7 October, 2024


ماہنامہ اشرفیہ


Book: The Monthly Ashrafia August 2024 Download:Click Here Views: 6223 Downloads: 581

(7)-ختم نبوت کی سچی حکایات

 

غلام مصطفیٰ مجددی ایم اے

ایام عالم اور تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بہت کی ایمان افروز حکایات اور واقعات موجود ہیں جن سے حضور پر نور تاجدار ختم نبوت ﷺ کی ختم نبوت کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ آئیے ان نورانی حکایات کا مطالعہ کر کے دل و جان کو جلا بخشیں۔

ابوالبشر کو سکون مل گیا :حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی شان ہے کہ جب حضرت آدم علیہ السلام ملک ہندوستان میں نازل ہوئے تو ان کو بہت پریشانی لاحق ہوئی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نازل ہوئے اور انھوں نے اذان پڑھی: اللہ اکبر اللہ اکبر اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان لا اله الا الله اشهد ان محمد رسول الله اشهد ان محمد رسول اللہ حضرت آدم علیہ السلام نےحضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ محمد کون ہیں؟ انھوں نے عرض کیا ”اٰخر وُلْدِكَ مِنَ الأَنْبِيَاءِ “، یعنی نبیوں میں آپ کے سب سے آخری لخت جگر کا نام ہے۔ ( کنز العمال، ج: ۶،  ص: ۱۱۴)

آخری خطبہ میں امت کو وصیت :حضرت سیدنا ابو امامہ ﷺ کا فرمان ہے کہ حجۃ الوداع کا موقع تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت سے مخاطب تھے:

” اے لوگو! نہ میرے بعد کوئی نبی ہوگا اور نہ تمہارے بعد کوئی امت ہوگی۔خبردار ! اپنے رب تعالیٰ کی عبادت کرتے رہو، پانچ نمازیں ادا کرتے رہو ،رمضان کے روزے رکھتے رہو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی سے دیتے رہو ،اپنے خلفا اور حکام کی اطاعت کرتے رہو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔(حاشیه مسند امام احمد، ج: 2 ،ص: 391)

قاب قوسین کی گفتگو :حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو مجھے میرے رب نے اتنا قریب کیا کہ قاب قوسین کا فاصلہ درمیان میں رہ گیا ،یا اس سے بھی کم اور آواز دی: اے میرے حبیب اے محمد ! میں نے عرض کیا اے میرے رب میں حاضر ہوں۔فرمایا: کیا تجھے یہ غم ہے کہ میں نے تمھیں آخری نبی بنایا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں میرے پروردگار ۔پھر فرمایا اے میرے حبیب! کیا تمھیں اپنی امت کا غم ہے کہ میں نے اسے آخری امت بنایا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں میرے پروردگار۔ پھر فرمایا۔ اپنی امت کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ میں نے تمھیں آخری امت بنایا ہے۔( كنز العمال، ج: 2 ۔ص: 112 دیلمی شریف )

مسیلمہ کذاب ہے :حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسیلمہ کذاب کے بارے میں چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں تھیں، پھر ایک دن حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد کے بعد فرمایا :جس شخص کے بارے میں تم اپنی رائے دے رہے ہو۔ وہ تیس کذابوں میں سے ایک کذاب ہے جو دجال اکبر سے پہلے نکلیں گے۔(مشکل الا ٓثار،ج:4، ص:104)

یاد رہے کہ مسیلمہ نامی ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنی جھوٹی نبوت کو پروان چڑھانے کے لیے اس نے قبائل عرب کو گمراہ کرنا شروع کر دیا۔ حضور نبی اکرم رسول آخر صلی اللہ عیہ وسلم نے اپنی زبان رسالت سے اسے کذاب کا نام دیا جو آج تک زبان زد عام ہے۔حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اکبر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ  کی قیادت میں لشکر روانہ کیا بہت تاریخی جنگ ہوئی جس میں حضرت وحشی رضی اللہ عنہ  نے اپنے نیزے  سے اس کذاب کو واصل جہنم کر دیا معلوم ہوا کہ حضور پرنور ﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت کذاب ہےاور اجماع صحابہ کے مطابق واجب القتل ہے۔

خلیل اللہ کو بشارت سنائی گئی :حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کو حضرت ہاجرہ علیہا السلام کےساتھ جانے کا حکم دیا گیا تو آپ کو براق پر سوار کرایا گیا، جب براق کسی عمدہ میٹھی اور نرم زمین پر سے گزرتا تو آپ فرماتے ، جبرئیل یہاں اتر جاؤ مگر جبریل انکار کر دیتے جب مکہ مکرمہ کی زمین آگئی تو جبریل رک گئے اور کہا کہ اے خلیل اللہ یہاں اتر جائیے۔ آپ نے فرمایا عجیب بات ہے، جبریل نے کہا ہاں اس جگہ آپ کے شہزادے اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے نبی امی پیدا ہوں گئے، جن کے ذریعے کلمہ علیا مکمل ہو جائے گا۔ ( خصائص کبری ص 9)

