف سے بے خبر ہے۔“(چشمۂ معرفت ،ص 57 ،حاشیه، مطبوعہ 1908 ،مصنفہ مرزا قادیانی)
جیسا موسم ہو مطابق اُس کے دیوانہ تھا وہ مارچ میں بلبل تو جولائی میں پروانہ تھا وہ
6-مسیح ابن مریم کا نزول:
هُوَ الَّذِي أَرْسُلَ رَسُوُ لَه بالهدى یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں پیشگوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ مسیح کے ذریعے ظہور میں آئے گا۔ مسیح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے۔ ان کے ہاتھ سے اسلام جميع آفاق میں پھیل جائےگا۔“(ملخص: براہین احمد یہ،ص: 498-499 مصنفہ مرزا قادیانی )
مسیح ابن مریم کی وفات:
”قرآن شریف قطعی طور پر اپنی آیاتِ بینات میں مسیح کے فوت ہو جانے کا قائل ہے ۔“(ص:142، 120، ازالہ طٍ2، 1، مصنفہ، قادیانی)
”قرآن شریف میں مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا تو کہیں بھی ذکر نہیں۔“(ص 146 ،ایام الصلح اُردو، مصنفہ مرزا قادیانی)
مرزا قادیانی کی زبان و کلام کی ان تضاد بیانیوں نے اُس کی جھوٹی نبوت ورسالت کی شہ رگ پر خود بخود چھری پھیر دی ہے۔
قرآن مجید فرقان حمید چوں کہ خدا تعالیٰ کا برحق اور سچا کلام ہے، اس لئیے اس نے اپنے متعلق فرمایا: اگر یہ کلام اللہ کے سواکسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سے اختلاف پائے جاتے“۔
یہ آیتِ کریمہ مرزا قادیانی کی جھوٹی نبوت کو مکھن سے بال کی طرح باہر نکال پھینک رہی ہےاور بتارہی ہے کہ کلام اللہ سچا ہے، اس لیے اس میں کوئی اختلاف ،یا تناقض نہیں۔ ہاں اگر یہ کلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں بھی مرزا قادیانی کے جھوٹے کلام کی طرح کھلا تناقض ضرور یا یا جاتا۔ تو گویاخدا تعالیٰ کی طرف سے نازل کیا گیا کلام اختلاف سے پاک اور کسی بھی جھوٹے مدعی نبوت کا خود ساختہ کلام اختلافات کی غلاظت سے لتھڑا ہوا ہوتا ہے۔ مرزا قادیانی اس بات کی تائید یوں کرتا ہے۔
(1)-جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔
( براہین احمدیہ حصہ پنجم ،ص 112 ،مندرجہ روحانی خزائن، جلد 21، ص ۲۷۵ ،مصنفہ مرزا قادیانی )
(2)-”اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے ۔“(ضمیمہ حقیقۃ الوحی، ص ۱۸۴ ،مندرجہ روحانی خزائن، جلد ۲۲ ،ص ۱۹۱ ،مصنفہ مرزا قادیانی)
(3)- ظاہر ہے کہ ایک دل سے دو متناقض باتیں نہیں نکل سکتیں کیوں کہ ایسے طریق سے یا انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق ۔(ست بچن، ص ۱۳۱ ،مندرجہ روحانی خزائن، جلد ۱۰ ،ص ۱۴۳ ،مصنفہ مرزا قادیانی )
مرزا قادیانی کے واضح متناقض اور اس کے ان فتاویٰ کی موجودگی میں کسی بھی ہوش مند انسان کا اس کو نبی تسلیم کر لینا حیرت و تعجب کی بات ہے۔ اس قماش کے چالباز اور نوسر باز کو نبی ورسول مانتا تو کجاایک صحیح انسان ماننا بھی عقل انسانی کی توہین ہے۔
مرزا قادیانی ایک خوشامدی اور منافق انسان تھا ،جو اسلام کا لبادہ اوڑھ کر گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا۔ اس لیے کہ لوگ اُس کے عقیدت کیش اور معتقد بن جائیں۔ وہ جیسا دیس ویسا بھیس کی پالیسی کو اپنائے ہوئے تھا جس سے لوگ اُس کے دام تزویر میں پھنس جاتے ۔ جب کوئی معترض اس سے پوچھتا کہ کیا تو نے ختم نبوت کی فولادی دیوار کو توڑنے کی کوشش کرتے ہوئے دعوی نبوت کیا ہے تو مرزا قادیانی فورا آگے سے کہہ دیتا کہ نہیں نہیں میں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا آخری نبی مانتا ہوں اور آپ کے بعد ہر مدعی نبوت کو کافر اور کاذب جانتا ہوں، لیکن جب وہ اپنے پکے مریدوں کے پاس جاتا تو اُن کے سامنے اس سے بالکل الٹ بیان دے دیتا۔ آخر لوگوں کو ساری زندگی اسی طرح کے چکر دیتے دیتے ایک دن خود بڑا چکر کھایا اور غلاظت پر گر کر جان دے دی اور پھر ّرکر کے وادی جہنم میں پہنچ گیا۔