آخری امت:حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معراج کی رات مجھ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا :آپ آج کی رات اپنے رب سے ملاقات کر نے والے ہیں، آپ کی امت آخری امت ہے اور سب سے زیادہ کمزور ہے۔ اس لیے اگر آپ کچھ کر سکتے ہیں تو اپنی امت کے لیے سہولت طلب کیجیے۔“ ( خصائص کبری ج 1 ص 162)

اسی طرح روایت ہے کہ معراج کی رات حضرت ابراہیم حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہم السلام نے کہا :السلام علیک یا اولُ السلام علیک یا آخرُ السلام علیک یا حاشرُ۔ (زرقانی ج 6 ص 40)

سلسلہ نبوت کو ختم کرنے والے:حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ آپ کا رب ارشاد فرماتا ہے: اگر ہم نے آدم کو صفی اللہ بنا کر منفرد کیا ہے تو آپ کو تمام انبیاے کرام میں آخری نبی بنا کر بھیجا ہے اور ہم نے کوئی مخلوق ایسی پیدا نہیں کی جو آپ سے زیادہ محبوب ہو۔( خصائص کبری ج 2 ص 193)

حضرت صدیق اکبر کا خطبہ :حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو تمام صحابۂ کرام فرط غم سے نڈھال تھے حضرت عمر فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ وصال کا انکار کر رہے تھے، اس موقع پر سراپا استقامت، راز دان حریم نبوت ،حضرت سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ نے کیا ارشاد فرمایا :

 بأبی أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ الله قَدْ بَلَغَ مِنْ فَضِيلَتِكَ عِنْدَهُ أَنْ بعَثَكَ آخِرَ الْأَنْبِيَاءِ وَذَكَرَكَ فِي أَوَّلِهِمْ فَقَالَ تَعَالَى إِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّنَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ .

میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ کی فضیلت اللہ تعالیٰ کے ہاں اس مقام پر فائز ہے کہ آپ کو سب انبیاے کرام کے بعد مبعوث فرمایا اور آپ کا ذکر پاک سب سے پہلے فرمایا، جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: جب ہم نے انبیا سے عہد لیا، اور آپ سے اور حضرت نوح سے۔ (مواہب لدنیہ، ج:2، ص:496)

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خطبہ سے درج ذیل نکات معلوم ہوئے :

*حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاے کرام سے افضل و اکرم ہیں۔ *حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ *حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد بھی یا رسول اللہ کہہ کر پکارنا جائز ہے۔*حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلاموں کی فریاد کو سماعت فرماتے ہیں۔*حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم  ذائقۂ موت چکھنے کے بعد زندہ جاوید ہیں۔

ان عقائد پر سب صحابہ کرام کا اجماع ہے۔

کلیم اللہ کی حسرت :حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کرم میں التجاکی کہ اے میرے پروردگار! میں نے تورات کی الواح میں ایک ایسی امت کا مشاہدہ کیا ہے جو پیدائش میں سب سے آخری امت ہے اور جنت میں سب سے پہلے داخل ہوگی۔ یا اللہ ! وہ امت مجھے عطا کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے موسی ! وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے۔ (تفسیر ابن جریر طبری)

تو رات کے دو ورق :کتب سماوی کے عالم حضرت سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ میرے والد گرامی تو رات کے سب سے بڑے عالم تھے وہ جو کچھ جانتے تھے مجھ پر ظاہر کر دیتے تھے۔ جب ان کا وقت وصال قریب ہوا تو مجھے بلایا اور فرمایا بیٹا تمھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے جو علم حاصل ہوا وہ میں نے تمھیں  بتا دیا۔ لیکن دو ورق ابھی تک تم پر ظاہر نہیں کیے۔ ان دو ورقوں میں ایک نبی پاک کاذکر ہے جس کی بعثت کا زمانہ بالکل قریب آ گیا ہے۔ میں نے اس لیے یہ ورق تم پر ظاہر نہ کیے تھے کہ کہیں تم کسی کذاب کو ہی نبی موعود نہ سمجھ لو اور اس کی اطاعت نہ کرنے لگو ،وہ دو ورق میں نے اس طاق میں بند کر دیے ہیں۔ میں نے طاق سے دو ورق نکالے اور دیکھا کہ ان میں یہ کلمات لکھے ہوئے تھے محمد رَسُولُ اللهِ خَاتَمُ النَّبِيِّنَ لَا نَبِى بَعْدَه محمد اللہ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد کوئی نبی نہیں ۔( تفسیر در منشور ج 3 ص 132)

قیامت کا ایک منظر :قیامت پھر قیامت ہے، پہاڑ گالوں کی صورت اڑ رہے ہوں گے، آسمان ریزہ ریزہ ہو رہے ہوں گے ،زمینوں کی دھجیاں بکھر رہی ہوں گی، سورج، چاند اور ستاروں کی قندیلیں، جھڑ رہی ہوں گی ہر کوئی ایک ایک نیکی کی تلاش میں سرگرداں ہوگا، گردنیں بوجھل ہوں گی پیشانیاں عرق ریز ہوں گی ،قدموں میں ڈگمگاہٹ ہوگی، نظروں میں گھبراہٹ ہوگی، حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ قیامت کے اس ہولناک منظر میں ایک امید گاہ کی طرف اشارہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ  نے فرمایا تمام مخلوق خدا جمع ہو کر آئے گی اور عرض کرے گی: اے اللہ کے پیارے نبی محمد مصطفےٰ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ سے نبوت شروع فرمائی اور آپ پر ہی ختم فرمائی، آپ پر لگنے والے اگلے پچھلے الزاموں کو دور کیا، آپ ہماری شفاعت فرمائیے۔ (فتح الباری شرح بخاری ج 11 ص 378)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ:

*حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم ہی دنیا میں آخری چارہ گر ہیں اور آخرت میں آخری نگہبان ہیں۔*حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق کے باذن اللہ مشکل کشا ہیں۔*حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ بارگاہ خدا کی مظہر ہے۔* محشر میں اپنے بیگانے حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اقرار کریں گے۔ وہ اقرار اپنوں کے تو کام سنوارے گا مگر بیگانوں کو کوئی فائدہ نہ دے گا کیوں کہ وہاں کے اقرار کے لیے یہاں کا اقرار ضروری ہے۔*تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کرو جو قیامت کی وحشتوں میں سہارا بنیں گے۔وہاں کسی قادیانی کا سکہ نہیں چلے گا سیاح لا مکانی کا سکہ چلے گا۔

غیب کی خبر دی :حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مخبر صادق ﷺ نے فرمایا عنقریب ایک فتنہ پیدا ہوگا، صحابۂ کرام نے عرض کی اس سے بچنے کا طریقہ کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا :اللہ کی کتاب جس  میں ہم سے پہلے لوگوں کے حالات ہیں، آنے والوں کی خبریں ہیں اور تمہارے تنازعات کے فیصلے ہیں، وہ قول فیصل ہے،مذاق نہیں ہے۔ جو ظالم اس کو ترک کر دے گا اللہ اسے ہلاک کر دے گا اور جو اس کے سوا کہیں اور جا کر ہدایت تلاش کرے گا اللہ اسے گمراہ کر دے گا ۔(ترمذی، احمد)

اب کون نہیں جانتا کہ قرآن اللہ  تعالیٰ کی آخری کتاب ہے اور اس کے آخری  نبی پر نازل ہوئی ہے، لہذا اس کے احکام کو چھوڑ کر کسی جعلی و بروزی نبی کے منہ کی طرف دیکھنا کفر و ضلالت نہیں تو اور کیا ہے، یہ کتاب پاک تو ختم نبوت کی سب سے بڑی گواہ ہے۔

تذکرہ چند دجالوں کا :امت مرحومہ میں فتنہ انگیزیوں کے بازار گرم کرنے کے لیے ہر دور میں کچھ دجال و کذاب پیدا ہوتے رہے جن کی نحوست سے بندگان خدا نے پناہ مانگی ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ان جھوٹے مدعیان نبوت کا انجام نہایت عبرتناک ہوا،ختم نبوت کے مستانوں نے ان کے عزائم کو خاک میں ملا کر رکھ دیا۔

آئیے چند پیکران فریب کا حال دیکھیے تاکہ معلوم ہو سکے کہ نبوت  ورسالت کو للکار نے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے۔

(1)- مسیلمہ کذاب بنوخیف کے وفد کے ساتھ مدینہ منورہ آیا، مسلمان ہونےکے بعد اس نے ختم نبوت سے غداری کی اور مرتد ہو گیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کذاب کا نام دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں اس نے لشکر جمع کر لیا توصحابہ کرام نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی زیر کمان اس کو شکست فاش دی۔ حضرت وحشی رضی اللہ عنہ نے اسے واصل جہنم کیا، وہ ہمیشہ اس کے قتل کو حضرت امیر حمزہ کے قتل کا کفارہ سمجھتے رہے اس کے ساتھ ہی اس کی جھوٹی نبوت بھی ختم ہوگئی۔