اللہ جسے توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں فیضان محبت عام تو ہے عرفان محبت عام نہیں
تضاد بیانی پر قرآن اور سائنس کی رائے:
قرآن عزیز نے تضاد بیان شخص کو گمراہ کہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّھُمْ فِىْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَھُوْنَ اُوْلٰئِكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى ۠ فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُھُمْ وَمَا كَانُوْا مُهْتَدِيْن (سوره البقره: آیت 14 تا 16)
ترجمہ: اور جب ایمان والوں سے ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے اپنےشیطانوں کے پاس اکیلے ہوں تو کہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو یوں ہی ہنسی کرتے ہیں اللہ ان سے استہزا فرماتا ہے ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے ) اور انہیں ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی ۔ (کنز الایمان )
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے بات کہنے کے مختلف انداز اس لئیے سیکھے کہ اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو قید کرئے (یعنی معتقد بنائے) اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے نہ فرض قبول فرمائیں گے نہ نفل ۔ ( مشکوٰۃ شریف)
جرمن ہیلتھ سینٹر کے انکشافات:
جرمن ہیلتھ سینٹر کی سالانہ رپورٹ کے مطابق:
ایسے لوگ جو دورخی بات کرنے کے عادی ہوں وہ ہمیشہ اپنی ساکھ اور معیشت ختم کر بیٹھتے ہیں۔
ایسے لوگ جو ہر مجلس میں وہاں کی بات کرنے کے عادی ہوں اور جیسی لوگوں کی زبان ویسی ہی ان کی زبان ہو تو ایسے لوگ ہمیشہ نا کام زندگی گزارتے ہیں۔
ڈاکٹر سکٹاس ماہر نفسیات کی ماہرانہ تحقیق کے مطابق بھی جب ہمیں اپنی ترتیب کو زندگی کےمطابق پر کھنا ہوتو فورًا اپنے انداز زندگی پر غور کریں، کیا ہم ایسا تو نہیں کر رہے کہ دن اور رات میں تضاد ہو ؟ کیا ہماری گفتگو میں تضاد تو نہیں ہے؟ کیا ہمارے اُٹھنے بیٹھنے میں تضاد تو نہیں؟ کیا ہم معاشرے کے ساتھ دورخی زندگی گزار رہے ہیں یا ایک رخی ،ہر بات بالکل ملحوظ رہے۔ آخر میں ماہرین نے اس بات کا اندازہ لگایا ہے کہ کون لوگ اپنے کس طرز عمل سے آخر کار معیشت میں (یا مذہبیت میں ) شکست کھا جاتے ہیں تو پھر یہ طے ہوا ہے کہ وہ لوگ جو معاشرے کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دراصل وہ معاشرے کو دھو کا نہیں دیتے بلکہ خود دھوکا کھا جاتے ہیں۔ (بحوالہ رپورٹ جرمن ہیلتھ سینٹر فرینکفرٹ )
پتا چلا کہ نہ صرف دین اسلام بلکہ جدید سائنس نے بھی مرزا قادیانی کی منافقانہ روش اور دو رخی بات کرنے کو نہایت ہی برا اور منفی (NEGATIVE) عمل قرار دیا ہے۔
یہ قصۂ لطیف ابھی نا تمام ہے جو کچھ بیاں ہوا وہ آغاز باب تھا
Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia
All rights reserved
05462-250092
info@aljamiatulashrafia.org