(2)-اسود عنسی نے صفا کے علاقہ میں اپنی جھوٹی نبوت کی تحریک ،چلائی یہ شخص بہت شعبدہ باز تھا۔ دو شیطان اس کے تابع تھے جن کے ذریعے لوگوں کے سامنے عجائبات کا مظاہرہ کیا کرتا تھا۔ اس کا گدھا اس کو سجدہ کرتا تھا، نجران کےایک گروہ کو اس نے اپنے مکر و فریب میں مبتلا کر دیا۔ حضور پرنور ﷺ کے وصال مبارک سے ایک روز پہلے فیروز دلیمی نے اسے قتل کر دیا۔

(3)- طلحہ بن خویلد ، قبیلہ بنو اسد کا فرد تھا، اس نے خیبر کے نزدیک اپنی ”جھوٹی نبوت“ کی تحریک چلائی، غطفان کے لوگوں نے اسے تقویت دی، بعد ازاں اس نے اپنے جیسے کذابوں کے خلاف ، مسلمانوں کی کامیاب فتوحات دیکھ کر حوصلہ ہار دیا، کہتے ہیں کہ اس نے توبہ کر کے اسلام قبول کر  لیا تھا۔ (کتاب المحاسن، ج:1، ص:64)

(4)-سجاح بنت سوید، عورت نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ عورت بھیڑیے پر سواری کرتی تھی۔ اس نے مسیلمہ کذاب کے ساتھ شادی کرلی اور اپنی” جھوٹی نبوت“ اس جھوٹے کے سپرد کر دی، دونوں کی شادی کا حق مہر یہ قرار پایا کہ نماز عصر معاف کر دی جائے۔ اس نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  کے دور میں تو بہ کر لی اور مسلمان ہوگئی۔

(5)- مختار ثقفی نے یزیدیوں سے اہل بیت اطہار کا انتقام لیا اور عالم اسلام کے کی ہمدردیاں حاصل کر کے ان کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے پر وحی نازل ہوتی ہے۔ یہ جب کوئی خط لکھتا؟ تو ان الفاظ سے آغاز کرتا ”من مختار رسول اللہ “اللہ کے رسول مختار کی طرف سے۔ اس نے بلاد اسلامیہ پر قبضہ کر کے بہت شورش برپا کر دی۔

(6)- حارث نے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ خلیفۂ وقت نے علماے وقت سے فتویٰ لے کر اس کو قتل کیا اور تختہ ٔدار پر لٹکا دیا۔(شفا شریف )

(7)-خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں ایک کذاب نے کہا میں نوح ہوں ۔ کیوں کہ حضرت نوح علیہ السلام کی عمر ساڑھے نو سو سال تھی، باقی پچاس سال پورے کرنے کے لیے میں آیا ہوں، خلیفۂ وقت نے علماے کرام کے فتویٰ کی رو سےاسے قتل کروایا ۔

 (8) بہبود نامی شخص نے خلیفہ معتمد باللہ کے زمانے میں دعوی نبوت کیا، اس نے عراق کے پر رونق شہر کو آگ لگا کر تباہ کر دیا ۔ اس کا دعویٰ تھا کہ خدا نے مجھے رسول بنایا ہے اور علم غیب دیا ہے۔

(9)-یحییٰ بن زکرویہ قرامطہ کا سردار تھا، بہت چالباز اور جدت پسند تھا، اس نے اپنی شعبدہ بازیوں سے لوگوں کو دھوکہ دیا اور اسلامی سلطنت میں فتنے کی آگ بھڑکا دی، عباسیہ کیلئے ہمیشہ خطرہ بن کر رہا۔

 (10)- حسین بن زکرویہ یحییٰ کا چھوٹا بھائی تھا، اس نے اپنے بھائی کے دعویٰ کو خاندانی میراث کے طور پر استعمال کیا اور اپنی جعلی نبوت سے مخلوق خدا کو گمراہ کرنے لگا ۔قرامطہ کے عقائد و نظریات امت محمدیہ کیلئے بہت گمراہ کن تھے۔دونوں بھائی عبرت ناک موت کا شکار ہوئے۔

(11)-ابو طاہر قرمطی بھی اسی سلسلہ نا پاک کی ایک کڑی تھا اس کذاب نےحجر اسود کو اکھاڑنے کی کوشش کی مگر سخت ناکام ہوا۔

(12)- عیسی بن مہرویہ نے بھی جھوٹی  نبوت کا دعویٰ کیا اس نے کہا : قرآن میں ”مدثر“ میرا لقب ہے۔ آخر کا ر عبرت ناک موت کا شکار ہوا۔

(13)- ابن علی شلمغانی نے الوہیت  ونبوت کی صفات کا دعویٰ کیا، مسلمانوں نے اسے سولی پر لٹکا دیا۔

(۱۴)- مطیع اللہ کے زمانے میں ایک نوجوان نے نبوت کا دعویٰ کیا اور روحوں کے تناسخ کا عقیدہ پھیلایا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس کے جسم میں حضرت علی کی روح داخل ہو گئی ہے۔

(15)- حاکم معز الدولہ کے زمانے میں ایک کذاب نے جبریل ہونے کا دعویٰ کیا مسلمانوں نے اسے خوب ذلیل کیا۔ آخر خائب و خاسر ہو کر مرا۔

(16)- خلیفہ مستظہر کے زمانے میں ایک دجال نے نبوت کا دعویٰ کیا ۔ اسے بھی قتل کر دیا گیا۔

(17)- ارض مغرب میں ایک کذاب پیدا ہوا جس نے کہا میرا نام ”لا“ ہے۔ اور” لانبی بعدی“  کا دراصل مفہوم یہ ہے کہ میرے بعد ” لا“  نبی ہوگا۔ یہ کذاب بھی اپنے دعویٰ سمیت جہنم واصل ہو گیا۔

(18)-غازاری جادوگر نے نبوت کا دعویٰ کیا جسے ابو جعفر بن زبیر نے قتل کر دیا۔

(19)-استاد سیس نامی شخص نے خراسان میں دعویٰ کیا تو تین لاکھ آدمیوں نےاس کی جعلی نبوت کی بیعت کی آخر کا ر ستر ہزار مرتدین کے ساتھ منصور مہدی کے ہاتھوں قتل ہو گیا۔

(20)-دامیہ، عورت نے سوڈان میں نبوت کا دعویٰ کیا جسے وہاں کے مسلمانوں نے فنا فی النار کر دیا۔

(21)-یوشینا نامی شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا جسے آخر میں پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔

(22)-ایک خراسانی بدنصیب نے نبوت کا دعویٰ کیا، نہایت بدشکل تھا اس لیے چہرہ چھپائے رکھتا تھا اس کا نظریہ تھا کہ خدا نبیوں میں حلول کرتا ہے، لہذا مجھ میں بھی حلول کیے ہوئے ہے اس نے خود کشی کر کے اپنے باطل ہونے کا آپ ہی اعلان کر دیا۔

(23)-عثمان بن نہیک کے بارے میں ابو مسلم خراسانی کے ماننے والوں کا کہناتھا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی روح اس میں حلول ہوگئی ہے، یہ تناسخ کے قائل تھے ان سب کذابوں کو منصور نے ہلاک کر دیا۔

(24)-ابو الطیب متنبی مشہور شاعر ہوا ہے ،اس نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا تو مسلمانوں نے قتل کر دیا۔

(25)- بہاء اللہ نے ایران میں دعویٰ کیا ۔بہائی فرقے کے لوگ آج بھی اسےاپنا مذہبی پیشوا مانتے ہیں۔

(26)-مغل بادشاہ اکبر نے بھی نبوت کا دعویٰ کیا اس کے درباری شاعر نے اس پر خوب طنز کیا ہے، کہ ہمارے شاہ نے اس سال نبوت کا دعویٰ کیا ہے اگلے سال خدا نے چاہا تو خدا ہونے کا دعویٰ کرے گا ۔اکبر بھی انجام بد کا شکار ہو کر مر گیا  ۔

(27)- مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوں کی شہ پر اپنی نبوت کی دوکان چمکائی اور ہدی، مسیح ، نبی، رسول بلکہ خدا ہونے کے دعوے کیے۔ مرزا قادیانی کی ذریت آج بھی ملت اسلامیہ کے لیے بہت بڑا خطرہ بنی ہوئی ہے ۔ تاریخ شاہد ہے کہ قادیانی کذاب بھی اپنے پیش رو کذابوں کی طرح بلکہ ان سے بھی زیادہ عبرت ناک اور وحشت ناک موت کا شکار ہوا۔

اللہ اکبر کذاب آتے رہے، اپنی موت آپ مرتے رہے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا آفتاب آج بھی صداقتوں کی شعاعیں تقسیم کر رہا ہے۔

 

Copyright @ 2017. Al Jamiatul Ashrafia

All rights reserved